446/572 عن حميد بن مالك بن خثيم؛ أنه قال: كنت جالساً مع أبي هريرة بأرضه بالعقيق، فاتاه قوم من أهل المدينة على دواب، فنزلوا. قال حميد: فقال أبو هريرة: اذهب إلى أمي، وقل لها: إن ابنك يقرئك السلام، ويقول: أطعمينا شيئاً قال: فوضعت ثلاثة أقراص من شعير، وشيئاً من زيت وملح في صحفة، فوضعتها على رأسي، فحملتها إليهم، فلما وضعته بين أيديهم، كبر أبو هريرة، وقال: الحمد لله الذي أشبعنا من الخبز بعد أن لم يكن طعامنا إلا الأسودان؛ التمر والماء، فلم يُصب القوم من الطعام شيئاً! فلما انصرفوا. قال: يا ابن أخي! أحسن إلى غنمك، وامسح الرغام عنها، وأطب مراحها، وصل في ناحيتها؛ فإنها من دواب الجنة، والذي نفسي بيده ليوشك أن يأتي على الناس زمان، تكون الثلة(1) من الغنم أحب إلى صاحبها من دار مروان.
حمید بن مالک بن خثیم بیان کرتے ہیں کہ میں سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ عقیق میں ان کی زمین پر بیٹھا تھا (عقیق وادی کے اختتام پر مدینہ یونیورسٹی کا گیٹ ہے) کہ مدینہ والے کچھ لوگ آپ کے پاس جانوروں پر سوا ر ہو کر آئے پھر وہ اترے، حمید بیان کرتے ہیں کہ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میری والدہ کے پاس جاؤ اور ان سے کہو، آپ کا بیٹا آپ کو سلام کہتا ہے اور کہتا ہے کہ آج ہمیں کچھ کھانا کھلا دیں، اس پر ان کی والدہ نے جَو کی تین روٹیاں اور کچھ زیتون کا تیل اور نمک ایک پلیٹ میں رکھا میں نے اسے سر پر رکھ لیا، اور اٹھا کر ان لوگوں کے پاس لے آیا، جب میں نے ان لوگوں کے سامنے کھانا رکھا تو سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے اللہ اکبر کہا، اور کہا: اللہ کا شکر ہے جس نے ہمارا پیٹ روٹیوں سے بھرا۔ جبکہ ہمارا کھانا دو سیاہ چیزوں یعنی کھجور اور پانی کے سوا کچھ نہ تھا۔ لوگوں نے کھانے میں سے کچھ بھی نہ کھایا۔ جب وہ چلے گئے کہا: اے میرے بھتیجے اپنی بکریوں کا اچھی طرح دھیان رکھنا ان پر سے گرد جھاڑ دیا کرنا ان کے باڑے کو صاف کر دیا کرنا، اس کے ایک کونے میں نماز پڑھنا۔ کیونکہ یہ (بکریاں) جنت کے جانوروں میں سے ہیں۔ قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، قریب ہے کہ لوگوں پر ایک زمانہ ایسا آئے گا کہ بکریوں کا ایک چھوٹا سا ریوڑ اس کے مالک کو مروان کے محل سے بھی زیادہ محبوب ہو گا (مروان مدینہ کا ایک گورنر تھا)۔ [صحيح الادب المفرد/حدیث: 446]