الحمدللہ ! احادیث کتب الستہ آف لائن ایپ ریلیز کر دی گئی ہے۔    

1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:



صحيح البخاري
كِتَاب الشُّرْبِ والْمُسَاقَاةِ
کتاب: مساقات کے بیان میں
1M. بَابٌ في الشُّرْبِ، وَمَنْ رَأَى صَدَقَةَ الْمَاءِ وَهِبَتَهُ وَوَصِيَّتَهُ جَائِزَةً، مَقْسُومًا كَانَ أَوْ غَيْرَ مَقْسُومٍ:
1M. باب: پانی کی تقسیم اور جو کہتا ہے پانی کا حصہ خیرات کرنا اور ہبہ کرنا اور اس کی وصیت کرنا جائز ہے وہ پانی بٹا ہوا ہو یا بن بٹا ہوا۔
حدیث نمبر: Q2351-2
وَقَوْلِهِ جَلَّ ذِكْرُهُ: أَفَرَأَيْتُمُ الْمَاءَ الَّذِي تَشْرَبُونَ {68} أَأَنْتُمْ أَنْزَلْتُمُوهُ مِنَ الْمُزْنِ أَمْ نَحْنُ الْمُنْزِلُونَ {69} لَوْ نَشَاءُ جَعَلْنَاهُ أُجَاجًا فَلَوْلا تَشْكُرُونَ {70} سورة الواقعة آية 68-70، الْأُجَاجُ: الْمُرُّ، الْمُزْنُ: السَّحَابُ.
‏‏‏‏ اور اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان «أفرأيتم الماء الذي تشربون أأنتم أنزلتموه من المزن أم نحن المنزلون لو نشاء جعلناه أجاجا فلولا تشكرون» کہ دیکھا تم نے اس پانی کو جس کو تم پیتے ہو، کیا تم نے بادلوں سے اسے اتارا ہے، یا اس کے اتارنے والے ہم ہیں۔ ہم اگر چاہتے تو اس کو کھارہ بنا دیتے۔ پھر بھی تم شکر ادا نہیں کرتے۔ «اجاج» (قرآن مجید کی آیت میں) کھارہ پانی کے معنی میں ہے اور «مزن» بادل کو کہتے ہیں۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الشُّرْبِ والْمُسَاقَاةِ/حدیث: Q2351-2]
حدیث نمبر: Q2351
وَقَالَ عُثْمَانُ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَنْ يَشْتَرِي بِئْرَ رُومَةَ فَيَكُونُ دَلْوُهُ فِيهَا كَدِلَاءِ الْمُسْلِمِينَ، فَاشْتَرَاهَا عُثْمَانُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ.
‏‏‏‏ اور عثمان رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، کوئی ہے جو بیئر رومہ (مدینہ میں ایک مشہور کنواں) کو خرید لے اور اپنا ڈول اس میں اسی طرح ڈالے جس طرح اور مسلمان ڈالیں۔ (یعنی اسے واقف کر دے) آخر عثمان رضی اللہ عنہ نے اسے خریدا۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الشُّرْبِ والْمُسَاقَاةِ/حدیث: Q2351]
حدیث نمبر: 2351
حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ أَبِي مَرْيَمَ، حَدَّثَنَا أَبُو غَسَّانَ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبُو حَازِمٍ، عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ:" أُتِيَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِقَدَحٍ، فَشَرِبَ مِنْهُ، وَعَنْ يَمِينِهِ غُلَامٌ أَصْغَرُ الْقَوْمِ، وَالْأَشْيَاخُ عَنْ يَسَارِهِ، فَقَالَ: يَا غُلَامُ، أَتَأْذَنُ لِي أَنْ أُعْطِيَهُ الْأَشْيَاخَ، قَالَ: مَا كُنْتُ لِأُوثِرَ بِفَضْلِي مِنْكَ أَحَدًا يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَأَعْطَاهُ إِيَّاهُ".
