یزید بن ابی سفیان فرماتے ہیں کہ مجھے سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے جب شام کی طرف روانہ فرمایا تو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا: یزید! تمہاری کچھ رشتہ داریاں ہیں، ہو سکتا ہے کہ تم امیر لشکر ہونے کی وجہ سے اپنے رشتہ داروں کو ترجیح دو، مجھے تمہارے متعلق سب سے زیادہ اسی چیز کا اندیشہ ہے، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے کہ جو شخص مسلمانوں کے کسی اجتماعی معاملے کا ذمہ دار بنے اور وہ دوسروں سے مخصوص کر کے کسی منصب پر کسی شخص کو مقرر کر دے، اس پر اللہ کی لعنت ہے، اللہ اس کا کوئی فرض اور کوئی نفلی عبادت قبول نہیں کرے گا، یہاں تک کہ اسے جہنم میں داخل کر دے۔ اور جو شخص کسی کو اللہ کے نام پر حفاظت دینے کا وعدہ کر لے اور اس کے بعد ناحق اللہ کے نام پر دی جانے والے اس حفاظت کے وعدے کو توڑ دیتا ہے، اس پر اللہ کی لعنت ہے یا یہ فرمایا کہ اللہ اس سے بری ہے۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 21]
حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”مجھے اپنی امت میں ستر ہزار آدمی ایسے بھی عطا کئے گئے ہیں جو بلا حساب کتاب جنت میں داخل ہوں گے، ان کے چہرے چودھویں رات کے چاند کی طرح چمکتے ہوں گے اور ان کے دل ہر طرح کی بیماری سے پاک ہونے میں ایک شخص کے دل کی طرح ہوں گے۔ میں نے اپنے رب سے اس تعداد میں اضافے کی درخواست کی تو اس نے میری درخواست کو قبول کرتے ہوئے ان میں سے ہر ایک کے ساتھ مزید ستر ہزار کا اضافہ کر دیا۔ (گویا اب ستر ہزار میں سے ہر ایک کو ستر ہزار سے ضرب دے کر جو تعداد حاصل ہو گی، وہ سب جنت میں مذکورہ طریقے کے مطابق داخل ہوں گے۔)“ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میری رائے کے مطابق یہ وہ لوگ ہوں گے جو بستیوں میں رہتے ہیں یا کسی دیہات کے کناروں پر آباد ہوتے ہیں۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 22]
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لجهالة الرجل الراوي عن أبى بكر، والمسعودي اختلط.
حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”جو شخص برے اعمال کرے گا، اسے دنیا میں ہی اس کا بدلہ دیا جائے گا۔“[مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 23]
حكم دارالسلام: صحيح بطرقه وشواهده، وهذا إسناد ضعيف لضعف زياد الجصاص وعلي بن زيد.
حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے ایک مرتبہ یہ حدیث بیان فرمائی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد بہت سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم غمگین رہنے لگے، بلکہ بعض حضرات کو طرح طرح کے وساوس گھیرنا شروع کر دیا تھا، میری بھی کچھ ایسی ہی کیفیت تھی، اس کے بعد راوی نے پوری حدیث ذکر کی جس کا ترجمہ حدیث نمبر 21 کے ذیل میں گزر چکا ہے۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 24]
حكم دارالسلام: المرفوع منه صحيح بشواهده، رجاله ثقات غير الرجل الذى روى عنه الزهري
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال مبارک کے بعد حضرت فاطمۃ الزہراء رضی اللہ عنہا نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے درخواست کی کہ مال غنیمت میں سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا جو ترکہ بنتا ہے، اس کی میراث تقسیم کر دیں، حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے ان سے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ ہمارے مال میں وراثت جاری نہیں ہوتی، ہم جو کچھ چھوڑ جاتے ہیں وہ صدقہ ہوتا ہے۔ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کا اپنے ذہن میں اس پر کچھ بوجھ محسوس ہوا، چنانچہ انہوں نے اس معاملے میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے بات کرنا ہی چھوڑ دی اور یہ سلسلہ حضرت فاطمہ الزہرا رضی اللہ عنہما کی وفات تک رہا، یاد رہے کہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد صرف چھ ماہ ہی زندہ رہیں۔ اصل میں حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا ارض خیبر و فدک میں سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ترکہ کا مطالبہ کر رہی تھیں، نیز صدقات مدینہ میں سے بھی اپنا حصہ وصول کرنا چاہتی تھیں، حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے اس مطالبے کو پورا کرنے سے معذرت کرتے ہوئے فرمایا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جس طرح جو کام کرتے تھے، میں اسے چھوڑ نہیں سکتا بلکہ اسی طرح عمل کروں گا جیسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے، اس لئے کہ مجھے اندیشہ ہے کہ اگر میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی عمل اور طریقے کو چھوڑا تو میں بہک جاؤں گا۔ بعد میں حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے صدقات مدینہ کا انتظام حضرت علی اور حضرت عباس رضی اللہ عنہما کے حوالے کر دیا تھا، جس میں حضرت علی رضی اللہ عنہ حضرت عباس رضی اللہ عنہ پر غالب آ گئے، جبکہ خیبر اور فدک کی زمینیں حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے خلاف کے زیر انتظام ہی رکھیں اور فرمایا کہ یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا صدقہ ہیں اور اس کا مصرف پیش آمدہ حقوق اور مشکل حالات ہیں اور ان کی ذمہ داری وہی سنبھالے گا جو خلیفہ ہو، یہی وجہ ہے کہ آج تک ان دونوں کی یہی صورت حال ہے۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 25]
