الحمدللہ ! احادیث کتب الستہ آف لائن ایپ ریلیز کر دی گئی ہے۔    

1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:



صحيح البخاري
كِتَاب الِاسْتِسْقَاءِ
کتاب: استسقاء یعنی پانی مانگنے کا بیان
3. بَابُ سُؤَالِ النَّاسِ الإِمَامَ الاِسْتِسْقَاءَ إِذَا قَحَطُوا:
3. باب: قحط کے وقت لوگ امام سے پانی کی دعا کرنے کے لیے کہہ سکتے ہیں۔
حدیث نمبر: 1010
حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ مُحَمَّدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْأَنْصَارِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُثَنَّى، عَنْ ثُمَامَةَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَنَسٍ، عَنْ أَنَسٍ، أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ كَانَ إِذَا قَحَطُوا اسْتَسْقَى بِالْعَبَّاسِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ، فَقَالَ:" اللَّهُمَّ إِنَّا كُنَّا نَتَوَسَّلُ إِلَيْكَ بِنَبِيِّنَا فَتَسْقِينَا، وَإِنَّا نَتَوَسَّلُ إِلَيْكَ بِعَمِّ نَبِيِّنَا فَاسْقِنَا، قَالَ: فَيُسْقَوْنَ".
ہم سے حسن بن محمد بن صباح نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے محمد بن عبداللہ بن مثنی انصاری نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے میرے باپ عبداللہ بن مثنی نے بیان کیا، ان سے ثمامہ بن عبداللہ بن انس رضی اللہ عنہ نے، ان سے انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے کہ جب کبھی عمر رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں قحط پڑتا تو عمر رضی اللہ عنہ عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ کے وسیلہ سے دعا کرتے اور فرماتے کہ اے اللہ! پہلے ہم تیرے پاس اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا وسیلہ لایا کرتے تھے۔ تو، تو پانی برساتا تھا۔ اب ہم اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا کو وسیلہ بناتے ہیں تو، تو ہم پر پانی برسا۔ انس رضی اللہ عنہ نے کہا کہ چنانچہ بارش خوب ہی برسی۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الِاسْتِسْقَاءِ/حدیث: 1010]
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة

   صحيح البخارياللهم إنا كنا نتوسل إليك بنبينا فتسقينا
   صحيح البخاريوابيض يستسقى الغمام بوجهه ثمال اليتامى عصمة للارامل
   بلوغ المراماللهم إنا كنا نتوسل إليك بنبينا فتسقينا وإنا نتوسل إليك بعم نبينا فاسقنا فيسقون

صحیح بخاری کی حدیث نمبر 1010 کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1010  
حدیث حاشیہ:
خیر القرون میں دعا کا یہی طریقہ تھا اور سلف کا عمل بھی اسی پر رہا کہ مردوں کو وسیلہ بنا کر وہ دعا نہیں کرتے تھے کہ انہیں تو عام حالات میں دعا کا شعور بھی نہیں ہوتا بلکہ کسی زندہ مقرب بارگاہ ایزدی کو آگے بڑھا دیتے تھے۔
آگے بڑھ کر وہ دعا کرتے جاتے اور لوگ ان کی دعا پر آمین کہتے جاتے۔
حضرت عباس ؓ کے ذریعے اس طرح توسل کیاگیا۔
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ غیر موجود یا مردوں کو وسیلہ بنانے کی کوئی صورت حضرت عمر ؓ کے سامنے نہیں تھی۔