ہم سے سعید بن ابی مریم نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ابوغسان نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے ابوحازم نے بیان کیا اور ان سے سہل بن سعد رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں دودھ اور پانی کا ایک پیالہ پیش کیا گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو پیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دائیں طرف ایک نوعمر لڑکا بیٹھا ہوا تھا۔ اور کچھ بڑے بوڑھے لوگ بائیں طرف بیٹھے ہوئے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا لڑکے! کیا تو اجازت دے گا کہ میں پہلے یہ پیالہ بڑوں کو دے دوں۔ اس پر اس نے کہا، یا رسول اللہ! میں تو آپ کے جھوٹے میں سے اپنے حصہ کو اپنے سوا کسی کو نہیں دے سکتا۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ پیالہ پہلے اسی کو دے دیا۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الشُّرْبِ والْمُسَاقَاةِ/حدیث: 2351]
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة

   صحيح البخاريأتأذن لي أن أعطي الأشياخ قال ما كنت لأوثر بنصيبي منك أحدا فأعطاه إياه
   صحيح البخاريإن أذنت لي أعطيت هؤلاء فقال ما كنت لأوثر بنصيبي منك أحدا فتله في يده
   صحيح البخاريأتأذن لي أن أعطيه الأشياخ قال ما كنت لأوثر بفضلي منك أحدا فأعطاه إياه
   صحيح البخاريأتأذن لي أن أعطي هؤلاء قال الغلام لا أوثر بنصيبي منك أحدا فتله في يده
   صحيح البخاريأتأذن لي أن أعطي هؤلاء قال الغلام لا أوثر بنصيبي منك أحدا فتله رسول الله في يده
   صحيح البخاريأتأذن لي أن أعطي هؤلاء قال الغلام لا أوثر بنصيبي منك أحدا فتله رسول الله في يده
   صحيح مسلمأتأذن لي أن أعطي هؤلاء قال الغلام لا أوثر بنصيبي منك أحدا فتله رسول الله في يده
   موطا امام مالك رواية ابن القاسماتاذن لي ان اعطي هؤلاء

صحیح بخاری کی حدیث نمبر 2351 کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2351  
حدیث حاشیہ:
یہ نوعمر لڑکے حضرت عبداللہ بن عباس ؓ تھے اور اتفاق سے یہ اس وقت مجلس میں دائیں جانب بیٹھے ہوئے تھے۔
دیگر شیوخ اور بزرگ صحابہ بائیں جانب تھے۔
آنحضرت ﷺ نے جب باقی ماندہ مشروب کو تقسیم فرمانا چاہا تو یہ تقسیم دائیں طرف سے شروع ہونی تھی۔
اور اس کا حق حضرت عبداللہ بن عباس ؓ کو پہنچتا تھا۔
آنحضرت ﷺ نے بائیں جانب والے بزرگوں کا خیال فرما کر عبداللہ بن عباس سے اجازت چاہی لیکن وہ اس لیے تیار نہ ہوئے کہ اس طور پر آنحضرت ﷺ کا بچایا ہوا پانی کہاں اور کب نصیب ہونا تھا۔
اس لیے انہوں نے اس ایثار سے صاف انکار کر دیا۔
اس حدیث کی باب سے مناسبت یوں ہے کہ پانی کی تقسیم ہو سکتی ہے اور اس کے حصے کی ملک جائز ہے۔
ورنہ آپ ﷺ اس لڑکے سے اجازت کیوں طلب فرماتے۔
حدیث سے یہ بھی نکلا کہ تقسیم میں داہنی طرف والوں کا حصہ ہے، پھر بائیں طرف والوں کا۔
پس آنحضرت ﷺ نے اپنا بچا ہوا پانی اس لڑکے پر ہبہ فرما دیا۔
اس سے پانی کا ہبہ کر دینا بھی ثابت ہوا۔
اور یہ بھی ثابت ہوا کہ حق اور ناحق کے مقابلہ میں کسی بڑے سے بڑے آدمی کا بھی لحاظ نہیں کیا جاسکتا۔
حق بہرحال حق ہے اگر وہ کسی چھوٹے آدمی کو پہنچتا ہے تو بڑوں کا فرض ہے۔
کہ بہ رضا رغبت اسے اس کے حق میں منتقل ہونے دیں۔
اور اپنی بڑائی کا خیال چھوڑدیں، لیکن آج کے دور میں ایسے ایثار کرنے والے لوگ بہت کم ہیں، ایثار اور قربانی ایمان کا تقاضا ہے اللہ ہر مسلمان کو یہ توفیق بخشے۔
آمین۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2351   

  الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 2351  
صحیح بخاری کی حدیث نمبر: 2351 کا باب: «بَابٌ في الشُّرْبِ، وَمَنْ رَأَى صَدَقَةَ الْمَاءِ وَهِبَتَهُ وَوَصِيَّتَهُ جَائِزَةً، مَقْسُومًا كَانَ أَوْ غَيْرَ مَقْسُومٍ:» � باب اور حدیث میں مناسبت:
الفاظ حدیث میں لفظ شرب آیا ہے۔ علامہ نسفی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«شِرب: بكسر الشين»، پانی کا حصہ، گھاٹ، پینے کا وقت، اس کی جمع «أشراب» ہو گی، باب «سَمِعَ» سے مصدر ہے، اور ضمہ اور فتحہ سے بھی پڑھا گیا ہے۔ [طلبة الطلبة للنسفي، ص: 312]
مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: [جمهرة الأمثال، ج 1، ص: 81 - مجمع الأمثال، ص: 43]
صاحب «مُغرِب» رقمطراز ہیں:
«شِرب، لغة» شین کے کسرے کے ساتھ ہے، پانی کے حصے کو کہتے ہیں اور شرعا اپنے کھیتوں کو سیراب کرنے یا اپنے مویشیوں کو پانی پلانے کے لیے اپنے حصہ کی باری کو کہتے ہیں۔ [المُغرب، ج 1، ص: 436]
