حافظ عمران ايوب لاهوري حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 239
´ ٹھہرے ہوئے پانی میں پیشاب کرنا منع ہے `
«. . . قَالَ: لَا يَبُولَنَّ أَحَدُكُمْ فِي الْمَاءِ الدَّائِمِ الَّذِي لَا يَجْرِي، ثُمَّ يَغْتَسِلُ فِيهِ . . .»
”. . . فرمایا کہ تم میں سے کوئی ٹھہرے ہوئے پانی میں جو جاری نہ ہو پیشاب نہ کرے، پھر اسی میں غسل کرنے لگے . . .“ [صحيح البخاري/كِتَاب الْوُضُوءِ/بَابُ الْبَوْلِ فِي الْمَاءِ الدَّائِمِ: 239]
تخريج الحديث:
[161۔ البخاري فى: 4 كتاب الوضوء: 68 باب البول فى الماء الدائم 239، مسلم 282، دارمي 730]
لغوی توضیح:
«لَا يَبُوْلَنَّ» ہرگز پیشاب نہ کرے۔
«الدَّائِم» ساکن اور ٹھہرنے والی چیز۔
فھم الحدیث:
معلوم ہوا کہ کھڑے پانی میں پیشاب کرنا، یا پیشاب کے بعد اس میں غوطہ لگا کر نہانا ممنوع و ناجائز ہے۔ شیخ عبداللہ بسام رحمہ اللہ کا کہنا ہے کہ ممانعت کا ظاہر یہی ہے کہ خواہ پانی کم ہو یا زیادہ یہ عمل حرام ہے۔ [توضيح الأحكام شرح بلوغ المرام 129/1]
جواہر الایمان شرح الولووالمرجان، حدیث/صفحہ نمبر: 161
حافظ عمران ايوب لاهوري حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 5
«ومتحرك و ساكن»
”متحرک و ساکن پانی کے درمیان کوئی فرق نہیں۔“
جمہور علماء اسی کے قائل ہیں۔ [الروضة الندية 66/1]
جن علماء نے مندرجہ ذیل حدیث سے استدلال کرتے ہوئے متحرک اور ساکن پانی کے درمیان فرق کیا ہے اور کہا ہے کہ کھڑا پانی مجرد نجاست گرنے سے ہی ناپاک ہو جاتا ہے اگرچہ اس کے اوصاف ثلثہ میں سے کوئی تبدیل ہو یا نہ ہو اور یہ کہ اس حدیث میں منع کا سبب یہ ہے کہ جب کھڑے پانی میں غسل کیا جائے گا تو وہ مستعمل ہو جائے گا اور مستعمل پانی مطہر نہیں ہوتا، ان کی یہ بات درست نہیں بلکہ باطل و بےبنیاد ہے کیونکہ اس کے اثبات میں کوئی شرعی دلیل موجود نہیں۔ لہٰذا پانی اپنی اصل (طہارت) پر ہی باقی رہے گا جب تک کہ اس کے اوصاف ثلثہ میں سے کوئی متغیر نہ ہو جائے اور باقی رہی یہ حدیث تو اس میں صرف کھڑے پانی میں پیشاب یا غسل کی ممانعت ہے اور پیشاب کرنے والے کے لیے اس سے غسل یا وضو کی ممانعت ہے۔ اس کے علاوہ وہ شخص اس پانی سے فائدہ حاصل کر سکتا ہے اور پیشاب کرنے والے کے علاوہ کسی دوسرے شخص کے لیے اس سے غسل اور وضو کرنا جائز ومباح ہے۔ [المحلى بالآثار 186/1، الأحكام لابن حزم 21/1]
کھڑے پانی سے غسل کا طریقہ یہ ہو گا کہ کسی برتن کے ذریعے پانی باہر نکال کر اس سے غسل کیا جائے جیسا کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا ہے۔ «يَتَنَاوَلُهُ تَنَاوُلًا» [صحيح مسلم/ فواد: 283، دارالسلام: 658]
(البانی) اسی کو ترجیح دیتے ہوئے رقمطراز ہیں کہ حدیث میں صرف جنبی کے لیے کھڑے پانی میں غوطہ (لگا کر غسل کرنے) کی ممانعت ہے جبکہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے کلام سے پتہ چلتا ہے کہ پانی کو باہر نکال کر اس سے طہارت حاصل کرنا درست ہے۔ [التعليقات الرضية على الروضة الندية 98/1]
مطلوبہ احادیث درج ذیل ہیں:
❀ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«لَا يَبُولَنَّ أَحَدُكُمْ فِي الْمَاءِ الدَّائِمِ الَّذِي لَا يَجْرِي، ثُمَّ يَغْتَسِلُ فِيهِ»
”تم میں سے کوئی بھی کھڑے پانی میں پیشاب نہ کرے اور پھر اس میں غسل کرے۔“ [صحيح البخاري/ ح: 239]
❀ جامع ترمذی میں یہ لفظ ہیں:
«ثُمَّ يَتَوَضَّأُ مِنْهُ» ”پھر اس سے وضو کرے۔“ [سنن ترمذي/ ح: 68]
❀ سنن ابی داود اور مسند احمد میں ہیں:
«لَا يَبُولَنَّ أَحَدُكُمْ فِي الْمَاءِ الدَّائِمِ وَلَا يَغْتَسِلُ فِيهِ مِنَ الْجَنَابَةِ»
”تم میں سے کوئی بھی کھڑے پانی میں پیشاب نہ کرے اور نہ ہی اس میں غسل جنابت کرے۔ [سنن ابي داود/ ح: 70]
❀ حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ
«أَنَّهُ نَهَى أَنْ يُبَالَ فِي الْمَاءِ الرَّاكِدِ»
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کھڑے پانی میں پیشاب سے منع فرمایا ہے۔ [صحيح مسلم/ فواد: 281، دارالسلام: 655]
❀ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ایک روایت میں مرفوعاً یہ الفاظ بھی موجود ہیں:
«لَا يَغْتَسِلْ أَحَدُكُمْ فِي الْمَاءِ الدَّائِمِ وَهُوَ جُنُبٌ»
”تم میں سے کوئی بھی حالت جنابت میں کھڑے پانی میں غسل نہ کرے۔“ [صحيح مسلم/ فواد:283، دارالسلام: 658] ۱؎
(علامہ عینی) فرماتے ہیں کہ یہ حدیث عام ہے اور اسے بالاتفاق خاص کرنا ضروری ہے (یا تو) ایسے وسیع الظرف پانی کے ساتھ جس کے ایک کنارے کو حرکت دینے سے دوسرا کنارہ متحرک نہ ہو یا حدیث قلتین کے ساتھ جیسا کہ امام شافی رحمہ اللہ کے قائل ہیں یا ایسی عمومات کے ساتھ جو پانی کے اس وقت تک پاک ہونے پر دلالت کرتی ہیں جب تک کہ اس کے اوصاف ثلثہ میں سے کوئی تبدیل نہ ہو جائے جیسا کہ امام مالک رحمہ اللہ کا یہی موقف ہے۔ [عمدة القاري 50/3]
(شوکانی) اس حدیث میں شارع علیہ السلام کی طرف سے ایسا کوئی بیان نہیں ہے کہ ممانعت کا سبب یہ ہے کہ پانی مستعمل ہو جائے گا اور مستعمل پانی مطہر نہیں ہوتا۔ بلکہ زیادہ سے زیادہ اس سے جو اخذ کیا جا سکتا ہے وہ یہ ہے کہ اس میں منع کا سبب (اس میں پیشاب یا غسل کرنے کے ساتھ) اس کے کھڑا رہنے کی وجہ سے اس کے خراب ہونے کا اندیشہ ہے۔ [السيل الجرار 57/1]
(ابن حزم) ان لوگوں کا یہ کہنا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جنبی کو کھڑے پانی میں داخل ہونے سے اس لیے منع فرمایا ہے کہ کہیں پانی مستعمل نہ ہو جائے باطل ہے۔ [المحلی 186/1]
(نووی) کھڑے پانی میں داخل ہو کر جنبی شخص کے غسل کرنے سے ممانعت کی حدیث اس عمل کے مکروہ تنزیہی ہونے کی دلیل ہے۔ [شرح مسلم 189/3]
جاری پانی کے متعلق مختلف اقوال ہیں۔
➊ جسے عرف میں جاری تسلیم کیا جاتا ہو۔
➋ جس میں خشک تنکے بہ جائیں۔
➌ پانی اس قدر ہو کہ وضو کرنے والے کے دوبارہ چلو بھرنے پر پہلے پانی کے بجائے (چلنے کی وجہ سے) نیا پانی ہاتھ لگے۔ [فتح القدير 83/1]
(را جح) پہلا قول را جح ہے۔
* * * * * * * * * * * * * *
فقہ الحدیث، جلد اول، حدیث/صفحہ نمبر: 133
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 57
