الحمدللہ ! احادیث کتب الستہ آف لائن ایپ ریلیز کر دی گئی ہے۔    

1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:



صحيح البخاري
كِتَاب الْجِهَادِ وَالسِّيَرِ
کتاب: جہاد کا بیان
46. بَابُ اسْمِ الْفَرَسِ وَالْحِمَارِ:
46. باب: گھوڑوں اور گدھوں کا نام رکھنا۔
حدیث نمبر: 2857
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، سَمِعْتُ قَتَادَةَ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ:" كَانَ فَزَعٌ بِالْمَدِينَةِ فَاسْتَعَارَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَرَسًا لَنَا، يُقَالُ لَهُ: مَنْدُوبٌ، فَقَالَ: مَا رَأَيْنَا مِنْ فَزَعٍ وَإِنْ وَجَدْنَاهُ لَبَحْرًا".
ہم سے محمد بن بشار نے بیان کیا، کہا ہم سے غندر نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا کہ میں نے قتادہ سے سنا کہ انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے بیان کیا (ایک رات) مدینہ میں کچھ خطرہ سا محسوس ہوا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارا (ابوطلحہ رضی اللہ عنہ کا جو آپ کے عزیز تھے) گھوڑا منگوایا، گھوڑے کا نام مندوب تھا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا خطرہ تو ہم نے کوئی نہیں دیکھا البتہ اس گھوڑے کو ہم نے سمندر پایا ہے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْجِهَادِ وَالسِّيَرِ/حدیث: 2857]
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة

   صحيح البخاريوجدنا فرسكم هذا بحرا
   صحيح البخاريما رأينا من فزع وإن وجدناه لبحرا
   صحيح البخاريما رأينا من فزع وإن وجدناه لبحرا
   صحيح البخارياستعار النبي فرسا من أبي طلحة يقال له المندوب فركب فلما رجع قال ما رأينا من شيء وإن وجدناه لبحرا
   صحيح البخاريعلى فرس عري ما عليه سرج في عنقه سيف
   صحيح البخاريلم تراعوا لم تراعوا ثم قال وجدناه بحرا أو قال إنه لبحر
   صحيح البخاريلن تراعوا لن تراعوا وهو على فرس لأبي طلحة عري ما عليه سرج في عنقه سيف فقال لقد وجدته بحرا أو إنه لبحر
   صحيح البخاريسبقهم على فرس وقال وجدناه بحرا
   صحيح البخاريما رأينا من شيء وإن وجدناه لبحرا
   صحيح البخاريتلقاهم النبي على فرس لأبي طلحة عري وهو متقلد سيفه فقال لم تراعوا لم تراعوا ثم قال رسول الله وجدته بحرا يعني الفرس
   صحيح البخاريما رأينا من شيء وإن وجدناه لبحرا
   صحيح البخاريلم تراعوا إنه لبحر فما سبق بعد ذلك اليوم
   صحيح مسلمأحسن الناس وكان أجود الناس وكان أشجع الناس فزع أهل المدينة ذات ليلة فانطلق ناس قبل الصوت فتلقاهم رسول الله راجعا وقد سبقهم إلى الصوت وهو على فرس لأبي طلحة عري في عنقه السيف وهو يقول لم تراعوا لم تراعوا قال وجدناه بحرا أو إنه لبحر قال وكان فرسا يبطأ
   صحيح مسلمفزع فاستعار النبي فرسا لأبي طلحة يقال له مندوب فركبه فقال ما رأينا من فزع وإن وجدناه لبحرا
   جامع الترمذيما كان من فزع وإن وجدناه لبحرا
   جامع الترمذيأحسن الناس وأجود الناس وأشجع الناس قد فزع أهل المدينة ليلة سمعوا صوتا قال فتلقاهم النبي على فرس لأبي طلحة عري وهو متقلد سيفه فقال لم تراعوا لم تراعوا فقال النبي وجدته بحرا
   جامع الترمذيما رأينا من فزع وإن وجدناه لبحرا
   سنن أبي داودما رأينا شيئا أو ما رأينا من فزع وإن وجدناه لبحرا
   سنن ابن ماجهلن تراعوا يردهم ثم قال للفرس وجدناه بحرا أو إنه لبحر

صحیح بخاری کی حدیث نمبر 2857 کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2857  
حدیث حاشیہ:
ایک دفعہ مدینہ میں رات کو ایسا خیال لوگوں کو ہوا کہ اچانک کسی دشمن نے شہر پر حملہ کردیا ہے‘ آنحضرت ﷺ خود بنفس نفیس مندوب گھوڑے پر سوار ہو کر اندھیری رات میں اس کی تحقیق کے لئے نکلے مگر اس افواہ کو آپ ﷺ نے غلط پایا‘ یہی واقعہ یہاں مذکور ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2857   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2857  
حدیث حاشیہ:
1ان احادیث سے مقصود یہ ہے کہ نام وغیرہ رکھنا صرف انسان کے ساتھ خاص نہیں بلکہ حیوانات کے نام رکھنے میں بھی کوئی حرج نہیں۔
امام بخاری ؒنے اس سلسلے میں چار احادیث پیش کی ہیں۔
پہلی حدیث میں حضرت ابوقتادہ ؓ کے گھوڑے کا نام جرادہ ذکر ہوا جبکہ دوسری حدیث میں رسول اللہ ﷺکے ایک گھوڑے کا نام"لحیف یالخیف" بیان ہواہے۔
تیسری حدیث میں رسول اللہ ﷺ کا گدھے پر سوار ہونا ذکر کیا جس کانام عفیر تھا اور چوتھی حدیث میں حضرت ابوطلحہ ؓکے گھوڑے کا نام "مندوب" بیان ہوا ہے۔
ان احادیث میں صرف گھوڑوں اور گدھے کے نام ہیں۔
دوسری احادیث سے پتہ چلتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کا ایک"دلدل" نامی خچر بھی تھا اور ایک اونٹنی کا نام "قصواء" اور دوسری کا نام "عضباء" تھا، نیز آپ کی سات بکریاں تھیں جن کے الگ الگ نام تھے۔
ان میں سے ایک کا نام "عیثہ" تھا اور رسول اللہ ﷺ کے چوبیس گھوڑے جن کے الگ نام تھے،چنانچہ سکب اور مرتجز کے نام کتب احادیث میں ملتے ہیں۔
(عمدة القاري: 172/10)

