الحمدللہ ! احادیث کتب الستہ آف لائن ایپ ریلیز کر دی گئی ہے۔    

1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:



صحيح البخاري
كِتَاب الصَّوْمِ
کتاب: روزے کے مسائل کا بیان
14. بَابُ لاَ يَتَقَدَّمَنَّ رَمَضَانَ بِصَوْمِ يَوْمٍ وَلاَ يَوْمَيْنِ:
14. باب: رمضان سے ایک یا دو دن پہلے روزے نہ رکھے جائیں۔
حدیث نمبر: 1914
حَدَّثَنَا مُسْلِمُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا هِشَامٌ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ أَبِي كَثِيرٍ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" لَا يَتَقَدَّمَنَّ أَحَدُكُمْ رَمَضَانَ بِصَوْمِ يَوْمٍ أَوْ يَوْمَيْنِ، إِلَّا أَنْ يَكُونَ رَجُلٌ كَانَ يَصُومُ صَوْمَهُ فَلْيَصُمْ ذَلِكَ الْيَوْمَ".
ہم سے مسلم بن ابراہیم نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے ہشام نے بیان کیا، ان سے یحییٰ بن ابی کثیر نے، ان سے ابوسلمہ نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم میں سے کوئی شخص رمضان سے پہلے (شعبان کی آخری تاریخوں میں) ایک یا دو دن کے روزے نہ رکھے البتہ اگر کسی کو ان میں روزے رکھنے کی عادت ہو تو وہ اس دن بھی روزہ رکھ لے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الصَّوْمِ/حدیث: 1914]
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة

   صحيح البخاريلا يتقدمن أحدكم رمضان بصوم يوم أو يومين إلا أن يكون رجل كان يصوم صومه فليصم ذلك اليوم
   سنن النسائى الصغرىلا يتقدمن أحد الشهر بيوم ولا يومين إلا أحد كان يصوم صياما قبله فليصمه
   بلوغ المرام‏‏‏‏لا تقدموا رمضان بصوم يوم ولا يومين،‏‏‏‏ إلا رجل كان يصوم صوما فليصمه

