الحمدللہ ! احادیث کتب الستہ آف لائن ایپ ریلیز کر دی گئی ہے۔    

1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:



صحيح البخاري
كِتَاب الْجِهَادِ وَالسِّيَرِ
کتاب: جہاد کا بیان
104. بَابُ الْخُرُوجِ بَعْدَ الظُّهْرِ:
104. باب: ظہر کی نماز کے بعد سفر کرنا۔
حدیث نمبر: 2951
حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ أَبِي قِلَابَةَ، عَنْ أَنَسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" صَلَّى بِالْمَدِينَةِ الظُّهْرَ أَرْبَعًا، وَالْعَصْرَ بِذِي الْحُلَيْفَةِ رَكْعَتَيْنِ، وَسَمِعْتُهُمْ يَصْرُخُونَ بِهِمَا جَمِيعًا".
ہم سے سلیمان بن حرب نے بیان کیا، کہا ہم سے حماد بن زید نے بیان کیا، ان سے ایوب سختیانی نے، ان سے ابوقلابہ نے اور ان سے انس رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ میں ظہر چار رکعت پڑھی پھر عصر کی نماز ذوالحلیفہ میں دو رکعت پڑھی اور میں نے سنا کہ صحابہ حج اور عمرہ دونوں کا لبیک ایک ساتھ پکار رہے تھے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْجِهَادِ وَالسِّيَرِ/حدیث: 2951]
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة

   صحيح البخاريصلى بالمدينة الظهر أربعا والعصر بذي الحليفة ركعتين وسمعتهم يصرخون بهما جميعا
   صحيح البخاريأقمنا مع النبي عشرا نقصر الصلاة
   صحيح البخاريصليت الظهر مع النبي بالمدينة أربعا وبذي الحليفة ركعتين
   صحيح البخاريالمدينة أربعا وبذي الحليفة ركعتين ثم بات حتى أصبح بذي الحليفة فلما ركب راحلته واستوت به أهل
   صحيح البخاريخرجنا مع النبي من المدينة إلى مكة فكان يصلي ركعتين ركعتين حتى رجعنا إلى المدينة قلت أقمتم بمكة شيئا قال أقمنا بها عشرا
   صحيح البخاريصلى الظهر بالمدينة أربعا وصلى العصر بذي الحليفة ركعتين
   صحيح مسلمإذا خرج مسيرة ثلاثة فراسخ صلى ركعتين
   صحيح مسلمصلى الظهر بالمدينة أربعا وصلى العصر بذي الحليفة ركعتين
   صحيح مسلمخرجنا مع رسول الله من المدينة إلى مكة فصلى ركعتين ركعتين حتى رجع قلت كم أقام بمكة قال عشرا
   صحيح مسلمصليت مع رسول الله الظهر بالمدينة أربعا وصليت معه العصر بذي الحليفة ركعتين
   جامع الترمذيخرجنا مع النبي من المدينة إلى مكة فصلى ركعتين
   جامع الترمذيصلينا مع النبي الظهر بالمدينة أربعا وبذي الحليفة العصر ركعتين
   سنن أبي داودإذا خرج مسيرة ثلاثة فراسخ يصلي ركعتين
   سنن أبي داودصليت مع رسول الله الظهر بالمدينة أربعا والعصر بذي الحليفة ركعتين
   سنن أبي داودخرجنا مع رسول الله من المدينة إلى مكة فكان يصلي ركعتين حتى رجعنا إلى المدينة فقلنا هل أقمتم بها شيئا قال أقمنا بها عشرا
   سنن النسائى الصغرىخرجت مع رسول الله من المدينة إلى مكة فلم يزل يقصر حتى رجع فأقام بها عشرا
   سنن النسائى الصغرىصليت مع رسول الله بمنى ومع أبي بكر وعمر ركعتين ومع عثمان ركعتين صدرا من إمارته
   سنن النسائى الصغرىخرجنا مع رسول الله من المدينة إلى مكة فكان يصلي بنا ركعتين حتى رجعنا
   سنن النسائى الصغرىصلى الظهر بالمدينة أربعا وصلى العصر بذي الحليفة ركعتين
   سنن النسائى الصغرىصليت مع النبي الظهر بالمدينة أربعا وبذي الحليفة العصر ركعتين
   سنن ابن ماجهخرجنا مع رسول الله من المدينة إلى مكة فصلى ركعتين ركعتين حتى رجعنا قلت كم أقام بمكة قال عشرا
   بلوغ المرامخرجنا مع رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم من المدينة إلى مكة،‏‏‏‏ فكان يصلي ركعتين ركعتين حتى رجعنا إلى المدينة
   المعجم الصغير للطبراني يلبي بهما جميعا ، لبيك بعمرة وحجة
   مسندالحميديصليت مع النبي صلى الله عليه وسلم الظهر بالمدينة أربعا، وصليت معه العصر بذي الحليفة ركعتين
   مسندالحميديلبيك بحجة وعمرة معا