دوسری حدیث سے پتہ چلتا ہے کہ اگرسواری کا جانور برداشت کرسکتا ہو تو زیادہ افراد اس پر سواری کرسکتے ہیں۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2857   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4988  
´الفاظ کے استعمال میں توسع کا بیان۔`
انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ مدینہ میں ایک بار (دشمن کا) خوف ہوا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ابوطلحہ کے گھوڑے پر سوار ہو کر نکلے، (واپس آئے تو) فرمایا: ہم نے تو کوئی چیز نہیں دیکھی، یا ہم نے کوئی خوف نہیں دیکھا اور ہم نے اسے (گھوڑے کو) سمندر (سبک رفتار) پایا ۱؎۔ [سنن ابي داود/كتاب الأدب /حدیث: 4988]
فوائد ومسائل:
1) رسول اللہﷺ نے گھوڑے کی سبک رفتاری کو اس کے سمندر ہونے سے تشبیہ دی ہے۔
تو اس سے محدث رحمتہ اللہ کا استد لال یہ ہے کہ اگر اندھیرے کی نسبت سے عشاء کی نماز کو کبھی عتمہ یاسوتے کی نماز کہہ دیا جائے تو جائز ہے۔
2) صاحب ایمان کو جری اور بہادر ہوناچاہئےاور اپنے معاشرے میں عام اصلاحی کاموں میں سب سے آگے ہونا چاہئےجیسے رسول اللہﷺ تھے۔
3) کبھی کبھار عام استعمال کی چیزیں عاریتا لے لینےمیں کوئی قباحت نہیں ہےاور مسلمانوں کو اس سلسلے میں بخیل نہیں ہونا چاہئے لیکن عاریتا لینے والے کوبھی چاہئے کہ فراغت کے بعد اس چیز کو پوری ذمے داری کےساتھ واپس کردے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 4988   

  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2772  
´عام اعلان جہاد کے وقت فوراً نکلنے کا بیان۔`
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر کیا تو انہوں نے کہا: آپ سب سے زیادہ خوبصورت، سخی اور بہادر تھے، ایک رات مدینہ والے گھبرا اٹھے، اور سب لوگ آواز کی جانب نکل پڑے تو راستے ہی میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات ہو گئی، آپ ان سے پہلے اکیلے ہی آواز کی طرف چل پڑے تھے ۱؎، اور ابوطلحہ رضی اللہ عنہ کے ننگی پیٹھ اور بغیر زین والے گھوڑے پر سوار تھے، اور اپنی گردن میں تلوار ٹکائے ہوئے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے تھے: لوگو! ڈر کی کوئی بات نہیں ہے، یہ کہہ کر آپ لوگوں کو واپس لوٹا ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب الجهاد/حدیث: 2772]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
رسول اللہ ﷺ تمام ظاہری اور باطنی خوبیوں میں سب سے ممتاز تھے۔

(2)
مسلمانوں کے لیے کوئی خطرہ محسوس ہوتو ہر مسلمان کو اس کے مقابلے کے لیے ایک دوسرے سے بڑھ کر تیار ہونا چاہیے۔

(3)
گھوڑے پر زین وغیرہ ڈالے بغیر سوار ہونا چاہیے جو عوام کے لیے ایک نمونہ بن سکے۔

(5)
کسی کی خوبی کے اعتراف میں بخل سے کام نہیں لینا چاہیے۔
اس سے ساتھیوں اور ماتحتوں کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے البتہ بے موقع تعریف جس سے فخر وتکبر کے جذبات پیدا ہونے کا خطرہ ہو اور خوشامد ممنوع ہے۔

(6)
رسول اللہ ﷺ کی ذات مقدسہ سے کثیر مواقع پر حاصل ہونے والی برکت رسول اللہﷺ کی نبوت کی صداقت کی دلیل ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2772   

  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1685  
´گھبراہٹ کے وقت باہر نکلنے کا بیان۔`
انس بن مالک رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ابوطلحہ کے گھوڑے پر سوار ہو گئے اس گھوڑے کو «مندوب» کہا جاتا تھا: کوئی گھبراہٹ کی بات نہیں تھی، اس گھوڑے کو ہم نے چال میں سمندر پایا۔ [سنن ترمذي/كتاب الجهاد/حدیث: 1685]
اردو حاشہ: 1 ؎:
یعنی بے انتہا تیز رفتار تھا۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1685   

