حسن بصری اور ابوالعالیہ نے اسے مکروہ کہا اور عطاء کہتے ہیں کہ نبیذ اور دودھ سے وضو کرنے کے مقابلے میں مجھے تیمم کرنا زیادہ پسند ہے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْوُضُوءِ/حدیث: Q242]
ہم سے علی بن عبداللہ نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان نے، ان سے زہری نے ابوسلمہ کے واسطے سے بیان کیا، وہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتی ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پینے کی ہر وہ چیز جو نشہ لانے والی ہو حرام ہے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْوُضُوءِ/حدیث: 242]
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 242
� تشریح: نبیذ کھجور کے شربت کو کہتے ہیں جو میٹھا ہو اور اس میں نشہ نہ آیا ہو۔ حضرت امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ نے اس سے وضو جائز رکھا ہے جب پانی نہ ملے اور امام شافعی و امام احمد و دیگر جملہ ائمہ اہل حدیث کے نزدیک نبیذ سے وضو جائز نہیں۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا بھی یہی فتویٰ ہے۔ حسن کے اثر کو ابن ابی شیبہ نے اور ابوالعالیہ کے اثر کو دارقطنی اور عطاء کے اثر کو ابوداؤد نے موصولاً روایت کیا ہے۔ حدیث الباب کا مقصد یہ ہے کہ نشہ آور چیز حرام ہوئی تو اس سے وضو کیوں کر جائز ہو گا۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 242
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 242
حدیث حاشیہ: نبیذ کھجور کے شربت کو کہتے ہیں جو میٹھا ہو اور اس میں نشہ نہ آیا ہو۔ حضرت امام ابوحنیفہ ؒ نے اس سے وضو جائز رکھا ہے، جب پانی نہ ملے اور امام شافعی وامام احمد ودیگر جملہ ائمہ اہل حدیث کے نزدیک نبیذ سے وضو جائز نہیں۔ امام بخاری ؒ کا بھی یہی فتویٰ ہے۔ حسن کے اثر کو ابن ابی شیبہ نے اور ابوالعالیہ کے اثر کو دارقطنی اور عطاء کے اثر کو ابوداؤد نے موصولاً روایت کیا ہے۔ حدیث الباب کا مقصد یہ ہے کہ نشہ آور چیز حرام ہوئی تو اس سے وضو کیوں کر جائز ہوگا۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 242
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:242
حدیث حاشیہ: 1۔ پانی میں شامل ہونے والی چیزیں دوطرح کی ہوتی ہیں: ناپاک اور پاک۔ پھر پاک کی دوقسمیں ہیں: ایک وہ جو پاک ہونے کے باوجود قابل نفرت ہوتی ہیں، جیسے تھوک یا بلغم وغیرہ۔ دوسری وہ جو قابل نفرت نہیں ہوتیں، جیسے کھجور وغیرہ۔ امام بخاری ؒ کا فیصلہ ہے کہ اگر پانی میں کوئی ناپاک چیز شامل ہوگئی اور اس نے تغیر پیدا کردیا تو اس سے پانی ناپاک ہوجاتا ہے۔ اور پاک مگر قابل نفرت چیزوں کے متعلق اس سے پہلے باب میں وضاحت کرآئے ہیں۔ اب یہ بتانا چاہتے ہیں کہ اگر پانی میں کوئی چیز مل جائے جوپاک ہونے کے ساتھ ساتھ قابل نفرت نہ ہو اور اس نے پانی کے تینوں اوصاف میں سے کوئی وصف بدل دیا اس پر پانی کا اطلاق نہ ہوسکے تو اس سے وضو جائز نہیں۔ امام بخاری ؒ کا اشارہ اس طرف بھی ہے کہ اگر پانی میں ملنے والی کسی چیز سے نہ پانی کا نام بدلا اور نہ اس کے اوصاف ہی میں کوئی تبدیلی آئی، ایسی صورت میں اس سے وضو کرنا ناجائز نہیں ہوگا۔ 2۔ امام بخاری ؒ نے اپنے دعویٰ کو ثابت کرنے کے لیے حدیث عائشہ ؓ کو بیان فرمایا ہے کہ ہروہ مشروب جو نشہ آور ہوحرام ہے۔ وضو ایک عبادت ہے جس میں کسی حرام چیز کو استعمال نہیں کیا جاسکتا، لہذا نشہ آور چیز سے وضو کرنا حرام ہے۔ امام بخاری ؒ کا استدلال بایں طور ہے کہ سکر(نشہ آورچیز) میں تعمیم ہے: سکر بالفعل ہو، جیسے شراب وغیرہ یا بالقوہ ہو، جیسے نبیذ وغیرہ، ان سے وضو کرنا درست نہیں ہے۔ نبیذ میں اتنی قوت ہوتی ہے کہ اگر سے زیادہ دیر تک رکھا جائے یا اسے زیادہ جوش دیا جائےتو اس میں نشہ پیدا ہوجاتا ہے۔ اس کے علاوہ نبیذ تیار ہوجانے کے بعد اس سے لفظ”پانی“ زائل ہوجاتا ہے، یعنی اس پر پانی کالفظ نہیں بولا جاتا جبکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿فَلَمْ تَجِدُوا مَاءً فَتَيَمَّمُوا صَعِيدًا طَيِّبًا﴾”جب تم پانی نہ پاؤ تو پاکیزہ مٹی سے تیمم کرلو۔ “(المائدہ۔ 5۔ 6) امام بخاری ؒ نے اس سے بھی استدلال کیا ہے کہ نبیذ کی موجودگی میں تیمم تو ہوسکتا ہے، کیونکہ اس کے پاس پانی نہیں۔ واضح رہے کہ جن روایات میں نبیذ سے وضو کرنے کی اجازت مروی ہے وہ پایہ ثبوت کو نہیں پہنچتیں، لہٰذا انھیں بطور دلیل پیش نہیں کیا جاسکتا۔ 3۔ امام تدبر نے اس مقام پر بھی تدبر سے کام نہیں لیا اور جھٹ سے امام بخاری ؒ پراعتراض جڑ دیا ہے، ملاحظہ فرمائیں: ”معلوم نہیں اس باب کے باندھنے کی کیا ضرورت تھی؟ پانی کے علاوہ کسی اور چیز سے وضو کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ “(تدبرحديث: 334/1) فقہائے احناف نے نبیذ سے وضو کرنے کے لیے ا پنی تمام ترعلمی اورفکری توانائیوں کو صرف کرڈالا ہے۔ فقہ کی ہرکتاب میں اسے بڑی شدومد سے بیان کیا گیا ہے۔ امام بخاری ؒ ان حضرات کی یہاں تردید فرمارہے ہیں، لیکن اصلاحی صاحب اس سے بے خبر ہیں نہ معلوم کیوں؟
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 242
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 392
´ہر نشہ دینے والی شراب حرام ہے` «. . . سئل رسول الله صلى الله عليه وسلم عن البتع فقال: ”كل شراب اسكر حرام.“» رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے تبع (شہد کی شراب) کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہر وہ مشروب جو نشہ دے حرام ہے۔“[موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 392]
تخریج الحدیث: [الموطأ رواية يحييٰ بن يحييٰ 845/2 ح 1640، ك 42 ب 4 ح 9، التمهيد 124/7، الاستذكار: 1569 و أخرجه البخاري 5585، ومسلم 2001 ● من حديث مالك به من رواية يحيي] تفقه: ➊ یہ حدیث متواتر ہے کہ ہر نشہ دینے والی شراب حرام ہے۔ دیکھئے: [قطف الازهار المتناثره فى الاخبار المواتره للسيوطي 85 ولفظ الآلي المتناثره فى الاحاديث المتواتره للزيبدي 40، ونظم المتناثر من الحديث المتواتر للكتاني 165، و ذم المسكر للامام ابن ابي الدنيا البغدادي] سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «كُلُّ مُسْكِرٍ خَمْرٌ، وَكُلُّ مُسْكِرٍ حَرَامٌ» ہر مسکر (نشہ دینے والی چیز) خمر ہے اور مسکر حرام ہے۔ [صحيح مسلم 2003] ● سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «مَا أَسْكَرَ كَثِيرُهُ فَقَلِيلُهُ حَرَامٌ» جو چیز زیادہ استعمال کرنے سے نشہ دے اس کا تھوڑا حصہ بھی حرام ہے۔ [سنن الترمذي: 1865، وسنده حسن، وقال الترمذي: ”حسن غريب“ وصححه ابن الجارود: 860] ➌ بعض الناس کا یہ قول ہے کہ «إنّ ما يتخذ من الحنطة ولشعير و العسل والذرة حلال۔۔۔۔ ولا يحد شاربه۔۔۔ وإن سكر منه» گندم، جو، شہد اور مکئی کی شراب حلال ہے اور اس کے پنے والے پر حد نہیں لگے گی اگرچہ اس سے نشہ ہو جائے۔ دیکھئے: [الهدايه للمرغيناني 496/4 كتاب الاشربه] ● یہ قول حدیث کے خلاف ہونے کی وجہ سے مردود ہے۔ ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے فرمایا: «مَا أُبَالِي شَرِبْتُ الْخَمْرَ، أَوْ عَبَدْتُ هَذِهِ السَّارِيَةَ مِنْ دُونِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ» اگر میں خمر (نشہ آور شراب) پیوں تو پھر مجھے کوئی پرواہ نہیں کہ میں اللہ کے علاوہ اس ستون کی عبادت کروں۔ [سنن النسائي 314/8 ح 5666 وسنده صحيح] یعنی شراب پینا شرک جیسا گناہ ہے۔ «أَعاذنا الله منه»
موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 20
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث5597
´نشہ لانے والے ہر مشروب کی حرمت کا بیان۔` ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے «بتع»(یعنی شہد کی شراب) کے بارے میں پوچھا گیا، تو آپ نے فرمایا: ”ہر وہ شراب جو نشہ لائے حرام ہے، اور «بتع» شہد کی نبیذ ہوتا ہے۔“[سنن نسائي/كتاب الأشربة/حدیث: 5597]
اردو حاشہ: آپ کے جواب کا مقصود یہ ہے کہ اگر بتع نشہ آور ہے تو حرام ہے ورنہ نہیں۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 5597
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث5597
´نشہ لانے والے ہر مشروب کی حرمت کا بیان۔` ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے «بتع»(یعنی شہد کی شراب) کے بارے میں پوچھا گیا، تو آپ نے فرمایا: ”ہر وہ شراب جو نشہ لائے حرام ہے، اور «بتع» شہد کی نبیذ ہوتا ہے۔“[سنن نسائي/كتاب الأشربة/حدیث: 5597]
اردو حاشہ: آپ کے جواب کا مقصود یہ ہے کہ اگر بتع نشہ آور ہے تو حرام ہے ورنہ نہیں۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 5597
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3687
´نشہ لانے والی چیزوں سے ممانعت کا بیان۔` ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ”ہر نشہ آور چیز حرام ہے اور جو چیز فرق ۱؎ بھر نشہ لاتی ہے اس کا ایک چلو بھی حرام ہے۔“[سنن ابي داود/كتاب الأشربة /حدیث: 3687]
فوائد ومسائل: فائدہ: بلکہ اس سے بھی قلیل مقدار خواہ قطر ہ ہی کیوں نہ ہو حرام ہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3687
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1866
´جس چیز کی زیادہ مقدار نشہ پیدا کر دے اس کی تھوڑی مقدار بھی حرام ہے۔` ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہر نشہ آور چیز حرام ہے، جس چیز کا ایک فرق (سولہ رطل) کی مقدار بھر نشہ پیدا کر دے تو اس کی مٹھی بھر مقدار بھی حرام ہے ۱؎، ان میں (یعنی محمد بن بشار اور عبداللہ بن معاویہ جمحی) میں سے ایک نے اپنی روایت میں کہا: یعنی اس کا ایک گھونٹ بھی حرام ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب الأشربة/حدیث: 1866]
