سیدنا امام حسن رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے ایسے کلمات سکھا دیئے ہیں جو میں وتروں کی دعا قنوت میں پڑھتا ہوں، اور وہ یہ ہیں: «اَللّٰهُمَّ اهْدِنِي فِيمَنْ هَدَيْتَ وَعَافِنِي فِيمَنْ عَافَيْتَ وَتَوَلَّنِي فِيمَنْ تَوَلَّيْتَ وَبَارِكْ لِي فِيمَا أَعْطَيْتَ وَقِنِي شَرَّ مَا قَضَيْتَ فَإِنَّكَ تَقْضِي وَلَا يُقْضَى عَلَيْكَ إِنَّهُ لَا يَذِلُّ مَنْ وَالَيْتَ تَبَارَكْتَ رَبَّنَا وَتَعَالَيْتَ»”اے اللہ! اپنے ہدایت یافتہ بندوں میں مجھے بھی ہدایت عطاء فرما، اپنی بارگاہ سے عافیت ملنے والوں میں مجھے بھی عافیت عطاء فرما، جن لوگوں کی تو سرپرستی فرماتا ہے ان ہی میں میری بھی سرپرستی فرما، اور اپنی عطاء کردہ نعمتوں کو میرے لئے مبارک فرما، اپنے فیصلوں کے شر سے میری حفاظت فرما، کیونکہ تو فیصلہ کر سکتا ہے تیرے خلاف کوئی فیصلہ نہیں کر سکتا، جس کا تو دوست ہو جائے اسے کوئی ذلیل نہیں کر سکتا، تو بڑا بابرکت ہے اے ہمارے رب! اور بڑا برتر ہے۔“[مسند احمد/مسنَد اَهلِ البَیتِ رِضوَان اللَّهِ عَلَیهِم اَجمَعِینَ/حدیث: 1718]
ہبیرہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ سیدنا امام حسن رضی اللہ عنہ نے ہمارے سامنے خطبہ دیتے ہوئے ارشاد فرمایا: کل تم سے ایک ایسا شخص جدا ہو گیا ہے کہ پہلے لوگ علم میں ان پر سبقت نہ لے جا سکے اور بعد والے ان کی گرد بھی نہ پا سکیں گے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم انہیں اپنا جھنڈا دے کر بھیجا کرتے تھے، جبرئیل علیہ السلام ان کی دائیں جانب اور میکائیل علیہ السلام ان کی بائیں جانب ہوتے تھے اور وہ فتح حاصل کئے بغیر واپس نہ آتے تھے۔ [مسند احمد/مسنَد اَهلِ البَیتِ رِضوَان اللَّهِ عَلَیهِم اَجمَعِینَ/حدیث: 1719]
حكم دارالسلام: حسن، وهذا إسناد ضعيف، شريك بن عبدالله سيء الحفظ، لكنه توبع.
ہبیرہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ سیدنا امام حسن رضی اللہ عنہ نے ہمارے سامنے خطبہ دیتے ہوئے ارشاد فرمایا: کل تم سے ایک ایسا شخص جدا ہو گیا ہے کہ پہلے لوگ علم میں ان پر سبقت نہ لے جاسکے اور بعد والے ان کی گرد بھی نہ پا سکیں گے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم انہیں اپنا جھنڈا دے کر بھیجا کرتے تھے، اور وہ فتح حاصل کئے بغیر واپس نہ آتے تھے، اور انہوں نے اپنے ترکے میں کوئی سونا چاندی نہیں چھوڑا، سوائے اپنے وظیفے کے سات سو درہم کے جو انہوں نے اپنے گھر کے خادم کے لئے رکھے ہوئے تھے۔ [مسند احمد/مسنَد اَهلِ البَیتِ رِضوَان اللَّهِ عَلَیهِم اَجمَعِینَ/حدیث: 1720]
حكم دارالسلام: حسن، عمرو بن حبشي مقبول. راجع ما قبله.
محمد بن علی کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ ایک جنازہ گذرا، لوگ کھڑے ہو گئے لیکن سیدنا امام حسن رضی اللہ عنہ کھڑے نہ ہوئے، اور فرمانے لگے کہ یہ تم کیا کر رہے ہو؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم تو اس لئے کھڑے ہوتے تھے کہ اس یہودی کی بدبو سے - جس کا جنازہ گذر رہا تھا - تنگ آگئے تھے۔ [مسند احمد/مسنَد اَهلِ البَیتِ رِضوَان اللَّهِ عَلَیهِم اَجمَعِینَ/حدیث: 1722]
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لتدليس الحجاج بن أرطاة ولانقطاعه، فإن محمد بن على لم يدرك الحسن بن علي.
