428/550 عن أبي هريرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" ما استكبر من أَكَلَ معه خادمه، وركب الحمار بالأسواق، واعتقل الشاة فحلبها".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے اپنے خادم کے ساتھ کھانا کھا لیا اور گدھے پر سوار ہو کر بازاروں میں چلا گیا، اور بکری کو ٹانگوں سے جکڑ کر اس کا دودھ دوہ لیا، اس میں تکبر نہیں ہے۔“[صحيح الادب المفرد/حدیث: 428]
تخریج الحدیث: (حسن)
حدیث نمبر: 429
429/552 عن أبي سعيد الخدري وأبي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال:" العز إزاره، والكبرياء رداؤه، فمن نازعني بشيء منهما، عذبته".
سیدنا ابوسعید خدری اور اور سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”عزت اللہ کا تہبند ہے اور بڑائی اللہ کی اوپر اوڑھنے والی چادر ہے جو ان دونوں میں سے کوئی بھی چیز مجھ سے چھینے گا میں اس کو عذاب دوں گا۔“[صحيح الادب المفرد/حدیث: 429]
تخریج الحدیث: (صحيح)
حدیث نمبر: 430
430/553 عن الهيثم بن مالك الطائي قال: سمعت النعمان بن بشير يقول على المنبر قال:" إن للشيطان مصالياً(4) وفخوخاً، وإن مصالي الشيطان وفخوخه: البطر(5) بأنعم الله، والفخر بعطاء الله، والكبرياء على عباد الله، واتباع الهوى في غير ذات الله".
ہیثم بن مالک طائی سے مروی ہے انہوں نے کہا کہ میں نے نعمان بن بشیر کو منبر پر کہتے ہوئے سنا: بیشک شیطان کے جال اور شکنجے ہوتے ہیں اور بیشک شیطان کے جال اور شکنجے اللہ کی نعمتوں پر سرکشی کرنا (مغرور ہو جانا) ہے اور اللہ کے عطیہ پر فخر کرنا ہے اور اللہ کے بندوں پر بڑائی کا اظہار کرنا اور اللہ کی ذات کو چھوڑ کر اپنی خواہشات کی اتباع کرنا ہے۔ [صحيح الادب المفرد/حدیث: 430]
تخریج الحدیث: (حسن موقوف)
حدیث نمبر: 431
431/544 عن أبي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال:" احتجّت الجنة والنار – وقال سفيان أيضاً: اختصمت الجنة والنار- قالت النار: يلجني الجبارون، ويلجني المتكبرون. وقالتِ الجنة: يجلني الضعفاء، ويلجني الفقراء. قال الله تبارك وتعالى للجنة: أنت رحمتي أرحم بك من أشاء. ثم قال للنار: أنت عذابي أعذب بك من أشاء، ولكل واحدةٍ منكما ملؤها".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جنت و دوزخ کا آپس میں جھگڑا ہوا“، اور سفیان نے یہ بھی کہا: ”جنت دوزخ جھگڑ پڑے۔ جہنم نے کہا: میرے اندر ظالم (اور جابر) جمع ہوں گے اور میرے اندر متکبر داخل ہوں گے اور جنت نے کہا: میرے اندر کمزور داخل ہوں گے اور میرے اندر فقراء داخل ہوں گے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے جنت سے فرمایا: تو میری رحمت ہے میں جسے چاہوں گا تیرے ذریعے (اس پر) رحم کروں گا اور جہنم سے فرمایا: تو میرا عذاب ہے میں جسے چاہوں گا تیرے ذریعہ عذاب دوں گا اور تم دونوں میں سے ہر ایک کو میں نے بھرنا ہے۔“[صحيح الادب المفرد/حدیث: 431]
تخریج الحدیث: (صحيح)
حدیث نمبر: 432
432/555 عن أبي سلمة بن عبد الرحمن قال:"لم يكن أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم متحزقين(6)، ولا متماوتين(7)، وكانوا يتناشدون الشعر في مجالسهم، ويذكرون أمر جاهليتهم، فإذا أريد أحد منهم على شيء من أمر الله، دارت حماليق عينيه(8) كأنه مجنون".
