الحمدللہ ! احادیث کتب الستہ آف لائن ایپ ریلیز کر دی گئی ہے۔    

1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:



صحيح البخاري
كِتَاب الشُّرْبِ والْمُسَاقَاةِ
کتاب: مساقات کے بیان میں
1M. بَابٌ في الشُّرْبِ، وَمَنْ رَأَى صَدَقَةَ الْمَاءِ وَهِبَتَهُ وَوَصِيَّتَهُ جَائِزَةً، مَقْسُومًا كَانَ أَوْ غَيْرَ مَقْسُومٍ:
1M. باب: پانی کی تقسیم اور جو کہتا ہے پانی کا حصہ خیرات کرنا اور ہبہ کرنا اور اس کی وصیت کرنا جائز ہے وہ پانی بٹا ہوا ہو یا بن بٹا ہوا۔
حدیث نمبر: 2352
حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ، أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ،" أَنَّهَا حُلِبَتْ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ شَاةٌ دَاجِنٌ وَهِيَ فِي دَارِ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، وَشِيبَ لَبَنُهَا بِمَاءٍ مِنَ الْبِئْرِ الَّتِي فِي دَارِ أَنَسٍ، فَأَعْطَى رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْقَدَحَ، فَشَرِبَ مِنْهُ حَتَّى إِذَا نَزَعَ الْقَدَحَ مِنْ فِيهِ، وَعَلَى يَسَارِهِ أَبُو بَكْرٍ، وَعَنْ يَمِينِهِ أَعْرَابِيٌّ، فَقَالَ عُمَرُ: وَخَافَ أَنْ يُعْطِيَهُ الْأَعْرَابِيَّ، أَعْطِ أَبَا بَكْرٍ يَا رَسُولَ اللَّهِ عِنْدَكَ، فَأَعْطَاهُ الْأَعْرَابِيَّ الَّذِي عَلَى يَمِينِهِ، ثُمَّ قَالَ: الْأَيْمَنَ فَالْأَيْمَنَ".
ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم کو شعیب نے خبر دی، ان سے زہری نے بیان کیا، اور ان سے انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے گھر میں پلی ہوئی ایک بکری کا دودھ دوہا گیا، جو انس بن مالک رضی اللہ عنہ ہی کے گھر میں پلی تھی۔ پھر اس کے دودھ میں اس کنویں کا پانی ملا کر جو انس رضی اللہ عنہ کے گھر میں تھا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں اس کا پیالہ پیش کیا گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے پیا۔ جب اپنے منہ سے پیالہ آپ نے جدا کیا تو بائیں طرف ابوبکر رضی اللہ عنہ تھے اور دائیں طرف ایک دیہاتی تھا۔ عمر رضی اللہ عنہ ڈرے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ پیالہ دیہاتی کو نہ دے دیں۔ اس لیے انہوں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! ابوبکر (رضی اللہ عنہ) کو دے دیجئیے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پیالہ اسی دیہاتی کو دیا جو آپ کی دائیں طرف تھا۔ اور فرمایا کہ دائیں طرف والا زیادہ حقدار ہے۔ پھر وہ جو اس کی داہنی طرف ہو۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الشُّرْبِ والْمُسَاقَاةِ/حدیث: 2352]
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة

   صحيح البخاريحلبت لرسول الله شاة داجن وهي في دار أنس بن مالك وشيب لبنها بماء من البئر التي في دار أنس فأعطى رسول الله القدح فشرب منه حتى إذا نزع القدح من فيه وعلى يساره أبو بكر وعن يمينه أعرابي فقال عمر وخاف أن يعطيه الأعراب
   صحيح البخاريالأيمنون الأيمنون ألا فيمنوا
   صحيح البخاريالأيمن فالأيمن
   صحيح البخاريالأيمن فالأيمن
   صحيح مسلمالأيمن فالأيمن
   صحيح مسلمالأيمنون الأيمنون الأيمنون
   صحيح مسلمالأيمن فالأيمن
   جامع الترمذيأتي بلبن قد شيب بماء وعن يمينه أعرابي وعن يساره أبو بكر فشرب ثم أعطى الأعرابي وقال الأيمن فالأيمن
   سنن أبي داودأتي بلبن قد شيب بماء وعن يمينه أعرابي وعن يساره أبو بكر فشرب ثم أعطى الأعرابي وقال الأيمن فالأيمن
   سنن ابن ماجهالأيمن فالأيمن
   موطا امام مالك رواية ابن القاسماتي بلبن قد شيب بماء وعن يمينه اعرابي وعن يساره ابو بكر الصديق، فشرب ثم اعطى الاعرابي وقال: الايمن فالايمن.
