ہم سے مسلم بن ابراہیم نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ہشام نے بیان کیا، ان سے قتادہ نے بیان کیا، ان سے انس رضی اللہ عنہ نے (دوسری سند) اور مجھ سے محمد بن عبداللہ بن حوشب نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے اسباط ابوالیسع بصریٰ نے، کہا کہ ہم سے ہشام دستوائی نے، انہوں نے قتادہ سے، انہوں نے انس رضی اللہ عنہ سے کہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں جَو کی روٹی اور بدبودار چربی (سالن کے طور پر) لے گئے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس وقت اپنی زرہ مدینہ میں ایک یہودی کے یہاں گروی رکھی تھی اور اس سے اپنے گھر والوں کے لیے قرض لیا تھا۔ میں نے خود آپ کو یہ فرماتے سنا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے گھرانے میں کوئی شام ایسی نہیں آئی جس میں ان کے پاس ایک صاع گیہوں یا ایک صاع کوئی غلہ موجود رہا ہو، حالانکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی گھر والیوں کی تعداد نو تھی۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْبُيُوعِ/حدیث: 2069]
مشى إلى النبي بخبز شعير وإهالة سنخة ولقد رهن النبي درعا له بالمدينة عند يهودي وأخذ منه شعيرا لأهله ولقد سمعته يقول ما أمسى عند آل محمد صاع بر ولا صاع حب وإن عنده لتسع نسوة
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2069
حدیث حاشیہ: اس حدیث سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتصادی زندگی پر روشنی پڑتی ہے۔ خدانخواستہ آپ دنیا دار ہوتے تو یہ نوبت نہ آتی کہ ایک یہودی کے یہاں اپنی زرہ گروی رکھ کر راشن حاصل کریں اور راشن بھی جو کی شکل میں، جس سے صاف ظاہر ہے کہ آپ نے آنے والے لوگوں کے لیے ایک عمدہ ترین نمونہ پیش فرما دیا کہ وہ دنیاوی عیش و آرام اور ناز نخروں کے وقت اسوہ محمدی کو یاد کر لیا کریں۔ مقصد باب یہ ہے کہ انسان کو زندگی میں کبھی ادھار بھی کوئی چیز خریدنی پڑتی ہے لہٰذا اس میں کوئی قباحت نہیں اور اس سے غیر مسلموں کے ساتھ لین دین کا تعلق بھی ثابت ہوا۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2069
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2069
حدیث حاشیہ: (1) امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے معاملۂ قرض کے ساتھ مقید کیا ہے جبکہ کتاب الاستقراض میں اسے مطلق طور پر بیان کیا ہے،مقصد یہ ہے کہ ادھار پر اشیاء کی خریدوفروخت جائز ہے،اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خصوصیت نہیں۔ (2) دراصل امام بخاری رحمہ اللہ ان حضرات کی تردیدد کرنا چاہتے ہیں جو ادھار کا معاملہ کرنے کو ناجائز کہتے ہیں۔ ان کی دلیل سنن ابی داود کی ایک حدیث ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ادھار پر کچھ سامان خریدا، بعد میں فرمایا: "آئندہ میں اس وقت خریدو فروخت کروں گا جب میرے پاس اس کی قیمت ہوگی۔ "(سنن ابی داود،البیوع،حدیث: 3344) امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان اور پیش کردہ حدیث سے اس حدیث کے ضعف کی طرف اشارہ کیا ہے کیونکہ یہودی سے گروی زرہ کے عوض جو خریدنے کا واقعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے آخری حصے میں پیش آیا حتی کہ آپ قیمت ادا کرکے گروی شدہ زرہ واپس نہیں لے سکے تھے۔ بہر حال ادھار معاملہ کرنا جائز ہے۔ (3) واضح رہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک سود خور یہودی سے قرض کا معاملہ کیا لیکن کسی مسلمان سے قرض نہیں لیا کیونکہ مسلمان عقیدت کی بنا پر آپ کو مفت دے دیتا لیکن آپ کو کسی کا احسان لینا پسند نہیں تھا۔ والله اعلم.
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2069
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث4147
´آل محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی معیشت (گزر بسر) کا بیان۔` انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو باربار فرماتے سنا ہے: ”قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں محمد کی جان ہے! آل محمد کے پاس کسی دن ایک صاع غلہ یا ایک صاع کھجور نہیں ہوتا، اور ان دنوں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نو بیویاں تھیں۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الزهد/حدیث: 4147]
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: صاع کا مطلب ٹوپا ہے جو غلہ ماپنے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ اہل مدینہ کا صاع تقریباً ڈھائی کلو گرام ہوتا تھا۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 4147
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1215
´کسی چیز کو مدت کے وعدے پر خریدنے کی رخصت کا بیان۔` انس رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جو کی روٹی اور پگھلی ہوئی چربی جس میں کچھ تبدیلی آ چکی تھی لے کر چلا، آپ کی زرہ ایک یہودی کے پاس بیس صاع غلے کے عوض جسے آپ نے اپنے گھر والوں کے لیے لے رکھا تھا گروی رکھی ہوئی تھی ۱؎ قتادہ کہتے ہیں میں نے ایک دن انس رضی الله عنہ کو کہتے ہوئے سنا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر والوں کے پاس ایک صاع کھجور یا ایک صاع غلہ شام کو نہیں ہوتا تھا جب کہ اس وقت آپ کے پاس نو بیویاں تھیں۔ [سنن ترمذي/كتاب البيوع/حدیث: 1215]
اردو حاشہ: وضاحت: 1؎: اس سے معلوم ہواکہ اہل کتاب سے ادھار وغیرہ کا معاملہ کرنا جائز ہے، نبی اکرمﷺ نے صحابہ کرام ؓمیں سے کسی سے ادھارلینے کے بجائے ایک یہودی سے اس لیے ادھارلیا تاکہ لوگوں کو معلوم ہوجائے کہ اہل کتاب سے اس طرح کا معاملہ کرنا جائز ہے، یا اس لیے کہ صحابہ کرام ؓ آپ سے کوئی معاوضہ یا رقم واپس لینا پسند نہ فرماتے جبکہ آپﷺ کی طبع غیورکو یہ بات پسند نہیں تھی۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1215