سلف کا یہی معمول تھا۔
اور حضرت عمر ؓ کا طرز عمل اس مسئلہ میں بہت زیادہ واضح ہے۔
حافظ ابن حجر ؒ نے حضرت عباس کی دعا بھی نقل کی ہے، آپ نے استسقاءکی دعا اس طرح کی تھی اے اللہ! آفت اور مصیبت بغیر گناہ کے نازل نہیں ہوتی اور توبہ کے بغیر نہیں چھٹتی۔
آپ کے نبی کے یہاں میری قدر ومنزلت تھی اس لیے قوم مجھے آگے بڑھا کر تیری بارگاہ میں حاضر ہوئی ہے۔
یہ ہمارے ہاتھ ہیں جن سے ہم نے گناہ کئے تھے اور توبہ کے لیے ہماری پیشانیاں سجدہ ریز ہیں، باران رحمت سے سیراب کیجئے۔
دوسری روایتوں میں ہے کہ حضرت عمر ؓ نے اس موقع پر خطبہ دیتے ہوئے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ کا حضرت عباس ؓ کے ساتھ ایسا معاملہ تھا، جیسے بیٹے کاباپ کے ساتھ ہوتا ہے۔
پس لوگو!رسول اللہ ﷺ کی اقتداء کرو اور خدا کی بارگاہ میں ان کے چچا کو وسیلہ بناؤ۔
چنانچہ دعاءاستسقاء کے بعد اس زور کی بارش ہوئی کہ تاحد نظرپانی ہی پانی تھا۔
(ملخص)
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1010   

  الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 1010  
فوائد و مسائل:
باب اور حدیث میں مناسبت:
حدیث اور باب میں مناسبت کچھ اس طرح سے ہے کہ اس حدیث کے بعض طرق میں لفظ ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں قحط پڑتا تو لوگ آپ کے وسیلے سے بارش کی دعا مانگتے گویا کہ امام بخاری رحمہ اللہ اپنی عادت کے موافق اشارہ فرمایا کہ یہ مسئلہ اس کے بعض طریقوں میں ثابت ہے جیسا کہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ:
«ان عمر استسقي بالمصلي، فقال العباس: قم فاستسق فقام العباس رضي الله عنه» [فتح الباري، ج2 ص420]
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ بارش کی دعا مانگنے کے لیے عیدگاہ تشریف لے گئے اور عباس رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ اٹھیے اور بارش کی دعا فرمائیے سو عباس رضی اللہ عنہ ان کے ساتھ بارش کی دعا مانگنے لگے۔
ابن المنیر فرماتے ہیں: عمر رضی اللہ عنہ کا قول: اے اللہ! ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دعا میں وسیلہ بناتے تھے۔ «دل على أنهم كانوا يتوسلون وان لعامة المؤمنين مدخلافي الاستسقاء» [المتواري على ابواب البخاري، ص118]
یہ دعا اس بات پر دلالت ہے کہ وہ لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم (کی دعا کو) وسیلہ بناتے تھے اور اس دعا میں تمام مومنین داخل تھے۔
ابن رشید فرماتے ہیں: «يحتمل أن يكون أراد بالترجمة الاستدلال بطريق الاولي، لأنهم إذا كانوا بيسألون إليه به فيسقيهم فأحدي ان يقدموه لسؤال»
یہ احتمال کیا گیا ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ کی ترجمۃ الباب سے بطریق اولیٰ یہ استدلال ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم جب اللہ سے بارش کی دعا کرتے تو اللہ تعالیٰ بارش برساتا ان پر۔ پس (عباس رضی اللہ عنہ کو) وہ لائق سمجھتے کہ سیدنا عباس رضی اللہ عنہ کی دعا کیا تھی۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے فتح الباری میں اس دعا کو بھی نقل فرمایا ہے تاکہ کسی کو دعا کے بارے میں غلط فہمی نہ ہو: «اللهم أنه لم ينزل بلاء إِلا بذنب ولم يكشف إِلا بتوبة . . .» [فتح الباري، ج2، ص431۔ 432]