ابوالحوراء سعدی کہتے ہیں کہ میں نے سیدنا امام حسن رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ آپ کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی کچھ باتیں بھی یاد ہیں؟ انہوں نے فرمایا کہ مجھے اتنا یاد ہے کہ ایک مرتبہ میں نے صدقہ کی ایک کھجور اٹھا کر اپنے منہ میں ڈال لی تھی، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تھوک سمیت اسے باہر نکال لیا اور اسے دوسری کھجوروں میں ڈال دیا، ایک آدمی کہنے لگا کہ اگر یہ ایک کھجور کھا لیتے تو کیا ہو جاتا؟ آپ انہیں کھا لینے دیتے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہم صدقہ کا مال نہیں کھاتے۔“ نیز نبی صلی اللہ علیہ وسلم یہ بھی فرمایا کرتے تھے کہ ”شک والی چیز کو چھوڑ کر بےشبہ چیزوں کو اختیار کیا کرو، سچائی میں اطمینان ہے اور جھوٹ میں شک ہے۔“ اسی طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں یہ دعا بھی سکھایا کرتے تھے کہ «اَللّٰهُمَّ اهْدِنِي فِيمَنْ هَدَيْتَ وَعَافِنِي فِيمَنْ عَافَيْتَ وَتَوَلَّنِي فِيمَنْ تَوَلَّيْتَ وَبَارِكْ لِي فِيمَا أَعْطَيْتَ وَقِنِي شَرَّ مَا قَضَيْتَ إِنَّهُ لَا يَذِلُّ مَنْ وَالَيْتَ وَرُبَّمَا قَالَ تَبَارَكْتَ رَبَّنَا وَتَعَالَيْتَ»”اے اللہ! جن لوگوں کو آپ نے ہدایت عطاء فرمائی، ان میں مجھے بھی شامل فرما، جنہیں عافیت عطاء فرمائی، ان میں مجھے بھی شامل فرما، جن کی سرپرستی فرمائی، ان میں مجھے بھی شامل فرما، اور اپنی عطاء کردہ نعمتوں کو میرے لئے مبارک فرما، اور اپنے فیصلوں کے شر سے میری حفاظت فرما، جس کا تو دوست ہو جائے اسے کوئی ذلیل نہیں کر سکتا، اور اے ہمارے رب! تو بڑا بابرکت اور برتر ہے۔“ نبی صلی اللہ علیہ وسلم یہ بھی فرمایا کرتے تھے کہ شک والی چیز کو چھوڑ کر بےشبہ چیزوں کو اختیار کیا کرو، سچائی میں اطمینان ہے اور جھوٹ میں شک ہے۔ اسی طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں یہ دعا بھی سکھایا کرتے تھے کہ اے اللہ، جن لوگوں کو آپ نے ہدایت عطاء فرمائی ان میں مجھے بھی شامل فرما، جنہیں عافیت عطاء فرمائی، ان میں مجھے بھی شامل فرما، جن کی سرپرستی فرمائی، ان میں مجھے بھی شامل فرما اور اپنی عطاء کردہ نعمتوں کو میرے لئے مبارک فرما اپنے فیصلوں کے شر سے میری حفاظت فرما اور اپنے فیصلوں کے شر سے میری حفاظت فرما، جس کا تو دوست ہوجائے اسے کوئی ذلیل نہیں کر سکتا اور اے ہمارے رب! تو بڑا بابرکت اور برتر ہے۔ [مسند احمد/مسنَد اَهلِ البَیتِ رِضوَان اللَّهِ عَلَیهِم اَجمَعِینَ/حدیث: 1723]
ربیعہ بن شیبان رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ میں نے سیدنا امام حسن رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ آپ کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی کچھ باتیں بھی یاد ہیں؟ انہوں نے فرمایا کہ مجھے اتنا یاد ہے کہ ایک مرتبہ میں نے صدقہ کی ایک کھجور اٹھا کر اپنے منہ میں ڈال لی تھی، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اسے پھینک دو کہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے اہل بیت کے لئے حلال نہیں ہے۔“[مسند احمد/مسنَد اَهلِ البَیتِ رِضوَان اللَّهِ عَلَیهِم اَجمَعِینَ/حدیث: 1724]