صحیح بخاری کی حدیث نمبر 2951 کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2951  
حدیث حاشیہ:
آنحضرت ﷺ کا یہ سفر حج کے لئے تھا مگر سفر جہاد کو بھی اس پر قیاس کیا جاسکتا ہے کہ بہتر ہے ظہر کی نماز پڑھ کر اطمینان سے یہ سفر شروع کیا جائے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2951   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2951  
حدیث حاشیہ:
ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایاا:
اللہ!میری اُمت کے لیے صبح سویرے کام کرنے میں برکت عطا فرما۔
(سنن أبي داود، الجھاد، حدیث: 2606)
امام بخاری ؒنے اس عنوان اور پیش کردہ حدیث سے ثابت کیا ہے کہ یہ حدیث صبح سویرے کےعلاوہ سفر کرنے میں رکاوٹ نہیں ہے۔
صبح سفر کرنے کی تخصیص اس لیے ہے کہ وہ نشاط اور خوشی کا وقت ہوتا ہے،اس بنا پر اس وقت کام کرنے میں برکت نازل ہوتی ہے۔
(فتح الباري: 138/8)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2951   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 470  
´حضر میں ظہر کی نماز کی تعداد کا بیان۔`
ابن منکدر اور ابراہیم بن میسرہ سے روایت ہے کہ ان دونوں نے انس رضی اللہ عنہ کو کہتے سنا کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مدینہ میں ظہر کی نماز چار رکعت پڑھی، اور ذوالحلیفہ میں عصر کی نماز دو رکعت پڑھی ۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب الصلاة/حدیث: 470]
470 ۔ اردو حاشیہ: مدینہ منورہ میں تو مکمل نماز پڑھی گئی، پھر سفر شروع ہو گیا، ذوالحلیفہ چونکہ شہر سے باہر ہے، سفر لمبا تھا، لہٰذا ذوالحلیفہ میں عصر کی نماز کا وقت آجانے پر قصر، یعنی دو رکعت پڑھی گئی۔ یاد رہے یہ حج کا سفر تھا۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 470   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 478  
´سفر میں عصر کی نماز کا بیان۔`
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ میں ظہر کی نماز چار رکعت، اور ذوالحلیفہ میں نماز عصر دو رکعت پڑھی۔ [سنن نسائي/كتاب الصلاة/حدیث: 478]
478 ۔ اردو حاشیہ: وضاحت کے لیے دیکھیے سنن نسائی حدیث: 470 اور اس کا فائدہ۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 478   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1439  
´باب:`
انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مدینہ سے مکہ جانے کے لیے نکلا تو آپ برابر قصر کرتے رہے یہاں تک کہ آپ واپس لوٹ آئے، آپ نے وہاں دس دن تک قیام کیا تھا۔ [سنن نسائي/كتاب تقصير الصلاة فى السفر/حدیث: 1439]
1439۔ اردو حاشیہ:
➊ یہ حجۃ الوداع کی بات ہے اور یہ دس دن صرف مکے میں نہیں ٹھہرے تھے بلکہ مقامات حج منیٰ، مزدلفہ اور عرفات بھی اسی میں شامل ہیں۔ چار ذوالحجہ کو آپ مکہ مکرمہ پہنچے تھے۔ حج و عمرہ کے تمام ارکان ادا کرنے کے بعد چودہ ذوالحجہ کو آپ واپس مدینہ منورہ روانہ ہو گئے۔ کسی بھی جگہ آپ کا قیام چار دن سے زائد نہ تھا۔ اور چوتھا دن بھی دخول یا خروج کو شامل کر کے ہے، اسی لیے راجح بات یہ ہے کہ اگر قیام کی نیت تین (یا چار) دن کی ہے تو پھر وہ مسافر قصر نماز پڑھے، ورنہ شروع دن ہی سے پوری نماز پڑھنے، وہ اپنے آپ کو مسافر نہ سمجھے۔
➋ کم از کم وہ کتنی مسافت ہے جس کا ارادہ ہو تو انسان اس دوران میں نماز قصر کر سکتا ہے؟ اس بارے میں علمائے کرام کا اختلاف ہے۔ مختلف آراء ہیں۔ ایک رائے یہ ہے کہ اگر کسی کا اڑتالیس میل سفر کا قصد ہو تو وہ اپنے شہر یا بستی کی حدود سے نکلنے کے بعد قصر کر سکتا ہے۔ بطور دلیل ابن عباس رضی اللہ عنہا کی حدیث پیش کی جاتی ہے۔ آپ علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا: اے اہل مکہ! چار برید (اڑتالیس میل) سے کم سفر میں نماز قصر نہ کرو، جیسے مکہ سے عسفان تک۔ (سنن الدارقطني مع التعلیق المغني: 387/2، و السنن الکبریٰ للبیھقی: 137/3، 138) لیکن یہ روایت ضعیف اور ناقابل حجت ہے۔ اس کی سند میں ایک تو اسماعیل بن عیاش ہیں، غیر شامیوں سے ان کی روایت ضعیف ہوتی ہے۔ دوسرے عبدالوہاب بن مجاہد ہیں۔ یہ بھی ضعیف ہیں۔ تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو: «إرواء الغلیل، حدیث: 565» لہٰذا قصر کے لیے کم از کم اڑتالیس میل کی شرط درست نہیں، نیز کسی اور مستند دلیل سے بھی اس کی تائید نہیں ہوتی۔ اس کے متعلق صحیح اور صریح ترین جو حدیث منقول ہے وہ حضرت انس بن مالک کی حدیث ہے۔ یحییٰ بن یزید ہنائی کہتے ہیں: میں نے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے نماز قصر کرنے کے بارے میں سوال کیا تو انہوں نے فرمایا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب تین میل یا تین فرسخ کی مسافت پر جاتے تو دو رکعتیں پڑھا کرتے تھے۔ یہ شک شعبہ کو ہوا ہے۔ تین میل کی مسافت کو فرسخ (فارسی میں فرسنگ) کہتے ہیں۔ اس طرح قصر کے لیے کم از کم مسافت نو میل ہوئی۔ تین میل کی بات چونکہ مشکوک ہے، اس لیے حجت نہیں اور تین فرسخ کی مسافت احتیاط و یقین پر مبنی ہے، اس لیے سفر کی مسافت (اپنے شہر کی حد چھوڑ کر) کم از کم نو میل، یعنی تقریباً 22 کلومیٹر ہو گی کیونکہ عربی میل کی مسافت انگریزی میل کی بہ نسبت زیادہ ہے۔ اور یہی موقف راحج ہے۔ واللہ أعلم۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1439   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1448  
´منیٰ میں نماز قصر کرنے کا بیان۔`
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اور ابوبکر اور عمر رضی اللہ عنہم کے ساتھ منیٰ میں دو رکعت پڑھی، اور عثمان رضی اللہ عنہ کے ساتھ بھی ان کی خلافت کے شروع میں دو ہی رکعت پڑھی۔ [سنن نسائي/كتاب تقصير الصلاة فى السفر/حدیث: 1448]
1448۔ اردو حاشیہ: ابتدائی زمانے میں یعنی بعد میں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے منیٰ میں پوری نماز شروع کر دی تھی، کیوں؟ اس کی مختلف وجوہات بیان کی جاتی ہیں: ایک یہ کہ پوری پڑھنا بھی جائز ہے۔ لوگوں کو غلط فہمی ہونے لگی تھی کہ نماز ہر حال میں دو رکعت ہی ہے کیونکہ خلیفہ جب بھی آتا ہے، دو رکعت پڑھاتا ہے، ہمارے ائمہ خواہ مخواہ چار پڑھاتے ہیں۔ یہ غلط فہمی دور کرنے کے لیے نماز مکمل پڑھائی۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا خیال تھا کہ قصر صرف سفر کی حالت میں ہوتی ہے۔ جب آدمی کسی جگہ ٹھہر جائے اور اسے سفر کی مشکلات درپیش نہ ہوں تو قصر نہ کرے، خواہ تھوڑے دن ہی ٹھہرے۔ چونکہ منیٰ میں تتین دن (یا چار دن) آرام و سکون سے رہائش ہوتی ہے، لہٰذا پوری نماز پڑھنی چاہیے۔ آپ نے مکہ مکرمہ میں شادی کرلی تھی۔ ان کے علاوہ اور بھی وجوہات بیان کی گئی ہیں لیکن حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے ان تمام کارد کرتے ہوئے لکھا ہے یہ وجوہات درست نہیں۔ بنابریں سنت یہی ہے کہ سفر میں دو رکعت نماز ادا کی جائے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل سے ثابت ہے۔ و خیر الھدي ھدي محمد صلی اللہ علیہ وسلم۔ نیز حضرت ابوبکر اور حضرت عمر رضی اللہ عنہا کا بھی اسی پر عمل تھا۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا پوری نماز پڑھنا ان کا ذاتی اجتہاد تھا، وہ شاید اس لیے پڑھتے ہوں کہ سفر میں پوری نماز پڑھنا بھی جائز ہے۔ واللہ أعلم۔ مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: (ذخیرۃ العقبی شرح سنن النسائي: 358-354/16)
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1448   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1453  
´کتنے دن کی اقامت تک نماز قصر کی جا سکتی ہے؟`
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مدینہ سے مکہ جانے کے لیے نکلے، تو آپ ہمیں دو رکعت پڑھاتے رہے یہاں تک کہ ہم واپس لوٹ آئے، یحییٰ بن ابی اسحاق کہتے ہیں: میں نے انس رضی اللہ عنہ سے پوچھا: کیا آپ نے مکہ میں قیام کیا تھا؟ انہوں نے کہا: ہاں، ہم نے وہاں دس دن قیام کیا تھا۔ [سنن نسائي/كتاب تقصير الصلاة فى السفر/حدیث: 1453]
1453۔ اردو حاشیہ: یہ حجۃ الوداع کی بات ہے۔ لیکن آپ دس دن صرف مکہ میں نہیں بلکہ منی، مزدلفہ، عرفات میں مجموعی طور پر دس دن ٹھہرے تھے۔ مکہ میں آپ کی مسلسل رہائش پورے چار دن رہی ہے۔ چار ذوالحجہ کی صبح کو مکہ میں داخل ہوئے اور آٹھ کی صبح کو منی روانہ ہو گئے۔ اسی بنا پر امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کا یہ خیال ہے کہ اکیس نمازیں ایک جگہ ٹھہر کر پڑھنی ہوں تو قصر کرے، زیادہ ٹھہرنا ہو تو شروع سے مکمل پڑھے۔ امام شافعی رحمہ اللہ کا خیال ہے کہ آنے جانے کا دن نکال کر تین دن ٹھہرنا ہو تو قصر کرے اور اگر اس سے زائد ٹھہرنا ہو تو شروع دن سے پوری پڑھے۔ یہ دونوں اقوال ملتے جلتے ہیں اور ان کا نتیجہ ایک ہی ہے۔ اور ی ہی صحیح اور راجح موقف ہے۔ واللہ أعلم۔ احناف پندرہ دن کے قیام میں قصر کے قائل ہیں اور زائد کی صورت میں پوری نماز پڑھنے کے قائل ہیں۔ جس کی تفصیل آگے آرہی ہے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1453   