لہذا ترجمۃ الباب سے امام بخاری رحمہ اللہ اس مقصد کو ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ پانی پر انسانی ملکیت جاری ہو سکتی ہے اور اس کو مملوک بھی بنانا جائز ہے۔ امام ابن المنیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«مراد أن الماء يملك، ولهذا استأذن النبى صلى الله عليه وسلم بعض الشركاء فيه، ورتب قسمته يمنة ويسرة . . .» [فتح الباري، ج 1، ص: 17]
یعنی امام بخاری رحمہ اللہ کی مراد یہ ہے کہ پانی پر انسانی ملکیت جاری ہو سکتی اور اس کو مملوک بنانا بھی جائز ہے۔ اس لیے حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بعض شرکاء سے اس کی تقسیم کے لیے اجازت طلب فرمائی، اور اس کی تقسیم کو دائیں اور بائیں جانب مرتب فرمایا، اگر وہ اپنی اباحت پر باقی رہتا تو نہ ہی کسی کی ملک میں داخل ہوتا اور نہ ہی اجازت اور ترتیب تقسیم کی ضرورت پیش آتی۔
علامہ عبدالحق الہاشمی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
سیدنا انس رضی اللہ عنہ کی حدیث کی ترجمۃ الباب سے جو مناسبت ہے وہ اس جہت سے ہے کہ پانی کا تقسیم کرنا مشروع ہے کیونکہ خاص کیا گیا ہے ان لوگوں کو جو دائیں جانب ہوا کرتے ہیں، یعنی انہی لوگوں سے ابتداء کی جائے تقسیم کے لیے۔ لہذا یہیں سے ترجمۃ الباب سے مناسبت ہو گی۔ [. . . . . التراجم والأبواب، ج 00، ص: 00]
لہذا ترجمۃ الباب اور حدیث میں مناسبت کچھ یوں ہو گی کہ حدیث میں دائیں طرف صحابی کے بیٹھنے سے ان کا استحقاق ہو گیا تھا۔ اگر ان کا استحقاق ہی نہ ہوتا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان سے اجازت طلب کیوں فرماتے؟ لہذا اگر آدمی پانی کو اپنے تصرف میں لے آئے، اپنے مشکیزے وغیرہ میں رکھ لے تو بطریق اولی اس کا استحقاق اس پانی پر ثابت ہو جائے گا اور وہ پانی اس کی ملک ہو جائے گا۔ [فتح الباري، ج 6، ص 67]
لہذا یہیں سے ترجمۃ الباب سے حدیث کی مناسبت ظاہر ہوتی ہے، لیکن ساتھ ہی ساتھ علامہ عینی رحمہ اللہ نے ایک اشکال وارد فرمایا ہے۔
علامہ عینی رحمہ اللہ کا حدیث پر اشکال:
«فإن قلت: ليس فى الحديث أن القدح كان فيه ماء؟» [عمدة القاري، شرح صحيح البخاري، ج 16، ص 281]
اس حدیث میں تو اس بات کی کوئی وضاحت نہیں ہے کہ وہ پیالہ پانی کا تھا، تو اس حدیث سے پانی کی ملکیت کے استحقاق کا مدعی کیسے ثابت ہوا؟
امام عبداللہ بن سالم البصری الشافعی رحمہ اللہ آپ کے اعتراض کا جواب دیتے ہوئے فرماتے ہیں کہ:
«والحديث الأول لم يذكر فيه الشراب الذى كان فى القدح هل هو ماء أو لبن شيب بماء؟ و ظاهر الأمر انه كان لبنا، أى بل جاء مفسرا فى كتاب الأشربة بأنه لبن» [ضياء الساري، ج 18، ص: 15]
یعنی حدیث اول میں اس کا ذکر نہیں ہے کہ پیالہ کس چیز کا تھا، یعنی اس میں کیا چیز تھی، پانی تھا، دودھ تھا، یا پانی اور دودھ ملا ہوا تھا؟ جو ظاہر ہے وہ یہ ہے کہ وہ دودھ تھا جیسا کہ آگے «كتاب الأشربة» میں ذکر ہے کہ وہ دودھ کا پیالہ تھا۔
فائدہ:
داہنے ہاتھ پر جو صحابی تشریف رکھتے تھے وہ کون تھے؟ سنن الترمذی کی حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما تھے۔ [سنن الترمذي، رقم: 3455، و حسنه الألباني فى السلسلة الصحيحة: 2340، و ابن السني، رقم: 468]
حافظ ابن عبدالبر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«و روى من طريق اسماعيل بن جعفر: أخبرني أبوحازم عن سهل بن سعد قال: أتى رسول الله صلى الله عليه وسلم بقدح من لبن و غلام عن يمينه و الأشياخ امامه و عن يساره . . . الحديث» [التمهيد، ج 21، ص: 132]
ابن بطال رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«يقال أن الغلام هو الفضل بن العباس» [شرح ابن بطال، ج 6، ص: 494]
یعنی وہ لڑکا فضل بن عباس تھے۔
برہان الدین سبط ابن العجمی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ فضل بن عباس تھے۔ [تنبيه المسلم بمهمات صحيح مسلم، ص: 350]
حافظ ابن عبدالبر رحمہ اللہ نے بھی ایک روایت پیش فرمائی، اس میں سیدنا ابن عباس سے مراد سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما ہیں۔ [التمهيد، ج 21، ص: 123]
ابن الملقن رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
اس غلام سے مراد یہاں سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما ہیں جیساکہ گزر چکا ہے۔ [التوضيح، ج 15، ص: 311]
علامہ ابن التین رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما مراد ہیں۔ [فتح الباري، ج 6، ص: 68]
علامہ قسطلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما ہی مراد ہیں کیونکہ یہ قول متعین ہے جیسا کہ مسند ابن ابی شیبہ کی روایت سے صراحت ہوتی ہے۔ [إرشاد الساري، ج 5، ص: 341]
امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
لڑکے سے مراد سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما ہیں۔ [إرشاد الساري، ج 5، ص: 341 - تكملة فتح الملهم: 10/4]
بائیں جانب جو شیوخ تھے وہ کون تھے؟
امام نووی رحمہ اللہ نے فرمایا: «اشياخ» میں سیدنا خالد بن ولید رضی اللہ عنہ بھی داخل ہیں۔ [إرشاد الساري، ج 5، ص: 341]
ابن الملقن رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«و الأشياخ: خالد بن الوليد أو منهم خالد» [التوضيح، ج 15، ص: 311]
عبداللہ سالم البصری فرماتے ہیں:
«الأشياخ» میں خالد بن ولید شامل تھے۔ [ضياء الساري، ج 18، ص: 11]
بعض حضرات نے ابن التین رحمہ اللہ سے نقل کیا ہے: اگلی روایت میں جو فرمان «عن يمينه أعرابي» اس سے مراد سیدنا خالد بن ولید رضی اللہ عنہ ہیں۔ [عمدة القاري، ج 12، ص 282]
علامہ عینی رحمہ اللہ نے تعقب فرمایا ہے کہ سیدنا خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کو اعرابی کہنا درست نہیں ہے اور نہ وہ مشائخ کی عمر کو پہنچے تھے۔
لہذا اگر دونوں واقعات جو مذکورہ احادیث میں موجود ہیں اور وہ واقعہ جو ترمذی، کتاب الدعوات، رقم 3455 میں مرقوم ہے، اگر ایک ہی ہے تو کوئی اشکال اس میں وارد نہیں ہے۔ مگر حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے ان کا رد کیا ہے۔ آپ فرماتے ہیں:
«وتعقب بأن مثله لا يقال له اعرابي، وكأن الحامل له على ذالك أنه رأى فى حديث ابن عباس الذى أخرجه الترمذي قال دخلت أنا و خالد بن الوليد على ميمونة . . . فظن أن القصة واحدة، وليس كذالك فان هذه القصة فى بيت ميمونة وقصة أنس فى دار أنس فافترقا . . .» [فتح الباري، ج 5، ص: 27-28]
بعض حضرات کا یہ گمان ہے کہ سیدنا انس رضی اللہ عنہ اور سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما والی احادیث کا تعلق ایک ہی واقعے سے ہے تو انہوں نے اعرابی سے سیدنا خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کو مراد لیا۔ حالانکہ حقیقت اس کے خلاف ہے کیونکہ یہ قصہ تو سیدہ میمونہ بنت الحارث رضی اللہ عنہا کے گھر میں پیش آیا اور دوسرا واقعہ جو سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے وہ سیدنا انس رضی اللہ عنہ کے گھر میں پیش آیا۔
اور جہاں تک روایت مذکورہ میں «أشياخ» میں سیدنا خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کی شمولیت کا مسئلہ ہے تو یہ قصہ اور سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما والی حدیث کا قصہ ایک ہی ہے تو اس میں سیدنا خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کی شمولیت میں کوئی بھی اشکال وارد نہیں ہوتا۔ یہ اس لیے کہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کی روایت میں اس بات کی کوئی ممانعت نہیں ہے کہ سیدنا خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کے علاوہ وہاں کوئی اور نہیں تھا۔
   عون الباری فی مناسبات تراجم البخاری ، جلد اول، حدیث/صفحہ نمبر: 362   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2351  
حدیث حاشیہ:
(1)
اس حدیث سے پانی کی تقسیم کا جواز ثابت ہوا، نیز اس کے حصے کی ملکیت بھی جائز ہے بصورت دیگر اس لڑکے سے اجازت لینے کی ضرورت نہیں تھی۔
(2)
یہ بھی معلوم ہوا کہ تقسیم سے پہلے دائیں طرف والوں کا حق فائق ہے۔
رسول اللہ ﷺ نے اپنا بچا ہوا پانی لڑکے کو دیا اس سے پانی کا ہبہ کرنا بھی ثابت ہوا۔
واضح رہے کہ حدیث میں مذکور برخوردار حضرت عبداللہ بن عباس ؓ تھے جو اتفاق سے اس وقت رسول اللہ ﷺ کی دائیں جانب بیٹھے تھے، باقی بزرگ حضرات بائیں طرف تھے۔
جب رسول اللہ ﷺ نے باقی ماندہ مشروب تقسیم کرنا چاہا تو یہ تقسیم دائیں طرف سے شروع ہونا تھی اور اس کا حق حضرت عبداللہ بن عباس ؓ کو پہنچتا تھا۔
رسول اللہ ﷺ نے بائیں جانب والے بزرگوں کا لحاظ کرتے ہوئے ان سے اجازت چاہی تو انہوں نے صاف انکار کر دیا کیونکہ نہ معلوم آپ کا بچا ہوا پانی کب اور کہاں نصیب ہو، اس بنا پر انہوں نے ایثار سے صاف انکار کر دیا۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2351   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديثموطا امام مالك رواية ابن القاسم 472  
´کسی چیز کو تقسیم کرتے وقت دائیں طرف سے آغاز کیا جائے`
«. . . 413- وبه: أن النبى صلى الله عليه وسلم أتي بشراب فشرب منه وعن يمينه غلام وعن يساره الأشياخ، فقال للغلام: أتأذن لي أن أعطي هؤلاء فقال: لا والله يا رسول الله، لا أوثر بنصيبي منك أحدا، قال: فتله رسول الله صلى الله عليه وسلم فى يده. . . .»
