مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2696
2696. حضرت ابوہریرہ ؓ اور حضرت زید بن خالد جہنی ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: ایک دیہاتی آیا اور عرض کرنے لگا: اللہ کے رسول ﷺ! ہمارے درمیان کتاب اللہ کے مطابق فیصلہ فرمادیجئے!اس کا مخالف کھڑا ہوا اور کہنے لگا: اس نے سچ کہا ہے، ہمارے درمیان کتاب اللہ کے مطابق فیصلہ کردیں۔ دیہاتی نے کہا: میرا بیٹا اسکے ہاں نوکرى تھا۔ اس نے اس کی بیوی سے زنا کیا ہے۔ لوگوں نے کہا: تیرے بیٹے کو رجم کیا جائے گا لیکن میں نے ا پنے بیٹے کے اس جرم کے عوض سو بکریاں اور ایک لونڈی دے کر صلح کرلی۔ پھر میں نے اہل علم سے پوچھا تو انھوں نے کہا: تیرے بیٹے کے لیے سو کوڑے اور ایک سال کی جلاوطنی ضروری ہے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ”میں تمہارے درمیان کتاب اللہ کے مطابق فیصلہ کرتا ہوں۔ لونڈی اور بکریاں تجھے واپس کی جاتی ہیں اور تیرے بیٹے پر سو کوڑے اور ایک سال کے لیےجلاوطن لازم ہے۔“ پھر ایک آدمی سے فرمایا: ”اے انیس! اس شخص کی بیوی کے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:2696]
حدیث حاشیہ:
گویا بیوی کے خاوند سے سوبکریاں اور ایک لونڈی دے کر صلح کرلی۔
باب کا مطلب اس سے نکلتا ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا، تیری بکریاں اور لونڈی تجھ کو واپس ملیں گی، کیوں کہ یہ ناجائز اور خلاف شرع صلح تھی۔
ابن دقیق العید ؒ نے کہا، اس حدیث سے یہ نکلا کہ معاوضہ ناجائز کے بدل جو چیز لی جائے اس کا پھیردینا واجب ہے، لینے والا اس کا مالک نہیں ہوتا۔
روایت میں اہل علم سے مراد وہ صحابہ ہیں جو آنحضرت ﷺ کی زندگی میں فتویٰ دیاکرتے تھے۔
جیسے خلفائے اربعہ، معاذ بن جبل، ابی بن کعب، زید بن ثابت اور عبدالرحمن بن عوف (رضی اللہ عنهم)
یہ بھی معلوم ہوا کہ جو مسئلہ معلوم نہ ہو اہل علم سے اس کی تحقیق کرلینا ضروری ہے اور یہ تحقیق کتاب و سنت کی روشنی میں ہونی چاہئے نہ کہ محض تقلید کے اندھیرے میں ٹھوکریں کھائی جائیں۔
آیت ﴿فَاسْأَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ إِنْ كُنْتُمْ لَا تَعْلَمُونَ﴾ (النحل: 43)
کا یہی مطلب ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2696
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6843
6843 [صحيح بخاري، حديث نمبر:6843]
حدیث حاشیہ:
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے انیس کو بھیج کر اس عورت کا حال معلوم کرایا۔
یہی باب سے مطابقت ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6843
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7194
7194. سیدنا ابو ہریرہ اور سیدنا زید بن خالد جہینی ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: ایک اعرابی آیا اور اس نے عرض کی: اللہ کے رسول! ہمارے درمیان اللہ کی کتاب کے مطابق فیصلہ فرما دیں پگر دوسرا فریق کھڑا ہوا اور ا س نے بھی کہا: وہ صحیح کہتے ہیں واقعی ہمارے درمیان کتاب اللہ کے مطابق فیصلہ کردیں۔ پھر دیہاتی نے کہا: میرا بیٹا اس شخص کے ہاں مزدور تھا اور اس نے اس کی بیوی سے زنا کرلیا تو مجھے لوگوں نے کہا: تیرے بیٹے پر رجم ہے، لیکن میں نے اپنے لڑکے کی طرف سے سو بکریوں اور ایک لونڈی کا فدیہ دے دیا۔ پھر میں نے اہل علم سے رابطہ کیا تو انہوں نے کہا: تیرے بیٹے کو سو کوڑے مارے جائیں گے اور ایک سال کے لیے جلاوطنی ہوگی۔ نبی ﷺ نے فرمایا: ”میں تمہارے درمیان اللہ کی کتاب کے مطابق فیصلہ کرتا ہوں۔ لونڈی اور بکریاں تو تمہیں واپس ملیں گی اور تیرے بیٹے کی سزا سو کوڑے اور ایک سال کے لیے جلا وطن ہونا ہے۔ اور۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:7194]
حدیث حاشیہ:
تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے انیس کو اپنا نائب بنا کر بھیجا تھا اور انیس کے سامنے اس کے اقرار کا وہی حکم ہوا جیسے وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اقرار کرتی اگر انیس گواہ بنا کر بھیجے گئے ہوتے تو ایک شخص کی گواہی پر اقرار کیسے ثابت ہو سکتا ہے۔
