ہم سے آدم بن ابی ایاس نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے شعبہ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ابوجمرہ نصر بن عمران ضبعی نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ میں نے حج اور عمرہ کا ایک ساتھ احرام باندھا تو کچھ لوگوں نے مجھے منع کیا۔ اس لیے میں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے اس کے متعلق دریافت کیا۔ آپ نے تمتع کرنے کے لیے کہا۔ پھر میں نے ایک شخص کو دیکھا کہ مجھ سے کہہ رہا ہے ”حج بھی مبرور ہوا اور عمرہ بھی قبول ہوا“ میں نے یہ خواب ابن عباس رضی اللہ عنہما کو سنایا، تو آپ نے فرمایا کہ یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے۔ پھر آپ نے فرمایا کہ میرے یہاں قیام کر، میں اپنے پاس سے تمہارے لیے کچھ مقرر کر کے دیا کروں گا۔ شعبہ نے بیان کیا کہ میں نے (ابوجمرہ سے) پوچھا کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے یہ کیوں کیا تھا؟ (یعنی مال کس بات پر دینے کے لیے کہا) انہوں نے بیان کیا کہ اسی خواب کی وجہ سے جو میں نے دیکھا تھا۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْحَجِّ/حدیث: 1567]
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1567
حدیث حاشیہ: حضرت ابن عباس ؓ کو ابو جمرہ کا یہ خواب بہت بھلا معلوم ہوا کیونکہ انہوں نے جو فتویٰ دیا تھا اس کی صحت اس سے نکلی۔ خواب کوئی شرعی حجت نہیں ہے۔ مگر نیک لوگوں کے خواب جب شرعی امور کی تائید میں ہوں تو ان کے صحیح ہونے کا ظن غالب ہوتا ہے۔ حضرت ابن عباس ؓ نے حج تمتع کو رسول اللہ ﷺ کی سنت بتلایا اور سنت کے موافق جو کوئی کام کرے وہ ضرور اللہ کی بارگاہ میں مقبول ہوگا۔ سنت کے موافق تھوڑی سی عبادت بھی خلاف سنت بڑی عبادت سے زیادہ ثواب رکھتی ہے۔ علمائے دین سے منقول ہے کہ ادنیٰ سنت کی پیروی جیسے فجر کی سنتوں کے بعد لیٹ جانا درجہ میں بڑے ثواب کی چیز ہے۔ یہ ساری نعمت آنحضرت ﷺ کی کفش برداری کی وجہ سے ملتی ہے۔ پروردگار کو کسی کی عبادت کی حاجت نہیں۔ اس کو یہی پسند ہے کہ اس کے حبیب ﷺ کی چال ڈھال اختیار کی جائے۔ حافظ ؒ فرماتے ہیں: وَيُؤْخَذُ مِنْهُ إِكْرَامُ مَنْ أَخْبَرَ الْمَرْءَ بِمَا يَسُرُّهُ وَفَرَحُ الْعَالِمِ بِمُوَافَقَتِهِ الْحَقَّ وَالِاسْتِئْنَاسُ بِالرُّؤْيَا لِمُوَافَقَةِ الدَّلِيلِ الشَّرْعِيِّ وَعَرْضُ الرُّؤْيَا عَلَى الْعَالِمِ وَالتَّكْبِيرُ عِنْدَ الْمُسِرَّةِ وَالْعَمَلُ بِالْأَدِلَّةِ الظَّاهِرَةِ وَالتَّنْبِيهُ عَلَى اخْتِلَافِ أَهْلِ الْعِلْمِ لِيُعْمَلَ بِالرَّاجِحِ مِنْهُ الْمُوَافِقِ لِلدَّلِيلِ۔ (فتح) یعنی اس سے یہ نکلا کہ اگر کوئی بھائی کسی کے پاس کوئی خوش کرنے والی خبر لائے تو وہ اس کا اکرام کرے اور یہ بھی کہ کسی عالم کی کوئی بات حق کے موافق پڑ جائے تو وہ خوشی کا اظہار کرسکتا ہے اور یہ بھی کہ دلیل شرعی کے موافق کوئی خواب نظر آجائے تو اس سے دلی مسرت حاصل کرنا جائز ہے اور یہ بھی کہ خواب کسی عالم کے سامنے پیش کرنا چاہیے اور یہ بھی کہ خوشی کے وقت نعرہ تکبیر بلند کرناد رست ہے اور یہ بھی کہ ظاہر دلائل پر عمل کرنا جائز ہے اور یہ بھی کہ اختلاف کے وقت اہل علم کو تنبیہ کی جاسکتی ہے کہ وہ اس پر عمل کریں جو دلیل سے راجح ثابت ہو۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1567