اے اللہ! آفت اور مصیبت بغیر گناہ کے نازل نہیں ہوتی اور توبہ کے بغیر دور بھی نہیں ہوتی۔ آپ کے نبی کے نزدیک میری قدر و منزلت تھی اسی لیے قوم نے مجھے آگے بڑھا کر تیری بارگاہ میں حاضر ہوئی ہے۔ یہ ہمارے ہاتھ ہیں جن سے ہم نے گناہ کیے تھے اور توبہ کے لیے ہماری پیشانیاں سجدہ ریز ہیں۔ باراn رحمت سے سیراب کیجیے۔
دوسری روایت کے مطابق سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اس موقع پر ایک جامع خطبہ دیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا سیدنا عباس رضی اللہ عنہ کے ساتھ ایسا معاملہ تھا جیسا بیٹے کا باپ کے ساتھ ہوتا ہے۔ پس لوگو! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتداء کرو اور اللہ کی بارگاہ میں ان کے چچا (کی دعا کو) وسیلہ بناؤ۔ چنانچہ بارش برسی حد نگاہ تک پانی ہی پانی تھا۔‏‏‏‏
لہٰذا اس واقعہ سے بھی ترجمۃ الباب اور حدیث میں مناسبت ہوئی۔ مگر ابن عمر رضی اللہ عنہما کے اثر پر ایک اشکال وارد ہوتا ہے جس کا ذکر اسماعیلی نے کیا۔ آپ کہتے ہیں کہ ابن المنیر رحمہ اللہ اعتراض کا جواب دیتے ہوئے فرماتے ہیں: «بأن المناسبة تؤخذ من قوله فيه: يستسقي الغمام بوجهه لأنه فاعله محذوف، وهم الناس وعن حديث انس بان فى قول عمر كناتنوسل اليك بنبيك دلالة على ان للامام مدخلا فى الاستسقاء» [فتح الباري۔ ج2۔ ص429]
ترجمہ الباب سے مناسبت اس قول سے اخذ کی جائے گی کہ ان کے منہ کے واسطے بارش کی دعا کی جاتی ہے۔ یہاں دعا کرنے والے فاعل موجود ہیں وہ مخذوف ہیں اور وہ لوگ ہیں اور حدیث انس رضی اللہ عنہ میں ہے کہ عمر رضی اللہ عنہ فرماتے تھے: اے اللہ! ہم وسیلہ بناتے ہیں تیرے نبی (کی دعا) کو۔ لہٰذا اس میں دلالت ہے کہ امام کے ساتھ (دوسرے لوگ بھی) داخل ہیں۔
لہٰذا یہیں سے ترجمۃ الباب اور اثر میں مناسبت ہو گی۔

فائدہ: بعض لوگ حدیث مذکورہ سے غلط استدلال کر کے دعا وسیلہ سے اسے پھیر کر بزرگوں اور انبیاء کی ذاتوں کے نام سے وسیلہ اختیار کرتے ہیں جو کہ حرام اور ناجائز ہے جس کی شریعت میں کوئی دلیل نہیں دراصل عمر رضی اللہ عنہ نے عباس رضی اللہ عنہ کی دعا کا وسیلہ اس لیے پکڑا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا تھے اور صاحب فضیلت تھے امام عبدالله سالم البصری (متوفي 134ھ) فرماتے ہیں کہ: «استسقي متوسلًا بالعباس بن عبدالمطلب إلى الرحم التى بينه وبين النبى صلى الله عليه وسلم فأراد عمر أن يصلها بمراعاة حقه» [ضيا الساري فى مسالك ابواب البخاري ج9 ص442]
یعنی عمر رضی اللہ عنہ نے بارش کی دعا کے لیے عباس رضی اللہ عنہ کی دعا کو اس لیے وسیلہ بنایا کہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے رشتے دار تھے اور ان کا حق بہت بلند تھا یہی وجہ ہے جس کا ذکر عبداللہ بن سالم رحمہ اللہ فرما رہے ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد کوئی صحیح سند سے ایسی روایت موجود نہیں جس میں یہ ثبوت موجود ہو کہ صحابہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر پر آپ کی ذات کا وسیلہ بناتے۔ ایک روایت جس کو حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے ذکر فرمایا فتح الباری میں کہ: «روي ابن أبى شيبه بأسناده صحيح من رواية أبى صالح السمان عن مالك الداري وكان خازن عمر قال أصاب الناس قحط فى زمن عمر فجاء رجل إلى قبر النبى صلى الله عليه وسلم فقال يا رسول الله صلى الله عليه وسلم استسق لأمتك فانهم قد هلكوا فاني الرجل فى المنام فقيل له: ائت عمر» [فتح الباري شرح صحيح البخاري ج2 ص420]
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے دور میں قحط پڑ گیا، ایک شخص نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر کے لیے سفر کیا اور (قبر پر آ کر کہا) اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اپنی امت کو پانی پلا دیں وہ ہلاک ہو رہی ہے۔۔۔
مذکورہ روایت ضعیف ہے کیونکہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اس حدیث کی مکمل سند کو صحیح نہیں کہا بلکہ ابوصالح سمان تک سند صحیح ہے دوسری علت اس میں یہ ہے کہ وہ شخص جس نے قبر نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر جا کر دعا کی اور وسیلہ طلب کیا آیا وہ کون تھا؟ کیوں کہ یہاں مسائل کا پتہ نہیں تو یہ روایت اس علت کی بناء پر ضعیف ہو گی کیوں کہ سائل مجہول ہے، تیسری علت یہ ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا عمل اس مجہول سائل کے خلاف ہے کیوں کہ صحابہ کرام اس قسم کے وسیلے کے ہرگز قائل نہ تھے جیسا کہ بخاری کی روایت اس مسئلے پر واضح دال ہے جو گزر چکی ہے اور اگر غور کیا جائے تو معلوم یہ ہوتا ہے کہ عمر رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد سیدنا عباس رضی اللہ عنہ کی دعا کا وسیلہ بنایا اور تمام صحابہ اس مسئلہ پر راضی رہے اور کسی سے بھی اس کا انکار ثابت نہیں لہٰذا سکوت صحابہ بھی اس مسئلہ پر دلیل ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد آپ کی ذات کا وسیلہ نہ دینا یہی صحابہ نے حق جانا۔ اور مزید یہ بھی دیکھئے کہ اس روایت کا دار ومدار مالک دار پر ہے اور وہ مجہول ہے، علامہ ہیثمی رحمہ اللہ نے مجمع الزوائد میں مالک دار سے ایک روایت نقل کرنے کے بعد رقمطراز ہیں کہ: «مالك دار لم أعرفه وبقية رجال ثقات» [مجمع الزوائد ج2 ص145]
اسے امام طبرانی نے معجم الکبیر میں ذکر فرمایا اور تمام رجال ثقہ ہیں سوائے مالک دار کہ اسے ہم نہیں پہچانتے۔
مزید سند میں اعمش ہیں اور ان کی تدلیس کی وجہ سے محدثین نے اس روایت کو رد کردیا ہے کیوں کہ اصول حدیث میں یہ قاعدہ مسلمہ ہے مدلس کی روایت جب وہ تدلیس کرے گا مردود ٹھہرے گی۔

وسیلہ کے جواز پر چند روایات کا تحقیقی تجزیہ:
SR جواب: ER سنن الدارمی کے محقق السید ابوعاصم نبیل بن ہاشم العمری نے اپنی کتاب فتح المنان میں مالک دار کو معروف ثابت کرنے کی سعی کی ہے اور یہ وضاحت کی ہے کہ ابن حبان نے کتاب الثقات میں اسے ذکر کیا ہے اور ابن سعد نے الطبقات الكبريٰ میں اس کو مالک بن عیاض الدار کے نام سے ذکر فرمایا ہے مزید مالک دار کے بارے میں محقق نے امام بخاری رحمہ اللہ کی تاریخ الکبیر سے یہ حوالہ نقل کیا ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس کو ذکر کرنے کے بعد سکوت اختیار کیا ہے۔ [ديكهئے فتح المنان ج1 ص565] کیا ابن حبان رحمہ اللہ کا کسی راوی کو الثقات میں ذکر کرنا اس کی توثیق کی علامت ہے؟
