ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے لیث نے بیان کیا ‘ ان سے بکیر نے ‘ ان سے سلیمان بن یسار نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں ایک مہم پر روانہ فرمایا اور یہ ہدایت فرمائی کہ اگر تمہیں فلاں اور فلاں مل جائیں تو انہیں آگ میں جلا دینا ‘ پھر جب ہم نے روانگی کا ارادہ کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں نے تمہیں حکم دیا تھا کہ فلاں اور فلاں کو جلا دینا۔ لیکن آگ ایک ایسی چیز ہے جس کی سزا صرف اللہ تعالیٰ ہی دے سکتا ہے۔ اس لیے اگر وہ تمہیں ملیں تو انہیں قتل کرنا (آگ میں نہ جلانا)۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْجِهَادِ وَالسِّيَرِ/حدیث: 3016]
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3016
حدیث حاشیہ: بعض صحابہؓ نے اس کو مطلقاً منع جانا ہے گو بطور قصاص کے ہو‘ بعضوں نے جائز رکھا ہے جیسے حضرت علیؓ اور حضرت خالد بن ولیدؓ سے منقول ہے۔ مہلب نے کہا یہ ممانعت تحریمی نہیں‘ بلکہ بطور تواضع کے ہے۔ ہمارے زمانہ میں تو آلات حرب توپ اور بندوق اور ڈائنامیٹ تار پیڈ و وغیرہ سب انگار ہی انگار ہیں اور چونکہ کافروں نے ان کا استعمال شروع کردیا ہے‘ لہٰذا مسلمانوں کو بھی ان کا استعمال درست ہے۔ (وحیدی) مترجم کے خیال ناقص میں ان جدید ہتھیاروں کا استعمال امر دیگر ہے اور مطلق آگ میں جلانا امر دیگر ہے جسے شرعاً و اخلاقاً پسند نہیں کیا جاسکتا۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3016
الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 3016
صحیح بخاری کی حدیث نمبر: 3016 کا باب: «بَابُ لاَ يُعَذَّبُ بِعَذَابِ اللَّهِ:» باب اور حدیث میں مناسبت: ترجمۃ الباب اور دونوں احادیث میں مناسبت لفظی موجود ہے کیوں کہ دونوں احادیث میں واضح الفاظ موجود ہیں کہ «لا تعذبوا بعذاب الله» کہ ”اللہ کے عذاب (آگ) سے کسی کو عذاب نہ دو۔“ لیکن دونوں احادیث میں کچھ اشکال وارد ہوئے ہیں جس کا جواب دینا انتہائی ضروری ہے کیو نکہ ترجمۃ الباب اور حدیث میں کوئی اختلاف نہیں مگر احادیث میں جو اعتراضات پیدا ہو رہے ہیں ان کی تفصیل انتہائی ضروری اور اہم ہے۔ اشکال نمبر 1: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے فرمایا تھاکہ انہیں آگ میں جلا دینا، بعد میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہی قول کے خلاف دوسرا حکم دیا کہ آگ میں جلانا اللہ کے سوا کسی اور کا کام نہیں۔ لہذا انہیں قتل کر دینا۔ اشکال نمبر 2: حدیث میں لفظ ہے «فلانا و فلانا» اور اس میں دو آدمیوں کے قتل کا حکم ہے جب کہ سنن ابی داؤد میں صرف ایک آدمی کے قتل کا حکم موجود ہے۔ اشکال نمبر 3: بعض اہل علم کا کہنا ہے کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے انہیں آگ میں نہیں جلوایا تھا لہذا کون سا گروہ دلائل کے قریب ہے؟ جن کا کہنا تھا کہ جلوایا تھا یا پھر وہ لوگ جو اس کی نفی کے قائل تھے؟ پہلے اشکال کا جواب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے مذکورہ بالا حدیث میں اجتہاد کا ذکر ہے، پہلے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جلوانے کا حکم دیا تھا مگر بعد میں اس امر سے صحابہ کو روک دیا، دراصل روکنے سے قبل جلوانے کا حکم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا اجتہاد تھا۔ اجتہادی امور سے مراد ایسے دینی مسائل ہیں جن میں کسی بھی آمدہ مسئلہ کا حل سابقہ وحی کی روشنی میں تلاش کیا جائے۔ یعنی اہل علم جن کا اوڑھنا اور بچھونا علوم شریعہ ہو وہ اس مقام پر فائز ہو سکتے ہیں، لیکن چونکہ تمام انسانوں میں سب سے زیادہ اللہ سے قریب اور بصیرت کے حق دار نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہی تھے تو اس تعلق کی بناء پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم زیادہ حق دار ہیں کہ آپ اجتہاد فرمائیں۔ اور جب کبھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اجتہاد میں کسی قسم کی اصلاح درکار ہوتی تو وحی جلی (یعنی قرآن کے ذریعے) یا پھر وحی (یعنی احادیث کے ذریعے) اس کی اصلاح اللہ تعالی کی طرف سے کر دی جاتی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اجتہادات کے دلائل کتب احادیث میں کثیر موجود ہیں۔ جنہیں چار اقسام میں اہل علم نے تقسیم فرمایا ہے: ① نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دنیاوی معاملات میں اجتہادات۔ ② لڑائی کے معاملات میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اجتہادات۔ ③ فیصلوں میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اجتہادات۔ ④ عبادات میں اجتہاد۔ یعنی یہ وہ معاملات ہیں جن میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اجتہاد فرمایا، مثلا ایک عورت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر دریافت کرنے لگی کہ میرے باپ پر حج فرض تھا اور وہ مر گیا، کیا میں اب اس کی طرف سے حج کر سکتی ہوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بھلا دیکھو! اگر اس کے ذمے قرض ہوتا تو تم اسے ادا کرتیں؟“ اس عورت نے کہا: ضرور ادا کرتی، تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”پھر اللہ تعالی اس بات کا زیادہ حقدار ہے۔“ یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا اجتہاد تھا جسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے لفظوں میں حکیمانہ طور پر ادا فرمایا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اجتہادات کے بارے میں درج بالا دلائل دیکھے جا سکتے ہیں: ① «تعبير النخل» کا مسئلہ۔ [صحيح مسلم، شرح النووي 10/190] ② شہد حرام کرنے کا مسئلہ۔ [سورة التحريم 1/22-3]، [صحيح البخاري، كتاب التفسير، رقم 4912] ③ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا عبوس فرمانا عبداللہ بن ام مکتوم کے تشریف لانے پر۔ [سورة عبس: 14][تفسير ابن كثير، ج 5، ص: 182] ④ یوم بدر کے دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا صحابہ رضی اللہ عنہم سے مشورہ طلب کرنا۔ [السيرة النبوية لابن هشام، ج 2، ص: 272] ⑤ سیدنا سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کی رائے پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سلح پہاڑی کے مشرق میں خندق کھودنے کا حکم دیا۔ دیکھے: [سورة الأحزاب: 9][السيرة النبوية لابن هشام، ج 3، ص: 235] ⑥ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان: ”اور میں بھی انسان ہوں اور بعض اوقات تم باہمی جھگڑا میرے پاس لاتے ہو تو ممکن ہے کہ تم میں سے بعض اپنے فریق مخالف کے مقابلہ میں اپنا مقصد پیش کرنے میں زیادہ چالاکی سے بولنے والا ہو . . . . .۔“[صحيح البخاري، كتاب الحيل، رقم الحديث: 6967] ⑦ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ام ولد کے الزام پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا قتل کا حکم دینا۔ [صحيح مسلم بشرح النووي، ج 17، ص: 118 رقم: 2771] ⑧ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ مدینہ تشریف لائے تو ان میں یہ خیال پیدا ہوا کہ لوگوں کو کس طرح نماز کیلئے جمع کیا جائے، لہذا کسی نے ناقوس کا مشورہ دیا تو کسی نے کہا کہ جس طرح یہود اپنی عبادت کیلئے جمع کرتے تھے اس طرح سب کو عبادت کے لیے جمع کیا جائے، لہذا سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے مشورہ دیا کہ ایک آدمی نماز کیلئے منادی کہے (اذان دے)، تو پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے بلال! اذان دیجئے۔