حافظ نے کہا امام بخاری رضی اللہ عنہ نے یہ باب لا کر امام محمد کے اختلاف کی طرف اشارہ کیا۔
ان کا مذہب یہ ہے کہ قاضی کسی شخص کے اقرار کر کوئی حکم نہیں دے سکتا‘ جب تک دو عادل شخصوں کو جو قاضی کی مجلس میں رہا کرتے ہیں اس کے اقرار پر گواہ نہ بنا دے اور جب وہ دونوں اس کے اقرار پر گواہی دیں تب قاضی ان کی شہادت کی بنا پر حکم دے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 7194
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2696
2696. حضرت ابوہریرہ ؓ اور حضرت زید بن خالد جہنی ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: ایک دیہاتی آیا اور عرض کرنے لگا: اللہ کے رسول ﷺ! ہمارے درمیان کتاب اللہ کے مطابق فیصلہ فرمادیجئے!اس کا مخالف کھڑا ہوا اور کہنے لگا: اس نے سچ کہا ہے، ہمارے درمیان کتاب اللہ کے مطابق فیصلہ کردیں۔ دیہاتی نے کہا: میرا بیٹا اسکے ہاں نوکرى تھا۔ اس نے اس کی بیوی سے زنا کیا ہے۔ لوگوں نے کہا: تیرے بیٹے کو رجم کیا جائے گا لیکن میں نے ا پنے بیٹے کے اس جرم کے عوض سو بکریاں اور ایک لونڈی دے کر صلح کرلی۔ پھر میں نے اہل علم سے پوچھا تو انھوں نے کہا: تیرے بیٹے کے لیے سو کوڑے اور ایک سال کی جلاوطنی ضروری ہے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ”میں تمہارے درمیان کتاب اللہ کے مطابق فیصلہ کرتا ہوں۔ لونڈی اور بکریاں تجھے واپس کی جاتی ہیں اور تیرے بیٹے پر سو کوڑے اور ایک سال کے لیےجلاوطن لازم ہے۔“ پھر ایک آدمی سے فرمایا: ”اے انیس! اس شخص کی بیوی کے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:2696]
حدیث حاشیہ:
(1)
بدکاری کرنے والے لڑکے کے باپ نے عورت کے خاوند سے سو بکریاں اور ایک لونڈی دے کر صلح کر لی۔
چونکہ یہ صلح ناجائز اور خلاف شریعت تھی اس لیے اسے کالعدم قرار دیا گیا اور بکریاں اور لونڈی اسے واپس کی گئیں۔
مزدور پر شرعی حد لگنی چاہیے تھی لیکن ایسا نہیں کیا گیا۔
شریعت کی نظر میں یہ صلح ظلم پر مبنی تھی، اس لیے عمل میں نہیں لائی گئی۔
(2)
رسول اللہ ﷺ نے جس آدمی کو عورت پر حد جاری کرنے کے لیے روانہ کیا وہ اسی عورت کے قبیلے سے تھا۔
اگر کسی اور کو روانہ کیا جاتا تو شاید اہل قبیلہ اس فیصلے کو نہ مانتے۔
(3)
اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ مسائل و احکام میں اہل علم سے رابطہ کرنا ضروری ہے اور تحقیق بھی کتاب و سنت کی روشنی میں ہونی چاہیے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2696
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6828
6828 [صحيح بخاري، حديث نمبر:6828]
حدیث حاشیہ:
(1)
جس لڑکے کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سو کوڑے لگانے اور جلاوطن کرنے کا فیصلہ فرمایا وہ اپنے والد کے ہمراہ وہاں موجود تھا، چنانچہ والد نے کہا کہ میرے اس بیٹے نے اس کی بیوی سے زنا کیا ہے اور والد کے کلام کرتے وقت اس کا خاموش رہنا اپنے جرم کا اعتراف کرنا تھا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کے غیر شادی شدہ ہونے کا بھی علم تھا کیونکہ بعض روایات میں ہے کہ اس کے والد نے اس کے متعلق وضاحت کی تھی کہ وہ شادی شدہ نہیں ہے۔
(2)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبیلۂ اسلم کے ایک شخص کو اس عورت کے پاس بھیجا کیونکہ اس آدمی نے اس عورت پر زنا کی تہمت لگائی تھی، لہٰذا اسے حق پہنچتا ہے کہ تہمت لگانے والے پر حد کا مطالبہ کرے یا اسے معاف کردے یا زنا کا اعتراف کرے۔
(3)
اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ حد زنا کے لیے مطلق اقرار کافی ہے، اس کے لیے تکرار کی ضرورت نہیں ہے۔
(فتح الباري: 172/12)
اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ پردہ دار خاتون جو باہر نکلنے کی عادی نہیں اسے حاکم کی مجلس میں حاضر ہونے کی تکلیف نہ دی جائے بلکہ اس کے پاس کوئی آدمی بھیج دیا جائے جو حالات کا جائزہ لے کر کوئی فیصلہ کرے۔
واللہ أعلم
