6. باب: راہن اور مرتہن میں اگر کسی بات پر اختلاف ہو جائے یا ان کی طرح دوسرے لوگوں میں تو گواہی پیش کرنا مدعی کے ذمہ ہے، ورنہ (منکر) مدعیٰ علیہ سے قسم لی جائے گی۔
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، کہا ہم سے جریر نے بیان کیا، ان سے منصور نے، ان سے ابووائل نے کہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا کہ جو شخص جان بوجھ کر اس نیت سے جھوٹی قسم کھائے کہ اس طرح دوسرے کے مال پر اپنی ملکیت جمائے تو وہ اللہ تعالیٰ سے اس حال میں ملے گا کہ اللہ تعالیٰ اس پر غضبناک ہو گا۔ اس ارشاد کی تصدیق میں اللہ تعالیٰ نے (سورۃ آل عمران میں) یہ آیت نازل فرمائی «إن الذين يشترون بعهد الله وأيمانهم ثمنا قليلا»”وہ لوگ جو اللہ کے عہد اور اپنی قسموں کے ذریعہ دنیا کی تھوڑی پونجی خریدتے ہیں“ آخر آیت تک انہوں نے تلاوت کی۔ ابووائل نے کہا اس کے بعد اشعث بن قیس رضی اللہ عنہ ہمارے گھر تشریف لائے اور پوچھا کہ ابوعبدالرحمٰن (ابومسعود رضی اللہ عنہ) نے تم سے کون سی حدیث بیان کی ہے؟ انہوں نے کہا کہ ہم نے حدیث بالا ان کے سامنے پیش کر دی۔ اس پر انہوں نے کہا کہ انہوں نے سچ بیان کیا ہے۔ میرا ایک (یہودی) شخص سے کنویں کے معاملے میں جھگڑا ہوا تھا۔ ہم اپنا جھگڑا لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم اپنے گواہ لاؤ ورنہ دوسرے فریق سے قسم لی جائے گی۔ میں نے عرض کیا پھر یہ تو قسم کھا لے گا اور (جھوٹ بولنے پر) اسے کچھ پرواہ نہ ہو گی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص جان بوجھ کر کسی کا مال ہڑپ کرنے کے لیے جھوٹی قسم کھائے تو اللہ تعالیٰ سے وہ اس حال میں ملے گا کہ وہ اس پر نہایت غضبناک ہو گا۔ اللہ تعالیٰ نے اس کی تصدیق میں یہ آیت نازل کی۔ اس کے بعد انہوں نے وہی آیت پڑھی «إن الذين يشترون بعهد الله وأيمانهم ثمنا قليلا»”جو لوگ اللہ کے عہد اور اپنی قسموں کے ذریعہ تھوڑی پونجی خریدتے ہیں“۔ آیت «ولهم عذاب أليم» تک۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الرَّهْنِ/حدیث: 2516]
من حلف على يمين يستحق بها مالا وهو فيها فاجر لقي الله وهو عليه غضبان أنزل الله تصديق ذلك ثم اقترأ هذه الآية إن الذين يشترون بعهد الله وأيمانهم ثمنا قليلا إلى ولهم عذاب أليم
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2516
حدیث حاشیہ: اس حدیث سے یہ ثابت کرنا مقصود ہے کہ مدعیٰ علیہ اگر جھوٹی قسم کھاکر کسی کا مال ہڑپ کرجائے تو وہ عنداللہ بہت ہی بڑا مجرم گنہگار ملعون قرار پائے گا اگرچہ قانوناً وہ عدالت سے جھوٹی قسم کھاکر ڈگری حاصل کرچکا ہے مگر اللہ کے نزدیک وہ آگ کے انگارے اپنے پیٹ میں داخل کررہا ہے۔ پس مدعیٰ علیہ کا فرض ہے کہ وہ بہت ہی سوچ سمجھ کر قسم کھائے اوردنیاوی عدالت کے فیصلے کو آخری فیصلہ نہ سمجھے کہ اللہ کی عدالت عالیہ کا معاملہ بہت سخت ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2516
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2516