  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 6006  
حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تمام لوگوں سے زیادہ حسین تھے، سب لوگوں سے زیادہ سخی تھے اور سب لوگوں سے زیادہ دلیر تھے۔ ایک رات اہل مدینہ خوف زدہ ہو گئے، تو لوگ آواز کی طرف نکل کھڑے ہوئے، سو رسول اللہ ﷺ کو واپس آتے ہوئے ملے، آپ ان سے پہلے آواز کی طرف جا چکے تھے اور آپﷺ حضرت طلحہ رضی اللہ تعالی عنہ کے گھوڑے کی ننگی پیٹھ پر سوار تھے اور آپ ﷺ کے گلے میں (گردن میں) تلوار تھی اور... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:6006]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
حضرت انس رضی اللہ عنہ نے انتہائی جامعیت اور اختصار کے ساتھ،
آپ کے تین بنیادی اوصاف کی تعیین فرمائی ہے،
جو اخلاق حسنہ کی اساس ہیں،
انسان میں تین قوتیں ہیں،
(1)
قوت غضبیہ،
اس میں حسن و کمال شجاعت و بسالت ہے،
(2)
قوت شہوبہ،
جس کا حسن و کمال جودوسخا ہے،
(3)
قوت عقلیہ،
جس کا حسن و جمال حکیمانہ قول و فعل ہے اور خَلَق،
خُلُق کی خوبصورتی اور حسن اس کا نتیجہ ہے اور حدیث سے آپ کی دلیری و شجاعت،
بے خوفی،
و بےباکی اور گھوڑ سواری کی مہارت کا پتہ چلتا ہے،
آپ انتہائی بے خوفی سے اکیلے ہی حقیقت حال معلوم کرنے کے لیے سب سے پہلے نکل گئے،
تاکہ لوگوں کو آگاہ کیا جا سکے اور آپ کی برکت سے سست رفتار گھوڑا،
انتہائی تیز رفتار نکلا اور آپ نے ظاہری اسباب و وسائل کو استعمال کرتے ہوئے جنگی اسلحہ تلوار کو بھی گردن میں حمائل کیا اور حقیقت حال معلوم کر لینے کے بعد لوگوں کی پریشانی اور گھبراہٹ کو بھی دور فرمایا۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 6006   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2627  
2627. حضرت انس ؓ سے روایت ہے، انھوں نےکہا: ایک دفعہ مدینہ طیبہ میں دشمن کا خوف ساپیدا ہوا تو نبی ﷺ نے حضرت ابو طلحہ ؓ سے ایک گھوڑا مستعار لیا جسے مندوب کہا جا تا تھا۔ آپ اس پر سوار ہوئے۔ جب واپس تشریف لائے تو فرمایا: کوئی گڑبڑ نہیں ہے۔ یہ گھوڑا تو سمندر کی موج ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2627]
حدیث حاشیہ:
دریا کی طرح تیز اور بے تکان جاتا ہے۔
دوسری روایت میں ہے۔
آپ ننگی پیٹھ پر سوار ہوئے۔
آپ کے گلے میں تلوار پڑی تھی۔
آپ اکیلے اسی طرف تشریف لے گئے جدھر سے مدینہ والوں نے آواز سنی تھی۔
سبحان اللہ! آنحضرت ﷺ کی شجاعت اس واقعہ سے معلوم ہوتی ہے کہ اکیلے تنہا دشمن کی خبر لینے کو تشریف لے گئے۔
سخاوت ایسی کہ کسی مانگنے والے کا سوال رد نہ کرتے۔
شرم اور حیا اور مروت ایسی کہ کنواری لڑکی سے بھی زیادہ۔
عفت ایسی کہ کبھی بدکاری کے پاس تک نہ پھٹکے، حسن اور جمال ایسا کہ سارے عرب میں کوئی آپ کا نظیر نہ تھا۔
نفاست اور نظافت ایسی کہ جدھر سے نکل جاتے، درودیوار معطر ہوجاتے۔
حسن خلق ایسا کہ دس برس تک حضرت انس ؓ خدمت میں رہے کبھی ان کو جھڑکا تک نہیں۔
عدل اور انصاف ایسا کہ اپنے سگے چچا کی بھی کوئی رعایت نہ کی۔
فرمایا اگر فاطمہ ؓ بھی چوری کرے تو میں اس کا بھی ہاتھ کٹواڈالوں، عبادت اور ریاضت ایسی کہ نماز پڑھتے پڑھتے پاؤںمیں ورم آگیا۔
بے طمعی ایسی کہ لاکھ روپے آئے، سب مسجد نبوی میں ڈلوادئیے اور اسی وقت بٹوادئیے۔
صبر وقناعت ایسی کہ دو دو مہینے تک چولہا گرم نہ ہوتا۔
جو کی سوکھی روٹی اور کھجور پر اکتفاءکرتے۔
کبھی دو دو تین تین فاقے ہوتے۔
ننگے بوریے پر لیٹتے۔
بدن پر نشان پڑجاتا مگر اللہ کے شکر گزار اور خوش و خرم رہتے۔
حرف شکایت زبان پر نہ لاتے۔
کیا ان سب امور کے بعد کوئی احمق سے احمق بھی آپ کی نبوت اور پیغمبری میں شک کرسکتا ہے؟ صلی اللہ علیه وعلی آله و أصحابه وسلم۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2627   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2820  
2820. حضرت انس ؓسے روایت ہے انھوں نے فرمایا کہ نبی کریم ﷺ تمام لوگوں سے زیادہ خوبصورت، سب لوگوں سے زیادہ بہادر اور سب سے زیادہ فیاض تھے۔ (ایک رات ایسا ہوا کہ) اہل مدینہ خوف زدہ ہوئے تو نبی کریم ﷺ گھوڑے پر سوار ہوکر سب سے پہلے آئے اور فرمایا: (فکر کی کوئی بات نہیں) البتہ ہم نے اس گھوڑے کو سمندر کی طرح رواں دواں پایا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2820]
حدیث حاشیہ:
یعنی بے تکان چلا ہی جاتا ہے‘ کہیں رکتا یا اڑتا نہیں ہے۔
آنحضرتﷺ رات کے وقت بنفس نفیس یکہ و تنہا آواز کی طرف تشریف لے گئے اور دشمن کا کچھ بھی ڈر نہ کیا۔
سبحان اللہ شجاعت ایسی‘ سخاوت ایسی‘ حسن و جمال ظاہری ایسا‘ کمالات باطنی ایسے‘ قوت ایسی‘ رحم و کرم ایسا کہ کبھی سائل کو محروم نہیں کیا‘ کبھی کسی سے بدلہ لینا نہیں چاہا‘ جس نے معافی چاہی معاف کردیا۔
عبادت اور خدا ترسی ایسی کہ رات رات بھر نماز پڑھتے پڑھتے پاؤں ورم کر گئے‘ تدبیر اور رائے ایسی کہ چند روز ہی میں عرب کی کایا پلٹ کر رکھ دی‘ بڑے بڑے بہادروں اور اکڑوں کو نیچا دکھا دیا‘ ایسے عظیم پیغمبر ﷺ پر لاکھوں بار درود و سلام۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2820   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2866  
