ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، کہا ہم سے لیث نے بیان، ان سے ابن شہاب نے، ان سے عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ بن مسعود نے اور ان سے ابوہریرہ اور زید بن خالد جہنی رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ ایک دیہاتی صحابی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہا کہ یا رسول اللہ! میں آپ سے اللہ کا واسطہ دے کر کہتا ہوں کہ آپ میرا فیصلہ کتاب اللہ سے کر دیں۔ دوسرے فریق نے جو اس سے زیادہ سمجھ دار تھا، کہا کہ جی ہاں! کتاب اللہ سے ہی ہمارا فیصلہ فرمائیے، اور مجھے (اپنا مقدمہ پیش کرنے کی) اجازت دیجئیے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پیش کر۔ اس نے بیان کرنا شروع کیا کہ میرا بیٹا ان صاحب کے یہاں مزدور تھا۔ پھر اس نے ان کی بیوی سے زنا کر لیا، جب مجھے معلوم ہوا کہ (زنا کی سزا میں) میرا لڑکا رجم کر دیا جائے گا تو میں نے اس کے بدلے میں سو بکریاں اور ایک باندی دی، پھر علم والوں سے اس کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ میرے لڑکے کو (زنا کی سزا میں کیونکہ وہ غیر شادی شدہ تھا) سو کوڑے لگائے جائیں گے اور ایک سال کے لیے شہر بدر کر دیا جائے گا۔ البتہ اس کی بیوی رجم کر دی جائے گی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”اس ذات کی قسم! جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، میں تمہارا فیصلہ کتاب اللہ ہی سے کروں گا۔ باندی اور بکریاں تمہیں واپس ملیں گی اور تمہارے بیٹے کو سو کوڑے لگائے جائیں گے اور ایک سال کے لیے جلا وطن کیا جائے گا۔ اچھا انیس! تم اس عورت کے یہاں جاؤ، اگر وہ بھی (زنا کا) اقرار کر لے، تو اسے رجم کر دو (کیونکہ وہ شادی شدہ تھی) بیان کیا کہ انیس رضی اللہ عنہ اس عورت کے یہاں گئے اور اس نے اقرار کر لیا، اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے وہ رجم کی گئی۔“[صحيح البخاري/كِتَاب الشُّرُوطِ/حدیث: 2724]
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2724
حدیث حاشیہ: سو بکریاں اور ایک لونڈی اس کی طرف سے فدیہ دے کر اس کو چھڑالیا، ترجمہ باب یہیں سے نکلتا ہے کیوں کہ اس نے زنا کی حد کے بدلے یہ شرط کی سوبکریاں اور ایک لونڈی اس کی طرف سے دوں گا۔ آنحضرت ﷺ نے اس کو باطل اور لغو قرار دیا۔ حدود اللہ کے حقوق میں سے ہیں۔ جوبندوں کی باہمی صلح سے ٹالی نہیں جاسکتی۔ جب بھی کوئی ایسا جرم ثابت ہوگا حد ضرور جاری کی جائے گی۔ البتہ جو سزائیں انسانی حقوق کی وجہ سے دی جاتی ہیں ان میں باہمی صلح کی صورتیں نکالی جاسکتی ہیں۔ زانیہ عورت کے لیے چار گواہوں کا ہونا ضروری ہے جو چشم دید بیان دیں، یا عورت و مرد خود اقرار کرلیں۔ یہ بھی یاد رہے کہ حدود کا قائم کرنا اسلامی شرعی اسٹیٹ کا کام ہے۔ جہاں قوانین اسلامی کا اجراءمسلم ہو۔ اگر کوئی اسٹیٹ اسلامی ہونے کے دعویٰ کے ساتھ حدود اللہ کو قائم نہیں کرتی تو وہ عنداللہ سخت مجرم ہے۔ زانی مرد غیرشادی شدہ کی حدود ہے جو یہاں مذکور ہوئی۔ رجم کے لیے آخرمیں خلیفہ وقت کا حکم ضروری ہوگا۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2724
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2724
حدیث حاشیہ: (1) اس حدیث کو امام بخاری ؒ نے کتاب الصلح میں بھی بیان کیا ہے۔ وہاں مقصود یہ تھا کہ وہ صلح جو حدود اللہ کے خلاف کی جائے، باطل ہے۔ اس مقام پر امام بخاری ؒ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ ہر وہ شرط جس سے حدود اللہ کو ختم کرنا مقصود ہو، وہ بھی باطل ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے اس قسم کی شرط کو کالعدم قرار دیا ہے کیونکہ حدود، اللہ کا حق ہے جسے بندوں کی باہمی صلح سے ختم نہیں کیا جا سکتا، البتہ جو سزائیں انسانی حقوق کی وجہ سے دی جاتی ہیں ان میں باہمی صلح ہو سکتی ہے جیسا کہ حضرت ربیع بنت نضر ؓ کا واقعہ پہلے بیان ہوا ہے جب انہوں نے ایک جوان عورت کا اگلا دانت توڑ دیا تھا تو دیت دے کر قصاص سے معافی مل گئی۔ (2) واضح رہے کہ حدود کا نفاذ اسلامی حکومت کا کام ہے، کوئی آدمی ازخود انہیں قائم نہیں کر سکتا۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2724