حدیث حاشیہ: (1) اس حدیث کی تشریح گزر چکی ہے۔ ظاہر ہے کہ اگر کوئی جھوٹی قسم اٹھا کر کسی دوسرے کا مال ہڑپ کرنا چاہے گا تو اس پر اللہ تعالیٰ کی لعنت ہی ہو گی۔ اس سے بڑھ کر اور کوئی عذاب نہیں ہے۔ یہ آیت تمام جھوٹے معاملات پر فٹ ہوتی ہے۔ امام بخاری ؒ کا اس حدیث سے یہ مقصد ہے کہ راہن اور مرتہن میں جو مدعی ہو گا وہ ثبوت پیش کرے گا اور انکار کی صورت میں مدعا علیہ سے قسم لی جائے گی۔ مدعی کا یہ کام نہیں کہ وہ اپنے دعوے کو ثابت کرنے کے لیے قسم اٹھائے بلکہ اس کے ذمے ثبوت فراہم کرنا ہے۔ اگر مدعا علیہ کے پاس اس کے دعوے کو جھوٹا کرنے کے لیے کوئی ثبوت نہیں ہے تو وہ قسم اٹھائے گا کہ مجھ پر جھوٹا دعویٰ کیا گیا ہے۔ (2) گروی شدہ زمین میں اختلاف کی صورت یوں ہو گی کہ گروی رکھنے والا کہے: میں نے صرف زمین گروی رکھی ہے جبکہ گروی قبول کرنے والا دعویدار ہو کہ درخت بھی اس میں شامل ہیں۔ اب دعویدار کو اپنے دعوے کے لیے ثبوت دینا ہو گا یا گواہ پیش کرنے ہوں گے، بصورت دیگر گروی رکھنے والے کی بات قسم لے کر تسلیم کر لی جائے گی۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2516
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2323
´جھوٹی قسم کھا کر کسی کا مال ہڑپ کر لینے کی شناعت کا بیان۔` عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص کسی چیز کے لیے قسم کھائے اور وہ اس قسم میں جھوٹا ہو، اور اس کے ذریعہ وہ کسی مسلمان کا مال ہڑپ کر لے، تو اللہ تعالیٰ سے اس حال میں ملے گا کہ اللہ تعالیٰ اس سے ناراض ہو گا۔“[سنن ابن ماجه/كتاب الأحكام/حدیث: 2323]
اردو حاشہ: 1۔ جھوٹی قسم بڑا گناہ ہے خاص طور پر جب کہ مقصد کسی کا مال چھیننا ہو۔ 2۔ غیر مسلم کامال ناجائز طور پر حاصل کرنا بھی جرم ہے لیکن ایک مسلمان دوسرے مسلمان کا مال ناجائز طریقے سے لے لے یہ اور بھی بڑا گناہ اور جرم ہے۔ 3۔ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن بعض گناہوں گاروں پر ناراضی کا اظہار بھی فرمائے گا۔ 4۔ غضب اللہ کی صفت ہے اس پر ایمان رکھنا چاہیے۔ اور اللہ کے غضب سے بچنے کےلیے نیکیاں کرنی چاہییں اور گناہوں سے بچنا چاہیے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2323
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2996
´سورۃ آل عمران سے بعض آیات کی تفسیر۔` عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے کسی امر پر قسم کھائی اور وہ جھوٹا ہو اور قسم اس لیے کھائی تاکہ وہ اس کے ذریعہ کسی مسلمان کا مال ناحق لے لے تو جب وہ (قیامت میں) اللہ سے ملے گا، اس وقت اللہ اس سخت غضبناک ہو گا۔“ اشعث بن قیس رضی الله عنہ کہتے ہیں: قسم اللہ کی! یہ حدیث میرے بارے میں ہے۔ میرے اور ایک یہودی شخص کے درمیان ایک (مشترک) زمین تھی، اس نے اس میں میری حصہ داری کا انکار کر دیا، تو میں اسے لے کر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا:۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[سنن ترمذي/كتاب تفسير القرآن/حدیث: 2996]
اردو حاشہ: وضاحت: 1؎: بے شک جو لوگ اللہ تعالیٰ کے عہد اور اپنی قسموں کو تھوڑی قیمت پر بیچ ڈالتے ہیں، ان کے لیے آخرت میں کوئی حصہ نہیں (آل عمرآن: 77)۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 2996
الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:95
95- سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے: ”جو شخص جھوٹی قسم کے ذریعے کسی مسلمان کا مال ہتھیالے گا، تو جب وہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں حاضر ہوگا، تو اللہ تعالیٰ اس پر غضبناک ہوگا۔“ سیدنا عبداللہ کہتے ہیں: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے مصداق کے طور پر اللہ تعالیٰ کی کتاب کی یہ آیت ہمارے سامنے تلاوت کی۔ ”بے شک جو لوگ اللہ تعالیٰ کے عہد اور اپنی قسموں کو تھوڑی قیمت پر بیچ ڈالتے ہیں“[مسند الحمیدی/حدیث نمبر:95]
