الحمدللہ ! احادیث کتب الستہ آف لائن ایپ ریلیز کر دی گئی ہے۔    

1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:



صحيح البخاري
كِتَاب الِاسْتِسْقَاءِ
کتاب: استسقاء یعنی پانی مانگنے کا بیان
3. بَابُ سُؤَالِ النَّاسِ الإِمَامَ الاِسْتِسْقَاءَ إِذَا قَحَطُوا:
3. باب: قحط کے وقت لوگ امام سے پانی کی دعا کرنے کے لیے کہہ سکتے ہیں۔
حدیث نمبر: 1009
وَقَالَ عُمَرُ بْنُ حَمْزَةَ حَدَّثَنَا سَالِمٌ، عَنْ أَبِيهِ، رُبَّمَا ذَكَرْتُ قَوْلَ الشَّاعِرِ" وَأَنَا أَنْظُرُ إِلَى وَجْهِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَسْتَسْقِي، فَمَا يَنْزِلُ حَتَّى يَجِيشَ كُلُّ مِيزَابٍ وَأَبْيَضَ يُسْتَسْقَى الْغَمَامُ بِوَجْهِهِ ثِمَالُ الْيَتَامَى عِصْمَةٌ لِلْأَرَامِلِ"، وَهُوَ قَوْلُ أَبِي طَالِبٍ.
اور عمر بن حمزہ نے بیان کیا کہ ہم سے سالم نے اپنے والد سے بیان کیا وہ کہا کرتے تھے کہ اکثر مجھے شاعر (ابوطالب) کا شعر یاد آ جاتا ہے۔ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے منہ کو دیکھ رہا تھا کہ آپ دعا استسقاء (منبر پر) کر رہے تھے اور ابھی (دعا سے فارغ ہو کر) اترے بھی نہیں تھے کہ تمام نالے لبریز ہو گئے۔ «وأبيض يستسقى الغمام بوجهه ثمال اليتامى عصمة للأرامل» (ترجمہ) گورا رنگ ان کا، وہ حامی یتیموں، بیواؤں کے لوگ ان کے منہ کے صدقے سے پانی مانگتے ہیں۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الِاسْتِسْقَاءِ/حدیث: 1009]
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة

   صحيح البخاريوأبيض يستسقى الغمام بوجهه ثمال اليتامى عصمة للأرامل
   سنن ابن ماجهوأبيض يستسقى الغمام بوجهه ثمال اليتامى عصمة للأرامل

صحیح بخاری کی حدیث نمبر 1009 کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1009  
حدیث حاشیہ:
ابوطالب کا شعر ہے جس کا ترجمہ ہے کہ گورا رنگ ان کا، وہ حامی یتیموں بیواؤں کے، لوگ پانی مانگتے ہیں ان کے منہ کے صدقہ سے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1009   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1009  
حدیث حاشیہ:
(1)
رخ زیبا کے واسطے سے مراد آپ کا دعا کرنا ہے۔
یہ شعر جناب ابو طالب کے اس قصیدے سے ہے جو ایک سو دس اشعار پر مشتمل ہے جسے انہوں نے رسول اللہ ﷺ کی شان میں پڑھا تھا۔
(2)
محدث ابن رشید نے اعتراض کیا ہے کہ ان احادیث کا عنوان سے کوئی تعلق نہیں ہے، امام بخاری ؒ کو چاہیے تھا کہ اس عنوان کے تحت حدیث ابن مسعود ذکر کرتے جو پہلے بیان ہو چکی ہے۔
لیکن یہ اعتراض برمحل نہیں کیونکہ حدیث ابن عمر میں ہے کہ جب میں رسول اللہ ﷺ کے چہرۂ انور کو دعائے استستقاء کرتے وقت دیکھتا ہوں تو اکثر مجھے ابو طالب کا شعر یاد آ جاتا ہے۔
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ خود انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے دعائے استستقاء کی اپیل کی تھی، قبولیت دعا کے وقت جناب ابو طالب کا شعر یاد آ گیا۔
(3)
ان احادیث میں یہ ادب بیان ہوا ہے کہ اگر قحط آ جائے تو لوگ اپنے امام سے دعائے استسقاء کی اپیل کریں اور اس کے ساتھ مل کر دعا کا اہتمام کریں۔
(فتح الباري: 638/2،639)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1009   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1272  
´استسقا کی دعا کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ جب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ مبارک کو منبر پہ دیکھتا تھا، تو اکثر مجھے شاعر کا یہ شعر یاد آ جاتا تھا، آپ ابھی منبر سے اترے بھی نہیں کہ مدینہ کے ہر پر نالہ میں پانی زور سے بہنے لگا، وہ شعر یہ ہے: وہ سفید فام شخصیت (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم) جس کے چہرے کے وسیلے سے بادل سے بارش مانگی جاتی ہے، یتیموں کا نگہبان، بیواؤں کا محافظ۔ یہ ابوطالب کا کلام ہے۔ [سنن ابن ماجه/كتاب إقامة الصلاة والسنة/حدیث: 1272]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
میدان میں نکلے بغیر صرف منبر پر دعا کرنا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا متعدد مرتبہ کا عمل ہے۔

(2)
ہربار نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا قبول ہوکر بارش کا نازل ہوجانا ایک معجزاتی شان کا حامل وصف ہے۔
خصوصاً دعا کے فوراً بعد بارش کا پورے زور سے آ جانا مقام نبوت کی برکت ہے۔

(3)
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم باطنی خوبیوں اور کمالات کے ساتھ ساتھ ظاہری حسن وجمال سے بھی بدرجہ اکمل متصف تھے۔

(4)
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات کے وسیلے سے دعا مانگنا ابو طالب کا عمل ہے۔
جو مرتے دم تک ایمان کی دولت سے محروم رہا تھا۔
صحابہ کرام جو رسول للہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کوخوب سمجھتے تھے اور توحید کے تقاضوں کے ساتھ ساتھ حب رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے تقاضوں سے بھی کما حقہ واقف تھے۔
وہ ہمیشہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دعا کی درخواست کرتے تھے۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات کو وسیلہ بنانے کی بجائے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا کا وسیلہ پکڑتے تھے۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے دعا کرائی اور فرمایا۔
اے اللہ! ہم تجھ سے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے وسیلہ سے دعا کرتے تھے۔
تو ہمیں بارش دے دیتا تھا۔
اب ہم تجھ سے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا کے وسیلہ سے دعا کرتے ہیں۔
اس لئے ہمیں پانی عطا فرما۔ (صحیح البخاري، الإستسقاء، باب سوال الناس الإمام الإستسقاء إذا قحطوا، حدیث: 1010)
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی دعا کو وسیلہ بنایا ہے۔
ان کی ذات کو نہیں ورنہ اگر ذات کو وسیلہ بنانا ہوتا تو خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو وسیلہ بناتے جن سے افضل کوئی ذات نہیں۔

(5)
یہ شعر ابو طالب کے قصیدے کا ہے۔
جو اس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعریف میں کہا تھا۔
حافظ ابن حجررحمۃ اللہ علیہ نے فتح الباری کتاب الاستسقاء باب: 3 میں اس قصیدے کے کچھ حصے نقل کیے ہیں۔
اور سیرت ابن ہشام میں یہ پورا طویل قصیدہ موجود ہے۔ (السیرة النبویة لإ بن ہشام: 318، 309/1، مطبوعہ دارإحیاءالتراث العربی)
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1272