´ٹھہرے ہوئے پانی کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم میں سے کوئی شخص ٹھہرے ہوئے پانی میں پیشاب نہ کرے، پھر اسی سے وضو کرے۔“ [سنن نسائي/ذكر الفطرة/حدیث: 57]
57۔ اردو حاشیہ:
➊ گویا اس روایت میں عوف کے دو استاذ ہیں، محمد بن سیرین اور خلاس اور یہ دونوں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے یہ حدیث بیان کرتے ہیں۔
➋ ٹھہرے پانی میں پیشاب کرنے سے اس لیے منع کیا تھا کہ یہ پانی کی نجاست کا سبب بن سکتا ہے کیونکہ بار بار پیشاب کرنے یا کئی اشخاص کے پیشاب کرنے سے پانی کا رنگ، بو یا ذائقہ بدل سکتا ہے۔ اس طرح پانی ناقابل استعمال ہو جائے گا۔ وضو اور غسل کرنے والوں کو دقت پیش آئے گی۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 57
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 58
´ٹھہرے ہوئے پانی کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم میں سے کوئی شخص ہرگز ٹھہرے ہوئے پانی میں پیشاب نہ کرے، پھر اسی سے غسل کرے۔ ابو عبدالرحمٰن (امام نسائی) نے فرمایا: (میرے استاذ) یعقوب بن ابراہیم یہ حدیث دینار لیے بغیر بیان نہیں کرتے تھے۔“ [سنن نسائي/ذكر الفطرة/حدیث: 58]
58۔ اردو حاشیہ: تعلیم حدیث پر اجرت لینے کے بارے میں اہل علم میں اختلاف ہے۔ بعض کے نزدیک اجرت لینا جائز نہیں اور بعض اسے جائز سمجھتے ہیں۔ خصوصاً جب محدث تدریس حدیث کے علاوہ کوئی دوسرا کام نہ کرے۔ یعقوب دو رقی کے نزدیک اس پر اجرت لینا جائز ہے، اس لیے وہ یہ حدیث بیان کرنے پر اجرت لیتے تھے۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان: «إن أحق ما أخذتم عليه اجرا كتاب الله» ”بے شک جن چیزوں پر تم اجرت لے سکتے ہو، ان میں سب سے زیادہ اس کی مستحق اللہ کی کتاب ہے۔“ [صحیح البخاري، الطب، حدیث: 5737]
سے بھی اس کا جواز ثابت ہوتا ہے، لہٰذا ضرورت کے پیش نظر تدریس حدیث پر اجرت لینے میں کوئی حرج نہیں۔ لیکن بلاضرورت اور کشائش کے باوجود اس کی حرص و طمع رکھنا اخلاص کے منافی ہے، لہٰذا اس سے اجتناب کرنا چاہیے۔ واللہ أعلم۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 58
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 398
´ٹھہرے ہوئے پانی میں جنبی کے غسل کرنے کی ممانعت کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا کہ ٹھہرے ہوئے پانی میں پیشاب کیا جائے پھر اس میں جنابت کا غسل کیا جائے۔ [سنن نسائي/كتاب الغسل والتيمم/حدیث: 398]
398۔ اردو حاشیہ: ٹھہرا پانی وضو یا غسل کے کام آسکتا ہے اور یہی اس کا اصل مقصود اور استعمال ہے، لہٰذا اسے پیشاب کر کے ناقابل استعمال نہیں بنانا چاہیے کیونکہ اجازت عامہ کی صورت میں آخر وہ پانی متعفن ہو ہی جائے گا۔ مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: (کتاب المیاہ کا ابتدائیہ اور حدیث: 35، 221، 222 کے فوائدومسائل)
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 398
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 400