“ پھر اس کے بعد اس کی تائید وحی کے ذریعے کر دی گئی۔ دیکھئے: [فتح الباري، ج 2، ص: 7783] ⑨ تحویل قبلہ کے لئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا بار بار آسمان کی طرف منہ اٹھانا تاکہ بیت المقدس سے بیت الحرام کو قبلہ پھر جائے، اس تمنائے اجتہاد کو بھی برقرار رکھا گیا وحی کے ذریعے۔ [السيرة النبوية لابن هشام، ج 2، ص: 155] ⑩ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بعض لوگوں کو نماز میں نہ پایا اور فرمایا: ”میں نے ارادہ کیا کہ میں ایک آدمی کو حکم دوں کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائے اور پھر میں ان کے پیچھے جاؤں جو نماز میں پیچھے رہ گئے (یعنی غیر حاضر رہے) پھر میں حکم دوں کہ لکڑیوں کا ایک ڈھیر لگا کر ان کے گھروں کو جلا دیا جائے۔“[صحيح مسلم، كتاب المساجد، ج 1، ص: 451] مذکورہ بالا حدیث میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا بے نمازیوں کو آگ میں جلانے کا ارادہ تھا، اور یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا واضح اجتہاد ہے۔ ان کے علاوہ بھی کئی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اجتہادات ہیں جن کی مثالیں کتب احادیث میں موجود ہیں۔ اہل علم سے اس مسئلے پر اختلاف ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اجتہاد میں غلطی کا صدور ممکن ہے کہ نہیں ہے، بعض اہل علم کا کہنا ہے کہ غلطی کا صدور ممکن ہے اور بعضے نے اس کی نفی فرمائی ہے۔ ابن السبکی رقمطراز ہیں: «و الصواب أن اجتهاده صلى الله عليه وسلم لا يخطي.»[جمع الجوامع لابن السبكي مع حاشية البناني، ص: 404] ”صحیح بات یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اجتہاد میں غلطی کا صدور ممکن نہیں ہے۔“ علامہ البیضاوی فرماتے ہیں: «”لا يخطئ اجتهاده صلى الله عليه وسلم“، و تابعه فى هذا الامامان: الأسنوي و البرخشي وقال الامام الفخرالدين الرازي: انه الحق.»[شرح الاسنوي، ج 2، ص: 196 - التقرير و التجهر، ج 3، ص: 300] یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اجتہاد میں خطاء ممکن نہیں ہے، اور امام الاسنوی اور البرخشی دونوں کا یہی قول ہے، امام فخرالدین الرازی فرماتے ہیں کہ (یہ موقف) حق ہے، اور جو لوگ خطاء کے صدور کو جائز کہتے ہیں انہوں نے بھی مختلف قسم کے دلائل سے استنباط کیا ہے، چنانچہ «المسودة» میں امام خطابی رحمہ اللہ کا قول موجود ہے، آپ نے خطاء کو جائز تو قرار دیا مگر ایک شرط کے ساتھ، فرماتے ہیں: «أكثر العلماء متفقون على انه قد يجوز على النبى صلى الله عليه وسلم الخطاء فيما لم ينزل عليه وحي، ولكنهم مجمعون على أن تقريره على الخطاء غير جائزة.»[المسودة لآل ابن تيمية، ص: 59] ”یعنی اکثر علماء اس پر متفق ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر خطاء جائز ہے جب تک وحی کا نزول نہ ہو، لیکن اس بات پر بھی اجماع ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا (اجتہاد کے خطاء پر) برقرار رہنا جائز نہیں ہے۔