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1567
حدیث حاشیہ: (1) حدیث میں مذکور واقعہ حضرت عبداللہ بن زبیر ؓ کے دور حکومت میں پیش آیا۔ (2) حضرت عبداللہ بن زبیر ؓ حج تمتع سے لوگوں کو منع کرتے تھے۔ ان کا موقف تھا کہ حج تمتع کسی مجبوری کے پیش نظر کیا جا سکتا ہے، عام حالات میں کرنا صحیح نہیں، لیکن ان کا یہ موقف جمہور اہل علم کے خلاف ہے۔ جب ابو جمرہ نے حضرت ابن عباس ؓ سے اس کا تذکرہ کیا تو انہوں نے اللہ أکبر کہا اور فرمایا: ایسا کرنا تو رسول اللہ ﷺ کی سنت ہے۔ پھر ابو جمرہ بیت اللہ گئے اور طواف کیا، انہیں وہیں نیند آ گئی تو خواب میں حج تمتع کے قبول ہونے کی بشارت دی گئی۔ ایک روایت میں ہے کہ خواب میں آنے والے نے کہا: آپ کا حج تمتع قبول ہوا۔ (فتح الباري: 542/3)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1567
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1790
´حج افراد کا بیان۔` عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ عمرہ ہے، ہم نے اس سے فائدہ اٹھایا لہٰذا جس کے ساتھ ہدی نہ ہو وہ پوری طرح سے حلال ہو جائے، اور عمرہ حج میں قیامت تک کے لیے داخل ہو گیا ہے۔“ ابوداؤد کہتے ہیں: یہ (مرفوع حدیث) منکر ہے، یہ ابن عباس کا قول ہے نہ کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ۱؎۔ [سنن ابي داود/كتاب المناسك /حدیث: 1790]
1790. اردو حاشیہ: ➊ امام ابن القیم فرماتے ہیں: امام ابو داؤد کا مذکورہ بالا حدیث کو منکر کہنا صحیح نہیں۔کیونکہ یہ مسئلہ صحیح احادیث سے ثابت ہے۔ یہ جرح در اصل اگلی حدیث (1791پر ہے۔ (عون المعبود) ➋ چونکہ قبل از اسلام لوگ ایام حج میں عمرہ کرنا کبیرہ گناہ سمجھتے تھے تو رسول اللہ ﷺ نے ان کی ممانعت کرتے ہوئے شریعت اسلام کی بات تاکید کے ساتھ نافذ فرمائی۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1790
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2738
´حج تمتع کا بیان۔` طاؤس کہتے ہیں کہ معاویہ رضی اللہ عنہ نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے کہا: کیا آپ کو معلوم ہے کہ مروہ کے پاس میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بال کترے تھے (میں یہ اس لیے بیان کر رہا ہوں تاکہ) ابن عباس رضی اللہ عنہما یہ نہ کہہ سکیں کہ یہ معاویہ ہیں جو لوگوں کو تمتع سے روکتے ہیں حالانکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے تمتع کیا ہے ۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب مناسك الحج/حدیث: 2738]
