ہم سے عبدالرحمٰن بن یونس نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے حاتم بن اسماعیل نے جعد کے واسطے سے بیان کیا، کہا انہوں نے سائب بن یزید سے سنا، وہ کہتے تھے کہ میری خالہ مجھے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لے گئیں اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ! میرا یہ بھانجا بیمار ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے سر پر اپنا ہاتھ پھیرا اور میرے لیے برکت کی دعا فرمائی، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو کیا اور میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے وضو کا بچا ہوا پانی پیا۔ پھر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی کمر کے پیچھے کھڑا ہو گیا اور میں نے مہر نبوت دیکھی جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مونڈھوں کے درمیان ایسی تھی جیسے چھپر کھٹ کی گھنڈی۔ (یا کبوتر کا انڈا)۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْوُضُوءِ/حدیث: 190]
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 190
تشریح: وضو کا بچا ہوا پانی پاک تھا تب ہی تو اسے پیا گیا۔ پس جو لوگ آبِ مستعمل کو ناپاک کہتے ہیں وہ بالکل غلط کہتے ہیں۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 190
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 190
حدیث حاشیہ: وضو کا بچا ہوا پانی پاک تھا تب ہی تواسے پیا گیا۔ پس جو لوگ آبِ مستعمل کو ناپاک کہتے ہیں وہ بالکل غلط کہتے ہیں۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 190
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:190
حدیث حاشیہ: 1۔ یہ باب عنوان کے بغیر ہے، اس کی مندرجہ ذیل دو وجوہات ہیں (1) ۔ فضل ماءِ کے دو معنی ہیں: ایک وہ پانی جو وضو کے بعد برتن میں بچ رہے اور دوسرے وہ پانی جو اعضائے وضو دھونے کے بعد نیچے گرے، اسے فقہاء کی اصلاح میں ماءِ مستعمل کہتے ہیں۔ پہلے باب میں ماءِ مستعمل کا بیان تھا اور اس باب میں اس پانی کا ذکر ہے جو وضو کے بعد برتن میں باقی بچ رہتا ہے۔ (2) ۔ امام بخاری ؒ کی عادت ہے کہ اگر ماسبق باب کے مضمون میں کوئی کمی رہ جائے تو بلا عنوان باب سے اس کی تلافی کرتے ہیں۔ یہاں بھی سابقہ روایات میں ماءِ مستعمل کو پینے کی اجازت کا ذکر تھا لیکن کمی یہ تھی کہ وہاں وضوئے تام نہیں بلکہ صرف ہاتھ منہ دھونے اور کلی کا ذکر تھا جو وضوئے ناقص ہے۔ اس سے اشکال ہو سکتا تھا وضوئے تام کا شاید کوئی اور حکم ہو گا۔ امام بخاری ؒ نے اس بلا عنوان میں اس کی تلافی کر دی اور ایسی حدیث پیش کی جس میں وضوئے تام کی تصریح ہے۔ 2۔ حضرت سائب بن یزید ؒ کہتے ہیں: میں نے بچا ہوا پانی نوش کیا۔ اس میں دونوں احتمال ہیں کہ وضو کے بعد برتن میں بچا ہوا پانی مراد ہو یا اعضائے شریفہ سے ٹپکنے والا پانی نوش کیا ہو۔ لیکن آپ کے استعمال کردہ پانی کو برکت اور بیماری کے علاج کے لیے استعمال کرنا زیادہ قرین قیاس معلوم ہوتا ہے۔ 3۔ حافظ ابن حجر ؒ نے لکھا ہے کہ ان احادیث سے ان لوگوں کی تردید ہوتی ہے جو ماءِ مستعمل کونجس کہتے ہیں، حالانکہ ماءِ مستعمل پلید نہیں، کیونکہ ناپاک چیز برکت کے قابل نہیں ہوتی۔ پھر انھوں نے ابن منذر کے حوالے سے لکھا ہے کہ وضو کرنے کے بعد جو تری اعضاء پر باقی رہتی ہے یا وہ قطرے جو دوران وضو میں کپڑوں پر گرتے ہیں۔ ان کے پاک ہونے پر اجماع ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ماءِ مستعمل بھی پاک ہے، اسے نجس قراردینا صحیح نہیں۔ (فتح الباري: 388/1) 4۔ واضح رہے کہ ”ماءِ مستعمل“ کے متعلق فقہاء کا اختلاف اس وضو یا غسل سے متعلق ہے جو بطور تقرب کیا گیا ہو۔ اگر وضو پر وضو کیا گیا ہے یا محض ٹھنڈک یا نظافت کے لیے پانی استعمال ہوا ہے تو اس قسم کے پانی کے متعلق کوئی اختلاف نہیں۔ ایسا پانی طاہر و مطہر ہے۔ 5۔ اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ بیماربچے کو کسی بزرگ کے پاس بغرض دعا لے جانا تقوی کے خلاف نہیں ہے نیز بچوں سے پیار اور ان کے لیے خیرو برکت کی دعا کرنا سنت نبوی ہے۔ حضرت سائب بن یزید ؓ کے متعلق رسول الله ﷺ کی دعا کا یہ اثر تھا کہ آپ چورانوے (94) سال کی عمر میں تندرست و توانا تھے اور آپ کی سماعت و بصارت میں کوئی فرق نہیں آیا تھا۔ (صحیح البخاري، المناقب، حدیث: 3540) 6۔ اصلاحی صاحب نے اس حدیث پر بھی ”تدبر“ فرما کر اس کے انکار کا راستہ ہموار کیا ہے۔ چنانچہ مہر نبوت کے متعلق حضرت سائب بن یزید ؓ کے بیان پر بایں الفاظ تبصرہ کرتے ہیں: ”ایک کم عمر بچے کی زبان سے بیان محل نظر ہے کیا آنحضرت ﷺ نےنماز میں جسم کا اوپر کا حصہ کھلا رکھا ہوا تھا؟ اگر ایسا ہوا ہو توسائب کو یہ کیسے معلوم ہوا کہ وہ کچھ دیکھ رہے ہیں۔ وہ مہر نبوت ہے؟ ایک بچے کا خیال اس طرف نہیں جا سکتا، ہاں اس کے منہ میں یہ بات ڈالی جا سکتی ہے۔ میرے نزدیک مہر نبوت کا تصور اصول نبوت اور دین کے مزاج سے مطابقت نہیں رکھتا، کسی طرح یہ بات رائج کر دی گئی اور یہ بعض لوگوں میں پھیل گئی۔ “(تدبر حدیث: 290/1) اس بیان پر ہماری گزارشات حسب ذیل ہیں: (1) ۔ اصلاحی صاحب نے مہر نبوت کے انکار کی بنیاد اس بات پر رکھی ہے کہ نماز میں رسول اللہ ﷺ کے جسم کا اوپر کا حصہ کھلا ہوا نہیں تھا جس پر مہر نبوت کا مشاہدہ کیا جا سکتا۔ اصلاحی صاحب کی بنیاد ہی سرے سے غلط ہے، کیونکہ جب حضرت سائب بن یزید ؓ نے مہر نبوت کو دیکھا تو نبی اکرم ﷺ نمازمیں نہیں تھے۔ یہ ان کا اپنا قائم کردہ مفروضہ ہے جس کی احادیث سے تائید نہیں ہوتی۔ (2) ۔ اصلاحی صاحب فرماتے ہیں کہ حضرت سائب کو کیسے معلوم ہوا کہ جو کچھ وہ دیکھ رہے ہیں وہ مہر نبوت ہے؟ حضرت سائب ؓ نے اپنا مشاہدہ بیان فرمایا ہے۔ اس وقت بچپن ختم ہو چکا تھا۔ اللہ کے فضل و کرم سے چورانوے سال کی عمر میں بھی آپ تندرست و توانا تھے۔ (صحیح البخاري، المناقب، حدیث: 3540) نیز عہد رسالت میں پروان چڑھنے والے بچے ہمارے بچوں جیسے نہیں تھے، بلکہ رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں ایسے بچے کا بھی پتہ چلتا ہے کہ چھ سات سال کی عمر میں قرآن کریم کا بہت سا حصہ یاد کر لیا تھا اور لوگوں کی امامت کا فریضہ سر انجام دیتا تھا۔ (صحیح البخاري، المغازي، حدیث: 4302)(3) ۔ اصلاحی صاحب نے الزام لگایا ہے کہ ان کے منہ میں یہ بات ڈالی جا سکتی ہے۔ مقام شکر ہے کہ اس روایت کی سند میں ابن شہاب زہری نہیں ہیں جو ان کے حلق کا کانٹا ہے، بصورت دیگر انھیں موردِ الزام ٹھہرادیا جاتا کہ انھوں نے یہ کام سر انجام دیا ہے۔ ہم کہتے ہیں کہ مستشرقین و ملحدین نے مہر نبوت کا انکار اصلاحی صاحب کے منہ میں ڈالا ہے جسے انھوں نے وقت ملتے ہی اگل دیا ہے۔ (3) ۔ مہر نبوت کا مشاہدہ کرنے والے تقریباً دس صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین ہیں جن کی تفصیل یہ ہے حضرت سائب بن یزید ؓ (صحیح البخاري، الوضو، حدیث: 190) اُم خالد بنت خالد ؓ، جابر بن سمرہ ؓ (صحیح البخاري، الجہاد والسیر، حدیث: 3071) عبد اللہ بن سرجس ؓ (صحیح مسلم، الفضائل، حدیث: 6088(2346) قرہ بن ایاس مزنی ؓ (سنن أبي داود، اللباس، حدیث: 4082) رمیثہ بنت عمرو ؓ (مسند أحمد: 329/6) ابو زید عمرو بن اخطب ؓ (مسند أحمد: 340/5) حضرت سلمان فارسی ؓ (مسند أحمد: 438/5) قبیلہ بنی عامر کا طبیب (مسند أحمد: 223/1) نیز امام ترمذی ؒ نے حضرت بریدہ اسلمی اور حضرت ابو سعید کا بھی حوالہ دیا ہے۔ مہر نبوت کے اثبات کے متعلق محدثین عظام نے اپنی تصانیف میں مستقل عنوان قائم کیے ہیں اور امام بخاری ؒ، امام مسلم ؒ اور امام ترمذی ؒ نے اس پر عنوان بندی کر کے پھر مختلف احادیث سے اسے ثابت کیا ہے۔ علمائے اہل کتاب کے ہاں رسول ﷺ کی یہ امتیازی علامت معروف تھی اس سلسلے میں صرف دو شہادتیں پیش کی جاتی ہیں: (1) ۔ رسول الله ﷺ جب اپنے چچا ابو طالب کے ہمرا بغرض تجارت شام کے علاقے میں گئے تو آپ کے ہمراہ قریش کے بڑے بڑے مشائخ بھی تھے، انھیں راستے میں ایک راہب ملا تو اس نے آپ کو اس مہر نبوت سے پہچانا۔ (جامع الترمذي، المناقب، حدیث: 3620) (2) ۔ حضرت سلمان فارسی ؓ کو ایک راہب نے رسول اللہ ﷺ کے متعلق بتایا کہ وہ صدقہ نہیں کھائیں گے، ہدیہ قبول کریں گے اور ان کے دونوں کندھوں کے درمیان مہر نبوت ہوگی۔ حضرت سلمان فارسی ؓ نے ان تینوں علامتوں کا مشاہدہ کیا اور مسلمان ہوئے۔ (مسند أحمد: 443/5) اتنے حقائق کے باوجود اگر کہا جائے کہ مہر نبوت کا تصور اصول نبوت اور دین کے مزاج سے مطابقت نہیں رکھتا تو اس کے جواب میں یہی کہا جا سکتا ہے کہ یہ خانہ ساز اور خود ساختہ ”تدبر“ کے برگ وبار اور فیوض و برکات ہیں۔ یقیناً ان حضرات نے تدبر حدیث کے نام سے انکار حدیث کا جو خار دار پودا کاشت کیا تھا، اب وہ اللہ کے ہاں ان کے کانٹوں کی چبھن ضرور محسوس کر رہے ہوں گے: (فَهَلْ وَجَدْتُمْ مَا وَعَدَ رَبُّكُمْ حَقًّا) قارئین کرام کی معلومات کے لیے عرض ہے کہ احادیث پر تدبر فرمانے والوں نے پہلے قرآن کریم کو تدبر کی بھینٹ چڑھایا۔ ان حضرات کی احادیث کے متعلق دلچسپی کا یہ عالم ہے کہ تفسیر تدبر قرآن جو آٹھ جلدوں اور ساڑھے چار ہزار سے زائد صفحات پر مشتمل ہے ان چار ہزار آٹھ صد ستر صفحات میں گنتی کی کل چالیس احادیث ذکر کی ہیں۔ البتہ جاہلی ادب اور لغت کی باریکیوں کی طرف کافی رجحان ہے۔ انھوں نے مبادی تدبر قرآن میں تفسیر کے چار قطعی اصول بیان فرمائے ہیں: 1۔ ادب جاہلی، 2۔ نظم قرآن، 3۔ تفسیر القرآن، 4۔ سنت متواترہ اس کے بعد ظنی ماخذ کے طور پر احادیث کو قبول کیا گیا ہے، احادیث سے اس قدر بے اعتنائی بڑی معنی خیز ہے۔ نوٹ: ۔ مہرنبوت کی ماہیت وکیفیت اور اس کی غایت وحکمت کتاب المناقب میں تفصیل سے بیان ہوگی۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 190
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 6087
حضرت سائب بن یزید رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں، میری خالہ مجھے رسول اللہ ﷺ کے پاس لے گئی اور کہا، اے اللہ کے رسول! میرے بھانجے کو تکلیف ہے تو آپﷺ نے میرے سر پر ہاتھ پھیرا اور میرے لیے برکت کی دعا فرمائی، پھر آپﷺ نے وضو کیا تو میں نے آپﷺ کے وضو کا پانی پیا، پھر میں آپ کی پشت کے پیچھے کھڑا ہو گیا تو میں نے آپﷺ کے کندھوں کے درمیان، آپ کی مہر دیکھی، جو ڈولی کے بٹن جیسی تھی یا ہنس کے انڈے جیسی تھی۔ [صحيح مسلم، حديث نمبر:6087]
حدیث حاشیہ: مفردات الحدیث: (1) حَجلة: دلہن کی ڈولی یا ہنس۔ (2) ذر جمع ازرار: گھنڈی، بڑے بٹن یا انڈا۔ اگر رز ہو تو پھر معنی انڈا ہی ہو گا۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 6087
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3541
3541. حضرت سائب بن یزید رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ میری خالہ مجھے رسول اللہ ﷺ کےپاس لے گئیں اور عرض کیا: اللہ کے رسول اللہ ﷺ! یہ میرا بھانجا بیمار ہے۔ آپ نے میرے سر پر اپنا دست مبارک پھیرا اور میرے لیے برکت کی دعا فرمائی۔ پھر آپ نے وضو کیا تو میں نے آپ کے وضو سے بچا ہوا پانی نوش کیا۔ پھر میں آپ کی پشت کی جانب کھڑا ہوا تو میں نے آپ کے دونوں کندھوں کے درمیان مہر نبوت کو دیکھا۔ (راوی حدیث) ابن عبید اللہ کہتے ہیں کہ حجله حجة الفرس سے مشتق ہے جو گھوڑے کی اس سفیدی کو کہتے ہیں کہ جو اس کی دونوں آنکھوں کے درمیان ہوتی ہے۔ (ایک دوسرے راوی حدیث)ابراہیم بن حمزہ نے کہا: وہ مہر نبوت مسہری کی گھنڈیوں جیسی تھی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3541]
حدیث حاشیہ: حافظ صاحب ؒ کہتے ہیں کہ یہ مہر ولادت کے وقت آپ کی پشت پر نہ تھی جیسے بعض نے گمان کیا ہے بلکہ شق صدر کے بعد فرشتوں نے یہ علامت کردی تھی۔ یہ مضمون ابوداود طیالسی اور حارث بن اسامہ نے اپنی مسندوں میں اور ابونعیم نے ”دلائل النبوۃ “ میں اور امام احمد اور بیھقی نے روایت کیا ہے۔ مثل رزالحجلة اکثر نسخوں میں حدیث میں نہیں ہے اور صحیح یہ ہے کہ ہے کیوں کہ اگر حدیث میں نہ ہو تا تو محمد بن عبید اللہ اس لفظ کی تفسیر کیوں بیان کرتے اور بعضوں نے یوں ترجمہ کیا ہے جیسے حجلہ کا انڈا اور حجلہ ایک پرندہ کانام ہے جو کبوتر سے چھوٹا ہوتا ہے۔ زر بتقدیم زائے معجمہ بر رائے مہملہ یا بتقدیم رائے مہملہ برزائے معجمہ یعنی رز دونوں طرح سے منقول ہے۔ رز سے مراد انڈا ہے۔ ابراہیم بن ہمزہ کی روایت کو خود امام بخاری ؒ نے کتاب الطب میں وارد کیا ہے۔ حافظ ؒنے کہا مجھ کو سائب بن یزید کی خالہ کانام معلوم نہیں ہوا۔ ہاں ان کی ماں کا نام ملبہ بنت شریح تھا۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3541