فائدہ: اسلام کس قدر مکمل دین ہے کہ اس نے لوگوں کے مال کی حفاظت کے بھی قوانین بنائے ہیں۔ جھوٹی قسم اٹھانا کبیرہ گناہ ہے۔ پھر جھوٹی قسم کے ذریعے لوگوں کا مال حاصل کرنا دوہرا جرم ہے، ایک جھوٹی قسم اٹھانا اور دوسرا ناجائز مال حاصل کرنا۔ افسوس کہ لوگوں کے ذہنوں میں مال کی ہوں اس قدر زیادہ ہو چکی ہے کہ ہر وقت مال اکٹھا کرنے کی حرص میں نظر آتے ہیں۔ اس کو جمع کرنے کی خاطر چوری، ڈاکہ اور دھوکا وغیرہ سے کام لیا جا رہا ہے، اور سود جیسی لعنت میں لوگ ملوث نظر آتے ہیں، حالانکہ یہ تمام ذرائع جہنم کے راستے ہیں، جن کو چھوڑنا فرض ہے، اور رزق حلال تلاش کرنا عبادت ہے۔
مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 96
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2673
2673. حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے، وہ نبی کریم ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ”جو شخص جھوٹی قسم اٹھا کر کسی کا مال ہڑپ کرنا چاہتا ہوتو وہ اللہ سے اس حال میں ملاقات کرے گا کہ اللہ تعالیٰ اس پرغضبناک ہوگا۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:2673]
حدیث حاشیہ: قسم میں تاکید و تغلظ کسی خاص مکان جیسے مسجد وغیرہ یا کسی خاص وقت جیسے عصر یا جمعہ کے دن وغیرہ سے نہیں پیدا ہوئی۔ جہاں عدالت ہے اور قانون شریعت کے اعتبار سے مدعیٰ علہ پر قسم واجب ہوئی ہے، اس سے قسم اسی وقت اور وہیں لی جائے، قسم لینے کے لیے نہ کسی خاص وقت کا انتظار کیاجائے اور نہ کسی مقدس جگہ اسے لے جایا جائے۔ اس لیے کہ مکان وزمان سے اصل قسم میں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ امام بخاری ؒ یہی بتلانا چاہتے ہیں۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2673
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2673
2673. حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے، وہ نبی کریم ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ”جو شخص جھوٹی قسم اٹھا کر کسی کا مال ہڑپ کرنا چاہتا ہوتو وہ اللہ سے اس حال میں ملاقات کرے گا کہ اللہ تعالیٰ اس پرغضبناک ہوگا۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:2673]
حدیث حاشیہ: (1) زمان و مکان کی تخصیص سے اصل قسم میں کوئی فرق نہیں پڑتا، اس لیے جہاں عدالت ہے، اسی جگہ مدعا علیہ سے قسم لے کر فیصلہ کر دیا جائے۔ قسم لینے کے لیے نہ کسی خاص وقت کا انتظار کیا جائے اور نہ کسی مقدس جگہ ہی کا انتخاب کیا جائے، البتہ جمہور اہل علم کا موقف ہے کہ قسم میں شدت پیدا کرنے کے لیے کسی خاص جگہ، مثلاً: مدینہ میں منبر نبوی، مکہ میں رکن اور مقام ابراہیم کے درمیان اور دیگر مقامات میں مسجد کے اندر یا کسی خاص وقت جیسا کہ عصر کے بعد یا جمعے کے دن قسم لینے کا اہتمام کیا جا سکتا ہے۔ امام شافعی ؒ فرماتے ہیں: مصحف پر قسم لینے میں کوئی خرابی نہیں۔ (فتح الباري: 350/5)(2) امام بخاری ؒ نے اس حدیث سے ثابت کیا ہے کہ ایسی پابندی درست نہیں۔ اگر ایسا ہوتا تو رسول اللہ ﷺ حضرت اشعث بن قیس ؓ کے مقدمے میں یہودی سے تورات ہاتھ میں لے کر قسم لینے کا اہتمام کرتے یا ان کے عبادت خانے میں قسم لیتے لیکن آپ نے ایسا نہیں کیا بلکہ اسی مقام پر قسم لے کر معاملہ ختم کر دیا۔ واللہ أعلم
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2673