امام ابن حبان رحمہ اللہ کا یہ اصول ہے کہ راوی سے روایت لینے والا ثقہ ہو اور کسی نے اس پر جرح نہ کی ہو، اس کی روایت منکر نہ ہو تو وہ راوی ثقہ ہوتا ہے۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: «هذا مذهب عجيب والجمهور على خلافه وهذا هو مسلك ابن حبان فى كتاب الثقات الذى الفه فانه يزكر خلقا ممن ينص أبو حاتم وغيره على انهم مجهولون» [لسان الميزان لابن حجر ج1 ص21]
یہ عجیب مذہب ہے جمہور اس کے خلاف ہیں یہی ابن حبان رحمہ اللہ کا اسلوب ان کی کتاب الثقات میں ہے۔ چنانچہ اس میں انہوں نے بہت سے راویوں کو ذکر کیا ہے جنہیں ابوحاتم وغیرہ نے مجہول قرار دیا ہے۔
اس اصولی نکتے سے واضح ہوتا ہے کہ ابن حبان رحمہ اللہ کا کسی راوی کا الثقات میں ذکر کرنا اس کی توثیق کی ہرگز علامت نہ ہو گی کیوں کہ ان کا تساہل ہونا کسی صاحب علم سے مخفی نہیں ہے، شیخ مقبل بن ہادی رحمہ اللہ سے ابن حبان رحمہ اللہ کے تساہل کے بارے میں سوال کیا گیا تو آپ نے جواباً ارشاد فرمایا: «أما ابن حبان فتساهل فيما يختص بالمجهولين» [المقترح ص197]
لہٰذا ابن حبان رحمہ اللہ کا کسی راوی کو الثقات میں ذکر کرنا اس کی توثیق کی علامت نہ ہو گی جب تک دوسرے محدثین ان کی موافقت نہ کریں۔ اوراق اجازت نہیں دیتے ورنہ کئی ایک مثالیں گوش گزار ہوتیں۔
دوسری بات دارمی کے محقق سید ابوعاصم نبیل نے فرمائی کہ مالک دار کو امام بخاری رحمہ اللہ نے تاریخ کبیر میں ذکر فرمایا اور اس کے اثر کو بھی ذکر کیا اور اس پر سکوت کیا۔
امام بخاری رحمہ اللہ کا تاریخ کبیر میں سکوت اختیار کرنا کیا راوی کی توثیق کی علامت ہے؟
امام بخاری رحمہ اللہ کا تاریخ میں کسی راوی پر سکوت اختیار کرنا کیا اس راوی کی توثیق کی علامت ہے؟ یہ محل نظر ہے اس مسئلے میں صحیح قاعدہ کیا ہے اس کا ذکر شیخ العرب والعجم بدیع الدین الراشدی رحمہ اللہ نے قواعد میں فرمایا کہ: «وكذا كل من ذكره البخاري فى تواريخه ولم يطعن فيه فهو ثقة . . . اقول: يكفر لبطلان هذا الأصل أن الإمام البخاري نفسه سكت عن عدة من الرواة فى تاريخه، وجرحهم فى كتب أخري، مثال ذالك أنه ذكر فى تاريخه: الحارث بن النعمان الليثي، والصلت بن مهران التيمي الكوفي أباهاشم، وعبدالله بن معاوية . . .» [نقض قواعد فى علوم الحديث ص214]
جو یہ ذکر کرتا ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی تاریخ پر جس پر طعن نہیں کہا: تو وہ ثقہ ہے --- اس اصول کے بطلان کے لیے یہی کافی ہے کہ خود امام بخاری رحمہ اللہ نے تاریخ میں متعدد ایسے راویوں سے سکوت فرمایا ہے۔ جن پر انہوں نے اپنی دوسری کتابوں میں جرح کی ہے۔ مثلاً تاریخ میں انہوں نے حسب ذیل افراد کا ذکر کیا ہے:
«الحارث بن النعمان الليثي، الصلت بن مهران التيمي الكوفي أبوهاشم، عبدالله بن معاويه من ولد الزبير بن العموام الاسدي البصري، عبدالله بن محمد بن عجلان مولي، فاطمة بنت عتبة القرشي، عبدالرحمٰن بن زياد النعم الافريقي، عبدالوهاب بن عطاءالخفاف، عمران العمي، عاصم بن عبيدالله العمري، معاويه بن عبدالكريم الثقفي أبوعبدالرحمٰن بصري، مختار بن نافع أبواسحاق التيمي، نصر بن حماد بن عجلان، يحييٰ بن أبى سليمان المدني، يحييٰ بن محمد الجاري» ان حضرات کے بارے میں امام بخاری رحمہ اللہ نے کوئی کلام نہیں کیا اور نہ ہی جرح کی، مگر ان کو الضعفاء میں ذکر کیا اور ان پرجرح کی۔ اس واضح دلیل کی روشنی میں اب یہ کہنا کہ امام بخاری رحمہ اللہ کا سکوت توثیق کی علامت ہے یہ محض خوش فہمی ہے اور اس کے سوا کچھ نہیں

تحقیق: مذکورہ روایت میں عبدالمجید بن عبدالعزیز ضعیف ہے، امام ابن حبان رحمہ اللہ فرماتے ہیں: «منكر الحديث جدًا ينقلب الأخبار ويروي المناكير عن المشاهير، وقال البخاري: فى حديثه بعض الاختلاف ولا يعرف له خمسة أحاديث صحاح .» [ميزان الاعتدال للذهبي ج2 ترجمة 5606]
منکر الحدیث ہے۔ خبروں میں رد و بدل کرتا ہے اور مناکیر المشاھیر سے روایت کرتا ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں: اس کی بعض حدیث میں اختلاف ہے، اس کی پانچ احادیث جو صحاح میں مذکور ہیں پہچانی نہیں جا سکتیں۔‏‏‏‏ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ: دار قطنی نے اسے ضعیف قرار دیا ہے اور ابن ماکولا نے فرمایا اس میں ضعف ہے۔ [لسان الميزان ج2 ص110 رقم 3323]
لہٰذا یہ روایت بھی استدلال کے قابل نہیں ہے۔ مذکورہ بالا حدیث مالک دار والی روایت درست نہیں ہے۔ اس کی سند بھی خراب ہے اور وہ روایت دیگر صحیح احادیث وآثار کے بھی خلاف ہے۔
مفتی اعظم شیخ ابن باز رحمہ اللہ مالک دار کی روایت پر تبصرہ کرتے ہوئے رقمطراز ہیں:
«هذا الاثر --- ليس بحجة على جواز الاستسقاء بالنبي صلى الله عليه وسلم بعد وفاته لأن السائل مجهول ولأن الصحابة رضي الله عنهم على خلافه وهم اعلم الناس بالشرع، ولم يأت أحد منهم إلى قبره يسأله السقيا ولم ينكر ذالك عليه أحد من الصحابة» [حاشية فتح الباري، ج3، ص420]
(مالک دار کا) یہ اثر بارش کی دعا کے لئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا وسیلہ بنانے کے جواز پر حجت نہیں ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد۔ کیونکہ سائل مجہول ہے، اور یہ کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کا عمل بھی اس کے خلاف ہے (کیونکہ صحابہ کرام نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے انتقال کے بعد آپ کی ذات مبارک کے وسیلہ کے ہرگز قائل نہ تھے) اور وہ تمام لوگوں میں شرع کو زیادہ جانتے تھے، اور نہ ہی صحابہ میں کوئی ایک نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک پر آیا بارش وغیرہ کی دعا کے لیے، بلکہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے قحط میں عباس رضی اللہ عنہ کے ذریعے بارش کی دعا کروائی اور (اس فعل پر) کسی صحابہ سے انکار ثابت نہیں ہے۔‏‏‏‏
مزید تفصیل کے لیے دیکھئیے:
● شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی کتاب [قاعدة جليلة]
● شیخ البانی رحمہ اللہ کی کتاب [التوسل انواعه واحكامه]
● امام شقیری کی کتاب [القول الجلي فى حكم النبى والولي]
