ہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا، ان سے لیث نے خالد کے واسطے سے نقل کیا، وہ سعید بن ابی ہلال سے نقل کرتے ہیں، وہ نعیم المجمر سے، وہ کہتے ہیں کہ میں (ایک مرتبہ) ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ مسجد کی چھت پر چڑھا۔ تو آپ نے وضو کیا اور کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے تھے کہ میری امت کے لوگ وضو کے نشانات کی وجہ سے قیامت کے دن سفید پیشانی اور سفید ہاتھ پاؤں والوں کی شکل میں بلائے جائیں گے۔ تو تم میں سے جو کوئی اپنی چمک بڑھانا چاہتا ہے تو وہ بڑھا لے (یعنی وضو اچھی طرح کرے)۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْوُضُوءِ/حدیث: 136]
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 136
� تشریح: جو اعضاء وضو میں دھوئے جاتے ہیں قیامت میں وہ سفید اور روشن ہوں گے، ان ہی کو «غرا محجلين» کہا گیا ہے۔ چمک بڑھانے کا مطلب یہ کہ ہاتھوں کو مونڈھوں تک اور پاؤں کو گھٹنے تک دھوئے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بعض دفعہ ایسا ہی کیا کرتے تھے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 136
حافظ عمران ايوب لاهوري حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 136
تخريج الحديث: [141۔ البخاري فى: 4 كتاب الوضوء: 3 باب فضل الوضوء 136، مسلم 246، ابن حبان 1049] لغوی توضیح: «غُرًّا» وہ چمک جو گھوڑے کی پیشانی میں ہوتی ہے اور «تَحْجِيْل» وہ چمک جو گھوڑے کی ٹانگوں میں ہوتی ہے۔ یہاں مراد اعضائے وضو کی چمک دمک اور سفیدی ہے۔ «آثَار» نشانات۔ فھم الحدیث: سفیدی و چمک کو لمبا کرنے کے مختلف مفہوم بیان کیے گئے ہیں، ایک مفہوم وہ ہے جو سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے سمجھا یعنی بازوؤں کو کندھوں تک، قدموں کو گھٹنوں تک یا کم از کم مقررہ حد سے زیادہ دھونا۔ دوسرا مفہوم یہ کہ ہر وقت باوضو رہنے کی کوشش کرنا اور تیسرا یہ کہ باوضو ہونے کے باوجود ہر نماز کے لیے الگ وضو کرنا وغیرہ۔ یہاں یہ یاد رہے کہ حدیث کے آخری الفاظ (یعنی جو چمک زیادہ کر سکتا ہے۔۔۔) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہیں یا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کا اپنا قول، اس میں اختلاف ہے اور اس کے متعلق سعودی مجلس افتاء کا یہی فتویٰ ہے کہ یہ الفاظ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے ہیں۔ [فتاويٰ اللجنة الدائمة للبحوث العلمية والإفتاء 201/5] اس لیے بہتر یہی ہے کہ وضو کی مقررہ حدود سے تجاوز نہ کیا جائے۔
جواہر الایمان شرح الولووالمرجان، حدیث/صفحہ نمبر: 141
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:136
حدیث حاشیہ: 1۔ صحیح بخاری کے اکثر نسخوں میں (الغُـرّ المحجلون) رفع کے ساتھ ہے جبکہ مستملی نے اصیلی کی تصریح کےمطابق اسے (الغرّ المُحجّلين) پڑھا ہے۔ اس صورت میں اس جملے کا عطف الوضوء ہو گا یعنی اس عنوان کا مقصد دو فضیلتوں کا بیان ہے: ایک وضو کی فضیلت دوسرے (الغُـرّ المحجلون) کی فضیلت وضو کی فضیلت یہ ہے کہ اس کی برکت سے چہرہ اور دیگر اعضائے وضو روشن ہوں گے اور(الغُـرّ المحجلون) کی فضیلت یہ ہے کہ یہ اس امت کا امتیازی نشان ہوگا۔ جیسا کہ صحیح مسلم کی روایت سے ثابت ہے۔ (صحيح مسلم، الطهارة، حدیث: 581(247) رفع کے ساتھ پڑھنے کی صورت میں اس کی دو توجیہات ہیں (1) ۔ «أَنْتُمُ الْغُرُّ الْمُحَجَّلُونَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ» یہ اعراب حکایت کے طور پر ہے۔ (صحیح مسلم، الطهارة، حدیث: 579(246)(2) ۔ یہ الفاظ مبتدا اور اس کی خبر مقدم فیہ محذوف ہے یعنی امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے وضو کی فضیلت ثابت کرنے کے لیے صحیح مسلم کی روایت کی طرف اشارہ فرمایا کیونکہ وہ روایت ان کی شرط کے مطابق نہ تھی۔ اس وضاحت کے بعد ”امام تدبر“ کے اس اعتراض کی کیا حیثیت ہے جو انھوں نے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ پر کیا ہے۔ ”میرے نزدیک عنوان باب امام صاحب کا ایک نا تمام نوٹ ہے۔ “(تدبر حدیث: 240/1) 2۔ حدیث کے آخر میں جو الفاظ ہیں کہ تم میں سے جو شخص چمک بڑھانے کی استطاعت رکھتا ہو وہ بڑھالے، یہ ارشاد نبوی ہے یا حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا حدیث سے استخراج؟ اس کی بابت اکثر محقق علماء اور محدثین کی رائے یہ ہے کہ یہ الفاظ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ہیں جنھیں اصطلاح میں مدرج کہا جاتا ہے۔ یہ الفاظ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نہیں۔ البتہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا یہ عمل ملتا ہے کہ وہ ہاتھوں کو کندھوں تک اور پیروں کو گھٹنوں تک دھوتے تھے لیکن یہ ان کا اجتہاد تھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل نہیں تھا صحیح مسلم کی ایک روایت میں ہے کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے وضو کیا اور اپنے دائیں اور بائیں ہاتھ اس طرح دھوئے کہ کہنیوں سے تھوڑا اوپر تک کا حصہ اس میں شامل کیا اس طرح پیروں کو اس طرح دھویا کہ پنڈلیوں کا کچھ حصہ اس میں شامل کر لیا۔ پھر فرمایا: (هَكَذَا رَأَيْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَتَوَضَّأُ. وَقَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أَنْتُمُ الْغُرُّ الْمُحَجَّلُونَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ مِنْ إِسْباغِ الْوُضُوءِ، فَمَنِ اسْتَطَاعَ مِنْكمْ فَلْيُطِلْ غُرَّتَهُ وَتَحْجِيلَهُ»(صحیح مسلم، الطهارة، حدیث: 579(246) ”میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اسی طرح وضو کرتے ہوئے دیکھا ہے اور کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کمال وضو کی وجہ سے قیامت کے روز تمھارے ہاتھ پاؤں اور پیشانی چمک دار ہوں گی۔ لہٰذا تم میں سے جو اپنی چمک اور سفیدی کو لمبا کر سکتا ہے تو وہ کرے۔ “ اس روایت سے بھی بعض حضرات کویہ مغالطہ کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا یہ عمل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی ثابت ہے۔ لیکن اس روایت میں ایسی کوئی بات نہیں ہے، اس میں صرف کہنیوں سے تھوڑا سا اوپر حصہ اور اسی طرح ٹخنوں سے تھوڑا اوپر پنڈلیوں کا حصہ شامل کیے جانے کا ذکر ہے اور اس کی بابت کہا گیا ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اسی طرح کرتے دیکھا ہے۔ اس میں کندھوں تک اور گھٹنوں تک دھونے کا ذکر نہیں ہے۔ بہر حال کندھوں اور گھٹنوں تک اعضائے وضو کو دھونا حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا اپنا اجتہادی عمل ہے۔ ایک اثر میں حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما کا بھی یہ عمل بتلایا گیا ہے لیکن وہ صحیح سند سے ثابت نہیں۔ تفصیل کے لیے ملا حظہ ہو۔ (أروا الغلیل: 132/1، و الضعیفة للألبانی رقم: 1003)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 136