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6828
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6836
6836. حضرت ابو ہریرہ ؓ اور حضرت زید بن خالد ؓ سے روایت ہے کہ ایک دیہاتی نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا جبکہ آپ بیٹھے ہوئے تھے۔ اس نے عرض کی: اللہ کے رسول! (ہمارے درمیان) اللہ کی کتاب کے مطابق فیصلہ کریں اس کا مخالف کھڑا ہوا اور کہنے لگا: اللہ کے رسول! اس نے صحیح کہا ہے۔ اس کا کتاب اللہ کے مطابق فیصلہ کریں۔ بات یہ ہے کہ میرا لڑکا اس کے ملازم تھا اور اس نے اس کی بیوی سے زنا کرلیا ہے۔ لوگوں نے مجھے بتایا کہ میرے بیٹے کو رجم کیا جائے گا، چنانچہ میں نے اس سزا کے بدلے سو بکریاں اور ایک لونڈی کا فدیہ دیا۔ پھر اس نے اہل علم سے رابطہ کیا تو انہوں نے اس خیال کا اظہار کیا کہ میرے لڑکے پر سو کوڑے اور ایک سال کی جلاوطنی لازمی ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: مجھے اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! میں تم دونوں کا فیصلہ کتاب اللہ کے مطابق کروں گا۔ بکریاں اور کنیز تجھے واپس ملیں گی اور۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:6836]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس حدیث میں اختصار ہے کیونکہ دوسری روایات میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت اُنیس رضی اللہ عنہ کو بھیجا اور فرمایا:
”اگر وہ عورت اپنے جرم کا اقرار کرے تو اسے سنگسار کر دو، چنانچہ اس نےاقبال جرم کر لیا، پھر اسےرجم کر دیا گیا۔
(صحیح البخاري، الحدود، حدیث: 6827، 6828)
حضرت انیس رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عدم موجودگی میں اسے سنگسار کیا۔
(2)
امام بخاری رحمہ اللہ کا مقصد یہ ہے کہ امام کا خود سزا دینا یا سزا کے وقت اس کا موجود ہونا ضروری نہیں بلکہ اگر وہ کسی کو حکم دے اور وہ امام کی عدم موجودگی میں حد لگائے تو جائز ہے۔
واللہ أعلم
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6836
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6843
6843 [صحيح بخاري، حديث نمبر:6843]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس حدیث میں دوسرے کی عورت پر زنا کی تہمت لگانے کا ذکر ہے اور اپنی عورت پر تہمت لگانے کا مسئلہ اس طرح ثابت ہوا کہ گفتگو کے وقت اس عورت کا خاوند بھی موجود تھا، اس نے اس واقعے کا انکار نہیں کیا، گویا وہ بھی اس تہمت میں شریک تھا۔
(2)
بہرحال اگر کوئی خود اقرارِ جرم کرتا ہے تو فریق ثانی سے معلومات لینے میں کوئی حرج نہیں، چنانچہ حدیث میں ہے کہ ایک آدمی نے کسی عورت سے زنا کا اقرار کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے سو کوڑوں کی سزا دی، پھر جب عورت سے پوچھا تو اس نے کہا:
یہ جھوٹ کہتا ہے۔
اس نے اعتراف جرم سے صاف انکار کر دیا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آدمی کو حد قذف کے طور پر اسی کوڑے مارنے کی سزا دی۔
(سنن أبي داود، الحدود، حدیث: 4467)
اسی طرح ایک عورت نے زنا کا اعتراف کیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت کیا، کس نے تیرے ساتھ زنا کیا تھا؟ اس نے بتلایا کہ فلاں معذور نے جو حضرت سعد رضی اللہ عنہ کی حویلی میں رہتا ہے۔
آپ نے اس کی طرف ایک آدمی بھیجا اور اسے اٹھا کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لایا گیا۔
اس نے اقرار کر لیا تو آپ نے اس کے بڑھاپےاور معذوری پر ترس کھاتے ہوئے اسے کھجور کی سو شاخہ چھڑی سے سزا دی۔
(سنن النسائي، آداب القضاء، حدیث: 5414)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6843
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6860
6860 [صحيح بخاري، حديث نمبر:6860]
حدیث حاشیہ:
اس طرح کا ایک عنوان (34)
پہلے بھی گزر چکا ہے۔
ابن بطال نے اس پر اعتراض کیا ہے کہ اس تکرار کی ضرورت نہیں لیکن ان میں کچھ فرق ہے۔
