1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:


صحيح الادب المفرد
حصہ دوئم: احادیث 250 سے 499
حدیث نمبر: 438
438/562 عن عبد الله بن عمر: أن عمر بن الخطاب رضي الله عنه قال عام الرمادة- وكانت سنة شديدة ملمّة، بعدما اجتهد عمر في إمداد الأعراب بالإبل والقمح والزيت من الأرياف كلها، حتى بلحتِ الأرياف كلها؛ مما جهدها ذلك – فقام عمر يدعو- فقال:"اللهم اجعل رزقهم على رؤوس الجبال" فاستجاب الله له وللمسلمين، فقال حين نزل به الغيث:"الحمد لله، فوالله لو أن الله لم يفرجها ما تركت بأهل بيت من المسلمين لهم سعة إلا أدخلت معهم أعدادهم من الفقراء، فلم يكن اثنان يهلكان من الطعام على ما يقيم واحداً".
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے قحط سالی کے سال کہا کہ جو شدید قحط کا سال تھا عمر نے دیہاتیوں کی امداد کے لیے کوئی کثر نہ چھوڑی تھی۔ اونٹوں، گیہوں تیل اور تمام قسم کی پیداوار سے مدد کی۔ یہاں تک کہ تمام پیداوار قحط کی وجہ سے خشک ہو گئی اس وقت سیدنا عمر رضی اللہ عنہ دعا کرنے لگے: اے اللہ! ان کے رزقوں کو پہاڑوں کی چوٹیوں میں پیدا کر دے (یعنی برف اور بادل)۔ اللہ نے ان کی اور تمام مسلمانوں کی دعا قبول کر لی جب پانی برسا تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: الحمدللہ! اللہ کی قسم اگر وہ اس آفت کو دور نہ کرتا تو میں ہر کھاتے پیتے مسلمان گھر میں گھر والوں کی تعداد کے برابر محتاجوں کو بٹھا دیتا جتنی غذا کی مقدار پر ایک شخص آرام سے رہتا ہے اتنی مقدار میں دو آدمی ہلاکت سے محفوظ رہ سکتے ہیں۔ [صحيح الادب المفرد/حدیث: 438]
تخریج الحدیث: (صحيح الإسناد)

حدیث نمبر: 439
439/563 عن سلمة بن الأكوع قال: قال النبي صلى الله عليه وسلم:" ضحاياكم، لا يصبح أحدكم بعد ثالثةٍ، وفي بيته منه شيء". فلما كان العام المقبل. قالوا: يا رسول الله! نفعل كما فعلنا العام الماضي؟ قال:" كلوا وادخروا؛ فإن ذلك العام كانوا في جهد فأردت أن تُعينوا".
سیدنا سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ سے مروی ہے انہوں نے کہا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ جو تمہارے قربانی کے جانور ہیں تم میں سے کوئی تیسرے دن اس حال میں صبح نہ کرے کہ اس کے پاس اس کے گوشت میں سے کچھ ہو۔ جب اگلا سال آیا انہوں نے کہا: اے اللہ کے رسول! ہم ویسا ہی کریں جیسا ہم نے پچھلے سال کیا تھا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کھاؤ اور ذخیرہ کر لو پچھلے سال لوگ فاقہ میں تھے تو میں چاہتا تھا کہ تم مدد کرو۔ [صحيح الادب المفرد/حدیث: 439]
تخریج الحدیث: (صحيح)

227.  باب التجارب 
حدیث نمبر: 440
440/564 عن عروة قال: كنت جالساً عند معاوية، فحدّث نفسه، ثم انتبه، فقال:"لا حلم إلا تجربة" يعيدها ثلاثاً.
عروہ سے مروی ہے انہوں نے کہا کہ میں سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کے پاس بیٹھا ہوا تھا کوئی بات ان کے دل میں آئی تو وہ چونکے اور کہا: دانائی تجربہ سے آتی ہے، انہوں نے یہ تین بار فرمایا۔ [صحيح الادب المفرد/حدیث: 440]
تخریج الحدیث: (صحيح موقوفاً)