اردو حاشہ: وضاحت: 1؎: اس حدیث میں فرق (سولہ رطل) اور مٹھی بھر کا مفہوم بھی کثیر و قلیل ہی ہے، یعنی جس چیز کی کثیر مقدار نشہ آور ہوتو اس کی قلیل مقدار بھی حرام ہے۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1866
الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:283
فائدہ: اس حدیث سے ثابت ہوا کہ ہر وہ چیز جو آدمی کو نشے میں مبتلا کر دے وہ حرام ہے، اب یہ عام فائده ہے، ہر شراب کو شامل ہے، خواہ وہ کسی بھی چیز سے تیار کی گئی ہو۔
مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 283
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 5211
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا بیان کرتی ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے شہد سے بنی شراب کے بارے میں دریافت کیا گیا، تو آپﷺ نے فرمایا: ”جو مشروب نشہ آور ہے، وہ حرام ہے۔“[صحيح مسلم، حديث نمبر:5211]
حدیث حاشیہ: مفردات الحدیث: بتع: شہد سے بننے والی شراب اور نبیذ۔ فوائد ومسائل: آپﷺ نے سائل کو انتہائی جامع جواب دیا، تاکہ وہ تمام مشروبات کا حکم جان سکے اور اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے، ہر نشہ آور چیز بلا تخصیص کم ہو یا زیادہ حرام ہے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 5211
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5586
5586. سیدنا عائشہ ؓ ہی سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ سے بتع کے متعلق دریافت کیا گیا، یہ مشروب شہد سے تیار کیا جاتا تھا اور اہل یمن کے ہاں اسے پینے کا عام رواج تھا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جو مشروب بھی نشہ آور ہو حرام ہے۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:5586]
حدیث حاشیہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بتع شراب کے متعلق سوال کرنے والے جلیل القدر صحابی حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ ہیں۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں دعوت و تبلیغ کے لیے بھیجا تو انہوں نے مشروبات کے متعلق سوال کیا جو وہاں تیار کیے جاتے تھے۔ آپ نے فرمایا: ”وہ کیا کیا ہیں؟“ انہوں نے کہا: وہ بتع اور مزر ہیں۔ بتع تو شہد کا نبیذ اور مزر جو کا نبیذ ہے۔ آپ نے فرمایا: ”ہر نشہ آور مشروب حرام ہے۔ “(صحیح البخاري، المغازي، حدیث: 4343) بتع اور مزر کی یہ تعریف خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہے، چنانچہ حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ میں نے شہد کی شراب کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا تو آپ نے فرمایا: ”یہی بتع ہے۔ “ میں نے عرض کی: جو اور مکئی سے بھی (نشہ آور) نبیذ تیار کیا جاتا ہے۔ آپ نے فرمایا: ”یہ مزر ہے۔ “ آخر کار آپ نے فرمایا: ”اپنی قوم کو بتا دو کہ ہر نشہ آور چیز حرام ہے۔ “(سنن أبي داود، الأشربة، حدیث: 3684) ہر نشہ آور چیز حرام ہے، خواہ اس کے زیادہ پینے سے نشہ آئے، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: ”جس چیز کا بڑا پیالہ نشہ آور ہو تو اس کا ایک چلو بھی حرام ہے۔ “(سنن أبي داود، الأشربة، حدیث: 3687) بلکہ ہم کہتے ہیں کہ اس سے بھی کم مقدار، خواہ قطرہ ہی کیوں نہ ہو، حرام ہے۔ واللہ أعلم
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5586