ابوسلمہ بن عبدالرحمن سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ مجتمع ہونے والے نہیں تھے اور نہ اپنے آپ کو بیمار و کمزور ظاہر کرنے والے تھے (یعنی ایسے ظاہر نہیں کرتے تھے کہ عبادت کر کر کے وہ تھک گئے ہیں) اور وہ اپنی مجلسوں میں ایک دوسرے کو شعر و شاعری سنایا کیا کرتے تھے اور وہ اپنے جاہلیت کے حالات کو یاد کیا کرتے تھے اور جب ان میں سے کسی ایک کو اللہ کے حکم پر کسی چیز پر طلب کیا جاتا تو اس کی آنکھوں کی پتلیاں گھومنے لگتیں گویا کہ وہ مجنون ہے۔ (یعنی اللہ کے حکم پر اتنے پریشان ہو جاتے کہ اپنی پوری آنکھیں کھول دیتے اور اس پر خوفزدہ ہوتے کہ کہیں ان سے عمل میں کوتاہی نہ ہو جائے۔)[صحيح الادب المفرد/حدیث: 432]
تخریج الحدیث: (حسن)
حدیث نمبر: 433
433/556 عن أبي هريرة؛ أن رجلاً أتى النبي صلى الله عليه وسلم – وكان جميلاً- فقال: حبب إلي الجمال، وأُعطيت ما ترى! حتى ما أحب أن يفوقني أحدٌ، إما قال: بشراك نعل. وإما قال: بشسعٍ أحمر. آلِكبْرُ ذاك؟ قال:"لا؛ ولكن الكبر من بطر الحق(9)، وغمطَ الناس".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک شخص حاضر ہوا، اور وہ خوبصورت تھا، اس نے کہا: میرے دل میں خوبصورت بننے کی محبت ڈال دی گئی ہے، اور مجھے یہ (جمال) عطا بھی ہوا ہے جیسا کہ آپ دیکھ رہے ہیں، حتیٰ کہ مجھے یہ پسند نہیں کہ کوئی شخص اس (حسن و جمال) میں مجھ سے بڑھ جائے، یا یہ کہا کہ جوتے کے ایک تسمے کے برابر یا کہا کہ سرخ تسمے کے برابر، کیا یہ تکبر ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نہیں، لیکن تکبر یہ ہے کہ جو حق کو ٹھکرا دے اور لوگوں کو حقیر جانے۔“[صحيح الادب المفرد/حدیث: 433]
تخریج الحدیث: (صحيح)
حدیث نمبر: 434
434/557 عن عمرو بن شعيب، عن أبيه، عن جده، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال:"يُحشر المتكبرون يوم القيامة أمثال الذر في صورة الرجال، يغشاهم الذُلُّ من كل مكان، يُساقون إلى سجن من جهنم يسمى: بُولَس تعلوهم نار الأنيار، ويسقون من عصارة أهل النار؛ طينة الخبال".
عمرو بن شعیب اپنے والد سے اور وہ اپنے دادا سے روایت بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”قیامت کے دن متکبروں کو چیونٹیاں بنا کر مردوں کی صورت میں اٹھایا جائے گا ان پر ہر طرف سے ذلت چھائی ہو گی اور ہنکا کر انہیں دوزخ کے ایک قید خانے میں پہنچا دیا جائے گا جس کا نام بولس ہے، ان پر دہکتی ہوئی آگ غالب آ جائے گی اور انہیں جہنمیوں کے زخموں کی پیپ پلائی جائے گی (یعنی لہوکچلو)۔“[صحيح الادب المفرد/حدیث: 434]
تخریج الحدیث: (حسن)
225. باب من انتصر من ظلمه
حدیث نمبر: 435
435/558 عن عائشة رضي الله عنها؛ أن النبي صلى الله عليه وسلم قال لها:"دونك فانتصري".