228.  باب حلف الجاهلية
حدیث نمبر: 441
441/567 عن عبد الرحمن بن عوف[أن رسول الله صلى الله عليه وسلم](1) قال:"شهدت مع عمومتي حلف المطيبين(2)، فما أحب أن أنكثه، وأن لي حُمر النعم".
سیدنا عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں اپنے چچاؤں کے ساتھ حلف المطیبین (زمانہ جاہلیت کا ایک معاہدہ امن) میں شریک تھا میں اس عہد کو سرخ اونٹوں کے مقابلہ میں بھی توڑنا پسند نہیں کرتا۔ (مطیبین یعنی خوشبو لگائے ہوئے، بنو ہاشم، بنو زہرہ، بنو تیم عبد اللہ بن جدعان کے گھر میں جمع ہوئے اور انہوں نے ایک پیالہ میں خوشبو ڈال کر اس میں ہاتھ ڈالے اور یہ معاہدہ کیا کہ ہم ایک دوسرے کی مدد کریں گے اور ہم فقیروں اور مسکینوں کا حق دلوائیں گے ہم یہاں کسی کو مظلوم یا ظالم نہ بننے دیں گے۔) [صحيح الادب المفرد/حدیث: 441]
تخریج الحدیث: (صحيح)

229.  باب الإخاء 
حدیث نمبر: 442
442/568 (صحيح) عن أنس قال:" آخى النبي صلى الله عليه وسلم بين ابنِ مسعود والزبير".
سیدنا انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا ابن مسعود اور سیدنا زبیر رضی اللہ عنہما کے درمیان بھائی چارہ قائم کیا۔ [صحيح الادب المفرد/حدیث: 442]
تخریج الحدیث: (صحيح)

حدیث نمبر: 443
443/569 عن أنس بن مالك قال:" حالف رسول الله صلى الله عليه وسلم بين قريش والأنصار في داري التي بالمدينة".
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے گھر میں جو مدینہ میں ہے قریش اور انصار کے درمیان بھائی چارہ قائم کیا تھا۔ [صحيح الادب المفرد/حدیث: 443]
تخریج الحدیث: (صحيح)

230.  باب لا حلف فى الإسلام 
حدیث نمبر: 444
444/570 عن عمرو بن شعيب، عن أبيه، عن جده قال: جلس النبي صلى الله عليه وسلم عام الفتح على درج الكعبة، فحمد الله، وأثنى عليه، ثم قال:"من كان له خلف في الجاهلية، لم يزده الإسلام إلا شدة(1)، ولا هجرة بعد الفتح".
عمرو بن شعیب اپنے والد سے اور وہ اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح کے سال کعبہ کی سیڑھیوں پر بیٹھ کر اللہ کی حمد و ثناء بیان کی پھر فرمایا: جس کسی کا جاہلیت میں معاہدہ ہو تو اسلام اسے اور زیادہ مضبوط کرتا ہے اور فتح مکہ کے بعد اب ہجرت نہیں رہی۔ [صحيح الادب المفرد/حدیث: 444]
تخریج الحدیث: (صحيح)

231.  باب من استمطر فى أول المطر 
حدیث نمبر: 445
445/571 عن أنس قال: أصابنا مع النبي صلى الله عليه وسلم مطر، فحسر النبي صلى الله عليه وسلم ثوبه(1) عنه حتى أصابه المطر. قلنا: لم فعلت؟ قال:"لأنه حديث عهد بربه"(2).
سیدنا انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ جب ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے تو ہمیں بارش نے آ لیا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اوپر سے کپڑا ہٹا دیا یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر بارش برسی۔ ہم نے عرض کیا کہ آپ نے ایسا کیوں کیا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیونکہ یہ اپنے رب کے پاس سے نئی نئی آئی ہے۔ [صحيح الادب المفرد/حدیث: 445]
تخریج الحدیث: (صحيح)