2866. حضرت انس ؓسے روایت ہے کہ نبی ﷺ گھوڑے کی ننگی پیٹھ پر جس پر زین نہیں تھی سوار ہو کر صحابہ کرام ؓسے آگے نکل گئے تھے۔ آپ کی گردن مبارک میں تلوار لٹک رہی تھی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2866]
حدیث حاشیہ:
سبحان اللہ! یہ حسن و جمال اور یہ شجاعت اور بہادری ننگی پیٹھ گھوڑے پر سواری کرنا بڑے ہی شہسواروں کا کام ہے اور یہ حقیقت ہے کہ اس فن میں آنحضرتﷺ یکتائے روزگار تھے۔
بارہا ایسے مواقع آئے کہ آپ ﷺ نے بہترین شہسواری کا ثبوت پیش فرمایا۔
صد افسوس کہ آج کل عوام تو درکنار خواص یعنی علماء و مشائخ نے ایسی اہم سنتوں کو بالکل ترک کردیا ہے۔
خاص کر علماء کرام میں بہت ہی کم ایسے ملیں گے جو ایسے فنون مسنونہ سے الفت رکھتے ہوں حالانکہ یہ فنون قرآن و سنت کی روشنی میں مسلمانوں کے عوام و خواص میں بہت زیادہ ترویج کے قابل ہیں۔
آج کل نشانہ بازی جو بندوق سے سکھائی جاتی ہے وہ بھی اسی میں داخل ہے اور فن حرب سے متعلق جو نئی ایجادات ہیں‘ ان سب کو اس پر قیاس کیا جاسکتا ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2866   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2867  
2867. حضرت انس ؓسے روایت ہے کہ ایک مرتبہ اہل مدینہ کو کوئی خطرہ محسوس ہوا تو نبی ﷺ حضرت ابو طلحہ ؓ کے گھوڑے پر سوار ہوئے۔ وہ گھوڑا سست رفتار تھا یا اس کی رفتار میں سستی تھی۔ پھر جب آپ واپس آئے تو فرمایا: ہم نے تو آپ کے اس گھوڑے کو (روانی میں) دریا جیسا پایا ہے۔ چنانچہ اس کے بعد کوئی گھوڑا اس سے آگے نہیں نکل سکتا تھا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2867]
حدیث حاشیہ:
یہ گھوڑا بے حد سست رفتار تھا لیکن آنحضرتﷺ کی سواری کی برکت سے ایسا تیز اور چالاک ہوگیا کہ کوئی گھوڑا اس کے برابر نہیں چل سکتا تھا۔
آپ اس سست رفتار گھوڑے پر سوار ہوئے‘ اسی سے باب کا مطلب نکلا۔
آنحضرتﷺ نے یہ اقدام فرما کر آئندہ آنے والے خلفائے اسلام کے لئے ایک مثال قائم فرمائی تاکہ وہ سست الوجود بن کر نہ رہ جائیں بلکہ ہر موقع پر بہادری و جرات و مقابلہ میں عوام سے آگے بڑھنے کی کوشش کرتے رہیں۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2867   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2908  
2908. حضرت انس ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: نبی کریم ﷺ تمام لوگوں سے زیادہ خوبصورت اور دلیر تھے۔ ایک رات اہل مدینہ پر سخت خوف و ہراس طاری ہوا تو وہ خوفناک آواز کی طرف نکلے۔ نبی کریم ﷺ سب سے پہلے آگے روانہ ہوئے اور واقعے کی تحقیق کی۔ آپ اس وقت حضرت ابو طلحہ ؓ کے ایسے گھوڑے پر سوار تھے جس پر زین نہیں تھی۔ آپ ﷺ نے اپنے گلے میں تلوار لٹکائی ہوئی تھی اور فرمارہےتھے: مت گھبراؤ، تمھیں گھبرانے کی کوئی ضرورت نہیں۔ پھر آپ نے فرمایا: ہم نے اس گھوڑے کو سمندر (کی طرح سبک رفتار) پایا۔ یا (یہ) فرمایا: بلاشبہ یہ (گھوڑا) سمندر ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2908]
حدیث حاشیہ:
مدینہ میں ایک دفعہ رات کو دشمن کے حملے کی افواہ پھیل گئی تھی۔
اسی کی تحقیق کے لئے آپ حضرت ﷺ خود بنفس نفیس نکلے اور چاروں طرف دور دور تک ملاحظہ فرما کر واپس ہوئے اور لوگوں کو بتلایا کہ کچھ خطرہ نہیں ہے۔
جس گھوڑے پر آپﷺ سوار تھے اس کی تیز رفتاری سے بہت خوش ہوئے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2908   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2969  
2969. حضرت انس ؓسے روایت ہے، انھوں نے کہا: ایک دفعہ لوگوں میں خوف و ہراس پھیلا تو رسول اللہ ﷺ تن تنہا حضرت ابو طلحہ ؓ کے ایک سست رفتار گھوڑے پر سوار ہوئے۔ پھر آپ نے باہر نکل کر اسے ایڑی لگائی۔ آپ کے پیچھے لوگوں نے بھی گھوڑے دوڑائے۔ آپ ﷺ نے (واپسی پر) فرمایا: گھبرانے کی ضرورت نہیں۔ البتہ یہ گھوڑا تو دریا جیسا ہے۔ چنانچہ وہ گھوڑا اس کے بعد کبھی پیچھے نہیں رہا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2969]
حدیث حاشیہ:
آنحضرتﷺ نے اس موقع پر فوراً ہی معلومات کے لئے حضرت ابو طلحہ ؓ کے گھوڑے پر ایڑ لگائی اور مدینہ کے دور دور اطراف میں گھوم پھر کر آپ واپس تشریف لائے اور وہ فرمایا جو روایت میں مذکور ہے۔
اسی سے ترجمہ باب ثابت ہوا۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2969   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3040  
3040. حضرت انس ؓسے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ سب لوگوں سے زیادہ خوبصورت، سب سے زیادہ سخی اور سب سے زیادہ بہادر تھے، چنانچہ ایک دفعہ اہل مدینہ خوفزدہ ہوئے۔ جب انھوں نےایک ہولناک آواز سنی تو نبی کریم ﷺ حضرت ابو طلحہ ؓ کے گھوڑے کی تنگی پیٹھ پر سوار ہوئے جبکہ آپ اپنے گلے میں تلوار لٹکائے ہوئے تھے۔ آپ نے لوگوں سے فرمایا: مت گھبراؤ، پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔ پھر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: میں نے (سبک رفتاری میں) اس گھوڑے کو دریا کی طرح پایا ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3040]
