اور ابورافع نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم لوگوں نے مجھے خبر کیوں نہ دی۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْجَنَائِزِ/حدیث: Q1247]
ہم سے محمد بن سلام بیکندی نے بیان کیا، انہیں ابومعاویہ نے خبر دی، انہیں ابواسحاق شیبانی نے، انہیں شعبی نے، ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ ایک شخص کی وفات ہو گئی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی عیادت کو جایا کرتے تھے۔ چونکہ ان کا انتقال رات میں ہوا تھا اس لیے رات ہی میں لوگوں نے انہیں دفن کر دیا اور جب صبح ہوئی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر دی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا (کہ جنازہ تیار ہوتے وقت) مجھے بتانے میں (کیا) رکاوٹ تھی؟ لوگوں نے کہا کہ رات تھی اور اندھیرا بھی تھا۔ اس لیے ہم نے مناسب نہیں سمجھا کہ کہیں آپ کو تکلیف ہو۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس کی قبر پر تشریف لائے اور نماز پڑھی۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْجَنَائِزِ/حدیث: 1247]
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1247
حدیث حاشیہ: اس حدیث سے ثابت ہوا کہ مرنے والوں کے نماز جنازہ کے لیے سب کو اطلاع ہونی چاہیے اور اب بھی ایسے مواقع میں جنازہ قبر پر بھی پڑھا جا سکتا ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1247
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1247
حدیث حاشیہ: اس سے پہلے عنوان میں امام بخاری ؒ نے دوسرے کو موت کی اطلاع دینا بیان کیا تھا اور اس عنوان میں جنازہ تیار ہونے کی خبر دینا بیان کیا گیا ہے، خصوصا ایسے لوگوں کو اطلاع دینا جو بڑی شخصیت کے حامل اور مقتدا و پیشوا ہوں۔ بعض شارحین نے کہا ہے کہ حضرت ابن عباس ؓ کی حدیث میں جس شخص کا ذکر ہے، اس سے وہی شخص مراد ہے جس کا ذکر حضرت ابو ہریرہ ؓ کی حدیث میں ہوا ہے، لیکن یہ بات درست نہیں، کیونکہ سیدنا ابو ہریرہ سے مروی حدیث میں ام محجن ؓ نامی عورت کا ذکر ہے جو مسجد کی صفائی کیا کرتی تھی، جبکہ حضرت عبداللہ بن عباسؓ جس شخص کی بابت خبر دے رہے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے اس کی قبر پر آ کر اس کی نماز جنازہ پڑھی تھی وہ شخص عورت نہیں بلکہ مرد تھا، لہذا یہ دونوں کسی بھی صورت میں ایک شخص نہیں ہو سکتا۔ یہ دونوں الگ الگ واقعے میں ایک میں عورت کی قبر پر آ کر نماز جنازہ پڑھنے کا ذکر ہے اور دوسرے میں کسی مرد کی قبر پر نماز جنازہ پڑھنے کا ذکر ہے۔ (المعجم الأوسط للطبراني: 78/9، و فتح الباري: 152/3) والله أعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1247