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ جب سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ اس دنیوی فانی زندگی کے آخری لمحات گزار رہے تھے تو میں نے ایک شعر پڑھا (جس کا ترجمہ یہ ہے) «وَأَبْيَضَ يُسْتَسْقَى الْغَمَامُ بِوَجْهِهِ . . . رَبِيعُ الْيَتَامَى عِصْمَةٌ لِلْأَرَامِلِ» کہ وہ ایسے خوبصورت چہرے والا ہے کہ جس کے روئے انور کی برکت سے طلب باران کی جاتی ہے، یتیموں کا سہارا اور بیواؤں کا محافظ ہے، سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: بخدا! یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہی شان ہے۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 26]
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لضعف على ابن زيد وهو ابن جدعان
ابن جریج کہتے ہیں کہ مجھے میرے والد نے یہ حدیث سنائی کہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا وصال ہو گیا تو لوگوں کے علم میں یہ بات نہ تھی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک کہاں بنائی جائے؟ حتی کہ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اس مسئلے کو حل کرتے ہوئے فرمایا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ ہر نبی کی قبر وہیں بنائی جاتی ہے جہاں ان کا انتقال ہوتا ہے، چنانچہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا بستر مبارک اٹھا کر اس کے نیچے قبر مبارک کھودی اور وہیں تدفین عمل میں آئی۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 27]
حكم دارالسلام: حديث قوي بطرقه، وهذا إسناد ضعيف لانقطاعه، وابن جريج: هو عبدالملك ابن عبدالعزيز بن جريج، ووالده لم يدرك أبا بكر، على لين فيه
ایک مرتبہ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عرض کیا، یا رسول اللہ! مجھے کوئی ایسی دعا سکھا دیجئے جو میں نماز میں مانگ لیا کروں؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں یہ دعا تلقین فرمائی: «اللَّهُمَّ إِنِّي ظَلَمْتُ نَفْسِي ظُلْمًا كَثِيرًا، وَلَا يَغْفِرُ الذُّنُوبَ إِلَّا أَنْتَ، فَاغْفِرْ لِي مَغْفِرَةً مِنْ عِنْدِكَ وَارْحَمْنِي، إِنَّكَ أَنْتَ الْغَفُورُ الرَّحِيمُ» کہ اے اللہ! میں نے اپنی جان پر بڑا ظلم کیا، تیرے علاوہ کوئی بھی گناہوں کو معاف نہیں کر سکتا، اس لئے خاص اپنے فضل سے میرے گناہوں کو معاف فرما اور مجھ پر رحم فرما، بیشک تو بڑ ا بخشنے والا، مہربان ہے۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 28]
قیس کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ سیدنا ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ خطبہ ارشاد فرمانے کے لئے کھڑے ہوئے تو اللہ تعالیٰ کی حمد و ثناء کے بعد فرمایا: اے لوگو! تم اس آیت کی تلاوت کرتے ہو «يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا عَلَيْكُمْ أَنفُسَكُمْ لَا يَضُرُّكُم مَّن ضَلَّ إِذَا اهْتَدَيْتُمْ»[5-المائدة:105]”اے ایمان والو! تم اپنی فکر کرو، اگر تم راہ راست پر ہو تو کوئی گمراہ شخص تمہیں نقصان نہیں پہنچا سکتا۔“ یاد رکھو! جب لوگ گناہ کا کام ہوتے ہوئے دیکھیں اور اسے بدلنے کی کوشش نہ کریں تو عنقریب ان سب کو اللہ کا عذاب گھیر لے گا۔ یاد رکھو! کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اسی طرح فرماتے ہوئے سنا ہے۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 29]
قیس کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ خطبہ ارشاد فرمانے کے لئے کھڑے ہوئے تو اللہ تعالیٰ کی حمد و ثناء کے بعد فرمایا: اے لوگو! تم اس آیت کی تلاوت کرتے ہو۔ «يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا عَلَيْكُمْ أَنفُسَكُمْ لَا يَضُرُّكُم مَّن ضَلَّ إِذَا اهْتَدَيْتُمْ»[5-المائدة:105]”اے ایمان والو! تم اپنی فکر کرو، اگر تم راہ راست پر ہو تو کوئی گمراہ شخص تمہیں نقصان نہیں پہنچا سکتا۔“ یاد رکھو! جب لوگ گناہ کا کام ہوتے ہوئے دیکھیں اور اسے بدلنے کی کوشش نہ کریں تو عنقریب ان سب کو اللہ کا عذاب گھیر لے گا۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 30]