الحمدللہ ! احادیث کتب الستہ آف لائن ایپ ریلیز کر دی گئی ہے۔    

1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:



صحيح البخاري
كِتَاب الْوَصَايَا
کتاب: وصیتوں کے مسائل کا بیان
15. بَابُ إِذَا قَالَ أَرْضِي أَوْ بُسْتَانِي صَدَقَةٌ عَنْ أُمِّي. فَهُوَ جَائِزٌ، وَإِنْ لَمْ يُبَيِّنْ لِمَنْ ذَلِكَ:
15. باب: کسی نے کہا کہ میری زمین یا میرا باغ میری (مرحومہ) ماں کی طرف سے صدقہ ہے تو یہ بھی جائز ہے خواہ اس میں بھی اس کی وضاحت نہ کی ہو کہ کس کے لیے صدقہ ہے۔
حدیث نمبر: Q2756-3
لِأَنَّ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَوْقَفَ، وَقَالَ: لَا جُنَاحَ عَلَى مَنْ وَلِيَهُ أَنْ يَأْكُلَ وَلَمْ يَخُصَّ، إِنْ وَلِيَهُ عُمَرُ، أَوْ غَيْرُهُ، قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِأَبِي طَلْحَةَ:" أَرَى أَنْ تَجْعَلَهَا فِي الْأَقْرَبِينَ، فَقَالَ: أَفْعَلُ، فَقَسَمَهَا فِي أَقَارِبِهِ وَبَنِي عَمِّهِ".
‏‏‏‏ اس لیے کہ عمر رضی اللہ عنہ نے (خیبر کی اپنی زمین) وقف کی اور فرمایا کہ اگر اس میں سے اس کا متولی بھی کھائے تو کوئی مضائقہ نہیں ہے۔ یہاں آپ نے اس کی کوئی تخصیص نہیں کی تھی کہ خود آپ ہی اس کے متولی ہوں گے یا کوئی دوسرا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوطلحہ رضی اللہ عنہ سے فرمایا تھا کہ میرا خیال ہے کہ تم اپنی زمین (باغ بیرحاء صدقہ کرنا چاہتے ہو تو) اپنے عزیزوں کو دے دو۔ انہوں نے عرض کیا کہ میں ایسا ہی کروں گا۔ چنانچہ انہوں نے اپنے عزیزوں اور چچا کے لڑکوں میں بانٹ دیا۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْوَصَايَا/حدیث: Q2756-3]
حدیث نمبر: Q2756-2
قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لأَبِي طَلْحَةَ حِينَ قَالَ أَحَبُّ أَمْوَالِي إِلَيَّ بَيْرَحَاءَ، وَإِنَّهَا صَدَقَةٌ لِلَّهِ، فَأَجَازَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَلِكَ. وَقَالَ بَعْضُهُمْ لاَ يَجُوزُ حَتَّى يُبَيِّنَ لِمَنْ وَالأَوَّلُ أَصَحُّ.
‏‏‏‏ جب ابوطلحہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میرے اموال میں مجھے سب سے زیادہ پسندیدہ بیرحاء کا باغ ہے اور وہ اللہ کے راستے میں صدقہ ہے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے جائز قرار دیا تھا (حالانکہ انہوں نے کوئی تعیین نہیں کی تھی کہ وہ یہ کسے دیں گے) لیکن بعض لوگ (شافعیہ) نے کہا کہ جب تک یہ نہ بیان کر دے کہ صدقہ کس لیے ہے، جائز نہیں ہو گا اور پہلا قول زیادہ صحیح ہے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْوَصَايَا/حدیث: Q2756-2]
حدیث نمبر: 2756
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلَامٍ، أَخْبَرَنَا مَخْلَدُ بْنُ يَزِيدَ، أَخْبَرَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي يَعْلَى، أَنَّهُ سَمِعَ عِكْرِمَةَ، يَقُولُ: أَنْبَأَنَا ابْنُ عَبَّاسٍرَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، أَنَّ سَعْدَ بْنَ عُبَادَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ تُوُفِّيَتْ أُمُّهُ وَهُوَ غَائِبٌ عَنْهَا، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ أُمِّي تُوُفِّيَتْ وَأَنَا غَائِبٌ عَنْهَا، أَيَنْفَعُهَا شَيْءٌ إِنْ تَصَدَّقْتُ بِهِ عَنْهَا؟ قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: فَإِنِّي أُشْهِدُكَ أَنَّ حَائِطِيَ الْمِخْرَافَ صَدَقَةٌ عَلَيْهَا".