   مسندالحميديالأيمن فالأيمن

صحیح بخاری کی حدیث نمبر 2352 کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2352  
حدیث حاشیہ:
اس حدیث سے بھی پانی کا تقسیم یا ہبہ کرنا ثابت ہوا۔
اور یہ بھی ثابت ہوا کہ اسلام میں حق کے مقابلہ پر کسی کے لیے رعایت نہیں ہے۔
کوئی کتنی ہی بڑی شخصیت کیوں نہ ہو۔
حق اس سے بھی بڑا ہے۔
حضرت ابوبکر صدیق ؓ کی بزرگی میں کس کو شک ہو سکتا ہے مگر آنحضرت ﷺ نے آپ کو نظر انداز فرما کر دیہاتی کو وہ پانی دیا اس لیے کہ قانون دیہاتی ہی کے حق میں تھا۔
امام عادل کی یہی شان ہونی چاہئیے۔
اور ﴿اعْدِلُوا هُوَ أَقْرَبُ لِلتَّقْوَى﴾ (المائدة: 8)
کا بھی یہی مطلب ہے۔
یہاں اس دیہاتی سے اجازت بھی نہیں لی گئی جیسے کہ ابن عباس ؓ سے لی گی تھی۔
اس ڈر سے کہ کہیں دیہاتی بد دل نہ ہوجائے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2352   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2352  
حدیث حاشیہ:
(1)
حدیث میں ہے کہ تمام مسلمان نمک، گھاس اور پانی میں شریک ہیں۔
(سنن ابن ماجة، الرھون، حدیث: 2472)
اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ پانی میں کسی کی ملکیت نہیں ہوتی۔
امام بخاری ؒ نے اس موقف کی تردید فرمائی اور ثابت کیا کہ پانی میں ملکیت جاری ہوتی ہے اور اس کا صدقہ کرنا یا ہبہ کرنا جائز ہے جیسا کہ حدیث بالا سے واضح ہے۔
مسلمان پانی، گھاس اور نمک میں شریک ہیں، اس کا مطلب شرکت ملک نہیں بلکہ شرکت اباحت ہے، یعنی ان میں اجارہ داری نہیں کوئی بھی پہلے جا کر اسے استعمال کر سکتا ہے، اپنے برتن میں ڈال سکتا ہے، اپنے مویشیوں کے لیے کاٹ سکتا ہے۔
(عمدة القاري: 52/9) (2)
رسول اللہ ﷺ نے اس موقع پر اعرابی کے حق کو مقدم رکھا اور یہی ہونا چاہیے تھا۔
اگر آپ حضرت عمر ؓ کا مشورہ قبول کر لیتے تو اس سے یہ اصول بن جاتا کہ بڑوں کے ہوتے ہوئے چھوٹوں کا حق نہیں رہتا لیکن دین اسلام میں حق کے مقابلے میں کسی کے لیے رعایت نہیں۔
کوئی کتنا بڑا ہو، حق اس سے بھی بڑا ہے، اگر وہ کسی چھوٹے کو پہنچتا ہے تو بڑوں کا فرض ہے کہ اسے فراخ دلی سے منتقل ہونے دیں، لیکن اس دور میں اس قسم کا ایثار کرنا بہت کم ہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2352   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 471  
´دوسروں کو پلانے والا پہلے خود پی سکتا ہے`
«. . . ان رسول الله صلى الله عليه وسلم اتي بلبن قد شيب بماء وعن يمينه اعرابي وعن يساره ابو بكر الصديق، فشرب ثم اعطى الاعرابي وقال: الايمن فالايمن.»