● شیخ علی حسن علی عبدالحمید کی کتاب [الزهر العاطر فى الرد على بهجة الناظر]
   عون الباری فی مناسبات تراجم البخاری ، جلد اول، حدیث/صفحہ نمبر: 226   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1010  
حدیث حاشیہ:
(1)
مصنف عبدالرزاق میں مذکورہ حدیث بایں الفاظ مروی ہے کہ حضرت عمر ؓ ایک دفعہ عیدگاہ میں دعائے استسقاء کے لیے تشریف لے گئے اور حضرت عباس ؓ سے فرمایا آپ اٹھیں اور بارانِ رحمت کی دعا کریں۔
حضرت عباس ؓ نے دعائے استسقاء کی۔
(2)
امام بخاری ؒ کی عادت ہے کہ وہ پیش کردہ حدیث سے اس کے کسی طریق کی طرف اشارہ کرتے ہیں جو عنوان کے مطابق ہوتا ہے۔
(فتح الباري: 639/2) (3)
اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ زندہ بزرگ سے بارش کے لیے دعا کی اپیل کی جا سکتی ہے اور ایسا کرنا ایک پسندیدہ عمل ہے، نیز اس حقیقت کا بھی پتہ چلا کہ ہمارے اسلاف مردوں کو وسیلہ بنا کر دعا نہیں کرتے تھے، کیونکہ ایسا کرنا ایک غیر شرعی کام اور ناجائز وسیلہ ہے۔
قرآن و حدیث کی روشنی میں وسیلے کی دو اقسام ہیں:
٭ وسیلۂ جائز۔
٭ وسیلۂ ممنوع۔
وسیلۂ جائز کی تین صورتیں ہیں:
٭ اللہ تعالیٰ کے نام اور اس کی صفات کا واسطہ دے کر اللہ سے دعا کرنا، جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿وَلِلَّـهِ الْأَسْمَاءُ الْحُسْنَىٰ فَادْعُوهُ بِهَا﴾ اللہ کے تمام نام اچھے ہیں تم اسے اچھے ناموں سے پکارو۔
(الأعراف180: 7)
٭ نیک اعمال کا واسطہ دے کر اللہ سے سوال کرنا، جیسا کہ غار والوں کا قصہ مشہور ہے کہ انہوں نے اپنے نیک اعمال کا وسیلہ بنا کر اللہ تعالیٰ سے دعا کی تو انہیں وہاں سے نجات مل گئی۔
(صحیح البخاري، البیوع، حدیث: 2215)
٭ کسی زندہ بزرگ سے دعا کی اپیل کرنا، جیسے حضرت عمر ؓ نے حضرت عباس ؓ کو دعائے استسقاء کے لیے کہا تھا۔
جیسا کہ مذکورہ حدیث میں ہے۔
آپ نے رسول اللہ ﷺ کا وسیلہ استعمال نہیں کیا۔
وسیلۂ ممنوع یہ ہے کہ فوت شدگان کو پکارنا یا انہیں حاجت روا خیال کرنا، جیسا کہ آج کل ہو رہا ہے۔
ایسا کرنا شرک اکبر ہے۔
اسی طرح رسول اللہ ﷺ کے مقام یا جاہ کا وسیلہ بھی جائز نہیں۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1010   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 409  
´نماز استسقاء کا بیان`
سیدنا انس رضی اللہ عنہ ہی سے مروی ہے کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ جب لوگ قحط میں مبتلا ہو جاتے تو سیدنا عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ کو وسیلہ بنا کر بارش طلب فرماتے تھے اور یوں دعا کرتے کہ اے اللہ! ہم تجھ سے تیرے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے واسطہ سے بارش طلب کرتے تھے تو ہمیں باران رحمت سے نواز دیتا تھا اور اب ہم تیرے حضور تیرے نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) کے چچا کو بطور وسیلہ لائے ہیں لہٰذا تو ہمیں بارش سے سیراب فرما دے (اس دعا کی قبولیت کے نتیجہ میں) ان کو بارش سے سیراب کیا جاتا تھا۔ (بخاری) «بلوغ المرام/حدیث: 409»
تخریج:
«أخرجه البخاري، الاستسقاء، باب سؤال الناس الإمام الاستسقاء إذا قحطوا، حديث:1010.»