. . . اور اسی سند کے ساتھ (سیدنا سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے) روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک مشروب (یعنی دودھ) لایا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس میں سے پیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دائیں طرف ایک لڑکا تھا اور بائیں طرف بڑی عمر کے لوگ تھے تو آپ نے لڑکے سے کہا: اگر تم مجھے اجازت دو تو ان (بڑی عمر کے) لوگوں کو یہ (بچا ہوا حصہ) دے دوں؟ اس لڑکے نے کہا: نہیں، یا رسول اللہ! اللہ کی قسم! میں آپ کے جوٹھے پر کسی کو ترجیح نہیں دوں گا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اس کے ہاتھ پر رکھ دیا۔ . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 472]
تخریج الحدیث:
[وأخرجه البخاري 5620، و مسلم 2030، من حديث مالك به]

تفقه:
➊ پینے پلانے کی چیز تحفہ دینے یا پینے پلانے میں دائیں طرف سے شروع کرنا چاہئے، اگرچہ بائیں طرف افضل انسان بھی موجود ہوں
➋ بڑوں کی دائیں طرف چھوٹے بچے بیٹھ سکتے ہیں بہتر یہی ہے کہ انھیں بائیں طرف بٹھایا جائے۔
➌ کبار علماء کی مجلس میں طالب علم بھی بیٹھ سکتے ہیں اور اسی طرح افضل کے ساتھ مفضول کا بیٹھنا جائز ہے۔
➍ بہتر یہی ہے کہ اگر کسی کے پاس کھانے پینے کا تحفہ لایا جائے تو وہ اپنے ساتھ مجلس کے دوسرے ساتھیوں کو بھی شریک کرلے لیکن یہ واجب یا ضروری نہیں ہے۔
➎ شرعی حدود کا ہر وقت خیال رکھنا چاہئے۔
➏ نیز دیکھئے حدیث [البخاري 5619، ومسلم 2029]
اردو لغات میں جوٹھے کو جھوٹا لکھا جاتا ہے جب کہ ہمارے نزدین لفظ جوٹھا زیادہ فصیح ہے۔ واللہ اعلم
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 413   

  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 5292  
حضرت سہل بن سعد ساعدی رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مشروب پیش کیا گیا، آپ نے اس میں سے پی لیا، آپ کے دائیں جانب ایک نوعمر لڑکا تھا اور بائیں طرف بڑی عمر کے افراد تھے، آپﷺ نے نوعمر لڑکے سے پوچھا: کیا تم مجھے اجازت دیتے ہو کہ میں ان کو دے دوں؟ لڑکے نے کہا: نہیں، اللہ کی قسم! آپﷺ سے ملنے والے اپنے حصہ پر میں کسی کو ترجیح نہیں دوں گا تو آپﷺ نے اسے سختی سے اس کے ہاتھ میں دے دیا۔ [صحيح مسلم، حديث نمبر:5292]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
اس واقعہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دائیں طرف بیٹھنے والے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما تھے،
جو آپ کے عزیز تھے اور بائیں طرف،
بیٹھنے والے بھی حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کے عزیز تھے،
اس لیے آپ نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے ان کو دینے کی اجازت طلب کی کہ وہ اپنا حق اپنے بڑوں کو دے دیں اور بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے،
آپ نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کے خالہ زاد حضرت خالد بن ولید رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو دینا چاہا،
لیکن انہوں نے حضور کا جھوٹا ہونے کی برکت کی بنا پر اس کو گوارا نہیں کیا تو آپ نے ابن عباس رضی اللہ عنہما کو ہی دے دیا۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 5292   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2366  
2366. حضرت سہل بن سعد ؓ سے روایت ہے انھوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس پانی کا ایک پیالہ لایاگیا تو آپ نے اس سے نوش فرمایا۔ آپ کی دائیں جانب ایک نوعمر لڑکا تھا جبکہ بزرگ حضرات آپ کی بائیں جانب تھے۔ آپ نے فرمایا: برخوردار!مجھے اجازت دیتے ہو کہ میں یہ پیالہ بزرگوں کو دے دوں؟ اس نے کہا: اللہ کے رسول ﷺ! میں اپنے حصے پر جو آپ کی طرف سے میرے نصیب میں ہے کسی کوترجیح دینے پر راضی نہیں، تو آپ نے وہ پیالہ اسی کو دے دیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2366]
حدیث حاشیہ:
ترجمہ باب سے مطلب اس طرح ہے کہ حوض اور مشک کو پیالے پر قیاس کیا۔