  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1201  
´مسافر قصر کب کرے؟`
یحییٰ بن یزید ہنائی کہتے ہیں کہ میں نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے نماز قصر کرنے کے متعلق پوچھا تو آپ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب تین میل یا تین فرسخ (یہ شک شعبہ کو ہوا ہے) کی مسافت پر نکلتے تو دو رکعت پڑھتے ۱؎۔ [سنن ابي داود/كتاب صلاة السفر /حدیث: 1201]
1201۔ اردو حاشیہ:
تین میل کی مسافت کو فرسخ (فارسی میں فرسنگ) کہتے ہیں۔ اس طرح قصر کے لئے کم از کم مسافت نو میل ہوئی۔ تین میل کی بات چونکہ مشکوک ہے، اس لئے حجت نہیں اور تین فرسخ کی مسافت احتیاط و یقین پر مبنی ہے اس لئے سفر کی مسافت (اپنے شہر کی حد چھوڑ کر) کم از کم نو میل یعنی 22، 23 کلو میٹر ہو گی۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1201   

  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1202  
´مسافر قصر کب کرے؟`
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مدینے میں ظہر چار رکعت پڑھی اور ذو الحلیفہ میں عصر دو رکعت ۱؎۔ [سنن ابي داود/كتاب صلاة السفر /حدیث: 1202]
1202۔ اردو حاشیہ:
یعنی سفر شروع ہو جانے کے بعد شہر سے نکل کر نماز قصر پڑھی جائے گی۔ ذوالحلیفہ موجودہ نام (آبار علی) مدینے سے مکہ کی جانب پہلا پڑاؤ ہے اور فاصلہ چھ میل ہے، خیال رہے کہ یہ حدیث نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سفر حج کی بابت ہے جب کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ مکرمہ سے نکلے تھے اور کوئی بعید نہیں کہ پچھلی حدیث میں اسی واقعہ کو دوسرے اسلوب میں بیان کیا گیا ہو۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1202   

  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1233  
´مسافر پوری نماز کب پڑھے؟`
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مدینہ سے مکہ کے لیے نکلے، آپ (اس سفر میں) دو رکعتیں پڑھتے رہے، یہاں تک کہ ہم مدینہ واپس آ گئے تو ہم لوگوں نے پوچھا: کیا آپ لوگ مکہ میں کچھ ٹھہرے؟ انہوں نے جواب دیا: مکہ میں ہمارا قیام دس دن رہا ۱؎۔ [سنن ابي داود/كتاب صلاة السفر /حدیث: 1233]
1233۔ اردو حاشیہ:
یہ حجۃ الوداع کا قصہ ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ رضوان اللہ عنہم اجمعین کی اقامت مکہ اور اس کے مضافات میں عمل حج کی تکمیل کے سلسلے میں، کل دس دن اور صرف مکہ ہی میں چار دن ہے۔ اس سے امام شافعی رحمہ اللہ کا استدلال و فتویٰ یہ ہے کہ جو شخص کہیں چار دن کی اقامت کا عزم رکھتا ہو، تو وہ قصر کرے اور اگر اس سے زیادہ کا ارادہ ہو تو مکمل نماز پڑھے۔ اور تین دن کے قائلین کی بنیاد بھی یہی حدیث ہے، وہ اس میں سے خروج اور دخول کا دن نکال دیتے ہیں، جس کے بعد اقامت کے دن تین ہی ہوتے ہیں۔ بہرحال تین دن اور چار دن دونوں ہی مسلک صحیح ہیں۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1233   

  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 345  
´مسافر اور مریض کی نماز کا بیان`
سیدنا انس رضی اللہ عنہ ہی سے مروی ہے کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نکل کر مدینہ سے مکہ تک کا سفر کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ واپسی تک دو، دو رکعتیں ہی ادا فرماتے رہے۔ (بخاری و مسلم) البتہ متن حدیث کے الفاظ بخاری کے ہیں۔ «بلوغ المرام/حدیث: 345»
تخریج:
«أخرجه البخاري، تقصير الصلاة، باب ما جاء في التقصير، حديث:1081، ومسلم، صلاة المسافرين، باب صلاة المسافرين، حديث:693.»
تشریح:
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جب آدمی اپنے گھر سے سفر کی نیت سے نکل پڑے تو وہ مسافر کی تعریف میں آجاتا ہے۔
حدود شہر‘ یعنی موجودہ اصطلاح میں میونسپلٹی کی حدود سے نکلنے کے بعد‘ خواہ ایک میل کا سفر طے کیا ہو‘ نماز قصر ادا کرنا شروع کر سکتا ہے اور واپسی تک دوگانہ نماز پڑھ سکتا ہے۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 345   

  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1077  
´جب مسافر کسی مقام پر ٹھہرے تو کتنے دنوں تک قصر کر سکتا ہے؟`
انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مدینہ سے مکہ کے لیے نکلے اور واپسی تک دو دو رکعت نماز پڑھتے رہے۔ یحییٰ کہتے ہیں: میں نے انس رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ آپ کتنے دنوں تک مکہ میں رہے؟ کہا: دس دن تک۔ [سنن ابن ماجه/كتاب إقامة الصلاة والسنة/حدیث: 1077]
اردو حاشہ:
فائده:
تردد کی صورت میں مدت کا تعین نہیں جتنا عرصہ بھی ٹھہریں نمازقصر اداکرسکتے ہیں۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1077   

