569/736 عن قيس قال: كان عمرو بن العاص يسيرُ مع نفر من أصحابه، فمر على بغل ميت قد انتفخ، فقال:" والله! لأن يأكل أحدكم [ من ]هذا حتى يملأ بطنه، خير من أن يأكل لحم مسلم".
قیس سے مروی ہے کہ سیدنا عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ اپنے ساتھیوں کی ایک جماعت کے ساتھ سفر کر رہے تھے ان کا گزر ایک مردہ خچر پر سے ہوا جو پھول گیا تھا۔ انہوں نے کہا: اللہ کی قسم! تم میں سے کوئی آدمی اس کو کھا کر اپنا پیٹ بھرے یہ اس سے بہتر ہے کہ وہ مسلمان بھائی کا گوشت کھائے۔ [صحيح الادب المفرد/حدیث: 569]
تخریج الحدیث: (صحيح الإسناد)
276. باب من مس رأس صبي مع أبيه وبرك عليه
حدیث نمبر: 570
570/738 عن عبادة بن الوليد بن الصامت قال: خرجت مع أبي وأنا غلام شاب، فنلقى شيخاً[ عليه بردة ومعافري، وعلى غلامه بردة ومعافري]، قلت: أي عم، ما منعك أن تعطي غلامك هذه النمرة(1)، وتأخذ البردة، فتكون عليك بردتان، وعليه نمرة؟ فأقبل على أبي، فقال: آبنك هذا؟ قال: نعم. قال: فمسح على رأسي وقال: بارك الله فيك، أشهد لسمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول:"أطعموهم مما تأكلون، واكسوهم مما تكتسون". يا ابن أخي، ذهاب متاع الدنيا أحب إلي من أن يأخذ من متاع الآخرة. قلت: أي أبتاه! من هذا الرجل؟ قال: أبو اليسر [كعب] بن عمرو.
تخریج الحدیث: (صحيح)
277. باب دالة أهل الإسلام بعضهم على بعض
حدیث نمبر: 571
571/739 عن محمد بن زياد قال: أدركت السلف، وإنهم ليكونون في المنزل الواحد بأهاليهم، فربما نزل على بعضهم الضيف، وقدر أحدهم على النار، فيأخذها صاحب الضيف لضيفه، فيفقد القدر صاحبها. فيقول: من أخذ القدر؟ فيقول صاحب الضيف: نحن أخذناها لضيفنا. فيقول صاحب القدر:"بارك الله لكم فيها" (أو كلمة نحوها). قال بقية: وقال محمد: والخبز إذا خبزوا مثل ذلك، وليس بينهم إلا جُدُر القصب. قال بقية(1): وأدركت أنا ذلك: محمد بن زياد وأصحابه.
محمد بن زیاد بیان کرتے ہیں کہ میں نے سلف (صحابہ) کا زمانہ پایا ہے۔ یہ لوگ ایک ہی مکان میں اپنے اہل و عیال کے ساتھ زندگی بسر کرتے تھے۔ اکثر ایسا ہوتا تھا کہ کسی کے پاس مہمان آتا اور دوسرے کی دیگچی آگ پر ہوتی۔ صاحب مہمان وہ دیگچی اپنے مہمان کے لیے لے جاتا۔ جس کی دیگچی ہوتی وہ اپنی دیگچی نہ پاتا تو پوچھتا دیگچی کون لے گیا، مہمان جس کے پاس ہوتا وہ کہتا ہم نے مہمان کے لیے لے لی ہے۔ دیگچی کا مالک کہتا: اللہ تجھے اس میں برکت دے، یا اسی قسم کا کوئی جملہ کہہ دیتا۔ بقیہ نے کہا: محمد کہتے تھے: روٹی پکانے میں بھی یہی ہوتا تھا۔ اور ان دونوں گھرانوں کے مابین لکڑی کی دیواریں ہی ہوتی تھیں۔ بقیہ کہتے ہیں: میں نے بھی یہ پایا یعنی محمد بن زیاد اور ان کے دوستوں کا یہی حال پایا۔ [صحيح الادب المفرد/حدیث: 571]
تخریج الحدیث: (صحيح الإسناد)
278. باب إكرام الضيف وخدمته إياه بنفسه
حدیث نمبر: 572
572/740 عن أبي هريرة: أن رجلاً أتى النبي صلى الله عليه وسلم، فبعث إلى نساءه فقلن: ما معنا إلا الماء، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:"من يضم - أو يضيف - هذا؟". فقال رجل من الأنصار(1): أنا، فانطلق به إلى امرأته، فقال: أكرمي ضيف رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقالت: ما عندنا إلا قوت للصبيان، فقال: هيئي طعامك، وأصلحي(2) سراجك، ونومي صبيانك إذا أرادوا عشاء، فهيأت طعامها، وأصلحت سراجها، ونومت صبيانها، ثم قامت كأنها تصلح سراجها فأطفأته، وجعلا يريانه أنهما يأكلان، وباتا طاوين، فلما أصبح غدا إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال صلى الله عليه وسلم:" لقد ضحك الله - أو: عجب - من فعالكما؟". وأنزل الله? ويؤثرون على أنفسهم ولو كان بهم خصاصة ومن يوق شح نفسه فأولئك هم المفلحون? [الحشر: 9].