پہلے عنوان کا تقاضا ہے کہ حاکم وقت جسے سنگسار کا حکم دے، یعنی مامور اس سے غائب ہو اور دوسرے عنوان کا مطلب ہے کہ جسے سنگسار کرنا ہے وہ حاکم وقت سے غائب دور ہو۔
اگر چہ دونوں کا نتیجہ ایک ہے، تاہم کچھ فرق ضرور ہے۔
(فتح الباري: 198/12)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6860
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7194
7194. سیدنا ابو ہریرہ اور سیدنا زید بن خالد جہینی ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: ایک اعرابی آیا اور اس نے عرض کی: اللہ کے رسول! ہمارے درمیان اللہ کی کتاب کے مطابق فیصلہ فرما دیں پگر دوسرا فریق کھڑا ہوا اور ا س نے بھی کہا: وہ صحیح کہتے ہیں واقعی ہمارے درمیان کتاب اللہ کے مطابق فیصلہ کردیں۔ پھر دیہاتی نے کہا: میرا بیٹا اس شخص کے ہاں مزدور تھا اور اس نے اس کی بیوی سے زنا کرلیا تو مجھے لوگوں نے کہا: تیرے بیٹے پر رجم ہے، لیکن میں نے اپنے لڑکے کی طرف سے سو بکریوں اور ایک لونڈی کا فدیہ دے دیا۔ پھر میں نے اہل علم سے رابطہ کیا تو انہوں نے کہا: تیرے بیٹے کو سو کوڑے مارے جائیں گے اور ایک سال کے لیے جلاوطنی ہوگی۔ نبی ﷺ نے فرمایا: ”میں تمہارے درمیان اللہ کی کتاب کے مطابق فیصلہ کرتا ہوں۔ لونڈی اور بکریاں تو تمہیں واپس ملیں گی اور تیرے بیٹے کی سزا سو کوڑے اور ایک سال کے لیے جلا وطن ہونا ہے۔ اور۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:7194]
حدیث حاشیہ:
1۔
عربوں کے ہاں یہ دستور تھا کہ فوجداری معاملات میں اپنے قبیلے کے علاوہ کسی دوسرے شخص کی بات سننا گوارا نہ کرتے تھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی دستور کے مطابق حضرت انیس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا انتخاب کیا کیونکہ وہ عورت کے قبیلہ اسلم کے ایک معزز فرد تھے اگرچہ عورت کے خاوند کی موجودگی میں بد کاری کے متعلق بات ہوئی تھی تاہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مزید تحقیق کرنے اور حالات کا جائزہ لینے کے لیے ایک ذمہ دار فرد روانہ کیا اور اسے ہدایت دی کہ اگر وہ اپنے جرم کا اعتراف کرے تو اسے رجم کر دینا چنانچہ اس کے اعتراف کے نتیجے میں اسے رجم کردیا گیا۔
2۔
امام بخاری نے اس حدیث سے ثابت کیا ہے کہ حاکم وقت کسی بھی معاملے کی تحقیق و تفتیش کے لیے کسی بھی شخص کو روانہ کر سکتا ہے خود اس کا اپنا جانا ضروری نہیں۔
واللہ أعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7194
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7279
7279. سیدنا ابو ہریرہ اور سیدنا زید بن خالد ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: ہم نبی ﷺ کی خدمت میں موجود تھے کہ آپ نے فرمایا: ”میں تمہارے درمیان کتاب اللہ کے مطابق فیصلہ کروں گا۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7279]
حدیث حاشیہ:
1۔
اس حدیث سے بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت زید بن خالد رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو خطاب کیا ہے، حالانکہ ایسا نہیں ہے بلکہ ایک مزدور کے والد اور جس نے اسے مزدوری پر رکھا تھا ان دونوں کو خطاب فرمایا ہے۔
اس مزدور نے مالک کی بیوی سے زنا کر لیا تو اس کے والد نے سو بکریاں اور ایک لونڈی فدیہ دے کر مالک سے صلح کرلی۔
جب مقدمہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گیا توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”میں تمہارے درمیان اللہ کی کتاب کے مطابق فیصلہ کروں گا کہ بکریاں اورلونڈی تمھیں واپس ہوں گی اور تیرے بیٹے کو سو کوڑے لگیں گے اور ایک سال اسے جلا وطن رہناہوگا۔
“ یہ ایک طویل حدیث ہے۔
(صحیح البخاري، الصلح، حدیث: 2695۔
2696)
2۔
کتاب اللہ سے مراد صرف قرآن کریم نہیں بلک قرآن وسنت دونوں ہیں۔
عنوان کا مدعا بھی یہی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتوں کو عمل میں لایا جائے۔
اس حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ بیان ہوا ہے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7279