اور بعض نے کہا یہ بیع ہی جائز نہیں اور ابن ابی اوفی نے کہا کہ «ناجش» سود خوار اور خائن ہے۔ اور «نجش» فریب ہے، خلاف شرع بالکل درست نہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ فریب دوزخ میں لے جائے گا اور جو شخص ایسا کام کرے جس کا حکم ہم نے نہیں دیا تو وہ مردود ہے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْبُيُوعِ/حدیث: Q2142]
ہم سے عبداللہ بن مسلمہ قعنبی نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے امام مالک نے بیان کیا، ان سے نافع نے، اور ان سے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے «نجش»(فریب، دھوکہ) سے منع فرمایا تھا۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْبُيُوعِ/حدیث: 2142]
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2142
حدیث حاشیہ: نجش خاص طور پر شکار کو بھڑکانے کے معنی میں آتا ہے۔ یہاں ایک خاص مفہوم شرعی کے تحت یہ مستعمل ہے۔ وہ مفہوم یہ کہ کچھ تاجر اپنے غلط گو ایجنٹ مقرر کردیتے ہیں جن کا کام یہی ہوتا ہے کہ ہر ممکن صورت میں خریدنے والوں کو دھوکہ دے کر زیادہ قیمت وصول کرائیں۔ ایسے ایجنٹ بعض دفعہ گاہک کی موجودگی میں اس چیز کا دام بڑھا کر خریدار بنتے ہیں۔ حالانکہ وہ خریدار نہیں ہیں۔ گاہک دھوکہ میں آکر بڑھے ہوئے داموں پر وہ چیز خرید لیتا ہے۔ الغرض بیع میں دھوکہ فریب کی جملہ صورتیں سخت ترین گناہ کبیرہ کا درجہ رکھتی ہیں۔ شریعت نے سختی سے ان کو روکا ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2142
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2142
حدیث حاشیہ: (1) نجش کے لغوی معنی،شکار کو اپنی جگہ سے بھگانا ہے تاکہ اسے اپنے جال میں پھانسا جائے۔ شرع میں اس کے معنی یہ ہیں کہ کوئی شخص قیمت زیادہ لگائے، حالانکہ اس کا خریدنے کا ارادہ نہیں۔ وہ صرف دوسرے کو چیز خریدنے پر اکساتا ہے اور دھوکے میں ڈالتا ہے۔ چونکہ فروخت کرنے والااس کی موافقت کرتا ہے اس لیے دونوں گناہ میں شریک ہوں گے۔ (2) ہمارے ہاں تجارتی منڈیوں میں تاجر حضرات ایسے ایجنٹ مقرر کردیتے، جن کا کام یہ ہوتا ہے کہ وہ ہر ممکن خریدار کو دھوکا دے کر زیادہ قیمت دینے پر آمادہ کریں۔ ایسے ایجنٹ بعض اوقات خریدار کی موجودگی میں مطلوبہ چیز کی قیمت بڑھا کر خریدار بنتے ہیں، حالانکہ یہ خریدار نہیں ہوتے۔ گاہک دھوکے میں آکر زیادہ قیمت پر چیز خرید لیتا ہے۔ الغرض خرید و فروخت میں دھوکا دہی کی جملہ صورتیں حرام اور کبیرہ گناہ کا درجہ رکھتی ہیں۔ شریعت نے ان سے منع کیا ہے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2142
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 507
´جھوٹی بولی لگانا منع ہے` «. . . 243- وبه: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم نهى عن النجش. . . .» ”. . . اور اسی سند کے ساتھ (سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے) روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نجش (جھوٹی بولی لگانے) سے منع فرمایا ہے . . .“[موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 507]