اردو حاشہ: (1) مروہ پر سر کے بال کاٹنا کسی عمرے ہی کے موقع پر ہو سکتا ہے کیونکہ حجۃ الوداع میں تو آپ نے حجامت منیٰ میں بنوائی تھی، پھر یہ عمرہ جعرانہ کی بات ہوگی جو 8 ہجری میں فتح مکہ کے بعد ہوا۔ امام نووی اور ابن القیمL وغیرہ نے اسے اس پر محمول کیا ہے۔ اس وقت تک حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ مسلمان ہو چکے تھے اور اس بات پر اتفاق ہے کہ رسول اللہﷺ حجۃ الوداع میں عمرہ کر کے حلال نہیں ہوئے بلکہ حج کے بعد حلال ہوئے تھے۔ (2)”ابن عباس نے کہا: نہیں۔“ یعنی میں نہیں جانتا۔ لیکن صحیح مسلم کی روایت میں ابن عباس رضی اللہ عنہ کے الفاظ یہ ہیں: [لَاأَعْلَمُ ھِٰہِ اِلَّا حُجّقۃً عَلَیْکَ](صحیح مسلم، الحج، حدیث: 1246) میں تو اسے آپ کے موقف کے خلاف سمجھتا ہوں کیونکہ آپ تمتع سے روکتے ہیں۔ اور مروہ پر آپ کا رسول اللہﷺ کی حجامت بنانا دلیل ہے کہ رسول اللہﷺ عمرے کے بعد حلال ہوئے تھے، لہٰذا رسول اللہﷺ کا حج تمتع ہوا تو پھر تم کیوں روکتے ہو؟ باب والی روایت کے آخری الفاظ بھی اسی معنیٰ (صحیح مسلم والی روایت کے معنیٰ) کی تائید کرتے ہیں۔ گویا حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے حجامت بنانے والے واقعے کو حجۃ الوداع سے قبل عمرے پر محمول کیا ہے۔ مگر صریح روایات میں ان کے خلاف ہیں، اس لیے بعض محققین نے مروہ پر حجامت بنانے کو حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی غلط فہمی یا نسیان وخطا پر محمول کیا ہے۔ واللہ أعلم (3) حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کا تمتع سے روکنا حضرت عمر اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی اقتدا کے طور پر تھا۔ (4) خلاف سنت کام کی تردید ضروری ہے چاہے کرنے والا کوئی بھی ہو کیونکہ حق سب سے بڑا ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2738
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2817
´جو شخص ہدی ساتھ نہ لے جائے وہ حج عمرہ میں تبدیل کر کے احرام کھول سکتا ہے۔` عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ عمرہ ہے جس سے ہم نے فائدہ اٹھایا ہے، تو جس کے ساتھ ہدی نہ ہو وہ پورے طور پر حلال ہو جائے، کیونکہ عمرہ حج میں شامل ہو گیا ہے۔“[سنن نسائي/كتاب مناسك الحج/حدیث: 2817]
اردو حاشہ: (1)”لہٰذا“ یعنی عمرہ کرنے کی وجہ سے ہمارا حج تمتع بن گیا ہے، لہٰذا عمرے اور حج کے درمیان حلال ہونا چاہیے تاکہ عمرے کی اپنی جداگانہ حیثیت واضح ہو، البتہ شرط یہ ہے کہ ساتھ قربانی کا جانور نہ ہو۔ (2)”عمرہ حج میں داخل ہوگیا ہے۔“ اس کے مختلف مفہوم بیان کیے گئے ہیں: *حج کے دنوں میں عمرہ کیا جا سکتا ہے، کوئی پابندی نہیں۔ *حج اور عمرہ اکٹھے ہوگئے، لہٰذا حج کا احرام باندھ کر عمرہ کرنے کے بعد حلال ہو سکتا ہے۔ *عمرے کے افعال الگ ادا کرنے کی ضرورت نہیں۔ اگر حج اور عمرہ اکٹھے (قران کی صورت میں) ادا ہو رہے ہیں تو صرف حج کے افعال کافی ہیں۔ صرف نیت میں عمرہ ہوگا۔ افعال حج ہی کے ہوں گے۔ یہ امام شافعی رحمہ اللہ کی رائے ہے۔ *عمرہ حج میں داخل ہے، لہٰذا حج فرض ہونے کے بعد عمرہ ضروری نہیں رہا۔ حج ہی سے کفایت ہو جائے گی۔ ان چاروں معانی میں سے پہلے معنیٰ متفق علیہ ہیں۔ دوسرے معنیٰ صرف امام احمد رحمہ اللہ کے نزدیک، تیسرے معنیٰ امام شافعی کے نزدیک اور چوتھے معنیٰ صرف احناف کے نزدیک معتبر ہیں۔ واللہ أعلم