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 40
´اعضائے وضو کو حد فرض سے زیادہ تک دھونا` «. . . وعن ابي هريرة رضي الله عنه قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم يقول: إن امتي ياتون يوم القيامة غرا محجلين من اثر الوضوء، فمن استطاع منكم ان يطيل غرته فليفعل . . .» ”. . . سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے سنا ہے کہ ”قیامت کے روز میری امت کہ لوگ ایسی حالت میں آئیں گے کہ وضو کے اثرات کی وجہ سے ان کے ہاتھ پاؤں چمکتے ہوں گے۔ تم میں سے جو شخص اس چمک اور روشنی کو زیادہ بڑھا سکتا ہو اسے ضرور بڑھانی چاہیئے . . .“[بلوغ المرام/كتاب الطهارة: 40]
� لغوی تشریح: «غُرًّا» «یَأتُونَ» کی «هُمْ» ضمیر سے حال واقع ہو رہا ہے۔ ”غین“ پر ضمہ اور ”را“ پر تشدید ہے۔ «أَغُرًّ» کی جمع ہے اور «أَغُرًّ» اسے کہتے ہیں جس کے لیے سفیدی ہو۔ اور «غُرَّة» دراصل اس سفید چمک کو کہتے ہیں جو گھوڑے کی پیشانی میں ہوتی ہے۔ «مُحَجَّلِيْن» «تَحْجِيْل» سے اسم مفعول واقع ہو رہا ہے۔ اس سفیدی کو کہتے ہیں جو گھوڑے کے پاؤں میں ہوتی ہے۔ مطلب یہ ہوا کہ وضو کی چمک کی وجہ سے ان کے چہرے، ہاتھ اور پاؤں چمک رہے ہوں گے۔ «يُطِيلُ» «إِطَالَة» سے ماخوذ ہے۔ دراز، لمبا اور طویل کرنے کے معنی میں آتا ہے۔ «غُرَّتَهُ» اپنے چہرے کی چمک اور روشنی اور اسی طرح ہاتھ اور پاؤں کی روشنی۔ مطلب یہ ہوا کہ جہاں تک پانی پہچانا لازمی ہو وہاں سے آگے پہنچایا جائے۔
فوائد ومسائل: ➊ اس حدیث کے کئی مطلب ہو سکتے ہیں: ◄ ایک یہ کہ اعضائے وضو کو حد فرض سے زیادہ تک دھونا، مثلاً: ہاتھوں کو کندھوں تک اور پاؤں کو گھٹنوں تک۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ راوی حدیث نے یہی مفہوم سمجھا اور اسی پر ان کا اپنا عمل تھا۔ امام ابوحنیفہ اور امام شافعی رحمها اللہ بھی اسے مستحب سمجھتے ہیں، مگر امام مالک رحمہ اللہ اسے مستحب نہیں سمجھتے۔ وہ فرماتے ہیں کہ وضو کی حد متعین ہے اور زیور اپنے مقام پر ہے۔ امام ابن تیمیہ اور حافظ ابن قیم رحمها اللہ کا بھی یہی موقف ہے کہ حد فرض سے زیادہ دھونا پسندیدہ امر نہیں۔ دیکھئے: [تيسير العلام شرح عمدة الأحكام 46/1 - 48] ◄ دوسرا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ہر عضو وضو کو تین تین مرتبہ دھوئے۔ اور تیسرا مفہوم یہ بھی ممکن ہے کہ وضو موجود ہو مگر ثواب کی نیت سے تازہ وضو کرے اور ہر وقت باوضو رہنا بھی مراد ہو سکتا ہے۔ لیکن یہ دونوں مفہوم ظاہر کے خلاف ہیں۔ ➋ اس آخری جملے کے بارے میں راوی کو تردد ہے کہ یہ مرفوع ہے یا سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کا قول ہے جیسا کہ مسند احمد اور فتح الباری میں ہے۔ [1؍236، حدیث: 136] اس لیے اس سے مقررہ حد سے زائد حصے کو دھونے کے استحباب پر استدلال محل نظر ہے۔ تفصیل کے لیے دیکھیے: [إغاثة اللهفان: 1/ 200]
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 40
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث4282
´امت محمدیہ کی صفات۔` ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم میرے پاس آؤ گے اس حال میں کہ وضو کی وجہ سے تمہارے ہاتھ پاؤں اور پیشانیاں روشن ہوں گی، یہ میری امت کا نشان ہو گا، اور کسی امت کا یہ نشان نہ ہو گا۔“[سنن ابن ماجه/كتاب الزهد/حدیث: 4282]