  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 546  
´سفر میں قصر نماز پڑھنے کا بیان۔`
انس بن مالک رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ہم نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مدینہ میں چار رکعتیں پڑھیں ۱؎ اور ذی الحلیفہ ۲؎ میں دو رکعتیں پڑھیں۔ [سنن ترمذي/أبواب السفر/حدیث: 546]
اردو حاشہ:
1؎:
جب حج کے لیے مدینہ سے نکلے تو مسجد نبوی میں چار پڑھی،
جب مدینہ سے نکل کر ذوالحلیفہ میقات پر پہنچے تو وہاں دو قصر کر کے پڑھی۔

2؎:
ذوالحلیفہ:
مدینہ سے جنوب میں مکہ کے راستہ میں لگ بھگ دس کیلو میٹر پر واقع ہے،
یہ اہل مدینہ کی میقات ہے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 546   

  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 548  
´کتنے دنوں تک قصر کرنا درست ہے؟`
انس بن مالک رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ہم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مدینہ سے مکہ کے لیے نکلے۔ آپ نے دو رکعتیں پڑھیں، یحییٰ بن ابی اسحاق کہتے ہیں کہ میں نے انس رضی الله عنہ سے پوچھا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ میں کتنے دن رہے، انہوں نے کہا دس دن ۱؎۔ [سنن ترمذي/أبواب السفر/حدیث: 548]
اردو حاشہ:
1؎:
یہ حجۃ الوداع کے موقع کی بات ہے،
آپ اس موقع سے 4؍ ذی الحجہ کی صبح مکہ میں داخل ہوئے، 8؍ کو منی کو نکل گئے،
پھر 14؍ کوطواف وداع کے بعد مدینہ روانہ ہوئے یہ کل دس دن ہوئے،
مگر ان دس دنوں میں مستقل طور پر آپ صرف 4 دن مکہ میں رہے،
باقی دنوں میں ادھر ادھر منتقل ہی ہوتے رہے،
اس لیے امام شافعی وغیرہ نے یہ استدلال کیا ہے جب 4؍ دنوں کی اقامت کی نیت کر لے تب پوری نماز پڑھے۔

2؎:
حجۃ الوداع،
فتح مکہ،
یا جنگ یرموک میں یہی ہوا تھا،
اس لیے آپ نے 17، 18 دنوں یا دس دنوں تک قصر کیا،
اس لیے امام شافعی وغیرہ کا خیال ہی راجح ہے کہ 4 دنوں سے زیادہ اقامت کی اگر نیت بن جائے تو قصر نہ کرے،
مہاجرین کو عمرہ میں تین دنوں سے زیادہ نہ ٹھہرنے کے حکم میں بھی یہی حکمت پوشیدہ تھی کہ وہ چوتھے دن مقیم ہو جاتے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 548   

  الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:1225  
1225- سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں۔ میں نے مدینہ منورہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتداء میں ظہر کی نماز میں 4 رکعات ادا کیں اور میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتداء میں ذولحلیفہ میں عصر کی نماز میں دو رکعات ادا کیں۔ [مسند الحمیدی/حدیث نمبر:1225]
فائدہ:
سفر شروع کرنے سے ہی نماز قصر ہو جاتی ہے، خواہ آدمی شہر سے یا محلے سے باہر ہی نکلا ہو، کیونکہ ذوالحلیفہ مدینہ سے 6 میل دور ہے۔ (اكـمـال الـمعلم: 3/ 9) رہا یہ مسئلہ کہ قصر نماز کتنی مسافت سفر کرنے سے شروع ہوتی ہے، اس میں راجح بات یہ ہے کہ عرف جس کو سفر کہتا ہے، وہ سفر ہے، «‏‏‏‏ما يطلق عليه اسم الشفر فهو السّفر» جس پر سفر کے نام کا اطلاق کیا جا تا ہو، پس وہ سفر ہے۔
   مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 1225   

  الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:1249  
1249- سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو سنا، میں اس وقت سیدنا ابوطلحہ رضی اللہ عنہ کے پیچھے سوار تھا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم یہ پڑھ رہے تھے۔ میں حج اور عمرہ ایک ساتھ کرنے کے لیے حاضر ہوں۔ [مسند الحمیدی/حدیث نمبر:1249]
فائدہ:
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ حج قرآن جائز ہے، اور کسی کے پیچھے سوار ہونا بھی جائز ہے۔
   مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 1248   

  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 1583  
یحییٰ بن یزید ہنائی بیان کرتے ہیں کہ میں نے انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے نماز قصر کرنے کے بارے میں پوچھا؟ تو انہوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ جب تین میل یا تین فرسخ کی مسافت پر نکلتے (اس کے بارے میں شعبہ کو شک ہے) تو دو رکعت نماز پڑھتے۔ [صحيح مسلم، حديث نمبر:1583]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:

حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے چار قسم کے سفر فرمائے ہیں۔

عام طور پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سفر جہاد کی خاطرکیا ہے۔

سفر ہجرت۔

سفر عمرہ۔

سفرحج اور یہ چاروں سفر طویل تھے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی سفر بھی ایسا نہیں ہے جو صرف نو یا دس میل تک کا ہو۔

