ہم سے اسماعیل بن عبداللہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ مجھ سے عبداللہ بن وہب نے بیان کیا، ان سے عروہ بن زبیر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ جب ابوبکر رضی اللہ عنہ خلیفہ ہوئے تو فرمایا، میری قوم جانتی ہے کہ میرا (تجارتی) کاروبار میرے گھر والوں کی گذران کے لیے کافی رہا ہے، لیکن اب میں مسلمانوں کے کام میں مشغول ہو گیا ہوں، اس لیے آل ابوبکر اب بیت المال میں سے کھائے گی، اور ابوبکر مسلمانوں کا مال تجارت بڑھاتا رہے گا۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْبُيُوعِ/حدیث: 2070]
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2070
حدیث حاشیہ: یعنی اب خلافت کے کام میں مصروف رہوں گا تو مجھ کواپنا ذاتی پیشہ اور بازاروں میں پھرنے کا موقعہ نہ ملے گا اس لیے میں بیت المال سے اپنا اور اپنے گھر والوں کا خرچہ کیا کروں گا اور یہ خرچہ بھی میں اس طرح سے نکال دوں گا کہ بیت المال کے روپے پیسے میں تجارت اور سوداگری کرکے اس کو ترقی دوں گا اور مسلمانوں کا فائدہ کراؤں گا۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2070
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2070
حدیث حاشیہ: (1) حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ خلیفہ بننے سے پہلے کپڑے کا کاروبار کرتے تھے اور وہ اہل خانہ کے لیے خود کماتے تھے۔ ابن سعد نے ایک مرسل روایت بیان کی ہے کہ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ جب خلیفہ منتخب ہوئے تو حسب عادت کپڑا سر پر اٹھا کر بازار جانے لگے تو حضرت عمر اور حضرت ابو عبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ نے پوچھا: آپ کہاں جارہے ہیں؟فرمایا: تجارت کے لیے بازار جانے کا ارادہ ہے،چنانچہ انھوں نے باہمی مشاورت سے آپ کا وظیفہ مقرر کردیا۔ (فتح الباری: 4/385) اس سے معلوم ہوا کہ سرکاری حاکم بیت المال سے اجرت لے سکتا ہے۔ (2) حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ سرکاری مال کو کاروبار میں نہیں لگاتے تھے جیسا کہ عام طور پر خیال کیا جاتا ہے۔ اگر آپ کے پاس اتنا وقت ہوتا توآپ اپنا کاروبار کرتے اور بیت المال پر بوجھ نہ ڈالتے بلکہ وہ مسلمانوں کے معاملات کی نگرانی اور دیکھ بھال کرتے تھے جس کے عوض بیت المال سے بقدر کفایت ان کا وظیفہ مقرر تھا۔ (فتح الباری: 4/386)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2070