فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 57
´ٹھہرے ہوئے پانی کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم میں سے کوئی شخص ٹھہرے ہوئے پانی میں پیشاب نہ کرے، پھر اسی سے وضو کرے۔“ [سنن نسائي/ذكر الفطرة/حدیث: 57]
57۔ اردو حاشیہ:
➊ گویا اس روایت میں عوف کے دو استاذ ہیں، محمد بن سیرین اور خلاس اور یہ دونوں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے یہ حدیث بیان کرتے ہیں۔
➋ ٹھہرے پانی میں پیشاب کرنے سے اس لیے منع کیا تھا کہ یہ پانی کی نجاست کا سبب بن سکتا ہے کیونکہ بار بار پیشاب کرنے یا کئی اشخاص کے پیشاب کرنے سے پانی کا رنگ، بو یا ذائقہ بدل سکتا ہے۔ اس طرح پانی ناقابل استعمال ہو جائے گا۔ وضو اور غسل کرنے والوں کو دقت پیش آئے گی۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 57
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 58
´ٹھہرے ہوئے پانی کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم میں سے کوئی شخص ہرگز ٹھہرے ہوئے پانی میں پیشاب نہ کرے، پھر اسی سے غسل کرے۔ ابو عبدالرحمٰن (امام نسائی) نے فرمایا: (میرے استاذ) یعقوب بن ابراہیم یہ حدیث دینار لیے بغیر بیان نہیں کرتے تھے۔“ [سنن نسائي/ذكر الفطرة/حدیث: 58]
58۔ اردو حاشیہ: تعلیم حدیث پر اجرت لینے کے بارے میں اہل علم میں اختلاف ہے۔ بعض کے نزدیک اجرت لینا جائز نہیں اور بعض اسے جائز سمجھتے ہیں۔ خصوصاً جب محدث تدریس حدیث کے علاوہ کوئی دوسرا کام نہ کرے۔ یعقوب دو رقی کے نزدیک اس پر اجرت لینا جائز ہے، اس لیے وہ یہ حدیث بیان کرنے پر اجرت لیتے تھے۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان: «إن أحق ما أخذتم عليه اجرا كتاب الله» ”بے شک جن چیزوں پر تم اجرت لے سکتے ہو، ان میں سب سے زیادہ اس کی مستحق اللہ کی کتاب ہے۔“ [صحیح البخاري، الطب، حدیث: 5737]
سے بھی اس کا جواز ثابت ہوتا ہے، لہٰذا ضرورت کے پیش نظر تدریس حدیث پر اجرت لینے میں کوئی حرج نہیں۔ لیکن بلاضرورت اور کشائش کے باوجود اس کی حرص و طمع رکھنا اخلاص کے منافی ہے، لہٰذا اس سے اجتناب کرنا چاہیے۔ واللہ أعلم۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 58
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 398
´ٹھہرے ہوئے پانی میں جنبی کے غسل کرنے کی ممانعت کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا کہ ٹھہرے ہوئے پانی میں پیشاب کیا جائے پھر اس میں جنابت کا غسل کیا جائے۔ [سنن نسائي/كتاب الغسل والتيمم/حدیث: 398]
398۔ اردو حاشیہ: ٹھہرا پانی وضو یا غسل کے کام آسکتا ہے اور یہی اس کا اصل مقصود اور استعمال ہے، لہٰذا اسے پیشاب کر کے ناقابل استعمال نہیں بنانا چاہیے کیونکہ اجازت عامہ کی صورت میں آخر وہ پانی متعفن ہو ہی جائے گا۔ مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: (کتاب المیاہ کا ابتدائیہ اور حدیث: 35، 221، 222 کے فوائدومسائل)
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 398
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 400
´ٹھہرے ہوئے پانی میں جنبی کے غسل کرنے کی ممانعت کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ تم میں سے کوئی ٹھہرے ہوئے پانی میں جو بہتا نہ ہو ہرگز پیشاب نہ کرے، پھر اسی سے غسل بھی کرے۔ [سنن نسائي/كتاب الغسل والتيمم/حدیث: 400]
400۔ اردو حاشیہ:
➊ دراصل حضرت ہشام بن حساب اس حدیث کو مرفوع بیان فرماتے تھے اور حضرت ایوب اسے موقوف (حضرت ابوہریرہ کا اپنا فرمان) بیان کرتے تھے، اس لیے شاگردوں نے حضرت ہشام سے وضاحت طلب کی۔ جواب کا حاصل یہ ہے کہ یہ روایت مرفوع ثابت ہے۔ حضرت ایوب کا اسے موقوف بیان کرنا ان کی احتیاط ہے۔ بہت سے محدثین حدیث کو مرفوع بیان کرنے سے ڈرا کرتے تھے کہ کہیں کوئی غلط بات آپ کی طرف منسوب نہ ہو جائے، اس لیے وہ تابعی، صحابی تک رک جایا کرتے تھے۔ مگر یہ ضرورت سے زیادہ احتیاط ہے، اس لیے اس سے روایت کی صحت میں کوئی شک نہیں ہونا چاہیے۔
➋ یہ دراصل نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے جسے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے نقل فرمایا۔ کسی راوی نے اسے انہیں کی طرف منسوب کر دیا۔ دوسرے راویوں سے بلاشک و شبہ یہ فرمان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب بیان ہوا ہے۔
➌ عربی الفاظ میں «الْمَاءُ الدَّائِمُ» کے ساتھ «الَّذِي لَا يَجْرِي» کی قید مزید وضاحت کے لیے ہے۔
➍جاری پانی میں، جبکہ شدید حاجت ہو، پیشاب کیا جا سکتا ہے کیونکہ وہاں نجاست پانی کے ساتھ ہی آگے چلی جائے گی، بلکہ تحلیل ہو جائے گی اور تعفن پیدا نہیں ہو گا، تاہم جہاں تک ہو سکے بچنا ہی بہتر ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 400
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 221
´ٹھہرے ہوئے پانی میں جنبی کے غسل کرنے کی ممانعت کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم میں سے کوئی شخص ٹھہرے ہوئے پانی میں جنبی ہونے کی حالت میں غسل نہ کرے۔“ [سنن نسائي/ذكر ما يوجب الغسل وما لا يوجبه/حدیث: 221]
221۔ اردو حاشیہ:
➊ ٹھہرے پانی میں داخل ہو کر جنبی کا نہانا پانی کو ناقابل استعمال بنا سکتا ہے۔ اگرچہ ایک آدمی کے نہانے سے رنگ، بو اور ذائقے میں تبدیلی نہیں ہو گی مگر اجازت کی صورت میں تو جتنے آدمی بھی چاہیں، نہا سکتے ہیں۔ اس طرح رنگ، بو اور ذائقہ بدلنے کا امکان پیدا ہو جاتا ہے۔
➋ نجاست سے قطع نظر پینے والوں کے لیے اس پانی کا استعمال طبعاً گوارا نہ ہو گا جس میں جنبی لوگ نجاست سمیت نہاتے ہوں۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 221
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 222
´ٹھہرے ہوئے پانی میں پیشاب کرنا اور اس سے غسل کرنا منع ہے۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم میں سے کوئی شخص ٹھہرے ہوئے پانی میں پیشاب نہ کرے، پھر یہ کہ اسی سے غسل بھی کرے“ ۱؎۔ [سنن نسائي/ذكر ما يوجب الغسل وما لا يوجبه/حدیث: 222]
222۔ اردو حاشیہ:
جب ٹھہرے پانی میں جنبی کا غسل کرنا درست نہیں، تو اس میں پیشاب کرنا تو بدرجہ اولیٰ منع ہو گا، خواہ بعد میں غسل کرے یا نہ کرے، کیونکہ کوئی اور آدمی بھی تو غسل کر سکتا ہے۔ غسل کا ذکر تو تقبیح کے لیے ہے، یعنی یہ تصور کیسا قبیح ہو گا کہ وہیں پیشاب کیا ہو اور وہیں غسل شروع کر دے، خواہ یہ شخص کرے یا کوئی اور، بہرحال اس حدیث سے کھڑے پانی میں پیشاب کرنے کی حرمت ثابت ہوتی ہے۔ مزید دیکھیے: [حديث: 35]
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 222
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 332
´ٹھہرے ہوئے پانی میں جنبی کے غسل کرنے کی ممانعت کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم میں سے کوئی شخص ٹھہرے ہوئے پانی میں غسل نہ کرے اس حال میں کہ وہ جنبی ہو۔“ [سنن نسائي/كتاب المياه/حدیث: 332]
332۔ اردو حاشیہ: دیکھیے سنن نسائی حدیث: 35، 221 اور 222 اور ان کے فوائد و مسائل۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 332