اما مالک رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک مسافت قصرایک دن کی مسافت ہے جو عام طور پر چوبیس میل بنتے ہیں۔
امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ اور امام احمد رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک مسافت قصر دو دن کی مسافت ہے۔
جیسے امام نووی اور امام ابن قدامہ نےچار برد (یعنی اڑتالیس میل)
قرار دیا ہے کیونکہ ایک برید میں چار فرسخ ہوتے ہیں اور ایک فرسخ میں تین میل ہوتے ہیں۔
امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک مسافت قصر تین دن کی مسافت ہے۔
لیکن احناف عام طور پر میلوں میں اس کو اڑتالیس میل قرار دیتے ہیں۔
اس طرح ان تینوں اماموں کے نزدیک اگر اڑتالیس میل تک سفر کرنا ہو تو پھر انسان قصر کر سکتا ہے لیکن یہ تحدید اور تعین کسی صحیح اور مرفوع حدیث سے ثابت نہیں ہے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے مطلق سفر میں بلا تحدید و تعین قصر ثابت ہے،
اس لیے عرف عام میں جتنی مسافت کو سفر سمجھا جاتا ہے اس میں انسان نماز قصر کر سکتا ہے مسافت کے تعین کی ضرورت نہیں ہے،
انسان جب اپنے آپ کو مسافر سمجھے اور اس کا ضمیر مطمئن ہو کہ واقعی مسافر ہوں تو وہ قصر نماز پڑھے۔

انسان جب گھر سے سفر پر روانہ ہو جائے اور آبادی سے نکل جائے تو نماز کا وقت ہو جانے پر وہ قصر نماز پڑھے گا۔
حجۃ الوداع کے موقع پر جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا آخری سفر ہے۔
آپﷺ نے ظہر کی نماز مدینہ میں پوری پڑھی اورعصر کی نماز ذوالحلیفہ میں قصر کی صورت میں ادا کی اورذوالحلیفہ مدینہ منورہ سے تقریباً چھ میل کے فاصلہ پر ہے۔
بعض حضرات نے حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے جواب سے قصر کی مسافت تین فرسخ یعنی نو میل قرار دی ہے۔
حالانکہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی سفر بھی اتنی کم مسافت کا ثابت نہیں ہے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 1583   

  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 1586  
حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم رسول اللہﷺ کے ساتھ مدینہ سے مکہ جانے کے لیے نکلے تو آپ ﷺ دو دو رکعت نماز پڑھتے رہے یہاں تک کہ واپس مدینہ پہنچ گئے۔ راوی نے حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے پوچھا: آپ مکہ کتنا عرصہ ٹھہرے؟ انہوں نے جواب دیا: دس دن۔ [صحيح مسلم، حديث نمبر:1586]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
اس حدیث میں حجۃ الوداع کے سفر کی طرف اشارہ ہے آپﷺ چار ذوالحجہ کو مکہ مکرمہ پہنچے تھے۔
پھر آٹھ ذوالحجہ کو صبح کے بعد منیٰ چلے گئے اور نو ذوالحجہ صبح کی نماز کے بعدعرفات چلے گئے۔
دس ذوالحجہ کی رات مزدلفہ میں گزاری اور سورج نکلنے سے پہلے منیٰ کی طرف واپس آ گئے اورتیرہ ذوالحجہ تک منیٰ میں رہے اور چودہ ذوالحجہ کو فجر سے پہلے مدینہ منورہ کی طرف سفر اختیار کر لیا۔
اس طرح آپﷺ نے مکہ مکرمہ اور اس کے گردونواح میں دس دن گزارے خاص طور پر مکہ میں آپﷺ نے بیس نمازیں ادا کیں۔
اس لیے امام مالک رحمۃ اللہ علیہ،
امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ اور امام احمد رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک قصر بیس نماز تک ہے۔
اگر اس سے زائد عرصہ قیام کرنا ہو تو شروع ہی سے نماز پوری پڑھنی ہو گی اور احناف نے فتح مکہ کے ایام سے استدلال کرتے ہوئے مدت سفر پندرہ دن مقرر کی ہے حالانکہ یہ ایامِ جنگ تھے جن میں انسان اقامت کی نیت نہیں کرتا۔
علامہ غلام رسول صاحب کہتے ہیں:
یہ روایات ہمیں تب مضر ہوتیں جب ان میں تصریح ہوتی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پندرہ،
سترہ یا انیس دن قیام کی نیت کی ہوتی اور پھر آپﷺ قصر کرتے رہتے کیونکہ اگرپندرہ دن قیام کی نیت نہ ہو،
پھر قیام پندرہ دن سے زائد ہو جائے پھر بھی قصر پڑھی جاتی ہے۔
(ج: 2،
ص: 378)

