تخریج: «أخرجه البخاري، الاستسقاء، باب سؤال الناس الإمام الاستسقاء إذا قحطوا، حديث:1010.»
تشریح:
1. بعض لوگوں نے اس سے یہ استدلال کیا ہے کہ کسی کی ذات کا وسیلہ پکڑنا جائز ہے کیونکہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے بھی حضرت عباس رضی اللہ عنہ کو طلب بارش کے لیے وسیلہ بنایا اور ان کے توسل سے بارش کے لیے دعا مانگی‘ حالانکہ یہ استدلال سراسر لغو اور مردود ہے‘ اس لیے کہ یہ لوگ زندہ و مردہ اور حاضر و غائب کی ذات بلکہ ان کے ناموں کا بھی وسیلہ پکڑتے ہیں‘ جبکہ اس حدیث سے تو صرف زندہ انسانوں کی دعا کو وسیلہ بنانا ثابت ہوتا ہے‘ ان کے ناموں کو وسیلہ بنانا ثابت نہیں ہوتا۔
اگر ان حضرات کی طرح کسی شخصیت کا وسیلہ اور توسل پکڑنا جائز ہوتا تو پھر نبی ٔاکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد بھی جائز ہوتا کیونکہ آپ کی ذات اقدس جس طرح حالت زندگی میں محترم اور عزت والی تھی اسی طرح وفات کے بعد بھی محترم اور عزت والی ہے۔
جس طرح یہ لوگ فوت شدگان اولیاء کی ذات کو وسیلہ بناتے ہیں اسی طرح حضرت عمر رضی اللہ عنہ بھی آپ کی ذات کو وسیلہ بناتے‘ حالانکہ اس طرح نہیں ہوا۔
مزید یہ کہ اگر شخصیت کا وسیلہ جائز ہوتا تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ اپنے گھر بیٹھ کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم یا حضرت عباس رضی اللہ عنہ کی شخصیت کا وسیلہ پکڑتے اور حضرت عباس رضی اللہ عنہ کو ساتھ لے کر کھلی جگہ جا کر استسقا کی شکل و صورت اختیار نہ کرتے‘ لہٰذا ثابت ہوا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت عباس رضی اللہ عنہ کی دعا کو وسیلہ و ذریعہ بنایا تھا۔
قرآن و سنت میں صرف تین قسم کا وسیلہ جائز ہے: ٭ اللہ تعالیٰ کے اسماء و صفات کو واسطہ اور وسیلہ بنانا‘ جس طرح کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿ وَلِلّٰہِ الأَْسْمَائُ الْحُسْنٰی فَادْعُوْہُ ﴾ (الأعراف ۷:۱۸۰) ٭ اپنے نیک اعمال کو واسطہ بنانا، جس طرح اللہ تعالیٰ نے مومنوں کی دعا قرآن میں ذکر کی:
﴿ رَبَّنَا اِنَّنَآ اٰمَنَّا فَاغْفِرْلَنَا ذُنُوْبَنَا وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ ﴾ (آل عمران۳:۱۶) اسی طرح غار میں بند ہونے والے تین نیک آدمیوں کا واقعہ۔
(صحیح البخاري‘ الأدب‘ باب إجابۃ دعاء من بر والدیہ‘ حدیث:۵۹۷۴) ٭ زندہ نیک و صالح آدمی کی دعا کو واسطہ اور وسیلہ بنانا‘ جس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا کے ذریعے سے بارش طلب کی جاتی تھی۔
ان کے علاوہ کسی قسم کا وسیلہ اور واسطہ جائز نہیں ہے۔
2.اس حدیث سے چند باتیں معلوم ہوتی ہیں: ایک تو یہ کہ بارش کی دعا کے لیے کسی نیک اور صالح فرد کو‘ جو نیکی و تقویٰ میں نمایاں مقام رکھتا ہو‘ ساتھ لے جانا چاہیے۔
3.اس حدیث سے حضرت عباس رضی اللہ عنہ کی فضیلت و بزرگی نمایاں ہوتی ہے کہ خاندان نبوت میں ان کا مقام و مرتبہ بہت بلند تھا۔
4.اس حدیث سے یہ بھی واضح ہو رہا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ میں تواضع و انکسار اور خاکساری کس قدر پائی جاتی تھی اور اہل بیت کے کتنے قدر شناس و حق شناس تھے۔
5. اس حدیث سے یہ بھی مترشح ہو رہا ہے کہ زندہ آدمی‘ خواہ فوت شدہ سے مرتبے اور منصب میں کم تر ہو‘ دعا اسی سے کرانی چاہیے۔
6.یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ فوت شدہ کا وسیلہ اور توسل شریعت میں ثابت نہیں ہے۔
راویٔ حدیث: «حضرت عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ» نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا تھے۔
ان کی کنیت ابوالفضل ہے۔
بیت اللہ کی آباد کاری اور حجاج کو پانی پلانے کا منصب ان کے پاس تھا۔
بیعت عقبہ میں حاضر تھے تاکہ انصار کو عہد وفا کرنے کی تاکید کریں اگرچہ اس وقت وہ مسلمان نہ تھے۔
غزوۂ بدر کے قیدیوں میں شامل تھے۔
فتح مکہ سے تھوڑا سا عرصہ پہلے اسلام قبول کیا اور اس غزوے میں شریک بھی ہوئے۔
غزوۂ حنین کے روز ثابت قدم رہے۔
۳۲ ہجری رجب یا رمضان میں وفات پائی اور بقیع کے قبرستان میں دفن کیے گئے۔