ابن منیر نے کہا وجہ مناسبت یہ ہے کہ جب داہنی طرف بیٹھنے والا پیالہ کا زیادہ حق دار ہوا صرف داہنی طرف بیٹھنے کی وجہ سے تو جس نے حوض بنایا، مشک تیار کیا، وہ بطریق اولیٰ پہلے اس کے پانی کا حق دار ہوگا۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2366   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2451  
2451. حضرت سہل بن سعد ساعدی ؓ سے روایت ہے وہ رسول اللہ ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ کے پاس کوئی مشروب لایاگیا جس سے آپ نے کچھ نوش فرمایا۔ آپ کی دائیں جانب ایک لڑکا بیٹھا تھا۔ جبکہ بائیں جانب کچھ بزرگ لوگ تھے۔ آپ ﷺ نے لڑکے سے فرمایا: تم مجھے اجازت دیتے ہوکہ میں اپنا پس خوردہ (بچا ہوا) ان بزرگوں کو دے دوں؟ لڑکے نے کہا: اللہ کی قسم! نہیں اللہ کے رسول ﷺ! میرا حصہ جو آپ سے مجھے ملنے والا ہے وہ میں کسی اور کو دینے والا نہیں ہوں۔ آخر کار آپ نے وہ پیالہ اسی کی ہاتھ میں تھمادیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2451]
حدیث حاشیہ:
کیوں کہ اس کا حق مقدم تھا وہ داہنی طرف بیٹھا تھا۔
اس حدیث کی باب سے مناسبت کے لیے بعض نے کہا کہ حضرت امام بخاری ؒ نے باب کا مطلب یوں نکالا کہ آنحضرت ﷺ نے پہلے وہ پیالہ بوڑھے لوگوں کو دینے کی ابن عباس ؓ سے اجازت مانگی اگر وہ اجازت دے دیتے تو یہ اجازت ایسی ہی ہوتی جس کی مقدار بیان نہیں ہوئی۔
یعنی یہ بیان نہیں کیا گیا کہ کتنے دودھ کی اجازت ہے۔
پس باب کا مطلب نکل آیا۔
(وحیدی)
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2451   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5620  
5620. حضرت سہل بن سعد ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں ایک مشروب لایا گیا آپ نے اس میں سے کچھ نوش فرمایا۔ آپ کے دائیں جانب ایک نو عمر لڑکا تھا جبکہ بائیں جانب بزرگ صحابہ کرام ؓ تھے۔ آپ ﷺ نے لڑکے سے فرمایا: کیا تو مجھے اجازت دیتا ہے کہ میں بچا ہوا شربت ان شیوخ کو دے دوں؟ بچے نے کہا: اے اللہ کے رسول! اللہ کی قسم! آپ کے پس ماندہ سے ملنے والے حصے کے معاملے میں کسی پر ایثار نہیں کروں گا۔ راوی نے کہا: پھر رسول اللہ ﷺ نے زور سے اس کے ہاتھ میں پیالہ دے دیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5620]
حدیث حاشیہ:
لفظ ''تلة'' بتلاتا ہے کہ آپ نے وہ پیالہ بادل ناخواستہ اس لڑکے کے ہاتھ دیا، آپ کی خواہش تھی کہ وہ اپنے بڑوں کے لیے ایثار کرے مگر اس نے ایسا نہیں کیا تو آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے پیالہ اس کے حوالے کر دیا۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5620   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2602  
2602. حضرت سہل بن سعد ؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ کی خدمت میں ایک مشروب پیش کیا گیا جسے آپ نے نوش فرمایا۔ آپ کی دائیں جانب ایک لڑکا اور بائیں جانب کچھ بزرگ تھے۔ آپ ﷺ نے اس لڑکے سے فرمایا: اگر تم مجھے اجازت دوتو میں بچا ہوا پانی ان حضرات کو دےدوں؟ لڑکے نے عرض کیا: اللہ کے رسول ﷺ! میں آپ کے پس خوردہ (بچے ہوئے) سے اپنا حصہ کسی اور کو دینا پسند نہیں کرتا۔ آپ نے وہ پیالہ اس لڑکے کے ہاتھ میں تمھادیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2602]
حدیث حاشیہ:
حافظ نے کہا، چونکہ آنحضرت ﷺ نے ابن عباس ؓ سے یہ فرمایا کہ وہ اپنا حصہ بوڑھوں کو ہبہ کردیں اوربوڑھے کئی تھے اور ان کا حصہ مشاع تھا، اس لیے مشاع کو ہبہ کا جواز نکلا اور ثابت ہوا کہ ایک چیز کئی اشخاص کو مشترک طور پر ہبہ کی جاسکتی ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2602   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2605  
2605. حضرت سہل بن سعد ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں پینے کی کوئی چیز پیش کی گئی۔ آپ کے دائیں جانب ایک لڑکا تھا اور بائیں جانب کچھ اکابر تشریف فرماتھے۔ آپ نے لڑکے سے کہا: کیا تمہاری طرف سے اجازت ہے کہ میں (اپنابچا ہوا) ان بزرگوں کو دے دوں؟ لڑکے نے جواب دیا: نہیں، اللہ کی قسم!میں آپ سے ملنے والا تبرک کسی کو دینے والا نہیں ہوں۔ رسول اللہ ﷺ نے زور سے وہ مشروب اس کے ہاتھ میں تھمادیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2605]