تشریح:
1. بعض لوگوں نے اس سے یہ استدلال کیا ہے کہ کسی کی ذات کا وسیلہ پکڑنا جائز ہے کیونکہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے بھی حضرت عباس رضی اللہ عنہ کو طلب بارش کے لیے وسیلہ بنایا اور ان کے توسل سے بارش کے لیے دعا مانگی‘ حالانکہ یہ استدلال سراسر لغو اور مردود ہے‘ اس لیے کہ یہ لوگ زندہ و مردہ اور حاضر و غائب کی ذات بلکہ ان کے ناموں کا بھی وسیلہ پکڑتے ہیں‘ جبکہ اس حدیث سے تو صرف زندہ انسانوں کی دعا کو وسیلہ بنانا ثابت ہوتا ہے‘ ان کے ناموں کو وسیلہ بنانا ثابت نہیں ہوتا۔
اگر ان حضرات کی طرح کسی شخصیت کا وسیلہ اور توسل پکڑنا جائز ہوتا تو پھر نبی ٔاکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد بھی جائز ہوتا کیونکہ آپ کی ذات اقدس جس طرح حالت زندگی میں محترم اور عزت والی تھی اسی طرح وفات کے بعد بھی محترم اور عزت والی ہے۔
جس طرح یہ لوگ فوت شدگان اولیاء کی ذات کو وسیلہ بناتے ہیں اسی طرح حضرت عمر رضی اللہ عنہ بھی آپ کی ذات کو وسیلہ بناتے‘ حالانکہ اس طرح نہیں ہوا۔
مزید یہ کہ اگر شخصیت کا وسیلہ جائز ہوتا تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ اپنے گھر بیٹھ کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم یا حضرت عباس رضی اللہ عنہ کی شخصیت کا وسیلہ پکڑتے اور حضرت عباس رضی اللہ عنہ کو ساتھ لے کر کھلی جگہ جا کر استسقا کی شکل و صورت اختیار نہ کرتے‘ لہٰذا ثابت ہوا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت عباس رضی اللہ عنہ کی دعا کو وسیلہ و ذریعہ بنایا تھا۔
قرآن و سنت میں صرف تین قسم کا وسیلہ جائز ہے: ٭ اللہ تعالیٰ کے اسماء و صفات کو واسطہ اور وسیلہ بنانا‘ جس طرح کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ وَلِلّٰہِ الأَْسْمَائُ الْحُسْنٰی فَادْعُوْہُ ﴾ (الأعراف ۷:۱۸۰) ٭ اپنے نیک اعمال کو واسطہ بنانا، جس طرح اللہ تعالیٰ نے مومنوں کی دعا قرآن میں ذکر کی: ﴿ رَبَّنَا اِنَّنَآ اٰمَنَّا فَاغْفِرْلَنَا ذُنُوْبَنَا وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ ﴾ (آل عمران۳:۱۶) اسی طرح غار میں بند ہونے والے تین نیک آدمیوں کا واقعہ۔
(صحیح البخاري‘ الأدب‘ باب إجابۃ دعاء من بر والدیہ‘ حدیث:۵۹۷۴) ٭ زندہ نیک و صالح آدمی کی دعا کو واسطہ اور وسیلہ بنانا‘ جس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا کے ذریعے سے بارش طلب کی جاتی تھی۔
ان کے علاوہ کسی قسم کا وسیلہ اور واسطہ جائز نہیں ہے۔
2.اس حدیث سے چند باتیں معلوم ہوتی ہیں: ایک تو یہ کہ بارش کی دعا کے لیے کسی نیک اور صالح فرد کو‘ جو نیکی و تقویٰ میں نمایاں مقام رکھتا ہو‘ ساتھ لے جانا چاہیے۔
3.اس حدیث سے حضرت عباس رضی اللہ عنہ کی فضیلت و بزرگی نمایاں ہوتی ہے کہ خاندان نبوت میں ان کا مقام و مرتبہ بہت بلند تھا۔
4.اس حدیث سے یہ بھی واضح ہو رہا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ میں تواضع و انکسار اور خاکساری کس قدر پائی جاتی تھی اور اہل بیت کے کتنے قدر شناس و حق شناس تھے۔
5. اس حدیث سے یہ بھی مترشح ہو رہا ہے کہ زندہ آدمی‘ خواہ فوت شدہ سے مرتبے اور منصب میں کم تر ہو‘ دعا اسی سے کرانی چاہیے۔
6.یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ فوت شدہ کا وسیلہ اور توسل شریعت میں ثابت نہیں ہے۔
راویٔ حدیث:
«حضرت عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ» ‏‏‏‏ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا تھے۔
ان کی کنیت ابوالفضل ہے۔
بیت اللہ کی آباد کاری اور حجاج کو پانی پلانے کا منصب ان کے پاس تھا۔
بیعت عقبہ میں حاضر تھے تاکہ انصار کو عہد وفا کرنے کی تاکید کریں اگرچہ اس وقت وہ مسلمان نہ تھے۔
غزوۂ بدر کے قیدیوں میں شامل تھے۔
فتح مکہ سے تھوڑا سا عرصہ پہلے اسلام قبول کیا اور اس غزوے میں شریک بھی ہوئے۔
غزوۂ حنین کے روز ثابت قدم رہے۔
۳۲ ہجری رجب یا رمضان میں وفات پائی اور بقیع کے قبرستان میں دفن کیے گئے۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 409