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس دودھ لایا گیا جس میں (کنویں کا) پانی ملایا گیا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دائیں طرف ایک اعرابی (دیہاتی) اور بائیں طرف سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ تھے۔ پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (دودھ) پیا پھر (باقی دودھ) اعرابی کو دے دیا اور فرمایا: دایاں (مقدم ہے) پھر (جو اس کے بعد) دایاں ہو۔ [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 471]
تخریج الحدیث:
[الموطأ رواية يحييٰ بن يحييٰ 926/2 ح 787، ك 49 ح 17، التمهيد 151/6، الاستذكار: 1720، أخرجه البخاري 5619، ومسلم 2029، من حديث مالك به]
تفقہ:
➊ اپنے پینے کے لئے دودھ میں پانی ڈالنا جائز ہے لیکن اسے خالص دودھ کے نام پر بیچنا جائز نہیں ہے۔
➋ دوسروں کو پلانے والا پہلے خود پی سکتا ہے۔
➌ کھانے پینے کی چیزیں اگر دوسروں کو تحفتاً دی جائیں تو دائیں طرف سے ابتدأ کرنا چاہئے۔
➍ تحفہ قبول کرنا مسنون ہے بشرطیکہ کوئی شرعی عذر مانع نہ ہو۔
➎ دودھ پینا مسنون اور صحت و توانائی کے لئے بہترین غذا ہے۔
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 3   

  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3726  
´جو شخص قوم کا ساقی ہو وہ کب پئے؟`
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس دودھ لایا گیا جس میں پانی ملایا گیا تھا، آپ کے دائیں ایک دیہاتی اور بائیں ابوبکر بیٹھے ہوئے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دودھ نوش فرمایا پھر دیہاتی کو (پیالہ) دے دیا اور فرمایا: دائیں طرف والا زیادہ حقدار ہے پھر وہ جو اس کے دائیں ہو ۱؎۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب الأشربة /حدیث: 3726]
فوائد ومسائل:
فائدہ: ان دونوں حدیثوں سے واضح ہوا کہ ساقی خود آخر میں پیے۔
اور جسے مجلس میں دودھ وغیرہ پیش کیا جائے۔
وہ اوروں کی طرف بڑھائے۔
تو دایئں والے کو دے اور پھر اسی طرح آگے پیش کیا جائے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3726   

  الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:1216  
1216- سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب مدینہ منورہ تشریف لائے میں اس و قت دس سال کا لڑکا تھا، جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا وصال ہوا اس وقت میں 20 سال کا لڑکا تھا میری امی اور خالائیں مجھے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت کی ترغیب دیا کرتی تھیں پھر ایک مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے ہاں گھر تشریف لائے ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے اپنی پالتو بکری کادودھ دوہ لیا اور ا س میں گھر میں موجود کنویں کا پانی ملادیا تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے پی لیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بائیں طرف سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ موجود تھے اور آپ صلی۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [مسند الحمیدی/حدیث نمبر:1216]
فائدہ:
اس حدیث سے ثابت ہوا کہ دائیں طرف والے کو بائیں طرف والے پر ترجیح دینی چاہیے، جب انسان بیٹھے تو ہر جگہ دائیں طرف بیٹھنے کی کوشش کرنی چاہیے۔
   مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 1214   

  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 5290  
حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لائے جبکہ میں دس سال کا تھا اور آپﷺ فوت ہوئے، جبکہ میں بیس سال کا تھا اور میری مائیں مجھے آپ کی خدمت پر ابھارتی تھیں۔ آپ ہمارے ہاں ہمارے گھر میں داخل ہوئے تو ہم نے آپﷺ کے لیے گھریلو بکری دوہی اور اس میں گھر کے کنویں سے پانی ملایا گیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پیا، پھر حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آپ سے کہا: ـــــــ جبکہ ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ آپﷺ کی... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:5290]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