حدیث حاشیہ:
اگرچہ حق اس لڑکے ہی کا تھا مگر آنحضرت ﷺ کی سفارش قبول نہ کی جس پر آپ نے جھٹکے کے ساتھ اسے وہ پیالہ دے دیا۔
حافظ صاحب ؒ فرماتے ہیں:
والحق کما قال ابن بطال إنه صلی اﷲ علیه وسلم سأل الغلام أن یهب نصیبه للأشیاخ وکان نصیبه منه مشاعا غیر متمیز فدل علی صحة ہبة المشاع واﷲ أعلم (فتح)
یعنی حق یہی ہے کہ آنحضرت ﷺ نے لڑکے سے فرمایا کہ وہ اپنا حصہ بڑے لوگوں کوہبہ کردے، اس کا وہ حصہ ابھی تک مشترک تھا۔
اسی سے مشاع کے ہبہ کرنے کی صحت ثابت ہوئی۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2605   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2366  
2366. حضرت سہل بن سعد ؓ سے روایت ہے انھوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس پانی کا ایک پیالہ لایاگیا تو آپ نے اس سے نوش فرمایا۔ آپ کی دائیں جانب ایک نوعمر لڑکا تھا جبکہ بزرگ حضرات آپ کی بائیں جانب تھے۔ آپ نے فرمایا: برخوردار!مجھے اجازت دیتے ہو کہ میں یہ پیالہ بزرگوں کو دے دوں؟ اس نے کہا: اللہ کے رسول ﷺ! میں اپنے حصے پر جو آپ کی طرف سے میرے نصیب میں ہے کسی کوترجیح دینے پر راضی نہیں، تو آپ نے وہ پیالہ اسی کو دے دیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2366]
حدیث حاشیہ:
(1)
شارح بخاری ابن منیر کہتے ہیں کہ جب دائیں جانب بیٹھنے والا صرف دائیں جانب ہونے کی وجہ سے اس پیالے کا زیادہ حق دار ہوا تو جس نے حوض بنایا اور مشکیزہ تیار کیا وہ بطریق اولیٰ پہلے اس پانی کا حق دار ہو گا۔
(2)
حافظ ابن حجر ؒ لکھتے ہیں کہ اس حدیث کی عنوان سے مناسبت بایں طور ہے کہ حوض اور مشکیزے کے پانی کو پیالے کے پانی پر قیاس کیا۔
اگر دائیں جانب والا پیالے کا حق دار نہ ہوتا تو آپ اس سے اجازت کیوں طلب کرتے۔
(فتح الباري: 55/5)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2366   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2451  
2451. حضرت سہل بن سعد ساعدی ؓ سے روایت ہے وہ رسول اللہ ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ کے پاس کوئی مشروب لایاگیا جس سے آپ نے کچھ نوش فرمایا۔ آپ کی دائیں جانب ایک لڑکا بیٹھا تھا۔ جبکہ بائیں جانب کچھ بزرگ لوگ تھے۔ آپ ﷺ نے لڑکے سے فرمایا: تم مجھے اجازت دیتے ہوکہ میں اپنا پس خوردہ (بچا ہوا) ان بزرگوں کو دے دوں؟ لڑکے نے کہا: اللہ کی قسم! نہیں اللہ کے رسول ﷺ! میرا حصہ جو آپ سے مجھے ملنے والا ہے وہ میں کسی اور کو دینے والا نہیں ہوں۔ آخر کار آپ نے وہ پیالہ اسی کی ہاتھ میں تھمادیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2451]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے بزرگوں کو بچا ہوا مشروب دینے کے لیے برخوردار سے اجازت مانگی۔
اگر وہ اجازت دے دیتا تو یہ اجازت ایسی ہوتی جس میں مشروب کی مقدار معلوم نہیں کہ وہ کتنا پئیں گے اور خود اس کے حصے میں کیا آئے گا۔
اس سے امام بخاری ؒ نے عنوان ثابت کیا کہ اجازت دینے یا حق معاف کرنے کے لیے مقدار کا معلوم ہونا ضروری نہیں۔
(2)
بعض صورتیں ایسی بھی ہوتی ہیں جن میں وضاحت کرنا مناسب نہیں ہوتا۔
علامہ عینی کہتے ہیں:
اگر وہ لڑکا اجازت دے دیتا تو بزرگوں کے حصے میں جو آتا، اس کی مقدار بھی معلوم نہیں اور جو خود پیتا اس کی مقدار بھی معلوم نہیں تو قیاس سے معلوم ہوا کہ ایسی اجازت جس کی مقدار معلوم نہ ہو جائز ہے۔
(عمدة القاري: 201/9)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2451   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2602  
2602. حضرت سہل بن سعد ؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ کی خدمت میں ایک مشروب پیش کیا گیا جسے آپ نے نوش فرمایا۔ آپ کی دائیں جانب ایک لڑکا اور بائیں جانب کچھ بزرگ تھے۔ آپ ﷺ نے اس لڑکے سے فرمایا: اگر تم مجھے اجازت دوتو میں بچا ہوا پانی ان حضرات کو دےدوں؟ لڑکے نے عرض کیا: اللہ کے رسول ﷺ! میں آپ کے پس خوردہ (بچے ہوئے) سے اپنا حصہ کسی اور کو دینا پسند نہیں کرتا۔ آپ نے وہ پیالہ اس لڑکے کے ہاتھ میں تمھادیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2602]