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5670
5670. حضرت سائب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہتے ہیں میری خالہ مجھے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں لے گئی اور کہا: اللہ کے رسول! میرا بھانجا بیمار ہے۔ آپ ﷺ نے میرے سر پر ہاتھ پھیرا اور میرے لیے برکت کی دعا کی۔ پھر آپ نے وضو کیا تو میں نے آپ کو وضو کا پانی نوش کیا۔ میں نے اس دوران میں آپ کی پشت کے پیچھے کھڑے ہو کر مہر نبوت دیکھی جو آپ کے دو شانوں کے درمیان تھی وہ مہر مسہری کی گھنڈیوں کی طرح تھی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5670]
حدیث حاشیہ: یا جیسے حجلہ ایک پرندہ ہوتا ہے اس کا انڈا ہوتا ہے یہ مہر نبوت آپ کی خاص علامت نبوت تھی (صلی اللہ علیه وسلم)
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5670
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6352
6352. حضرت سائب بن یزید ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ میری خالہ مجھے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں لے گئیں اور کہا: اللہ کے رسول! میرا یہ بھانجا بیمار ہے آپ نے میرے سر پر ہاتھ پھیرا اور میرے لیے برکت کی دعا فرمائی۔ پھر آپ نے وضو کیا تو میں نے آپ کے وضو سے بچا ہوا پانی پیا۔ پھر میں آپ کے پیچھے کھڑا ہو گیا اور آپ کے دو کندھوں کے درمیان مہر نبوت دیکھی جو چھپر کھٹ کی گھنڈی (یا کبوتری کے انڈے) کی طرح تھی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6352]
حدیث حاشیہ: حجلة ایک پرندہ ہوتا ہے۔ بعض روایات میں رزالحجلة بہ تقدیم رائے مہملہ بر زائے معجمہ آیا ہے۔ یعنی چکور کے انڈہ کی طرح گولائی میں ہے کہ اس کی تائید اس روایت سے ہوتی ہے جسے ترمذی نے جابر بن سمرہ سے روایت کیا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مہر نبوت دونوں مونڈھوں کے درمیان کبوتر کے انڈے کے برابر لال رسولی کی طرح تھی (لغات الحدیث)
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6352
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3541
3541. حضرت سائب بن یزید رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ میری خالہ مجھے رسول اللہ ﷺ کےپاس لے گئیں اور عرض کیا: اللہ کے رسول اللہ ﷺ! یہ میرا بھانجا بیمار ہے۔ آپ نے میرے سر پر اپنا دست مبارک پھیرا اور میرے لیے برکت کی دعا فرمائی۔ پھر آپ نے وضو کیا تو میں نے آپ کے وضو سے بچا ہوا پانی نوش کیا۔ پھر میں آپ کی پشت کی جانب کھڑا ہوا تو میں نے آپ کے دونوں کندھوں کے درمیان مہر نبوت کو دیکھا۔ (راوی حدیث) ابن عبید اللہ کہتے ہیں کہ حجله حجة الفرس سے مشتق ہے جو گھوڑے کی اس سفیدی کو کہتے ہیں کہ جو اس کی دونوں آنکھوں کے درمیان ہوتی ہے۔ (ایک دوسرے راوی حدیث)ابراہیم بن حمزہ نے کہا: وہ مہر نبوت مسہری کی گھنڈیوں جیسی تھی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3541]