اگر مہمان کو دودھ میں پانی ملا کر پلایا جائے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے،
لیکن خریدار کو پانی ملا کر دینا دھوکا اور فریب ہے،
اس لیے جائز نہیں ہے اور ادب و احترام کے اعتبار سے عزیز و اقارب سے تعلق رکھنے والی عورتوں کو بھی ماں کہا جا سکتا ہے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 5290   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5612  
5612. حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو دودھ پیتے دیکھا۔ آپ ان کے گھر تشریف لائے تو میں نے (حضرت انس) نے بکری کا دودھ نکالا اور اس میں کنویں کا تازہ پانی ملا کر رسول اللہ ﷺ کو پیش کیا۔ آپ ﷺ نے پیالہ لیا اور اسے نوش فرمایا۔ آپ کی بائیں جانب حضرت ابوبکر صدیق ؓ تھےاور دائیں جانب ایک اعرابی تھا۔ آپ نے اپنا باقی دودھ اعرابی کو دیا، پھر فرمایا: حق اس شخص کا ہے جو دائیں جانب ہو پھر وہ حق دار ہے جو اسے دائیں جانب ہو۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5612]
حدیث حاشیہ:
معلوم ہوا کہ کھانا کھلاتے اور شربت یا دودھ پلاتے وقت دائیں طرف سے شروع کرنا چاہیئے اگرچہ بائیں جانب بڑے بزرگ ہی کیوں نہ ہوں۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5612   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2571  
2571. حضرت انس ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: رسول اللہ ﷺ ہمارے اس گھر میں تشریف لائے تو آپ نے پانی طلب فرمایا۔ ہم نے آپ کے لیے ایک بکری کادودھ نکالا، پھر میں نے اس میں اپنے کنویں کاپانی ملایا۔ اسکے بعد اسے آپ کی خدمت میں پیش کیا جبکہ حضرت ابو بکر ؓ آپ کی بائیں جانب، حضرت عمرفاروق ؓ آپ کے سامنے اور ایک اعرابی آپ کی دائیں طرف تھا۔ جب آپ نوش فرماکر فارغ ہوئے تو حضرت عمر فاروق ؓ نے عرض کیا: یہ حضرت ابوبکر ؓ ہیں، لیکن آپ نے اپنا بچا ہوا دودھ اعرابی کو دے دیا، پھر فرمایا: دائیں جانب والے مقدم ہیں۔ دائیں جانب والے مقدم ہیں۔ اچھی طرح سن لو!دائیں جانب سے شروع کیاکرو۔ حضرت انس ؓ نے فرمایا: یہ سنت ہے۔ یہ سنت ہے تین مرتبہ ایسا فرمایا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2571]
حدیث حاشیہ:
مقصد باب اور خلاصہ حدیث واردہ یہ ہے کہ ہر انسان کے لیے اس کی مجلس زندگی میں دوست احباب کے ساتھ بے تکلفی کے بہت سے مواقع آجاتے ہیں۔
شریعت اسلامیہ اس بارے میں تنگ نظر نہیں ہے، اس نے ایسے مواقع کے لیے ہر ممکن سہولتیں دی ہیں جو معیوب نہیں ہیں۔
مثلاً اپنے دوست احباب سے پانی پلانے کی فرمائش کرنا جیسا کہ حدیث میں مذکور ہے کہ آنحضرت ﷺ نے حضرت انس ؓ کے یہاں تشریف لاکر پانی طلب فرمایا۔
حضرت انس ؓ بھی مزاج رسالت کے قدر داں تھے۔
انہوں نے پانی اور دودھ ملاکر لسی بناکر پیش کردیا۔
آداب مجلس کا یہاں دوسرا واقعہ وہ پیش آیا جو روایت میں مذکور ہے۔
حضرت انس ؓ نے سنت رسول ﷺ کے اظہار اور اس کی اہمیت بتلانے کے لیے تین بار یہ لفظ دہرائے۔
واقعہ یہی ہے کہ سنت رسول ﷺ کی بڑی اہمیت ہے خواہ وہ سنت کتنی ہی چھوٹی کیو ں نہ ہو۔
فدائیان رسول ﷺ کے لیے ضروری ہے کہ وہ ہر وقت ہر کام میں سنت رسول ﷺ کو سامنے رکھیں، اسی میں دارین کی بھلائی ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2571   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2571  