احناف کے پاس پندرہ دن کے لیے بطور دلیل کوئی مرفوع حدیث نہیں ہے۔
علامہ غلام رسول نے صرف حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما کا فعل پیش کیا ہے اور ان سے اس سلسلہ میں مختلف افعال منقول ہیں۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 1586   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4297  
4297. حضرت انس ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: ہم نے نبی ﷺ کے ہمراہ دس دن اقامت کی۔ اس دوران میں ہم نماز قصر کرتے رہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4297]
حدیث حاشیہ:
یہاں راوی نے صرف قیام مکہ کے دن شمار کئے ورنہ صحیح یہی کہ آپ نے 19 دن قیام کیا تھا اور منی وعرفات کے دن چھوڑ دیئے ہیں۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4297   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1089  
1089. حضرت انس ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: میں نے نبی ﷺ کے ہمراہ مدینہ منورہ میں ظہر کی چار رکعت ادا کیں اور ذوالحلیفہ پہنچ کر دوگانہ شروع کر دیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1089]
حدیث حاشیہ:
دیگر روایتوں میں ہے کہ حضرت علی ؓ شام کے ارادہ سے نکلے تھے۔
کوفہ چھوڑتے ہی آپ نے قصر شروع کر دیا تھا۔
اسی طرح واپسی میں کوفہ کے مکانات دکھائی دے رہے تھے۔
لیکن آپ نے اس وقت بھی قصر کیا۔
جب آپ سے کہا گیا کہ اب تو کوفہ کے قریب آگئے! تو فرمایا کہ ہم پوری نماز اس وقت تک نہ پڑھیں گے جب تک ہم کوفہ میں داخل نہ ہو جائیں۔
رسول اللہ ﷺ حج کے ارادہ سے مکہ معظمہ جارہے تھے ظہر کے وقت تک آپ مدینہ میں تھے اس کے بعد سفر شروع ہوگیا پھرآپ ذوالحلیفہ میں پہنچے تو عصر کا وقت ہو چکا تھا اور وہاں آپ نے عصر چار رکعت کے بجائے صرف دو رکعت پڑھی۔
ذو الحلیفہ مدینہ سے چھ میل پر ہے۔
اس حدیث سے معلوم ہو اکہ مسافر جب اپنے مقام سے نکل جائے تو قصر شروع کر دے باب کا یہی مطلب ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1089   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1547  
1547. حضرت انس ؓ ہی سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے مدینہ منورہ میں نماز ظہر کی چار رکعت اور ذوالحلیفہ میں عصر کی دو رکعت ادا کیں۔ اس کے بعد میرے خیال کے مطابق آپ صبح تک ذوالحلیفہ میں ٹھہرے رہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1547]
حدیث حاشیہ:
ذوالحلیفہ وہی جگہ ہے جو آج کل بئر علی کے نام سے مشہور ہے آج بھی حاجی صاحبان کا یہاں پڑاؤ ہوتاہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1547   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1081  
1081. حضرت انس ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: ہم نے نبی ﷺ کے ہمراہ نکل کر مدینہ سے مکہ تک کا سفر کیا، آپ اس سفر کے دوران میں مدینہ واپسی تک نماز دو دو رکعت ہی پڑھتے رہے۔ راوی حدیث کہتے ہیں: میں نے حضرت انس ؓ سے دریافت کیا: آپ لوگ مکہ مکرمہ کچھ عرصہ ٹھہرے تھے؟ انہوں نے فرمایا: ہاں، وہاں ہم نے دس دن قیام کیا تھا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1081]
حدیث حاشیہ:
(1)
واضح رہے کہ اس حدیث میں حجۃ الوداع کا سفر بیان ہوا ہے کیونکہ حضرت ابن عباس ؓ کا بیان ہے کہ ہم چار ذوالحجہ کو حج کا تلبیہ کہتے ہوئے مکہ پہنچے۔
(صحیح البخاري، التقصیر، حدیث: 1085)
رسول اللہ ﷺ چودہ ذوالحجہ کی صبح مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ روانہ ہوئے۔
گویا مکہ مکرمہ اور اس کے مضافات میں آپ نے دس دن قیام فرمایا۔
اس سفر کی تفصیل اس طرح ہے کہ آپ چار ذوالحجہ صبح کے وقت مکہ مکرمہ آئے، پھر آٹھ ذوالحجہ کی نماز ظہر منیٰ میں ادا کی، اس طرح آپ نے مکہ مکرمہ میں تقریباً بیس نمازیں ادا کی ہیں، پہلے دن کی نماز فجر کے متعلق اختلاف ہے کہ آپ نے راستے میں ادا کی یا مکہ میں، البتہ بیس نمازوں کا مکہ مکرمہ میں ادا کرنا یقینی ہے۔
4 ذوالحجہ:
ظہر اور عصر۔
6 ذوالحجہ:
مغرب، عشاء، فجر، ظہر اور عصر۔
7 ذوالحجہ:
مغرب، عشاء، فجر، ظہر اور عصر۔
8 ذوالحجہ:
مغرب، عشاء اور فجر۔
یہ کل بیس نمازیں ہیں جو آپ نے مکہ مکرمہ میں ادا کی ہیں۔
آٹھویں ذوالحجہ کو حج کا احرام باندھ کر منیٰ روانہ ہوئے اور ظہر کی نماز وہاں مسجد خیف میں ادا فرمائی۔
حافظ ابن حجر ؒ لکھتے ہیں کہ حدیث انس اقامت کی نیت سے ٹھہرنے کی دلیل ہے، کیونکہ اس دوران میں آپ کو کوئی اندیشہ نہ تھا بلکہ آپ ان دنوں پختہ نیت سے ٹھہرے ہیں۔