ہم سے محمد بن سلام نے بیان کیا، کہا ہم کو مخلد بن یزید نے خبر دی، انہیں ابن جریج نے خبر دی، کہا کہ مجھے یعلیٰ بن مسلم نے خبر دی، انہوں نے عکرمہ سے سنا، وہ بیان کرتے تھے کہ ہمیں ابن عباس رضی اللہ عنہما نے خبر دی کہ سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ کی ماں عمرہ بنت مسعود کا انتقال ہوا تو وہ ان کی خدمت میں موجود نہیں تھے۔ انہوں نے آ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا یا رسول اللہ! میری والدہ کا جب انتقال ہوا تو میں ان کی خدمت میں حاضر نہیں تھا۔ کیا اگر میں کوئی چیز صدقہ کروں تو اس سے انہیں فائدہ پہنچ سکتا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اثبات میں جواب دیا تو انہوں نے کہا کہ میں آپ کو گواہ بناتا ہوں کہ میرا مخراف نامی باغ ان کی طرف سے صدقہ ہے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْوَصَايَا/حدیث: 2756]
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة

   صحيح البخاريأشهدك أن حائطي المخراف صدقة عليها
   صحيح البخاريأشهدك أن حائطي المخراف صدقة عليها
   صحيح البخاريأمه توفيت أينفعها إن تصدقت عنها قال نعم قال فإن لي مخرافا وأشهدك أني قد تصدقت به عنها
   جامع الترمذيأمي توفيت أفينفعها إن تصدقت عنها قال نعم قال فإن لي مخرفا فأشهدك أني قد تصدقت به عنها
   سنن أبي داودأمي توفيت أفينفعها إن تصدقت عنها فقال نعم قال فإن لي مخرفا وإني أشهدك أني قد تصدقت به عنها
   سنن النسائى الصغرىأفأتصدق عنها قال نعم
   سنن النسائى الصغرىأفينفعها إن تصدقت عنها قال نعم

صحیح بخاری کی حدیث نمبر 2756 کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2756  
حدیث حاشیہ:
حضرت سعد بن عبادہ ؓ غزوہ دومۃ الجندل میں آنحضرت ﷺ کے ساتھ گئے ہوئے تھے‘ پیچھے سے ان کی محترمہ والدہ کا انتقال ہوگیا۔
مخراف اس باغ کا نام تھا یا اس کے معنی بہت میوہ دار کے ہیں۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2756   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2756  
حدیث حاشیہ:
(1)
حضرت سعد ؓ کی والدہ کا نام عمرہ بنت مسعود تھا۔
ان کی وفات کے وقت حضرت سعد ؓ رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ غزوۂ دومۃ الجندل میں شریک تھے۔
جب جنگ سے واپس آئے تو رسول اللہ ﷺ نے ان کی قبر پر جا کر نماز جنازہ ادا کی۔
(2)
حضرت ابن عباس ؓ اس وقت اپنے والد گرامی حضرت عباس ؓ کے ہمراہ مکہ مکرمہ میں تھے۔
ایسا معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے یہ واقعہ حضرت سعد ؓ سے سنا ہو گا جیسا کہ بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے۔
(3)
حضرت سعد ؓ نے اپنی والدہ کی طرف سے باغ صدقہ کیا تھا۔
میت کی طرف سے صدقہ کرنا جائز ہے۔
اس سے میت کو نفع پہنچتا ہے۔
(4)
مخراف، حضرت سعد ؓ کے باغ کا نام ہے جو زیادہ پھل دینے کی وجہ سے رکھا گیا تھا۔
(فتح الباري: 472/5۔
473)

   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2756   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2882  
´وصیت کئے بغیر مر جائے تو اس کی طرف سے صدقہ دینا کیسا ہے؟`