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک شخص آیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ازواج مطہرات سے معلوم کرایا۔ سب نے جواب دیا کہ پانی کے سوا اپنے پاس کچھ نہیں، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس مہمان کو کون لے کر جائے گا، یا کون اس کی ضیا فت کر ے گا۔“ انصار میں سے ایک شخص نے کہا: میں، وہ اسے اپنی بیوی کے پاس لے گیا۔ اس سے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مہمان کی تکریم کرو۔ اس نے کہا کہ ہمارے پاس تو بچوں کے کھانے کے سوا کچھ نہیں، کہا کہ کھانا تیار کرو، اور چراغ کی لو ٹھیک کر دو۔ بچوں کو سلا دو جب وہ رات کا کھانا مانگیں۔ بیوی نے کھانا تیار کیا، چراغ کی لو کو ٹھیک کر دیا، بچوں کو سلا دیا۔ پھر وہ اٹھیں اور ایسے کے گویا چراغ کو درست کر رہی ہیں تو اس کو بجھا دیا اور مہمان کو ایسے محسوس کرایا کہ یہ دونوں (میاں بیوی) بھی کھانا کھا رہے ہیں۔ حالانکہ یہ لوگ رات کو بھوکے سوئے۔ جب صبح ہوئی، وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (انہیں دیکھتے ہی) فرمایا: ”اللہ تمہاری اس کار گزاری پر مسکرایا ہے یا خوش ہوا ہے۔“ اسی پر یہ آیت اللہ نے نازل فرمائی: «ويؤثرون على أنفسهم ولو كان بهم خصاصة ومن يوق شح نفسه فأولئك هم المفلحون»[صحيح الادب المفرد/حدیث: 572]
تخریج الحدیث: (صحيح)
279. باب جائزة الضيف
حدیث نمبر: 573
573/741 عن أبي شريح العدوي قال: سمعت أذناي، وأبصرت عيناي، حين تكلم النبي صلى الله عليه وسلم فقال:"من كان يؤمن بالله واليوم الآخر، فليكرم جاره، ومن كان يؤمن بالله واليوم الآخر، فليكرم ضيفه جائزته". قال: وما جائزته يا رسول الله؟ قال:"يوم وليلة والضيافة ثلاثة أيام، فما كان وراء ذلك فهو صدقة عليه، [ولا يحل له أن يثوي عنده حتى يُحرجَه/743]. ومن كان يؤمن بالله واليوم الآخر، فليقل خيراً أو ليصمت".