232.  باب إن الغنم بركة 
حدیث نمبر: 446
446/572 عن حميد بن مالك بن خثيم؛ أنه قال: كنت جالساً مع أبي هريرة بأرضه بالعقيق، فاتاه قوم من أهل المدينة على دواب، فنزلوا. قال حميد: فقال أبو هريرة: اذهب إلى أمي، وقل لها: إن ابنك يقرئك السلام، ويقول: أطعمينا شيئاً قال: فوضعت ثلاثة أقراص من شعير، وشيئاً من زيت وملح في صحفة، فوضعتها على رأسي، فحملتها إليهم، فلما وضعته بين أيديهم، كبر أبو هريرة، وقال: الحمد لله الذي أشبعنا من الخبز بعد أن لم يكن طعامنا إلا الأسودان؛ التمر والماء، فلم يُصب القوم من الطعام شيئاً! فلما انصرفوا. قال: يا ابن أخي! أحسن إلى غنمك، وامسح الرغام عنها، وأطب مراحها، وصل في ناحيتها؛ فإنها من دواب الجنة، والذي نفسي بيده ليوشك أن يأتي على الناس زمان، تكون الثلة(1) من الغنم أحب إلى صاحبها من دار مروان.
حمید بن مالک بن خثیم بیان کرتے ہیں کہ میں سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ عقیق میں ان کی زمین پر بیٹھا تھا (عقیق وادی کے اختتام پر مدینہ یونیورسٹی کا گیٹ ہے) کہ مدینہ والے کچھ لوگ آپ کے پاس جانوروں پر سوا ر ہو کر آئے پھر وہ اترے، حمید بیان کرتے ہیں کہ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میری والدہ کے پاس جاؤ اور ان سے کہو، آپ کا بیٹا آپ کو سلام کہتا ہے اور کہتا ہے کہ آج ہمیں کچھ کھانا کھلا دیں، اس پر ان کی والدہ نے جَو کی تین روٹیاں اور کچھ زیتون کا تیل اور نمک ایک پلیٹ میں رکھا میں نے اسے سر پر رکھ لیا، اور اٹھا کر ان لوگوں کے پاس لے آیا، جب میں نے ان لوگوں کے سامنے کھانا رکھا تو سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے اللہ اکبر کہا، اور کہا: اللہ کا شکر ہے جس نے ہمارا پیٹ روٹیوں سے بھرا۔ جبکہ ہمارا کھانا دو سیاہ چیزوں یعنی کھجور اور پانی کے سوا کچھ نہ تھا۔ لوگوں نے کھانے میں سے کچھ بھی نہ کھایا۔ جب وہ چلے گئے کہا: اے میرے بھتیجے اپنی بکریوں کا اچھی طرح دھیان رکھنا ان پر سے گرد جھاڑ دیا کرنا ان کے باڑے کو صاف کر دیا کرنا، اس کے ایک کونے میں نماز پڑھنا۔ کیونکہ یہ (بکریاں) جنت کے جانوروں میں سے ہیں۔ قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، قریب ہے کہ لوگوں پر ایک زمانہ ایسا آئے گا کہ بکریوں کا ایک چھوٹا سا ریوڑ اس کے مالک کو مروان کے محل سے بھی زیادہ محبوب ہو گا (مروان مدینہ کا ایک گورنر تھا)۔ [صحيح الادب المفرد/حدیث: 446]
تخریج الحدیث: (صحيح)

233.  باب الإبل عز لأهلها 
حدیث نمبر: 447
447/574 عن أبي هريرة، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال:" رأس الكفر نحو المشرق، والفخر والخيلاء في أهل الخيل والإبل، الفدّادين(1) أهل الوبر(2)، والسكينة في أهل الغنم".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کفر کا مرکز مشرق کی جانب ہے فخر اور تکبر گھوڑوں اور اونٹوں کے مالکوں میں ہے، اور سکینت (وقار) بکریوں کے مالکوں میں ہے۔ [صحيح الادب المفرد/حدیث: 447]
تخریج الحدیث: (صحيح)


Previous    16    17    18    19    20    21    22    23    24    Next