“ مزید المسودۃ میں لکھا ہے: «قال أصحابنا بجواز تطرق الخطاء فى اجتهاد النبى صلى الله عليه وسلم ولكن لا يقر عليه.» ان مختصر سے اقتباسات سے معلوم ہوتا ہے کہ اہل علم مندرجہ بالا مسئلے میں مختلف فیہ ہیں، اگر خلاصہ رائے اس مسئلہ پر لکھا جائے تو واضح ہوتا ہے کہ امور دنیا میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اجتہاد میں غلطی کا صدور ممکن ہے، جیسا کہ «تعبير النخل» والی حدیث اس مسئلہ پر دال ہے، اور جہاں تک تعلق ہے احکام شریعہ میں اجتہاد کا تو وہاں پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اجتہاد میں خطاء ممکن نہیں ہے الا یہ کہ کسی امر میں اللہ تعالی اگر مزید اصلاح کرنا چاہتا تو اصلاح فرما دیتا۔ کیوں کہ شرعی احکامات میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اجتہاد دلیل کی بنیاد پر ہوا کرتے تھے۔ امام الماوردی فرماتے ہیں: «أي الأنبياء لا يجتهدون إلا عن دليل.»[أدب القاضي للماوردي، ج 1، ص: 54] ”یعنی انبیاء علیہم السلام کا اجتہاد دلیل پر قائم ہوتا ہے۔“ لہذا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اجتہاد جو شرعی احکامات میں ہیں ان میں خطاء کا صدور نہیں ہوتا الا یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کسی دنیاوی مسئلہ میں مشورہ دیں اس میں ممکن ہے، جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا: «وما كان من أمر دنياكم فأنتم أعلم به.» تنبیہ: مذکورہ بالا اختلافات سے فائدہ اٹھا کر عصر حاضر میں کئی نامور شخصیتوں نے فائدہ اٹھایا اور ان اختلافات کی وجہ سے یہ اصول مرتب کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت جو اصول شریعہ میں داخل ہیں وہ صرف چھبیس (26) ہیں . . .۔ محترم قارئین! اس مسئلے کو دامن گیر فرما لیں قرآن مجید نے مطلق طور پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کو ”اسوۃ حسنہ“ قرار دیا ہے اور اللہ تعالی نے پورے قرآن مجید میں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث میں کہیں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کی کوئی تخصیص موجود نہیں ہے۔ بس! اتنا سمجھ لیں جس حدیث میں خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی حدیث کو رائے فرمایا بس وہی رائے ہو گی، بصورت دیگر کسی امتی کیلئے یہ حلال نہیں ہے کہ آپ کی زندگی کی تخصیص کرتا پھرے، اللہ تعالی نے دو ٹوک لفظوں میں ایسی گمراہیوں کی جڑ کاٹ دی۔ اللہ تعالی فرماتا ہے: « ﴿وَمَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوا وَاتَّقُوا اللّٰهَ إِنَّ اللّٰهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ﴾ »[الحشر: 7] ”جو کچھ رسول تمہیں دیں لے لو اور جس چیز سے روکیں باز آجاؤ۔“ یہ ایک عمومی حکم اور قاعدہ ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہر بات دین اور شریعت ہو گی اور ہر ممانعت بھی شریعت کا حکم رکھے گی، اب تخصیص کی کسی کو اجازت نہیں الا یہ کہ کسی حدیث میں خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تخصیص فرمائی ہو۔ لہذا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جو جلوانے کا حکم دیا تھا یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اجتہاد تھا، اس اجتہاد کو منسوخ اللہ تعالی نے کر دیا۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ رقمطراز ہیں: ”یہ حکم آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وحی کے ذریعے دیا ہو گا“، یا یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اجتہاد ہو گا، بہر حال دونوں صورتوں میں پہلے حکم کے لئے ناسخ ہے۔ [فتح الباري، ج 6، ص: 186] دوسرے اشکال کا جواب: حدیث میں فلانا فلانا کا ذکر کہ دو آدمی تھے لیکن ابوداؤد میں ایک آدمی کے قتل کا حکم وارد ہے۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ ان روایات میں تطبیق دیتے ہوئے فرماتے ہیں کہ: ”سنن ابی داؤد کی روایت میں «فلانًا» سے ہبار بن اسود مراد ہے اور صرف ہبار کا ذکر اس لئے کیا کہ اصل حملہ آور یہی تھا، نافع بن عبد قیس تو تابع تھا۔