حدیث حاشیہ:
بعض دشمن قبائل کی طرف سے مدینہ منورہ پر اچانک شب خونی کا خطرہ تھا‘ اور ایک دفعہ اندھیری رات میں کسی نامعلوم آواز سے ایسا شبہ ہوگیا تھا جس کی تحقیق کے لئے سب سے پہلے خود رسول کریمﷺ نکلے اور آپ مدینہ کے چاروں طرف دور دور تک پتہ لے کر واپس لوٹے اور مسلمانوں کی تسلی دلائی کہ کوئی خطرہ نہیں ہے‘ اسی سے باب کا مضمون ثابت ہوا۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3040   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2862  
2862. حضرت انس بن مالک ؓسے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ مدینہ طیبہ میں ایک دفعہ خوف طاری ہوا تو نبی ﷺ نے حضرت ابو طلحہ سے گھوڑا مستعار لیا جسے مندوب کہا جاتا تھا۔ پھر آپ اس پر سوارہوئے اور فرمایا: خوف وہر اس کی کوئی بات ہم نے نہیں دیکھی بلاشبہ اس(گھوڑے) کو ہم نے(روانی میں) دریا ہی پایا ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2862]
حدیث حاشیہ:
اس حدیث کی مطابقت ترجمہ باب سے مشکل ہے کیونکہ فرس تو عربی زبان میں نر اور مادہ دونوں کو کہتے ہیں۔
بعضوں نے کہا إن وجدناہ میں جو ضمیر مذکور ہے اس سے حضرت امام بخاریؒ نے یہ نكالا کہ وہ نر گھوڑا تھا۔
اب باب کا یہ مطلب کہ شریر جانور پر سوار ہونا اس سے نکالا کہ نر اکثر مادیان کی بہ نسبت تیز اور شریر ہوتا ہے‘ اگرچہ کبھی مادہ نر سے بھی زیادہ شریر اور سخت ہوتی ہے (وحیدی)
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2862   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6033  
6033. حضرت انس ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ سب سے زیادہ خوبصورت سب سے زیادہ سخی اور سب سے زیادہ بہادر تھے اہل مدینہ ایک رات خوف وہراس میں مبتلا ہوئے تو وہ شور کی طرف بڑھے لیکن نبی ﷺ ان کو آگے سے ملے کیونکہ آپ اٹھنے والے شوروغل کی طرف سے سب سے پہلے تشریف لے گئے تھے۔ آپ نے فرمایا: گھبراؤ نہیں کوئی خطرے کی بات نہیں۔ آپ ﷺ اس وات ابو طلحہ ؓ کے گھوڑے کی ننگی پیٹھ پر سوار تھے، اس پر کوئی زین وغیرہ نہ تھی۔ آپ کی گردن میں تلوار آویزاں تھی اس وقت آپ ﷺ نے فرمایا: میں نے اس گھوڑے کو روانی میں سمندر کی طرح پایا۔ یا فرمایا: یہ گھوڑا (تیز رفتاری میں) گویا سمندر ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6033]
حدیث حاشیہ:
اصول فضائل جو آدمی کو کسب اور ریاضت اور محنت سے حاصل ہو سکتے ہیں تین ہیں عفت اور شجاعت اور سخاوت اور حسن وجمال یہ فضیلت وہبی ہے تو آپ کی ذات مجموعہ کمالات فطری اور کسبی تھی، بے شک جس کا نام نامی ہی محمد ہو (صلی اللہ علیہ وسلم)
اسے اوصاف محمودہ کا مجموعہ ہونا ہی چاہیئے۔
آپ از سر تا پا اوصاف حمیدہ فاضلہ کے جامع تھے، شجاعت اور سخاوت میں اس قدر بڑھے ہوئے کہ آپ کی نظیر کوئی شخص اولاد آدم میں پیدا نہیں ہوا سچ ہے۔
۔
حسن یوسف دم عیسیٰ ید بیضا داری آنچہ خوہاں ہمہ دارند تو تنہا داری (صلی اللہ علیہ وسلم)
حضرت ابو طلحہ کا نام زید بن سہل انصاری ہے۔
یہ حضرت انس رضی اللہ عنہ کی ماں کے خاوند ہیں۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6033   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2627  
2627. حضرت انس ؓ سے روایت ہے، انھوں نےکہا: ایک دفعہ مدینہ طیبہ میں دشمن کا خوف ساپیدا ہوا تو نبی ﷺ نے حضرت ابو طلحہ ؓ سے ایک گھوڑا مستعار لیا جسے مندوب کہا جا تا تھا۔ آپ اس پر سوار ہوئے۔ جب واپس تشریف لائے تو فرمایا: کوئی گڑبڑ نہیں ہے۔ یہ گھوڑا تو سمندر کی موج ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2627]
حدیث حاشیہ:
(1)
عاریت، اس لین دین کو کہتے ہیں جس میں ملکیت تو منتقل نہیں ہوتی، البتہ کسی چیز کا فائدہ عارضی طور پر منتقل ہو جاتا ہے۔
مقصد یہ ہے کہ کسی چیز کا فائدہ اور نفع ہبہ کرنا بھی جائز ہے۔
(2)
واقعہ یہ ہے کہ ایک دفعہ مدینے میں دشمن کے آنے کی افواہ پھیلی تو رسول اللہ ﷺ نے شہر کا جائزہ لینے کے لیے حضرت ابو طلحہ ؓ کا گھوڑا عاریتاً لیا، واپسی پر بتایا کہ کوئی خطرہ نہیں ہے، البتہ گھوڑا اس طرح اڑتا ہے گویا سمندر کی موج ہے۔
اس سے معلوم ہوا کہ لوگوں کو امن و امان کی خوشخبری دینا مستحب امر ہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2627   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2820  
2820. حضرت انس ؓسے روایت ہے انھوں نے فرمایا کہ نبی کریم ﷺ تمام لوگوں سے زیادہ خوبصورت، سب لوگوں سے زیادہ بہادر اور سب سے زیادہ فیاض تھے۔ (ایک رات ایسا ہوا کہ) اہل مدینہ خوف زدہ ہوئے تو نبی کریم ﷺ گھوڑے پر سوار ہوکر سب سے پہلے آئے اور فرمایا: (فکر کی کوئی بات نہیں) البتہ ہم نے اس گھوڑے کو سمندر کی طرح رواں دواں پایا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2820]
حدیث حاشیہ:

رسول اللہ ﷺ رات کے وقت خوف زدگی کے عالم میں تن تنہا تشریف لے گئے اور دشمن کا کچھ بھی ڈر محسوس نہ کیا۔

اس حدیث میں رسول اللہ ﷺ کا حسن و جمال جرات و شجاعت اور جود و سخاوت بیان ہوئی ہے آپ ﷺ نے کبھی کسی سائل کو محروم نہیں کیا۔
کبھی کسی سے ذاتی انتقام نہیں لیا۔
جس شخص نے معافی طلب کی اسے معاف کردیا۔
آپ ایسے عبادت گزار کے رات بھر نماز پڑھتے پاؤں پر ورم آجاتا۔
آپ کی تدبیر ورائے ایسی کہ چند دنوں میں عرب کی کایا پلٹ دی بڑے بڑے بہادروں کو نیچا دکھا دیا۔

امام بخاری ؒ کا مقصد یہ ہے کہ انسان کو خطرے کے وقت بزدلی کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہیے بلکہ جرات و دلیری کے ساتھ سخت اور مشکل حالات کا مقابلہ کرنا چاہیے۔
رسول اللہ ﷺ کی سیرت سے یہی سبق ملتا ہے۔
۔
۔
صلی اللہ علیه وسلم۔
۔
۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2820   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2862  
2862. حضرت انس بن مالک ؓسے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ مدینہ طیبہ میں ایک دفعہ خوف طاری ہوا تو نبی ﷺ نے حضرت ابو طلحہ سے گھوڑا مستعار لیا جسے مندوب کہا جاتا تھا۔ پھر آپ اس پر سوارہوئے اور فرمایا: خوف وہر اس کی کوئی بات ہم نے نہیں دیکھی بلاشبہ اس(گھوڑے) کو ہم نے(روانی میں) دریا ہی پایا ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2862]
حدیث حاشیہ:

رسول اللہ ﷺ حضرت ابوطلحہ ؓ کے مندوب نامی گھوڑے پر سوار ہوئے اور اس کی تعریف فرمائی کہ یہ گھوڑا روانی اور دریا کی طرح ہے۔
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کو نرگھوڑے کی سواری پسند تھی۔

اس کے نرہونے پر ضمیر مذکر بھی دلالت کرتی ہے۔
اور نر گھوڑا مادہ کی نسبت زیادہ تیز اور شر یرہوتا ہے اگرچہ بعض اوقات گھوڑی،نرسے بھی زیادہ سخت اور شریر ہوتی ہے لیکن عام طور پر یہ وصف گھوڑوں میں پایا جاتا ہے۔

امام بخاری ؒ کی غرض نر اور شریر گھوڑے پر سوارہونے کی رغبت دلاتا ہے جس پر حضرت راشد بن سعد کا اثر دلالت کرتا ہے۔
واللہ أعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2862   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2866  
2866. حضرت انس ؓسے روایت ہے کہ نبی ﷺ گھوڑے کی ننگی پیٹھ پر جس پر زین نہیں تھی سوار ہو کر صحابہ کرام ؓسے آگے نکل گئے تھے۔ آپ کی گردن مبارک میں تلوار لٹک رہی تھی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2866]
حدیث حاشیہ:

یہ حدیث اس واقعے سے متعلق ہے کہ جب مدینہ طیبہ میں خوف و ہراس پھیلا تھا اور رسول اللہ ﷺ حضرت ابو طلحہ ؓ کا گھوڑا ادھار لے کر آگے نکل گئے تھے۔