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ایک شخص (سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ) نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا: اللہ کے رسول! میری ماں کا انتقال ہو گیا ہے، کیا اگر میں ان کی طرف سے خیرات کروں تو انہیں فائدہ پہنچے گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں (پہنچے گا)، اس نے کہا: میرے پاس کھجوروں کا ایک باغ ہے، میں آپ کو گواہ بنا کر کہتا ہوں کہ میں نے اسے اپنی ماں کی طرف سے صدقہ کر دیا۔ [سنن ابي داود/كتاب الوصايا /حدیث: 2882]
فوائد ومسائل:
ایصال ثواب کی یہی صورتیں جائز اور مشروع ہیں۔
کے اولاد اپنے مرحوم والدین کےلئے دعایئں کرتی رہے اور اس کی طرف س مال خرچ کرے۔
خواہ انہوں نے اس کی طرف سے وصیت نہ بھی کی ہو۔
حج کرنا بھی انہی اعمال میں شامل ہے۔
جیسے کہ گزشتہ حدیث 2877 میں گزرا ہے۔
(مذید تفصیل کےلئے ملاحظہ ہو، حافظ صلاح الدین یوسف کا کتابچہ ایصال ثواب اور قرآن خوانی شائع کردہ، دارالسلام)
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2882   

  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 669  
´میت کی طرف سے صدقہ کرنے کا بیان۔`
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ ایک شخص نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میری والدہ فوت ہو چکی ہیں، اگر میں ان کی طرف سے صدقہ کروں تو کیا یہ ان کے لیے مفید ہو گا؟ آپ نے فرمایا: ہاں، اس نے عرض کیا: میرا ایک باغ ہے، آپ گواہ رہئیے کہ میں نے اسے والدہ کی طرف سے صدقہ میں دے دیا۔ [سنن ترمذي/كتاب الزكاة/حدیث: 669]
اردو حاشہ:
1؎:
ان دونوں کے سلسلہ میں اہل سنت و الجماعت میں کوئی اختلاف نہیں،
اختلاف صرف بدنی عبادتوں کے سلسلہ میں ہے جیسے صوم و صلاۃ اور قرأت قرآن وغیرہ عبادتیں۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 669   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2762  
2762. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ حضرت سعد بن عبادہ ؓ جو قبیلہ بنو ساعدہ سے ہیں، ان کی والدہ کاانتقال ہوگیا جبکہ وہ گھر سے باہر تھے۔ وہ نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا: اللہ کے رسول ﷺ!میری والدہ کاانتقال ہوگیا ہے اور میں اس وقت موجود نہیں تھا تو کیا اب اگر میں اس کی طرف سے کوئی چیز صدقہ کروں تو اس کو فائدہ ہوگا؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ہاں۔ حضرت سعد ؓ نے عرض کیا: میں آپ کو گواہ بناتا ہوں کہ میرا باغ مخراف اس کی طرف سے صدقہ ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2762]
حدیث حاشیہ:
لفظ مخراف کے بارے میں حافظ صاحب ؒ فرماتے ہیں:
قوله المخراف بکسر أوله وسکون المعجمة وآخرہ فاء أي المکان المثمر سمي بذلك لما یخرف منه أي یجنی من الثمرة تقول شجرة مخراف و مثمار قاله الخطابي ووقع في روایة عبدالرزاق المخرف بغیر ألف وھو اسم الحائط المذکور و الحائط البستان (فتح)
یعنی مخراف پھل دار درخت کوکہتے ہیں‘ اس باغ کانام ہی مخراف ہوگیا تھا۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2762   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2770  
2770. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے رسول اللہ ﷺ سے کہا: ان کی والدہ فوت ہو چکی ہیں۔ اگر میں ان کی طرف سے صدقہ کروں تو کیا ان کو نفع دے گا؟آپ نے فرمایا: ہاں (فائدہ پہنچے گا)۔ اس نے عرض کیا: میرا ایک پھل دار باغ ہے، میں آپ کو گواہ بناتا ہوں کہ میں نے ان کی طرف سے وہ صدقہ کر دیا ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2770]