حدیث حاشیہ:
(1)
رسول اللہ ﷺ نے اس لڑکے سے کہا:
وہ اپنا حصہ بزرگوں کو ہبہ کر دے۔
اور بزرگ تعداد میں ایک سے زیادہ تھے۔
ان کا حصہ مشترک اور مشاع تھا، اس سے مشترکہ ہبہ کا جواز ثابت ہوا کہ ایک چیز کئی اشخاص کو مشترک طور پر ہبہ کی جا سکتی ہے۔
ابن بطال نے لکھا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اس لڑکے سے وہ حصہ طلب فرمایا جو مشاع تھا اور دوسروں سے الگ نہیں ہوا تھا۔
اس سے مشاع کے ہبہ کا جواز ثابت ہوا۔
(فتح الباري: 277/5)
اگر مشترک چیز کا ہبہ جائز نہ ہوتا تو رسول اللہ ﷺ اس لڑکے سے اجازت طلب نہ کرتے۔
(2)
واضح رہے کہ حدیث میں لڑکے سے مراد حضرت ابن عباس ؓ ہیں جو بعد میں حبر الأمة اور ترجمان القرآن کے لقب سے مشہور ہوئے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2602   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2605  
2605. حضرت سہل بن سعد ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں پینے کی کوئی چیز پیش کی گئی۔ آپ کے دائیں جانب ایک لڑکا تھا اور بائیں جانب کچھ اکابر تشریف فرماتھے۔ آپ نے لڑکے سے کہا: کیا تمہاری طرف سے اجازت ہے کہ میں (اپنابچا ہوا) ان بزرگوں کو دے دوں؟ لڑکے نے جواب دیا: نہیں، اللہ کی قسم!میں آپ سے ملنے والا تبرک کسی کو دینے والا نہیں ہوں۔ رسول اللہ ﷺ نے زور سے وہ مشروب اس کے ہاتھ میں تھمادیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2605]
حدیث حاشیہ:
رسول اللہ ﷺ کی طرف سے ملنے والا تبرک گویا ایک ہبہ تھا اور وہ تقسیم شدہ نہیں تھا۔
حافظ ابن حجر ؒ لکھتے ہیں:
امام بخاری ؒنے اس حدیث سے ہبہ مشاع ثابت کیا ہے اور یہی حق ہے کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے لڑکے سے فرمایا:
وہ اپنا حصہ بزرگوں کو ہبہ کر دے۔
اور اس کا وہ حصہ ابھی تک مشترک تھا، اس سے غیر تقسیم شدہ چیز کا ہبہ ثابت ہوا۔
(فتح الباري: 277/5)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2605   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5620  
5620. حضرت سہل بن سعد ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں ایک مشروب لایا گیا آپ نے اس میں سے کچھ نوش فرمایا۔ آپ کے دائیں جانب ایک نو عمر لڑکا تھا جبکہ بائیں جانب بزرگ صحابہ کرام ؓ تھے۔ آپ ﷺ نے لڑکے سے فرمایا: کیا تو مجھے اجازت دیتا ہے کہ میں بچا ہوا شربت ان شیوخ کو دے دوں؟ بچے نے کہا: اے اللہ کے رسول! اللہ کی قسم! آپ کے پس ماندہ سے ملنے والے حصے کے معاملے میں کسی پر ایثار نہیں کروں گا۔ راوی نے کہا: پھر رسول اللہ ﷺ نے زور سے اس کے ہاتھ میں پیالہ دے دیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5620]
حدیث حاشیہ:
(1)
حدیث کے الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ پیالہ بادل نخواستہ لڑکے کے ہاتھ میں دیا کیونکہ آپ کی خواہش تھی کہ وہ بڑوں کے لیے ایثار کرتا، مگر اس نے ایسا نہ کیا تو آپ نے بھی حق و انصاف کا خون کرنا پسند نہ فرمایا۔
ایک حدیث سے پتا چلتا ہے کہ دائیں جانب حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ اور بائیں جانب حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ تھے۔
اس روایت میں ہے کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کے پینے کے بعد حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے اسے پیا۔
(سنن ابن ماجة، الأشربة، حدیث: 3426) (2)
اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ ہر اچھے کام میں دائیں جانب کو بائیں جانب پر ترجیح حاصل ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا تبرک حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کو دینے کی خواہش ظاہر کی۔
اس میں بڑی عمروں کا احترام ملحوظ تھا۔
(3)
اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ جب عزت افزائی کا کوئی موقع حاصل ہو رہا ہے تو اس سے فائدہ اٹھانا چاہیے لیکن اس کے حصول کے لیے ایسا انداز اختیار نہ کیا جائے جس سے دوسروں کی تحقیر ہوتی ہو۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5620