حدیث حاشیہ: 1۔ حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے متعدد احادیث سے یہ نتیجہ اخذ کیاہے کہ یہ مہر نبوت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت کے موقع پر نہیں تھی،فرشتوں نے شق صدر کے وقت علامت کے طور پر دونوں کندھوں کے درمیان لگا دی تھی۔ واللہ أعلم۔ (فتح الباري: 687/6) 2۔ وہ مہر نبوت زرالحجلہ کی طرح تھی جیسا کہ دوسری روایات میں اس کی صراحت ہے۔ (صحیح البخاري، المرضیٰ، حدیث: 5670) زرالحجلہ کی تفسیر دوطرح سے کی گئی ہے۔ الف۔ حجلہ ایک پرندہ ہے جو کبوتر کی مانند ہوتاہے۔ اس کی چونچ اورپاؤں سرخ ہوتے ہیں۔ اس کاگوشت بہت لذیذ ہوتا ہے۔ زر،اس کے انڈے کو کہتے ہیں۔ اس معنی کی تائید ایک حدیث سے بھی ہوتی ہے جسے حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بیان کیا ہے۔ وہ فرماتے ہیں: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مہرنبوت آپ کے دونوں کندھوں کے درمیان دیکھی جو(مقدار میں) کبوتر کے انڈے جتنی اور (رنگت میں) آپ کے جسم جیسی تھی۔ (صحیح مسلم، الفضائل، حدیث: 6084(2344) ب۔ حجلہ دلہن کی ڈولی کو کہتے ہیں جو خوبصورت کپڑوں سے سجائی جاتی ہے۔ اس کے بڑے بڑے بٹن ہوتے ہیں،یعنی مہر نبوت مسہری کی گھنڈیوں جیسی تھی جو کبوتر کے انڈے کے برابر بیضوی شکل میں اس پردے پر لگائی جاتی ہیں جو مسہری پر لٹکایا جاتاہے۔ اکثر علماء نے اس آخری معنی کو راجح قراردیاہے۔ 3۔ حضرت عبداللہ بن سرجس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے گفتگو کرنے کا اعزاز حاصل ہوا،نیز مجھے آپ کے ساتھ بیٹھ کر کھانے کا شرف بھی ملا۔ میں نے اس علامت،یعنی مہرنبوت کودیکھا جو آپ کے بائیں کندھے کی نرم ہڈی کے پاس تھی جومقدار میں بند مٹھی کے برابر تھی۔ اس پر مسوں کی طرح تلوں کا جمگھٹا تھا۔ (مسند أحمد: 82/5) علامہ قرطبی ؒ فرماتے ہیں: بہت سی احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ مہرنبوت آپ کے بائیں کندھے کے پاس ایک ابھری ہوئی چیز تھی۔ اس کی مقدار کم ہونے کی صورت میں کبوتر کے انڈے کے برابر زیادہ ہونے کی شکل میں بند مٹھی جتنی تھی۔ (فتح الباري: 688/6) اس سلسلے میں حضرت ابوزید عمرو بن اخطب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے ایک مرتبہ کمر پر ہاتھ پھیرنے کے لیے کہا: میں نے آپ کی کمر پر ہاتھ پھیرنا شروع کیا تو اچانک میری انگلیاں مہر نبوت سے جالگیں۔ راوی کہتا ہے کہ ان سے پوچھا گیا: مہرنبوت کیا چیز تھی؟ توانھوں نے جواب دیا کہ چند بالوں کا مجموعہ تھا۔ (مسند أحمد: 77/5) 4۔ حضرت عبداللہ بن سرجس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ایک تفصیلی روایت مروی ہے فرماتے ہیں: میں ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اس وقت حاضر ہوا جب آپ کے ہاں لوگوں کا جمگھٹا تھا۔ میں نے یونہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پس پشت چکر لگایا تو آپ میرا مقصد سمجھ گئے۔ آپ نے اپنی پشت مبارک سے چادر اُتاری تو میں نے آپ کے دونوں شانوں کے درمیان مٹھی کے برابر مہر نبوت کو دیکھا جس کے چاروں طرف تل تھے جوگویا سوئی کے برابر معلوم ہوتے تھے،پھر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے آیا اور عرض کی: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! اللہ تعالیٰ آپ کی مغفرت فرمائے۔ آپ نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ تجھے بھی بخش دے۔ “لوگوں نے مجھے کہاکہ(آپ خوش نصیب ہیں کیونکہ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تمہارے لیے دعا فرمائی ہے۔ میں نے کہا: ہاں! تم سب کے لیے بھی کیونکہ اللہ تعالیٰ نے حکم دیاہے: اے محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) !آپ مغفرت کی دعا کریں اپنے لیے بھی اور اہل ایمان مرد وخواتین کے لیے بھی۔ (محمد: 47/19 و صحیح مسلم، الفضائل، حدیث: 6088(2346) 5۔ علامہ سہیلی ؒنے لکھا ہے کہ آپ شیطانی وسوسوں سے محفوظ تھے،اس لیے مہرنبوت کو بائیں کندھے کی نرم ہڈی کے پاس ثبت کیاگیا۔ یہی وہ جگہ ہے جہاں سے شیطان کو مداخلت کا موقع ملتا ہے۔ (فتح الباري: 689/6)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3541
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5670
5670. حضرت سائب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہتے ہیں میری خالہ مجھے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں لے گئی اور کہا: اللہ کے رسول! میرا بھانجا بیمار ہے۔ آپ ﷺ نے میرے سر پر ہاتھ پھیرا اور میرے لیے برکت کی دعا کی۔ پھر آپ نے وضو کیا تو میں نے آپ کو وضو کا پانی نوش کیا۔ میں نے اس دوران میں آپ کی پشت کے پیچھے کھڑے ہو کر مہر نبوت دیکھی جو آپ کے دو شانوں کے درمیان تھی وہ مہر مسہری کی گھنڈیوں کی طرح تھی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5670]
حدیث حاشیہ: (1) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت سائب بن یزید رضی اللہ عنہ کے سر پر ہاتھ پھیرا اور ان کے لیے خیر و برکت کی دعا کی، چنانچہ حضرت جعید بن عبدالرحمٰن کہتے ہیں کہ میں نے حضرت سائب بن یزید رضی اللہ عنہ کو چورانوے سال کی عمر میں دیکھا جبکہ وہ صحت مند اور توانا تھے۔ میرے سوال کرنے پر انہوں نے بتایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا کا نتیجہ ہے کہ آج میں توانا ہوں اور میری آنکھیں اور کان بدستور کام کر رہے ہیں۔ میرے اعضاء میں کوئی نقص واقع نہیں ہوا ہے۔ (صحیح البخاري، المناقب، حدیث: 3540)(2) بہرحال کسی بیمار بچے کو بزرگ کے پاس لے جانا تاکہ وہ دعا کرے اس میں شرعاً کوئی خرابی اور حرج نہیں ہے۔ واللہ أعلم
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5670