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2817
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 932
´حج سے متعلق ایک اور باب۔` عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”عمرہ حج میں قیامت تک کے لیے داخل ہو چکا ہے۔“[سنن ترمذي/كتاب الحج/حدیث: 932]
اردو حاشہ: 1؎: مگر حرمت والے مہینوں کا حج کے لیے احرام باندھنے سے کوئی تعلق نہیں ہے، امام رحمہ اللہ نے ان کا ذکر صرف وضاحت کے لیے کیا ہے تاکہ دونوں خلط ملط نہ جائیں۔ نوٹ: (سند میں یزید بن ابی زیادضعیف ہیں، لیکن متابعات وشواہد سے تقویت پاکر یہ حدیث صحیح لغیرہ ہے)
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 932
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 3014
حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ عمرہ ہے جس سے ہم نے فائدہ اٹھا لیا ہے، (اس کے لیے الگ سفر نہیں کرنا پڑا) تو جس کے ساتھ قربانی نہیں ہے، وہ مکمل طور پر حلال ہو جائے (احرام کھول دے) کیونکہ عمرہ قیامت تک کے لیے حج میں داخل ہو چکا ہے۔“[صحيح مسلم، حديث نمبر:3014]
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: اب جاہلیت کے رسم و رواج کے برعکس، حج کے مہینوں میں تمتع اور قرآن کی شکل میں حج کے ساتھ عمرہ کیا جاسکتا ہے۔ اس میں کسی قسم کی قباحت برائی اورگناہ نہیں ہے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 3014
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1688
1688. حضرت ابو جمرہ سے مروی ہے کہ میں نے حضرت ابن عباس ؓ سے تمتع کے متعلق دریافت کیا تو آپ نے اسے عمل میں لانے کا حکم دیا۔ اور میں نے ہدی کے متعلق سوال کیا تو آپ نے فرمایا: تمتع میں اونٹ، گائے یا بکری کافی ہے اور قربانی میں شرکت بھی ہوسکتی ہے۔ ابو جمرہ کہتے ہیں: لوگوں نے تو اسے مکروہ خیال کیا، چنانچہ میں سویا تو خواب میں دیکھا کہ ایک شخص باآواز بلند پکاررہاہے۔ حج مبروراورتمتع قبول ہے۔ میں حضرت ابن عباس ؓ کے پاس آیا اور ان سے خواب بیان کیا تو انھوں نے فرمایا: اللہ أکبر! یہ تو ابو القاسم ﷺ کی سنت ہے۔ راوی کہتے ہیں کہ آدم، وہب بن جریر اور غندرنے شعبہ سے بایں الفاظ اس حدیث کو بیا ن کیاہے کہ عمرہ قبول اور حج مبرور ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1688]
حدیث حاشیہ: حضرت عمر اور عثمان غنی ؓ سے تمتع کی کراہیت منقول ہے لیکن ان کا قول احادیث صحیحہ اور خود نص قرآنی کے برخلاف ہے، اس لیے ترک کیا گیا اور کسی نے اس پر عمل نہیں کیا۔ جب حضرت عمر اور حضرت عثمان ؓ کی رائے جو خلفائے راشدین میں سے ہیں حدیث کے خلاف مقبول نہ ہو تو اور مجتہد یا مولوی کس شمار میں ہیں۔ ان کا فتوی حدیث کے برخلاف لچر اور پوچ ہے۔ (وحیدی) اس لیے حضرت شاہ ولی اللہ مرحوم نے فرمایا ہے کہ جو لوگ صحیح مرفوع احادیث کے مقابلہ پر قول امام کو ترجیح دیتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ان کے لیے یہی کافی ہے پس اللہ کے ہاں جس دن حساب کے لیے کھڑے ہوں گے ان کا کیا جواب ہو سکے گا۔ صد افسوس کہ یہود و نصاریٰ میں تقلید شخصی کی بیماری تھی جس نے مسلمانوں کو بھی پکڑ لیا اور وہ بھی ﴿اتَّخَذُوا أَحْبَارَهُمْ وَرُهْبَانَهُمْ أَرْبَابًا مِنْ دُونِ اللَّهِ﴾(التوبة: 31) کے مصداق بن گئے یعنی ان لوگوں نے اپنے مولویوں درویشوں کو خدا کے سوا اپنا رب ٹھہرا لیا، یعنی خدا کی طرح ان کی فرمانبرداری کو اپنے لیے لازم قرار دے لیا۔ اسی کا نام تقلید جامد ہے جو سب بیماریوں کی جڑ ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1688
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1688
1688. حضرت ابو جمرہ سے مروی ہے کہ میں نے حضرت ابن عباس ؓ سے تمتع کے متعلق دریافت کیا تو آپ نے اسے عمل میں لانے کا حکم دیا۔ اور میں نے ہدی کے متعلق سوال کیا تو آپ نے فرمایا: تمتع میں اونٹ، گائے یا بکری کافی ہے اور قربانی میں شرکت بھی ہوسکتی ہے۔ ابو جمرہ کہتے ہیں: لوگوں نے تو اسے مکروہ خیال کیا، چنانچہ میں سویا تو خواب میں دیکھا کہ ایک شخص باآواز بلند پکاررہاہے۔ حج مبروراورتمتع قبول ہے۔ میں حضرت ابن عباس ؓ کے پاس آیا اور ان سے خواب بیان کیا تو انھوں نے فرمایا: اللہ أکبر! یہ تو ابو القاسم ﷺ کی سنت ہے۔ راوی کہتے ہیں کہ آدم، وہب بن جریر اور غندرنے شعبہ سے بایں الفاظ اس حدیث کو بیا ن کیاہے کہ عمرہ قبول اور حج مبرور ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1688]
حدیث حاشیہ: (1) امام بخاری ؒنے آیت کریمہ کو عنوان بنایا ہے۔ اس آیت میں کئی ایک مسائل ہیں لیکن امام بخاری نے ہدی اور تمتع کا حکم بیان کیا ہے۔ ایک سفر میں دو عبادتوں حج اور عمرے کو ادا کرنا تمتع ہے، اس لیے ہدی سے مراد تمتع کی ہدی اور قران کی ہدی دونوں ہیں۔ آیت کریمہ میں اگرچہ ہدی تمتع کا ذکر ہے لیکن ہدی قران بھی اس سے مراد لی جا سکتی ہے۔ حج تمتع میں عمرے کے بعد احرام کھول دیا جاتا ہے اور بیوی سے ہم بستری کرنا بھی جائز ہوتا ہے۔ اور حج قران میں عمرے کو حج کے ساتھ جمع کرنا ہے۔ (2) واضح رہے کہ حضرت ابن عباس ؓ کے نزدیک ہدی سے مراد بکری ہے۔ اس میں اشتراک نہیں ہو سکتا، البتہ اونٹ اور گائے میں حصہ رکھا جا سکتا ہے۔ حضرت ابن عمر ؓ اگرچہ اس کے قائل نہیں تھے لیکن انہوں نے رجوع کر لیا تھا، چنانچہ شعبی ؒ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے دریافت کیا: آیا اونٹ اور گائے میں سات آدمی شریک ہو سکتے ہیں؟ انہوں نے فرمایا کہ ان میں سات جانیں ہوتی ہیں؟ میں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے اونٹ اور گائے کو سات آدمیوں کی طرف سے کافی قرار دیا ہے۔ انہوں نے فرمایا: واقعی ایسا ہے؟ میں نے کہا: ہاں۔ انہوں نے فرمایا: مجھے اس کا علم نہیں۔ (مسند أحمد: 409/5 وإسنادہ ضعیف)(3) آدم کی روایت کو امام بخاری نے، وہب بن جریر کے طریق کو امام بیہقی ؒ نے اور غندر کی روایت کو امام احمد نے اپنی متصل سند سے بیان کیا ہے۔ (فتح الباري: 676/3)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1688