اس حدیث سے رسول اللہ ﷺ کی تواضع اور عجز و انکسار کا بھی پتہ چلتا ہے نیز یہ بھی کہ آپ گھوڑسواری میں پوری مہارت رکھتے تھے، پھر بوقت ضرورت تلوار زیب تن کرنے میں بھی کوئی حرج محسوس نہیں کرتے تھے۔

علمائے کرام کو چاہیے کہ وہ اس طرح کے فنون حرب میں دلچسپی رکھیں۔
جنگ سے متعلق جو نئی ایجادات ہیں ان سب کو اس پر قیاس کیا جا سکتا ہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2866   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2867  
2867. حضرت انس ؓسے روایت ہے کہ ایک مرتبہ اہل مدینہ کو کوئی خطرہ محسوس ہوا تو نبی ﷺ حضرت ابو طلحہ ؓ کے گھوڑے پر سوار ہوئے۔ وہ گھوڑا سست رفتار تھا یا اس کی رفتار میں سستی تھی۔ پھر جب آپ واپس آئے تو فرمایا: ہم نے تو آپ کے اس گھوڑے کو (روانی میں) دریا جیسا پایا ہے۔ چنانچہ اس کے بعد کوئی گھوڑا اس سے آگے نہیں نکل سکتا تھا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2867]
حدیث حاشیہ:

حضرت ابو طلحہ ؓ کا یہ مندوب نامی گھوڑا انتہائی سست رفتار تھا رسول اللہ ﷺ کی برکت سے وہ ایسا تیز رفتار ہوا کہ کوئی گھوڑا اس کا مقابلہ نہیں کر سکتا تھا۔

رسول اللہ ﷺ نے یہ اقدام فرما کر آئندہ آنے والے اپنے ورثاء کے لیے ایک مثال قائم کر دی کہ وہ ہر موقع پر جرات اور بہادری کا مظاہرہ کریں اور کسی وقت بھی عوام الناس سے پیچھے نہ رہیں۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2867   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2908  
2908. حضرت انس ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: نبی کریم ﷺ تمام لوگوں سے زیادہ خوبصورت اور دلیر تھے۔ ایک رات اہل مدینہ پر سخت خوف و ہراس طاری ہوا تو وہ خوفناک آواز کی طرف نکلے۔ نبی کریم ﷺ سب سے پہلے آگے روانہ ہوئے اور واقعے کی تحقیق کی۔ آپ اس وقت حضرت ابو طلحہ ؓ کے ایسے گھوڑے پر سوار تھے جس پر زین نہیں تھی۔ آپ ﷺ نے اپنے گلے میں تلوار لٹکائی ہوئی تھی اور فرمارہےتھے: مت گھبراؤ، تمھیں گھبرانے کی کوئی ضرورت نہیں۔ پھر آپ نے فرمایا: ہم نے اس گھوڑے کو سمندر (کی طرح سبک رفتار) پایا۔ یا (یہ) فرمایا: بلاشبہ یہ (گھوڑا) سمندر ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2908]
حدیث حاشیہ:

اس حدیث میں تلوار کے میان کا ذکر نہیں ہے لیکن تلوار کے ذکر میں اس کا ذکر خود بخود آجاتاہے کیونکہ اس کے بغیر تلوار نہیں لٹکائی جاسکتی۔

رسول اللہ ﷺنے حضرت ابوطلحہ ؓ کے گھوڑے کی تعریف فرمائی کہ وہ دریا کے پانی کی طرح تیز چلتاہے گویا وہ پانی پر تیرتا ہے اور سواری کرنے والے کو ذرہ بھر تکلیف نہیں ہوتی۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2908   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2968  
2968. حضرت انس ؓسے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ ایک دفعہ مدینہ طیبہ میں خوف و ہراس پھیلا تو رسول اللہ ﷺ نے حضرت ابو طلحہ ؓ کے گھوڑے پر سوار ہو کر خود پیش قدمی کی اور واپس آکر فرمایا: ہم نے تو وہاں کچھ نہیں دیکھا، البتہ اس گھوڑے کو دریا جیسا پایا ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2968]
حدیث حاشیہ:
اس حدیث سے امام بخاری ؒنے متعدد مسائل کااستباط کیا ہے۔
اس مقام پر عنوان سے مطابقت واضح ہے کہ خوف و ہراس کے وقت کسی سپاہی کو حکم دینے کی بجائے خود امام کافریضہ ہے کہ وہ اس کی حقیقت کا پتہ چلانے کے لیے پیش قدمی کرے،چنانچہ ایسے حالات میں خود رسول اللہ ﷺ گھوڑے کی ننگی پیٹھ پر سوار ہوئے اورگلے میں تلوار لٹکائی، پھر مقام خوف کی طرف پیش قدمی کی اورلوگوں کوتسلی دی کہ گھبرانے کی کوئی ضرورت نہیں۔
۔
۔
صلی اللہ علیه وسلم۔
۔
۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2968   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2969  
2969. حضرت انس ؓسے روایت ہے، انھوں نے کہا: ایک دفعہ لوگوں میں خوف و ہراس پھیلا تو رسول اللہ ﷺ تن تنہا حضرت ابو طلحہ ؓ کے ایک سست رفتار گھوڑے پر سوار ہوئے۔ پھر آپ نے باہر نکل کر اسے ایڑی لگائی۔ آپ کے پیچھے لوگوں نے بھی گھوڑے دوڑائے۔ آپ ﷺ نے (واپسی پر) فرمایا: گھبرانے کی ضرورت نہیں۔ البتہ یہ گھوڑا تو دریا جیسا ہے۔ چنانچہ وہ گھوڑا اس کے بعد کبھی پیچھے نہیں رہا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2969]
حدیث حاشیہ:

حضرت ابوطلحہ ؓ کا گھوڑا سست رفتار تھا۔
جب رسول اللہ ﷺ نے اس پر سواری کی تو آپ کی برکت سے وہ اتنا تیز رفتار ہوگیا کہ کسی گھوڑے کو آگے نہیں بڑھنے دیتاتھا، پھر آپ نے اس کی تعریف کی کہ یہ گھوڑا تو دوڑنے میں دریا کی سی روانی رکھتا ہے۔

امام بخاری ؒنے اس حدیث سے ثابت کیا ہے کہ خوف و ہراس کے وقت جلدی کرنا اور گھوڑے کو ایڑ لگا کر تیزی سے مقام خوف کی طرف بڑھنا احتیاط کے منافی نہیں بلکہ حالات کا جائزہ لینے کے لیے جلدی کرنا ضروری ہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2969   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3040  
3040. حضرت انس ؓسے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ سب لوگوں سے زیادہ خوبصورت، سب سے زیادہ سخی اور سب سے زیادہ بہادر تھے، چنانچہ ایک دفعہ اہل مدینہ خوفزدہ ہوئے۔ جب انھوں نےایک ہولناک آواز سنی تو نبی کریم ﷺ حضرت ابو طلحہ ؓ کے گھوڑے کی تنگی پیٹھ پر سوار ہوئے جبکہ آپ اپنے گلے میں تلوار لٹکائے ہوئے تھے۔ آپ نے لوگوں سے فرمایا: مت گھبراؤ، پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔ پھر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: میں نے (سبک رفتاری میں) اس گھوڑے کو دریا کی طرح پایا ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3040]
حدیث حاشیہ:

مدینہ طیبہ میں جب اسلامی حکومت قائم ہوئی تو دشمن قبائل کی طرف سے اچانک شبخون کا خطرہ تھا۔
ایک دفعہ اندھیری رات میں ایک خوفناک آواز آنے پر اس قسم کا شبہ پیدا ہوا تو حالات کا جائزہ لینے کے لیے خود رسول اللہ ﷺ تن تنہا باہر تشریف لے گئے اور مدینہ طیبہ کے چاروں طرف دور دور تک جائزہ لے کر واپس لوٹے اور اہل مدینہ کو تسلی دی کہ کوئی خطرے والی بات نہیں ہے۔

امام بخاری ؒنے اس سے ثابت کیا ہے کہ اگر اس قسم کے ہنگامی حالات پیدا ہوں تو امیر لشکر یا اس کے قائم مقام کو خودد اس کا جائزہ لینا چاہیے اور لوگوں کو افواہ سازی کا موقع نہیں دینا چاہیے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3040   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6033  
6033. حضرت انس ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ سب سے زیادہ خوبصورت سب سے زیادہ سخی اور سب سے زیادہ بہادر تھے اہل مدینہ ایک رات خوف وہراس میں مبتلا ہوئے تو وہ شور کی طرف بڑھے لیکن نبی ﷺ ان کو آگے سے ملے کیونکہ آپ اٹھنے والے شوروغل کی طرف سے سب سے پہلے تشریف لے گئے تھے۔ آپ نے فرمایا: گھبراؤ نہیں کوئی خطرے کی بات نہیں۔ آپ ﷺ اس وات ابو طلحہ ؓ کے گھوڑے کی ننگی پیٹھ پر سوار تھے، اس پر کوئی زین وغیرہ نہ تھی۔ آپ کی گردن میں تلوار آویزاں تھی اس وقت آپ ﷺ نے فرمایا: میں نے اس گھوڑے کو روانی میں سمندر کی طرح پایا۔ یا فرمایا: یہ گھوڑا (تیز رفتاری میں) گویا سمندر ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6033]
حدیث حاشیہ:
(1)
حضرت انس رضی اللہ عنی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے تین اوصاف بیان کرنے پر اکتفا کیا ہے کیونکہ یہ اوصاف، جامع اخلاق ہیں۔
انھیں اصول اخلاق بھی کہا جاتا ہے۔
ان میں حسن وجمال تو وہبی فضیلت ہے جسے انسان محنت سے حاصل نہیں کر سکتا، باقی شجاعت وسخاوت جیسے اوصاف محنت وکوشش سے حاصل ہو سکتے ہیں۔
(2)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی مجموعۂ کمالات فطری وکسبی تھی۔
آپ سرتاپا اوصاف حمیدہ اور اخلاق فاضلہ کے جامع تھے۔
شجاعت وسخاوت میں اس قدر بڑھے ہوئے کہ آپ کی نظیر نہیں پیش کی جا سکتی، کسی نے خوب کہا ہے:
حسنِ یوسف،دمِ عیسیٰ، ید بیضاداری آنچہ خوباں ہمہ دارند، تو تنہا داری
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6033   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6212  
6212. حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ ایک دفعہ مدینہ طیبہ میں گھبراہٹ پیدا ہوئی تو نبی ﷺ حضرت طلحہ ؓ کے گھوڑے پر سوار ہوئے اور فرمایا: ہمیں تو خوف وہراس کی کوئی چیز نظر نہیں آئی البتہ ہم نے اس گھوڑے کو سمندر پایا ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6212]
حدیث حاشیہ:
(1)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے گھوڑے کی رفتار کو سمندر سے تشبیہ دی کہ یہ بڑی روانی اور سکون سے دوڑتا ہے، پھر اس کی روانی کی صفت کو مجازی طور پر گھوڑے پر بولا گیا۔
(2)
بہرحال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے الفاظ استعمال کیے جن کے ظاہری معنی مراد نہیں تھے۔
بعض اوقات ایسا کرنا جائز ہے۔
واللہ أعلم
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6212