“[فتح الباري، ج 6، ص 185] تیسرے اشکال کا جواب: کیا سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے اس گروہ کو آگ میں نہیں جلوایا تھا؟ کون سی بات درست ہے؟ چنانچہ اسماعیل نے ابن ابی عمر عن سفیان اور محمد بن عباد عن سفیان دو طرف سے ایک روایت نقل کی ہے جس میں سفیان بن عینیہ فرماتے ہیں کہ کسی نے عمرو بن دینار، ایوب اور عمار الذہبی کو ایک مجلس میں ان لوگوں کا تذکرہ کرتے ہوئے دیکھا جنہیں سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے نذر آتش کیا تھا، ایوب نے باب میں بھی اس روایت کو بیان کیا تو عمار نے کہا: سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے ان لوگوں کو نذر آتش نہیں کیا تھا بلکہ گڑھے کھدوا کر ان پر آگ کا دھواں چھوڑا تھا، اس پر عمرو بن دینار نے یہ اشعار کہے: رمی بی المنا یا حیث شاءت إذا لم ترم بی فی حضرتین إذا ما أججوا حطبا نارا ہناک الموت نقدا غیر دین [فتح الباري، ج 6، ص: 186] یعنی موت مجھے جہاں چاہے پھینک دے، تاہم دو گھڑوں میں نہ پھینکے، کیوں کہ جب لکڑیاں جلا کر آگ روشن کر دی جائے تو وہاں موت ادھار نہیں نقد ملتی ہے۔ مذکورہ بالا شاعر کے اشعار سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ لکڑیاں جلا کر آگ دہکائی گئی جس کی پاداش میں وہ جل گئے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب الحدود میں جو روایت نقل فرمائی ہے اس میں واضح طور پر آگ سے جلانے کی تصریح موجود ہے چنانچہ کتاب الحدود میں یہ الفاظ منقول ہیں: «أتى على بزنادقة فأحرقهم»[صحيح البخاري، رقم: 6922] اور مصنف ابن ابی شیبہ میں یہ الفاظ موجود ہیں: «كان أناس يعبدون الأصنام فى السر و يأخذون العطاء، فأتى بهم علي رضي الله عنه فوضعهم فى السجن، واستشار الناس فقالوا: اقتلهم، فقال: لا، ولكن أصنع بهم كما صنعوا بأبينا إبراهيم عليه السلام فحرقهم بالنار.»[مصنف ابن ابي شيبه، كتاب السير، ج 17/589، رقم الحديث: 33821] ”کچھ لوگ خفیہ طور پر بتوں کی عبادت کرتے تھے اور اس کا ہدیہ بھی وصول کرتے تھے، سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے پاس انہیں لایا گیا تو آپ رضی اللہ عنہ نے انہیں قید کیا، چنانچہ آپ نے لوگوں سے مشورہ کیا کہ (انہیں کس طرح کی سزا دی جائے؟) لوگوں نے کہا کہ انہیں قتل کر دینا چاہئے، آپ نے فرمایا: نہیں بلکہ میں وہ عمل کروں گا جو انہوں نے ہمارے باپ ابراہیم علیہ السلام کے ساتھ کیا تھا۔ چنانچہ آپ نے سب کو نذر آتش کر دیا۔“ لہذا خلاصہ کلام یہ ہے کہ عبداللہ بن سبا کے پیروکاروں کو آگ میں جلا دیا گیا تھا، دلائل اسی مسئلے پر دلالت کرتے ہیں۔
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3016
حدیث حاشیہ: 1۔ فلاں،فلاں سے مراد ہبار بن اسود نافع بن عبدقیس ہے۔ ہبار بن اسود نے حضرت زینب ؓ بنت رسول اللہ ﷺ کے اونٹ کونیزا ماراتھا جبکہ وہ ہجرت کرکے مدینہ طیبہ آرہی تھی۔ وہ اونٹ سے گرپڑیں اور اسی صدمے کی وجہ سے بیمار ہوگئیں۔ 2۔ رسول اللہ ﷺ نے حمزہ بن عمرو اسلمی ؓ کی سربراہی میں ایک دستہ تشکیل دیا تاکہ انھیں کیفرکردار تک پہنچایا جائے لیکن وہ تلاش کے باوجود انھیں نہ پاسکا،بالآخر ہبار مسلمان ہوگیا۔ اور حضرت معاویہ ؓ کے دور حکومت تک زندہ رہا۔ (فتح الباري: 181/6) 3۔ قطعی حکم تو یہی ہے کہ آگ سے کسی کو عذاب نہ دیاجائے لیکن اگرلڑائی میں کفار پر غلبہ حاصل کرنے کا یہی طریقہ باقی رہ جائے تو پھر آگ لگائی جاسکتی ہے۔ واللہ أعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3016