´ٹھہرے ہوئے پانی میں جنبی کے غسل کرنے کی ممانعت کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ تم میں سے کوئی ٹھہرے ہوئے پانی میں جو بہتا نہ ہو ہرگز پیشاب نہ کرے، پھر اسی سے غسل بھی کرے۔ [سنن نسائي/كتاب الغسل والتيمم/حدیث: 400]
400۔ اردو حاشیہ:
➊ دراصل حضرت ہشام بن حساب اس حدیث کو مرفوع بیان فرماتے تھے اور حضرت ایوب اسے موقوف (حضرت ابوہریرہ کا اپنا فرمان) بیان کرتے تھے، اس لیے شاگردوں نے حضرت ہشام سے وضاحت طلب کی۔ جواب کا حاصل یہ ہے کہ یہ روایت مرفوع ثابت ہے۔ حضرت ایوب کا اسے موقوف بیان کرنا ان کی احتیاط ہے۔ بہت سے محدثین حدیث کو مرفوع بیان کرنے سے ڈرا کرتے تھے کہ کہیں کوئی غلط بات آپ کی طرف منسوب نہ ہو جائے، اس لیے وہ تابعی، صحابی تک رک جایا کرتے تھے۔ مگر یہ ضرورت سے زیادہ احتیاط ہے، اس لیے اس سے روایت کی صحت میں کوئی شک نہیں ہونا چاہیے۔
➋ یہ دراصل نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے جسے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے نقل فرمایا۔ کسی راوی نے اسے انہیں کی طرف منسوب کر دیا۔ دوسرے راویوں سے بلاشک و شبہ یہ فرمان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب بیان ہوا ہے۔
➌ عربی الفاظ میں «الْمَاءُ الدَّائِمُ» کے ساتھ «الَّذِي لَا يَجْرِي» کی قید مزید وضاحت کے لیے ہے۔
➍جاری پانی میں، جبکہ شدید حاجت ہو، پیشاب کیا جا سکتا ہے کیونکہ وہاں نجاست پانی کے ساتھ ہی آگے چلی جائے گی، بلکہ تحلیل ہو جائے گی اور تعفن پیدا نہیں ہو گا، تاہم جہاں تک ہو سکے بچنا ہی بہتر ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 400
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 222
´ٹھہرے ہوئے پانی میں پیشاب کرنا اور اس سے غسل کرنا منع ہے۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم میں سے کوئی شخص ٹھہرے ہوئے پانی میں پیشاب نہ کرے، پھر یہ کہ اسی سے غسل بھی کرے“ ۱؎۔ [سنن نسائي/ذكر ما يوجب الغسل وما لا يوجبه/حدیث: 222]
222۔ اردو حاشیہ:
جب ٹھہرے پانی میں جنبی کا غسل کرنا درست نہیں، تو اس میں پیشاب کرنا تو بدرجہ اولیٰ منع ہو گا، خواہ بعد میں غسل کرے یا نہ کرے، کیونکہ کوئی اور آدمی بھی تو غسل کر سکتا ہے۔ غسل کا ذکر تو تقبیح کے لیے ہے، یعنی یہ تصور کیسا قبیح ہو گا کہ وہیں پیشاب کیا ہو اور وہیں غسل شروع کر دے، خواہ یہ شخص کرے یا کوئی اور، بہرحال اس حدیث سے کھڑے پانی میں پیشاب کرنے کی حرمت ثابت ہوتی ہے۔ مزید دیکھیے: [حديث: 35]
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 222
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 332
´ٹھہرے ہوئے پانی میں جنبی کے غسل کرنے کی ممانعت کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم میں سے کوئی شخص ٹھہرے ہوئے پانی میں غسل نہ کرے اس حال میں کہ وہ جنبی ہو۔“ [سنن نسائي/كتاب المياه/حدیث: 332]
332۔ اردو حاشیہ: دیکھیے سنن نسائی حدیث: 35، 221 اور 222 اور ان کے فوائد و مسائل۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 332