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) نمازسب سے بڑا نیک عمل ہے۔ حتیٰ کہ اس کی تیاری کے لئے کیا جانے والا وضو بھی بہت ثواب اور آخرت میں عزت وشرف کاباعث ہے۔
(2) وضو احتیاط سے اچھی طرح کرنا چاہیے تاہم بہت زیادہ پانی خرچ کرنا یا پانی ضائع کرنا گناہ ہے۔
(3) وضو کے اعضاء کا چمکنا حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کی امت کی علامت ہے۔ بے نماز وضو نہیں کرتے۔ اس لئے انھیں یہ علامت حاصل نہیں ہوگی۔ چنانچہ وہ قیامت کے دن حضرت محمد ﷺ کی امت س میں سے ہونے کا دعویٰ نہیں کرسکیں گے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 4282
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 580
نعیم بن عبداللہ بیان کرتے ہیں: کہ اس نے ابو ہریرہ ؓ کو وضو کرتے دیکھا، انھوں نے اپنا چہرہ اور ہاتھ دھوئے، یہاں تک کہ کندھوں کے قریب پہنچ گئے۔ پھر انھوں نے اپنے پاؤں دھوئے، حتیٰ کہ پنڈلیوں تک پہنچ گئے۔ پھر کہا: میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا: ”میرے امتی قیامت کے دن وضو کے اثر سے روشن چہرہ اور چمک دار ہاتھ پاؤں کے ساتھ آئیں گے، تم میں سے جو اپنی روشنی اور نورانیت بڑھا سکے، تو ایسا کرے۔“[صحيح مسلم، حديث نمبر:580]
حدیث حاشیہ: مفردات الحدیث: : (1) غُرَّةٌ: پیشانی کی روشنی اور چمک۔ (2) تَحْجِيلٌ: ہاتھ پاؤں کی سفیدی اور چمک۔ فوائد ومسائل: وضو کے اثر دنیا میں یہ ہے، کہ اس سے اعضائے وضو میل کچیل اور حدث سے پاک وصاف ہو کر گناہوں سے بھی پاک ہوجاتے ہیں، لیکن قیامت میں اس کا اثر یہ ہو گا، کہ آپ کے امتیوں کے چہرے اور ہاتھ پاؤں روشن، اور تاباں ہوں گے، اور یہ ان کا وہاں امتیازی وصف ہوگا۔ پھر جس کا وضو جتنا کامل اور مکمل ہوگا اس کی یہ روشنی اور نورانیت بھی اس درجہ کی ہوگی، اس لیے وضو میں بازو اور پنڈلی کو بھی دھونے کی کوشش کرنی چاہیے، اور اس کی کوئی خاص حد مقرر نہیں ہے، جہاں تک دھو سکے دھولے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 580
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 582
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: " میری امت میرے پاس حوض پر آئے گی اور میں اس سے لوگوں کو ہٹاؤں گا۔ جیسے ایک مرد اپنے اونٹوں سے دوسرے انسان کے اونٹوں کو ہٹاتا ہے۔" انھوں (صحابہ کرام رضی اللہ عنھم) نے عرض کیا اے اللہ کے نبیؐ! کیا آپ ہمیں پہچانیں گے؟ آپ نے فرمایا: "ہاں! تمھاری ایک نشانی ہوگی جو تمھارے سوا کسی میں نہیں ہوگی۔ تم میرے پاس وضو کے اثرات کی بنا پر روشن چہرے، چمک دار ہاتھ پاؤں کے ساتھ آؤ گے۔ تم میں... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں)[صحيح مسلم، حديث نمبر:582]
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: ان دونوں حدیثوں سے معلوم ہوتا ہے کہ صحابہ کرام کا یہ عقیدہ نہیں تھا کہ آ پ کو علم کلی حاصل ہے یا آپ عالم الغیب ہیں وگرنہ وہ یہ سوال نہ کرتے کہ اتعرفنا؟ کیا آ پ ہمیں پہنچانیں گے اور نہ ہی آپ یہ جواب دیتے۔ نعم لکم سیما لیست لا حد غیرکم، تمہاری ایک ایسی علامت ہوگی جو کسی اور میں نہیں ہوگی، علم کلی رکھنے والے کو کسی علامت یا نشانی کی ضرورت نہیں ہوتی۔ (حدیث کے جملہ اھل ت دری ما احدثوا بعدک کی بحث اس مفہوم کی آخری حدیث کے بعد آئے گی۔ )