ابوالحوراء سعدی کہتے ہیں کہ میں نے سیدنا امام حسن رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ آپ کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی کچھ باتیں بھی یاد ہیں؟ انہوں نے فرمایا کہ مجھے اتنا یاد ہے کہ ایک مرتبہ میں نے صدقہ کی ایک کھجور اٹھا کر اپنے منہ میں ڈال لی تھی، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تھوک سمیت اسے باہر نکال لیا اور اسے دوسری کھجوروں میں ڈال دیا، ایک آدمی کہنے لگا کہ اگر یہ ایک کھجور کھا لیتے تو کیا ہو جاتا؟ آپ انہیں کھا لینے دیتے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہم آل محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے صدقہ کا مال حلال نہیں ہے۔“ نیز میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے پانچ نمازیں یاد رکھی ہیں۔ [مسند احمد/مسنَد اَهلِ البَیتِ رِضوَان اللَّهِ عَلَیهِم اَجمَعِینَ/حدیث: 1725]
محمد کہتے ہیں کہ مجھے معلوم ہوا ہے کہ ایک مرتبہ سیدنا امام حسن رضی اللہ عنہ اور سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کے سامنے سے ایک جنازہ گذرا، سیدنا حسن رضی اللہ عنہ کھڑے ہوگئے اور سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما بیٹھے رہے، سیدنا امام حسن رضی اللہ عنہ نے فرمایا: کیا آپ نے نہیں دیکھا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے ایک جنازہ گذرا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوگئے تھے؟ انہوں نے کہا: کیوں نہیں، لیکن بعد میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھے رہنے لگے تھے، اس پر سیدنا امام حسن رضی اللہ عنہ نے کوئی نکیر نہ فرمائی۔ [مسند احمد/مسنَد اَهلِ البَیتِ رِضوَان اللَّهِ عَلَیهِم اَجمَعِینَ/حدیث: 1726]
حكم دارالسلام: حسن لغيره، وهذا إسناد ضعيف، لجهالة الراوي الذى أبهمه محمد بن سيرين.
ابوالحوراء سعدی کہتے ہیں کہ میں نے سیدنا امام حسن رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ آپ کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی کچھ باتیں بھی یاد ہیں؟ انہوں نے فرمایا کہ مجھے اتنا یاد ہے کہ ایک مرتبہ میں نے صدقہ کی ایک کھجور اٹھا کر اپنے منہ میں ڈال لی تھی، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تھوک سمیت اسے باہر نکال لیا اور اسے دوسری کھجوروں میں ڈال دیا، ایک آدمی کہنے لگا کہ اگر یہ ایک کھجور کھا لیتے تو کیا ہو جاتا؟ آپ انہیں کھا لینے دیتے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہم صدقہ کا مال نہیں کھاتے۔“ نیز نبی صلی اللہ علیہ وسلم یہ بھی فرمایا کرتے تھے کہ ”شک والی چیز کو چھوڑ کر بےشبہ چیزوں کو اختیار کیا کرو، سچائی میں اطمینان ہے اور جھوٹ میں شک ہے۔“ اسی طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں یہ دعا بھی سکھایا کرتے تھے: «اَللّٰهُمَّ اهْدِنِي فِيمَنْ هَدَيْتَ وَعَافِنِي فِيمَنْ عَافَيْتَ وَتَوَلَّنِي فِيمَنْ تَوَلَّيْتَ وَبَارِكْ لِي فِيمَا أَعْطَيْتَ وَقِنِي شَرَّ مَا قَضَيْتَ إِنَّكَ تَقْضِي وَلَا يُقْضَى عَلَيْكَ إِنَّهُ لَا يَذِلُّ مَنْ وَالَيْتَ تَبَارَكْتَ رَبَّنَا وَتَعَالَيْتَ»”اے اللہ! جن لوگوں کو آپ نے ہدایت عطاء فرمائی ان میں مجھ بھی شامل فرما، جنہیں عافیت عطاء فرمائی ان میں مجھے بھی شامل فرما، جن کی سرپرستی فرمائی ان میں مجھے بھی شامل فرما، اور اپنی عطاء کردہ نعمتوں کو میرے لئے مبارک فرما، اپنے فیصلوں کے شر سے میری حفاظت فرما، اور جس کا تو دوست ہو جائے اسے کوئی ذلیل نہیں کر سکتا، اور اے ہمارے رب! تو بڑا بابرکت اور برتر ہے۔“[مسند احمد/مسنَد اَهلِ البَیتِ رِضوَان اللَّهِ عَلَیهِم اَجمَعِینَ/حدیث: 1727]