ابوشریح عدوی سے مروی ہے انہوں نے کہا کہ میرے دونوں کانوں نے سنا اور میری آنکھوں نے دیکھاجب نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے تھے کہ جو اللہ پر اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتا ہو اسے چاہیے کہ اپنے ہمسایہ کی تکریم کرے اور جو اللہ پر اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتا ہو اسے چاہیے کہ اپنے مہمان کو عطیہ دے کر اس کی عزت کرے۔ (کسی نے)کہا: اے اللہ کے رسول! اس کے عطیہ سے کیا مراد ہے؟ فرمایا: ”ایک دن رات، مستحب مہمان نوازی تین دن تک ہے، اور جو اس کے بعد ہو گی وہ مہمان پر صدقہ ہو گی اور اس کے لیے جائز نہیں ہے کہ وہ اس کے پاس ہی رک جائے یہاں تک کہ اسے تنگی میں ڈال دے جو اللہ پر اور قیامت پر ایمان رکھتا ہو اس کو چاہیے کہ اچھی بات بولے ورنہ خاموش رہے۔“[صحيح الادب المفرد/حدیث: 573]
تخریج الحدیث: (صحيح)
280. باب الضيافة ثلاثة أيام
حدیث نمبر: 574
574/742 عن أبي هريرة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" الضيافة ثلاثة أيام، فما كان بعد ذلك فهو صدقة".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فر مایا: ”مہمان نوازی تین دن تک ہے اور جو اس کے بعد ہو گی وہ صدقہ ہو گا۔“[صحيح الادب المفرد/حدیث: 574]
تخریج الحدیث: (صحيح)
281. باب لا يقيم عنده حتى يحرجه
حدیث نمبر: 574M
أسند تحته حديث أبي شريح العدوي المتقدم قبل باب ومنه الزيادة (573/741)".
282. باب إذا أصبح بفنائه
حدیث نمبر: 575
575/744 عن المقدام، أبي كريمة الشامي(1) قال: قال النبي صلى الله عليه وسلم:" ليلة الضيف حق واجب على كل مسلم، فمن أصبح بفناءه فهو دين عليه إن شاء؛ فإن شاء اقتصاه، وإن شاء تركه".
ابوکریمہ شامی بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مہمان کی ایک رات مہمان نوازی کرنا یہ ہر مسلمان پر واجب ہے۔ جو کسی کے صحن میں صبح کرے یہ اس پر قرض ہو جائے گا، اگر چاہے تو اس سے قرضہ مانگ لے اور چاہے تو چھوڑ دے۔“[صحيح الادب المفرد/حدیث: 575]
تخریج الحدیث: (صحيح)
283. باب إذا أصبح الضيف محروما
حدیث نمبر: 576
576/745 عن عقبة بن عامر قال: قلت: يا رسول الله! إنك تبعثنا (1) فننزل بقوم فلا يقرونا، فما ترى في ذلك؟ فقال لنا:"إن نزلتم بقوم فأمر لكم بما ينبغي للضيف فاقبلوا؛ فإن لم يفعلوا فخذوا منهم حق الضيف الذي ينبغي لهم".
سیدنا عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا، یا رسول اللہ! آپ ہمیں بھیجتے ہیں (جہاد کے لیے) ہم کسی قوم کے پاس پڑاؤ کرتے ہیں اور وہ ہماری ضیافت نہیں کرتے، تو آپ کا اس کے بارے میں کیا خیال ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے فرمایا: ”اگر تم کسی قوم کے پاس پڑاؤ کرو تو تمہارے لیے حکم جاری کر دیا جائے جو مہمان کے لائق ہے تو قبول کر لو اگر وہ ایسا نہ کریں تو ان سے مہمان کا وہ حق چھین لو جو ان کے لیے جائز تھا۔“(جب تم کسی قوم کے پاس جاؤ تو میں بتاتا ہوں کہ مہمان کو کیا کرنا چاہیے۔ انہیں متوجہ کرو۔ اگر وہ مہمان نوازی نہ کریں تو اس قدر لے لو جتنا ایک مہمان کو چاہیے۔)[صحيح الادب المفرد/حدیث: 576]
تخریج الحدیث: (صحيح)
284. باب خدمة الرجل الضيف بنفسه
حدیث نمبر: 577
577/746 عن سهل بن سعد:" أن أبا أُسيد الساعدي دعا النبي صلى الله عليه وسلم في عرسه، وكانت امرأته خادمهم يومئذ، وهي العروس. فقالت: [أوقال](2):"أتدرون ما أنقعت لرسول الله صلى الله عليه وسلم؟ أنقعت له تمرات من الليل في تور(3)".
سہل بن سعدسے مروی ہے کہ ابواسید ساعدی رضی اللہ عنہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی شادی میں دعوت دی اور ان کی بیوی ہی اس دن لوگوں کی خدمت کر رہی تھی اور وہ دلہن تھی، تو اس (بیوی) نے کہا: یا اس (خاوند) نے کہا: کیا آپ جانتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے کیا کچھ بھگو کر نبیذ بنایا تھا؟ میں نے رات کو ایک پلیٹ میں کھجوریں بھگوئی تھیں۔ [صحيح الادب المفرد/حدیث: 577]