(فتح الباري: 726/2)
مدت اقامت کے متعلق ہمارے نزدیک راجح مسلک یہ ہے کہ جو آدمی آمد اور روانگی کے دونوں دن چھوڑ کر صرف چار روز قیام کا ارادہ رکھتا ہو اسے پوری نماز پڑھنی ہو گی کیونکہ مکہ مکرمہ میں آپ کی مدت اقامت آمد اور روانگی کا دن نکال کر تین دن ہے۔
رسول اللہ ﷺ کے عمل سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ آپ نے اس مدت سے زیادہ قیام فرمایا ہو اور نماز قصر ادا کی ہو یا اس مدت سے کم قیام کیا ہو اور پوری نماز پڑھی ہو۔
بہرحال رسول اللہ ﷺ نے مکہ مکرمہ میں آمد اور روانگی کا دن نکال کر پانچ چھ اور سات ذوالحجہ تک تین دن مکمل قیام فرمایا اور یہ قیام اتفاقی نہیں بلکہ حسب پروگرام تھا۔
اس دوران آپ نماز قصر پڑھتے رہے۔
دوسرے الفاظ میں یوں بھی کہا جا سکتا ہے کہ دوران سفر اگر کسی مقام پر بیس نمازیں ادا کرنے تک قیام رکھنا ہو تو نماز قصر کرنے کا ثبوت خود رسول اللہ ﷺ کے عمل سے ملتا ہے۔
اس موقف کی تائید رسول اللہ ﷺ کے ایک اور فرمان سے بھی ہوتی ہے کہ آپ نے مہاجرین کو مناسک حج ادا کرنے کے بعد تین دن مکہ مکرمہ میں ٹھہرنے کی اجازت دی تھی۔
حدیث کے الفاظ یہ ہیں کہ حج ادا کرنے کے بعد مہاجر تین دن تک مکہ میں ٹھہر سکتا ہے۔
(صحیح مسلم، الحج، حدیث: 3298(1352)
اس فرمان نبوی کا مطلب یہ ہے کہ مہاجرین نے چونکہ اللہ کے دین کی سربلندی کے لیے مکہ مکرمہ چھوڑا تھا، اس لیے فتح ہونے کے باوجود ان کی مسافرانہ حیثیت برقرار رہنی چاہیے۔
رسول اللہ ﷺ کے فرمان کے مطابق تین دن اور تین راتوں کے قیام سے ایک مسافر انسان مقیم کے حکم میں نہیں آتا بلکہ اس قدر قیام کرنے سے اس کی مسافرانہ حالت برقرار رہتی ہے۔
اس بنا پر محدثین کی اکثریت کا موقف ہے کہ آمد اور روانگی کے دن نکال کر اگر پورے تین دن اور تین راتیں قیام کا پختہ ارادہ ہو تو نماز قصر پڑھی جا سکتی ہے، اس سے زیادہ دن قیام کرنا ہو تو نماز پوری پڑھنی ہو گی۔
واللہ أعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1081   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1089  
1089. حضرت انس ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: میں نے نبی ﷺ کے ہمراہ مدینہ منورہ میں ظہر کی چار رکعت ادا کیں اور ذوالحلیفہ پہنچ کر دوگانہ شروع کر دیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1089]
حدیث حاشیہ:
صحیح بخاری کی ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ذوالحلیفہ پہنچ کر نماز عصر دو رکعت پڑھی۔
(صحیح البخاري، الحج، حدیث: 1547)
اس کا مطلب یہ نہیں کہ ذوالحلیفہ تک کا سفر قصر کے لیے حد مسافت ہے۔
دراصل رسول اللہ ﷺ نے مکہ مکرمہ جانے کے لیے سفر کا آغاز کیا تھا اور آپ حج کرنے کا ارادہ کیے ہوئے تھے۔
جب آپ نے مدینہ کی آبادی کو چھوڑا اور ذوالحلیفہ پہنچے تو عصر کی دو رکعت ادا کیں، پھر آپ دوران سفر واپسی تک قصر ہی پڑھتے رہے، جیسا کہ حضرت انس ؓ سے مروی ایک دوسری حدیث میں ہے، فرماتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ مدینہ سے مکہ کا سفر کیا، آپ واپسی تک دو دو رکعت ہی ادا فرماتے رہے۔
(صحیح البخاري، التقصیر، حدیث: 1081)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1089   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1547  
1547. حضرت انس ؓ ہی سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے مدینہ منورہ میں نماز ظہر کی چار رکعت اور ذوالحلیفہ میں عصر کی دو رکعت ادا کیں۔ اس کے بعد میرے خیال کے مطابق آپ صبح تک ذوالحلیفہ میں ٹھہرے رہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1547]
حدیث حاشیہ:
(1)
ذوالحلیفہ میں رات گزارنا سننِ حج میں سے نہیں ہے۔
رسول اللہ ﷺ نے صرف سہولت کے پیش نظر وہاں قیام فرمایا تاکہ پیچھے رہنے والے لوگ آسانی سے ساتھ مل سکیں اور جو آپ کے ساتھ نہیں آ سکے وہ آ جائیں، نیز اگر کوئی چیز یا اہم امور رہ گئے ہوں تو جلدی ان کی تلافی کی جا سکے۔
(2)
حافظ ابن حجر ؒ نے علامہ ابن منیر کے حوالے سے لکھا ہے کہ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ میقات میں رات گزارنا تاخیر احرام ہے اور ایسا کرنا میقات سے احرام کے بغیر گزرنے کے مترادف ہے۔
امام بخاری ؒ نے اس وہم کی تردید کے لیے یہ عنوان قائم کیا ہے، اس لیے میقات میں رات گزارنا جائز ہے۔
(فتح الباري: 513/3)
واللہ أعلم۔
امام بخاری ؒ نے اس روایت کو آئندہ تفصیل سے بیان کیا ہے۔
(صحیح البخاري، الحج، حدیث: 1551)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1547