ہم سے یحییٰ بن سلیمان نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ابن وہب نے بیان کیا، (یا ان کے سامنے حدیث کی قرآت کی گئی)۔ کہا کہ مجھ کو عمرو نے خبر دی، انہیں بکیر نے، انہیں کریب نے اور انہیں میمونہ رضی اللہ عنہا نے کہ عرفہ کے دن کچھ لوگوں کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے روزے کے متعلق شک ہوا۔ اس لیے انہوں نے آپ کی خدمت میں دودھ بھیجا۔ آپ اس وقت عرفات میں وقوف فرما تھے۔ آپ نے دودھ پی لیا اور سب لوگ دیکھ رہے تھے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الصَّوْمِ/حدیث: 1989]
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1989
حدیث حاشیہ: عبداللہ بن وہب نے خود یہ حدیث یحییٰ کو سنائی یا عبداللہ بن وہب کے شاگردوں نے ان کو سنائی، دونوں طرح حدیث کی روایت صحیح ہے۔ امام بخاری ؒ نے اس باب میں ان حدیثوں کو ذکر نہیں کیا جن میں عرفہ کے روزہ کی ترغیب ہے، جب کہ وہ حدیث بیان کی جس سے عرفہ میں آپ کا افطار کرنا ثابت ہے۔ کیوں کہ وہ حدیثیں ان کی شرط کے موافق صحیح نہ ہوں گی۔ حالانکہ امام مسلم نے ابوقتادہ سے نکالا کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا، عرفہ کا روزہ ایک برس آگے اور ایک برس پیچھے کے گناہوں کا کفارہ ہو جاتا ہے اور بعض نے کہا عرفہ کا روزہ حاجی کو نہ رکھنا چاہئے۔ اس خیال سے کہ کہیں ضعف نہ ہوجائے اور حج کے اعمال بجالانے میں خلل واقع ہو۔ اور اس طرح باب کی احادیث اور ان احادیث میں تطبیق ہوجاتی ہے۔ (وحیدی)
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1989
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1989
حدیث حاشیہ: (1) ان روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ حجاج کرام کو میدان عرفات میں نویں ذوالحجہ کا روزہ نہیں رکھنا چاہیے۔ حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے میدان عرفات میں عرفہ کے دن روزہ رکھنے سے منع فرمایا ہے۔ (مسندأحمد: 304/2) اس دن روزہ نہ رکھنے کی حکمت یہ بیان کی جاتی ہے کہ میدان عرفات میں روزہ رکھنے سے انسان کمزور ہو جائے گا۔ ممکن ہے کہ وہاں دعا، ذکر اور دیگر افعال خیر کے انجام دینے سے عاجز ہو جائے۔ واللہ أعلم۔ (2) حجاج کرام کے علاوہ دیگر حضرات کے لیے اس دن روزہ رکھنا مستحب ہے، چنانچہ حضرت ابو قتادہ ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”عرفہ کے دن کا روزہ دو سال کے گناہ مٹا دیتا ہے: ایک گزشتہ سال اور ایک آئندہ سال کے۔ “(صحیح مسلم، الصیام، حدیث: 2746(1162)(3) بعض معاصرین کا خیال ہے کہ غیر حجاج کے لیے یوم عرفہ کا روزہ مستحب ہے، خواہ ہمارے ہاں ذوالحجہ کی آٹھ تاریخ ہی کیوں نہ ہو، یہ خیال بوجوہ محل نظر ہے۔ ٭ ہر انسان اس بات کی طاقت نہیں رکھتا کہ یوم عرفہ کی تعیین کر سکے، اس لیے اسے اپنے حساب سے نویں ذوالحجہ کا روزہ رکھنے کا پابند کیا جائے۔ ٭ بعض مقامات پر تاریخوں کا اختلاف ہوتا ہے، یعنی ہمارے پاک و ہند میں یوم عرفہ کی آٹھ تاریخ ہوتی ہے جبکہ بعض مغربی ممالک ایسے ہیں جہاں یوم عرفہ کو دس تاریخ ہو سکتی ہے، اس لیے وہاں عید ہو گی اور عید کا روزہ رکھنا منع ہے، اس لیے روزے دار کو سعودی عرب کے یوم عرفہ سے وابستہ کرنا محل نظر ہے۔ ہمارے نزدیک راجح بات یہی ہے کہ ہم اپنے حساب سے چاند کا اعتبار کریں، جس دن ذوالحجہ کی نو تاریخ ہو، اس دن کا روزہ رکھیں، خواہ سعودی عرب میں عید ہی کیوں نہ ہو۔ واللہ أعلم
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1989
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 2636
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ میمونہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں کہ لوگوں نے عرفہ کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے روزہ کے بارے میں شک کیا تو میمونہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں دودھ کا برتن ارسال کیا جبکہ آپﷺ ٹھہرنے کی جگہ (عرفات) میں ٹھہرے ہوئے تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے نوش فرمایا جبکہ لوگ آپﷺ کی طرف دیکھ رہے تھے۔ [صحيح مسلم، حديث نمبر:2636]
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: عرفہ کے دن چونکہ حاجی منی سے عرفات جاتے ہیں وہاں ظہر و عصر کی نماز جمع کرتے ہیں اور امام خطبہ دیتا ہے پھر شام تک میدان عرفات میں دعا اور استغفار کے لیے وقوف کرنا ہوتا ہے اور آفتاب کے غروب ہوتے ہی مزدلفہ کی طرف واپس آنا ہوتا ہے ان کاموں کی سر انجام دہی کی بنا پر حاجی کے لیے روزہ مشکل اور مشقت کا باعث بنتا ہے اس لیے حاجیوں کے لیے عرفہ کے دن روزہ رکھنا پسندیدہ نہیں ہے۔ اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے امت کی تعلیم کی خاطر عرفہ کے دن جبکہ آپ میدان عرفات میں اپنے اونٹ پر تھے اور وقوف فرما رہے تھے سب کے سامنے دودھ نوش فرمایا تاکہ سب دیکھ لیں کہ آج آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا روزہ نہیں ہے اور دودھ دونوں بہنوں اُم الفضل رضی اللہ تعالیٰ عنہا اور میمونہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے باہمی مشورہ سے بھیجا گیا تھا اور ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ لے کر گئے تھے اس لیے اس کی نسبت دونوں کی طرف ہو سکتی ہے عمیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ، ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی والدہ ام الفضل رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے مولیٰ تھے لیکن ہر وقت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ رہتے تھے اور ان کے شاگرد اور قابل اعتماد تھے اس لیے ان کو مولیٰ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی کہہ دیا جاتا تھا امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ امام امالک رحمۃ اللہ علیہ، امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ اور جمہور علماء کے نزدیک حاجیوں کے لیے عرفہ کا روزہ نہ رکھنا ہی بہتر ہے۔