صحیح بخاری کی حدیث نمبر 1914 کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1914  
حدیث حاشیہ:
مثلاً کوئی ہر ماہ میں پیر یا جمعرات کا یا کسی اور دن کا روزہ ہر ہفتہ رکھتا ہے اور اتفاق سے وہ دن شعبان کی آخری تاریخوں میں آگیا تووہ یہ روزہ رکھ لے، نصف شعبان کے بعد روزہ رکھنے کی ممانعت اس لیے بھی وارد ہوئی ہے تاکہ رمضان کے لیے طاقت قائم رہے اور کمزوری لاحق نہ ہو۔
الغرض ہر ہر قدم پر شریعت کے امر و نہی کو سامنے رکھنا یہی دین اور یہی عبادت اور یہی اسلام ہے اور یہی ایمان، ہر ہر جگہ اپنی عقل کا دخل ہرگز ہرگز نہ ہونا چاہئے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1914   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1914  
حدیث حاشیہ:
(1)
استقبال رمضان کے پیش نظر اس ماہ مبارک سے ایک یا دو دن پہلے روزہ جائز نہیں۔
مخصوص حالات کے پیش نظر ان دنوں کے روزے رکھے جا سکتے ہیں جن کی تفصیل حسب ذیل ہے:
٭ ایک شخص پیر یا جمعرات کا روزہ رکھتا ہے۔
اتفاق سے شعبان کا آخری دن پیر یا جمعرات ہو تو اس دن کا روزہ رکھنا جائز ہے۔
٭ کسی کے ذمے قضا کے روزے تھے وہ رمضان سے ایک یا دو دن قبل انہیں رکھ سکتا ہے۔
٭ کفارے اور نذر کا روزہ بھی ان دنوں میں رکھا جا سکتا ہے، البتہ رمضان کے استقبال کی نیت سے ایک یا دو دن پہلے روزہ رکھنا درست نہیں کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے رمضان کے روزوں کو رؤیت ہلال سے مقید فرمایا ہے۔
گویا رؤیت ہلال رمضان کے روزوں کی علت ہے اور جس نے بطور استقبال رمضان سے ایک یا دو دن پہلے روزہ رکھا اس نے علت میں طعن کیا اور اسے معیوب قرار دیا ہے۔
(2)
حافظ ابن حجر ؒ لکھتے ہیں کہ احتیاط کے پیش نظر رمضان سے ایک یا دو دن پہلے استقبالی روزہ رکھنا منع ہے۔
امام ترمذی ؒ نے بھی اس حدیث کا یہی مفہوم بیان کیا ہے۔
(فتح الباري: 165/4)
اس حکم امتناعی کی وجہ یہ ہے کہ آئندہ رمضان کے روزے رکھنے میں قوت اور نشاط حاصل ہو، نیز نفلی روزہ، فرض روزے کے ساتھ مل کر لوگوں میں شک نہ پیدا کر دے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1914   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 527  
´(روزے کے متعلق احادیث)`
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم میں سے کوئی بھی رمضان سے پہلے ایک یا دو روزے نہ رکھے، مگر جو شخص پہلے سے روزہ رکھتا آ رہا ہو اسے چاہیئے کہ اس دن کا روزہ رکھ لے۔ (بخاری و مسلم) [بلوغ المرام/حدیث: 527]
لغوی تشریح 527:
کِتَابُ الصِّیَامِ أَلصِّیَام کے لغوی معنی ہیں: أَلْاِمسَاک، یعنی رک جانا۔ شرعی طور پر اس کے معنی ہیں: طلوعِ فجر سے لے کر غروبِ آفتاب تک کھانے پینے اور جماع کرنے سے شرعی طریقے کے مطابق رک جانا، نیز لغویات، بے ہودہ گوئی اور مکروہ و حرام کلام سے رک جانا بھی اس میں شامل ہے۔ روزہ 2 ہجری میں فرض ہوا تھا۔
لَاتَقَدِّمُو یہ اصل میں لَا تَتَقَدَّمُو تھا، یعنی رمضان کے استقبال کے لیے رمضان سے پہلے ایک یا دو روزے مت رکھو۔
کَانَ یَصُومُ صَومًا یعنی معمول کے مطابق کچھ مخصوص دنوں میں وہ روزے رکھتا تھا اور وہ دن شعبان کے آخری دنوں میں واقع ہو گئے، مثلًا: ایک آدمی معمول کے مطابق ہر ہفتے میں سوموار کا روزہ رکھتا ہے اور یہ سوموار کا دن شعبان کے آخر میں آگیا تو اس شخص کے لیے اس دن روزہ رکھنے میں کوئی مضائقہ نہیں، وہ حسبِ معمول روزہ رکھ سکتا ہے۔
فَلیَصُمہُ اس میں لامِ امر، بیانِ جواز کے لیے ہے، یعنی وہ شخص معمول کے مطابق رمضان سے پہلے ایک یا دو روزے رکھ سکتا ہے۔

فائدہ 527:
مذکورہ حدیث سے معلوم ہوا کہ استقبالِ رمضان سے پہلے روزے رکھنا جائز نہیں، سوائے اس شخص کے جس کا معمول، سنت کے مطابق، سوموار اور جمعرات کا روزہ رکھنا ہو، اور سوموار یا جمعرات کا دن 29 یا 30 شعبان کو آ جائے، یا کوئی قضا وغیرہ کے روزے رکھتا آ رہا ہے جو 29 یا 30 شعبان کو ختم ہو رہے ہوں، ان صورتوں میں یا ایسی ہی کسی اور اتفاقی صورت میں روزے رکھے تو اس میں کوئی حرج نہیں۔ واللہ اعلم۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 527   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2175  
´اس حدیث میں ابوسلمہ سے روایت کرنے میں یحییٰ بن ابی کثیر اور محمد بن عمرو پر راویوں کے اختلاف کا ذکر۔`
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ماہ رمضان سے ایک دن یا دو دن پہلے کوئی روزہ نہ رکھے، البتہ جو اس سے پہلے (اس دن) روزہ رکھتا رہا ہو تو وہ رکھے ۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب الصيام/حدیث: 2175]
اردو حاشہ:
ابوسلمہ کے شاگردوں کا اختلاف یہ ہے کہ یحییٰ بن ابی کثیر نے تو اس حدیث کو حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت بتلایا ہے جبکہ محمد بن عمرو نے حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کی۔ محمد بن عمرو کو غلطی لگی ہے۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ محمد بن عمرو نے یحییٰ بن ابی کثیر کی روایت کے موافق بھی روایت کی ہے۔ دیکھیے (ذخیرة العقبیٰ: 21/5)
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2175