2571. حضرت انس ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: رسول اللہ ﷺ ہمارے اس گھر میں تشریف لائے تو آپ نے پانی طلب فرمایا۔ ہم نے آپ کے لیے ایک بکری کادودھ نکالا، پھر میں نے اس میں اپنے کنویں کاپانی ملایا۔ اسکے بعد اسے آپ کی خدمت میں پیش کیا جبکہ حضرت ابو بکر ؓ آپ کی بائیں جانب، حضرت عمرفاروق ؓ آپ کے سامنے اور ایک اعرابی آپ کی دائیں طرف تھا۔ جب آپ نوش فرماکر فارغ ہوئے تو حضرت عمر فاروق ؓ نے عرض کیا: یہ حضرت ابوبکر ؓ ہیں، لیکن آپ نے اپنا بچا ہوا دودھ اعرابی کو دے دیا، پھر فرمایا: دائیں جانب والے مقدم ہیں۔ دائیں جانب والے مقدم ہیں۔ اچھی طرح سن لو!دائیں جانب سے شروع کیاکرو۔ حضرت انس ؓ نے فرمایا: یہ سنت ہے۔ یہ سنت ہے تین مرتبہ ایسا فرمایا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2571]
حدیث حاشیہ:
حضرت عمر فاروق ؓ نے ازخود آپ سے مطالبہ کیا کہ آپ کا بچا ہوا تبرک ابوبکر ؓ کا حق ہے انہیں ملنا چاہیے، نیز عنوان سے مطابقت اس طرح ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت انس ؓ کے گھر تشریف لا کر ازخود پانی پینے کی خواہش کا اظہار کیا۔
بہرحال ہر انسان کے لیے اس کی زندگی میں دوست احباب کے ساتھ بے تکلفی کے بہت سے مواقع آتے ہیں۔
شریعت اسلامیہ اس کے متعلق تنگ نظر نہیں ہے۔
ایسے مواقع پر دین اسلام نے ہمیں ہر ممکن سہولت دی ہے جو معیوب نہیں، چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت انس ؓ سے پانی طلب کیا۔
چونکہ حضرت انس ؓ آپ کے مزاج شناس تھے، انہوں نے دودھ میں پانی ملا کر آپ کے حضور پیش کیا تو آپ نے نوش فرمایا۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2571   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5612  
5612. حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو دودھ پیتے دیکھا۔ آپ ان کے گھر تشریف لائے تو میں نے (حضرت انس) نے بکری کا دودھ نکالا اور اس میں کنویں کا تازہ پانی ملا کر رسول اللہ ﷺ کو پیش کیا۔ آپ ﷺ نے پیالہ لیا اور اسے نوش فرمایا۔ آپ کی بائیں جانب حضرت ابوبکر صدیق ؓ تھےاور دائیں جانب ایک اعرابی تھا۔ آپ نے اپنا باقی دودھ اعرابی کو دیا، پھر فرمایا: حق اس شخص کا ہے جو دائیں جانب ہو پھر وہ حق دار ہے جو اسے دائیں جانب ہو۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5612]
حدیث حاشیہ:
(1)
دودھ جب نکالا جاتا ہے تو گرم ہوتا ہے۔
گرم علاقوں میں اس کی گرمی میں مزید اضافہ ہو جاتا ہے، اس لیے عرب لوگ اس کی گرمی کا توڑ ٹھنڈے پانی سے کیا کرتے تھے۔
حضرت انس رضی اللہ عنہ نے بھی ایسا ہی کیا۔
ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے گھر تشریف لائے تو آپ نے پینے کے لیے پانی طلب فرمایا تو ہم نے اپنی بکری کا دودھ دوہا اور اس میں کنویں کا پانی ملا کر آپ کو پیش کیا۔
(صحیح البخاري، الھبة و فضلھا و التحریض علیھا، حدیث: 2571) (2)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ کھانا کھلاتے یا کوئی مشروب پلاتے وقت دائیں طرف سے شروع کرنا چاہیے، خواہ بائیں جانب بڑے بڑے بزرگ ہی تشریف فرما کیوں نہ ہوں۔
واللہ أعلم
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5612   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5619  
5619. حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں پانی ملایا ہوا دودھ پیش کیا گیا جبکہ آپ کی دائیں جانب ایک دیہاتی اور بائیں جانب حضرت ابوبکر صدیق ؓ تھے۔ آپ ﷺ نے وہ دودھ پی کر باقی اعرابی کو دیا اور فرمایا: دائیں جانب والے زیادہ حق دار ہیں پھر اس کی دائیں جانب والے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5619]
حدیث حاشیہ:
(1)
اگر لوگ کسی کے آگے یا پیچھے بیٹھے ہوں یا بائیں جانب بیٹھے ہوں تو بڑے کو ترجیح ہو گی، یعنی پینے پلانے کا آغاز بڑے آدمی سے ہو گا۔
اگر دائیں بائیں بیٹھے ہوں تو دائیں جانب والوں کو ترجیح ہو گی، پھر بڑے چھوٹے کا خیال نہیں رکھا جائے گا، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دائیں جانب بہت پسند تھی۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم پسندیدہ کام دائیں جانب سے شروع کرتے تھے۔
بہرحال مساویانہ حیثیت کے وقت دائیں جانب کو مقدم کیا جائے گا۔
واللہ أعلم
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5619