حدیث حاشیہ:
یہاں بھی اس باغ کی حدود کو بیان نہیں کیا گیا۔
اس سے مقصد باب ثابت ہوا۔
یہ بھی ثابت ہوا کہ ایصال ثواب کیلئے کنواں یا کوئی باغ وقف کردینا بہترین صدقہ جاریہ ہے کہ مخلوق اس سے فائدہ حاصل کرتی رہے گی اور جس کیلئے بنایا گیا اس کو ثواب ملتا رہے گا۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2770   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2762  
2762. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ حضرت سعد بن عبادہ ؓ جو قبیلہ بنو ساعدہ سے ہیں، ان کی والدہ کاانتقال ہوگیا جبکہ وہ گھر سے باہر تھے۔ وہ نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا: اللہ کے رسول ﷺ!میری والدہ کاانتقال ہوگیا ہے اور میں اس وقت موجود نہیں تھا تو کیا اب اگر میں اس کی طرف سے کوئی چیز صدقہ کروں تو اس کو فائدہ ہوگا؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ہاں۔ حضرت سعد ؓ نے عرض کیا: میں آپ کو گواہ بناتا ہوں کہ میرا باغ مخراف اس کی طرف سے صدقہ ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2762]
حدیث حاشیہ:
(1)
جب اس حدیث سے صدقے پر گواہ بنانا ثابت ہو گیا تو وقف اور وصیت کو اس پر قیاس کر کے ان کے لیے بھی گواہ بنانا ثابت ہو جائے گا۔
حافظ ابن حجر ؒ کہتے ہیں:
حدیث میں رسول اللہ ﷺ کو اس کی اطلاع دینے کے لیے بھی یہ لفظ استعمال ہو سکتا ہے۔
ممکن ہے کہ معروف گواہی مراد نہ ہو۔
لیکن جب خریدوفروخت میں گواہ بنانا قرآن سے ثابت ہے، حالانکہ اس میں معاوضہ ہوتا ہے تو وقف اور وصیت میں تو بالاولیٰ گواہ بنانا درست ہو گا۔
(2)
شارح بخاری ابن منیر ؒ کہتے ہیں:
امام بخاری ؒ نے اس عنوان سے ایک وہم دور کیا ہے، وہ یہ کہ جب وقف وغیرہ نیکی کے اعمال سے ہے تو اسے لوگوں سے مخفی رکھنا چاہیے۔
امام بخاری ؒ نے وضاحت کر دی ہے کہ اس کا ظاہر کرنا جائز ہے تاکہ کل کو اس کے متعلق کوئی وارث جھگڑا یا اختلاف نہ کرے۔
(فتح الباري: 478/5)
ابن بطال ؒنے کہا ہے:
وقف میں گواہ بنانا واجب ہے، اس کے بغیر وقف درست نہیں ہو گا۔
(عمدة القاري: 45/10)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2762   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2770  
2770. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے رسول اللہ ﷺ سے کہا: ان کی والدہ فوت ہو چکی ہیں۔ اگر میں ان کی طرف سے صدقہ کروں تو کیا ان کو نفع دے گا؟آپ نے فرمایا: ہاں (فائدہ پہنچے گا)۔ اس نے عرض کیا: میرا ایک پھل دار باغ ہے، میں آپ کو گواہ بناتا ہوں کہ میں نے ان کی طرف سے وہ صدقہ کر دیا ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2770]
حدیث حاشیہ:
(1)
ایک دوسری روایت کے مطابق اس آدمی کا نام حضرت سعد بن عبادہ ؓ تھا۔
انہوں نے اپنا ایک پھل دار باغ اپنی والدہ کی طرف سے صدقہ کیا تھا۔
چونکہ وقف اور صدقہ ایک دوسرے کے بہت قریب ہیں، اس لیے دونوں کا حکم ایک ہے۔
(2)
مخراف اسم جنس ہے۔
اس کی تحدید ضروری تھی لیکن اس کی تحدید صدقہ کرنے والے کی طرف نسبت کرنے سے ہو گئی کیونکہ اس کے پاس صرف یہی باغ تھا جو ممتاز و متعین تھا۔
(3)
یہ بھی ثابت ہوا کہ ایصال ثواب کے لیے کنواں یا باغ وقف کر دینا بہترین صدقہ جاریہ ہے۔
جب تک مخلوق ان سے فائدہ حاصل کرتی رہے گی مرنے والے کو ثواب ملتا رہے گا۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2770