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: ”جاؤ اپنا بدلہ لے لو۔“[صحيح الادب المفرد/حدیث: 435]
تخریج الحدیث: (صحيح)
حدیث نمبر: 436
436/559 عن عائشة قالت:" أرسل أزواج النبي صلى الله عليه وسلم فاطمة إلى النبي صلى الله عليه وسلم فاستأذنت والنبي مع عائشة رضي الله عنها في مرطها(1)، فأذن لها فدخلت. فقالت: إن أزواجك أرسلنني، يسألنك العدل في بنت أبي قحافة. قال: أي بنيّة! أتحبين ما أحبُّ. قالت: بلى. قال:" فأحبي هذه" فقامت، فخرجت فحدثتهم. فقلن: ما أغنيت عنا شيئاً فارجعي إليه. قالت: والله لا أكلمه فيها أبداً. فأرسلن زينب - زوج النبي صلى الله عليه وسلم - فأستأذنت، فأذن لها، فقالت له ذلك، ووقعت في زينب تسُبّني، فطفقت أنظر: هل يأذن لي النبي صلى الله عليه وسلم، فلم أزل حتى عرفت أن النبي صلى الله عليه وسلم لا يكره أن أنتصر، فوقعت بزينب، فلم أنشب أن أثخنتها غلبة، فتبسم رسول الله صلى الله عليه وسلم، ثم قال:"أما إنها ابنة أبي بكر".
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا: (ایک بار) نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج نے سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بھیجا، انہوں نے (آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے) اجازت چاہی اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس ان کی چادر میں تھے آپ نے سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کو اجازت دے دی وہ آئیں اور انہوں نے (آ کر) کہا: مجھے آپ کی ازواج نے بھیجا ہے وہ آپ سے ابوقحافہ کی بیٹی کے بارے میں انصاف کا تقاضا کرتی ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے میری بیٹی! کیا تم اس سے محبت کرتی ہو جس سے میں محبت کرتا ہوں؟“ انہوں نے کہا: بے شک، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تو اس (عائشہ رضی اللہ عنہا) سے محبت کیا کرو“، اس کے بعد وہ اٹھیں اور باہر جا کر انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج کو اطلاع دے دی، انہوں نے کہا: تم تو ہمارے کچھ بھی کام نہ آئیں، ان کے پاس دوبارہ جاؤ، انہوں نے کہا: اللہ کی قسم! میں تو اس بارے میں آپ سے کبھی بھی کچھ نہ کہوں گی، اس کے بعد انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ سیدہ زینب رضی اللہ عنہا کو بھیجا انہوں نے آپ سے اجازت چاہی، آپ نے انہیں بھی اجازت دے دی، انہوں نے بھی آ کر آپ سے وہی کہا: اور اس کے ساتھ ساتھ مجھے سخت سست کہا: تو میں (آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف) دیکھنے لگی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم مجھے (بھی بولنے کی) اجازت دیتے ہیں؟ میں مسلسل آپ کو دیکھتی رہی یہا ں تک کہ میں نے محسوس کیا اگر میں جواب دوں تو آپ کو برا نہیں لگے گا، پھر میں نے بھی زینب کے بارے میں باتیں کیں اور ان پر غالب آ کر انہیں چپ کرا لیا اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسکرانے لگے پھر فرمایا: ”آخر ابوبکر کی بیٹی ہے۔“[صحيح الادب المفرد/حدیث: 436]
تخریج الحدیث: (صحيح)
226. باب المواساة فى السنة والمجاعة
حدیث نمبر: 437
437/561 عن أبي هريرة: أن الأنصار قالت للنبي صلى الله عليه وسلم:"اقسم بيننا وبين إخواننا النخيل. قال:"لا": فقالوا: تكفونا المؤونة، ونشرككم في الثمرة؟ قالوا: سمعنا وأطعنا.
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انصار نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ ہمارے اور ہمارے بھائیوں (مہاجرین) کے درمیان یہ باغات تقسیم کر دیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نہیں“، اس پر انصار نے کہا: آپ ہم پر اخراجات کی کفایت کریں ہم آپ کو پھل میں حصہ دار بنائیں گے۔ انہوں نے عرض کیا: (بہت اچھا) ہم نے سنا اور اطاعت کی۔ [صحيح الادب المفرد/حدیث: 437]