1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:


صحيح الادب المفرد
حصہ دوئم : احادیث 250 سے 499
225.  باب من انتصر من ظلمه
حدیث نمبر: 436
436/559 عن عائشة قالت:" أرسل أزواج النبي صلى الله عليه وسلم فاطمة إلى النبي صلى الله عليه وسلم فاستأذنت والنبي مع عائشة رضي الله عنها في مرطها(1)، فأذن لها فدخلت. فقالت: إن أزواجك أرسلنني، يسألنك العدل في بنت أبي قحافة. قال: أي بنيّة! أتحبين ما أحبُّ. قالت: بلى. قال:" فأحبي هذه" فقامت، فخرجت فحدثتهم. فقلن: ما أغنيت عنا شيئاً فارجعي إليه. قالت: والله لا أكلمه فيها أبداً. فأرسلن زينب - زوج النبي صلى الله عليه وسلم - فأستأذنت، فأذن لها، فقالت له ذلك، ووقعت في زينب تسُبّني، فطفقت أنظر: هل يأذن لي النبي صلى الله عليه وسلم، فلم أزل حتى عرفت أن النبي صلى الله عليه وسلم لا يكره أن أنتصر، فوقعت بزينب، فلم أنشب أن أثخنتها غلبة، فتبسم رسول الله صلى الله عليه وسلم، ثم قال:"أما إنها ابنة أبي بكر".
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا: (ایک بار) نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج نے سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بھیجا، انہوں نے (آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے) اجازت چاہی اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس ان کی چادر میں تھے آپ نے سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کو اجازت دے دی وہ آئیں اور انہوں نے (آ کر) کہا: مجھے آپ کی ازواج نے بھیجا ہے وہ آپ سے ابوقحافہ کی بیٹی کے بارے میں انصاف کا تقاضا کرتی ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے میری بیٹی! کیا تم اس سے محبت کرتی ہو جس سے میں محبت کرتا ہوں؟ انہوں نے کہا: بے شک، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تو اس (عائشہ رضی اللہ عنہا) سے محبت کیا کرو، اس کے بعد وہ اٹھیں اور باہر جا کر انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج کو اطلاع دے دی، انہوں نے کہا: تم تو ہمارے کچھ بھی کام نہ آئیں، ان کے پاس دوبارہ جاؤ، انہوں نے کہا: اللہ کی قسم! میں تو اس بارے میں آپ سے کبھی بھی کچھ نہ کہوں گی، اس کے بعد انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ سیدہ زینب رضی اللہ عنہا کو بھیجا انہوں نے آپ سے اجازت چاہی، آپ نے انہیں بھی اجازت دے دی، انہوں نے بھی آ کر آپ سے وہی کہا: اور اس کے ساتھ ساتھ مجھے سخت سست کہا: تو میں (آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف) دیکھنے لگی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم مجھے (بھی بولنے کی) اجازت دیتے ہیں؟ میں مسلسل آپ کو دیکھتی رہی یہا ں تک کہ میں نے محسوس کیا اگر میں جواب دوں تو آپ کو برا نہیں لگے گا، پھر میں نے بھی زینب کے بارے میں باتیں کیں اور ان پر غالب آ کر انہیں چپ کرا لیا اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسکرانے لگے پھر فرمایا: آخر ابوبکر کی بیٹی ہے۔ [صحيح الادب المفرد/حدیث: 436]
تخریج الحدیث: (صحيح)