تخریج الحدیث: [وأخرجه البخاري 2142، ومسلم 13/1516، من حديث مالك به] تفقه: ➊ لغت میں نجش کا مفہوم یہ ہے کہ ”بیع وغیرہ کی بولی میں بائع کی ہمدردی اور خریداری کی ترغیب کے لئے قیمت پڑھانا (اور خریدنے کا ارادہ نہ کرنا) اسے بیع مزایدہ کہتے ہیں، یہ شرعاً مکروہ ہے۔“(القاموس الوحید ص1613 ج) امام مال نے بھی تقریباً یہی مفہوم بیان کیا ہے۔ ➋ بولی میں اگر دھوکا مقصود نہ ہو تو جائز ہے۔ دیکھئے حدیث سابق: 242 ➌ سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک انصاری نے آکر نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا تمہارے گھر میں کوئی چیز نہیں ہے؟ انہوں نے کہا: جی ہاں! ایک کمبل ہے جس ہم اوڑھتے بھی ہیں اور بچھاتے بھی ہیں اور ایک پیالہ ہے جس میں پیتے ہیں۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ دونوں چیزیں یہاں لے آؤ۔ وہ لے آئے تو رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں اپنے ہاتھ میں پکڑ کر فرمایا: یہ چیزیں کون خریدتا ہے؟ ایک آدمی نے کہا: میں یہ دونوں چیزیں ایک درہم میں خریدتا ہوں۔ آپ نے دو یا تین دفعہ فرمایا: ایک درہم سے زیادہ کون دیتا ہے؟ ایک آدمی نے کہا: میں یہ دونوں چیزیں دو درہم میں خریدتا ہوں، آپ نے اس سے دو درہم لے کر اس انصاری کو دے دیئے۔۔۔ الخ [سنن ابي داود: 1641، وسنده حسن لذاته وحسنه الترمذي: 1218، ابوبكر الحنفي حسن الحديث ولم يصح قول البخاري فيه: ”لا يصح حديثه“ وأخطأ من ضعف هذا الحديث] اس حسن لزاتہ حدیث سے جائز بولی کا جواز ثابت ہے۔
موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 243
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4509
´فرضی بھاؤ پر بھاؤ بڑھانے کا بیان۔` عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرضی بھاؤ پر بھاؤ بڑھانے سے منع فرمایا ۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب البيوع/حدیث: 4509]
اردو حاشہ: دیکھئے حدیث: 4496، فائدہ: 3۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4509
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6963
6963. حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے بلاوجہ قیمت بڑھانے سے منع کیا ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6963]
حدیث حاشیہ: یعنی محض جھوٹ بول کر بھاؤ بڑھانا اور گاہکوں کو دھوکہ دینا جیسا کہ نیلام کرنے والے ایجنٹ بنا لیتے ہیں اور وہ لوگوں کو فریب دینے کے لیے بھاؤ بڑھاتے رہتے ہیں۔ یہ دھوکہ دہی بہت بری ہے۔ کتنے غریب اس دھوکہ میں آکر لٹ جاتے ہیں۔ لہٰذا ایسی حیلہ سازی سے بہت ہی زیادہ بچنے کی کوشش کرنا چاہئے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6963
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6963
6963. حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے بلاوجہ قیمت بڑھانے سے منع کیا ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6963]
حدیث حاشیہ: 1۔ نجش یہ ہے کہ کسی چیز کی قیمت بڑھانا جبکہ اسے خریدنے کا ارادہ نہ ہو، تاکہ اس طرح دوسرے لوگوں کو وہ چیز خریدنے پر آمادہ کیا جائے۔ چونکہ ایسا کرنا قیمت زیادہ کرنے کا حیلہ ہے، اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا ہے۔ آج کل ہماری منڈیوں میں یہی دھندا ہوتا ہے، چنانچہ نیلام کرنے والے محض جھوٹ بول کر بھاؤ بڑھاتے ہیں اور دوسروں کو دھوکا اور فریب دیتے ہیں۔ حالانکہ یہ ایجنٹ حضرات چیزیں خریدنے کا ارادہ نہیں رکھتے۔ اس قسم کی دھوکا دہی بہت بُری بات ہے کتنے ہی بھولے بھالے غریب اس دھوکے میں آکر لٹ جاتے ہیں۔ 2۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصد یہ ہے کہ خریدوفروخت کرتے وقت اس طرح کی حیلہ سازی ہرگزنہیں کرنی چاہیے تاکہ غریب عوام دھوکے میں نہ آئیں۔ واللہ أعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6963