سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ انہوں نے اپنی بیوی کو حالت حیض میں طلاق دے دی تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اس کا تذکرہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ان سے کہو کہ رجوع کر لیں اور اسے (بیوی کو) اس وقت تک روکے رکھیں کہ طہر شروع ہو جائے، پھر ایام آئیں اور پھر طہر شروع ہو، پھر اگر چاہیں تو اسے اپنے پاس برقرار رکھیں اور چاہیں تو طلاق دے دیں، صحبت و مجامعت کرنے سے پہلے، پس یہ وہ عدت ہے جس کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے کہ اس میں عورتوں کو طلاق دی جائے۔“(یعنی یہ وہ مدت ہے جس کا حکم ( «فطلقوهن لعدتهن») میں اللہ تعالیٰ نے دیا ہے۔ [سنن دارمي/من كتاب الطلاق/حدیث: 2299]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده قوي وهو عند مالك في الطلاق، [مكتبه الشامله نمبر: 2308] » اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 5251] ، [مسلم 1471] ، [أبوداؤد 2179] ، [نسائي 3390] ، [أبويعلی 5440] ، [ابن حبان 4263] ، [معرفة السنن و الآثار للبيهقي 1573]
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ جب انہوں نے اپنی بیوی کو طلاق دے دی تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اس کا تذکرہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”انہیں کہو کہ اس عورت کو لوٹا لیں (یعنی طلاق سے رجوع کر لیں) پھر چاہیں تو حالت طہر میں اس کو طلاق دیں۔“ امام دارمی رحمہ اللہ نے کہا: ابن المبارک اور وکیع نے روایت کیا ہے کہ حالت حمل میں۔ (یعنی یا تو طہر کی حالت میں طلاق دیں، یا وہ عورت حاملہ ہو تب طلاق دیں)۔ [سنن دارمي/من كتاب الطلاق/حدیث: 2300]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2309] » یہ حدیث صحیح ہے اور مصادر و مراجع وہی ہیں جو اوپر ذکر کئے گئے ہیں۔
سیدنا عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ نے فرمایا: رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے (ان کی بیٹی) سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا کو طلاق دی پھر رجوع کر لیا۔ [سنن دارمي/من كتاب الطلاق/حدیث: 2301]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2310] » اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [أبوداؤد 2283] ، [نسائي 3563] ، [ابن ماجه 2016] ، [أبويعلی 173، 174] ، [ابن حبان 4275] ، [الموارد 1324]
سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا کو طلاق دی، پھر ان سے رجوع کر لیا۔ امام دارمی رحمہ اللہ نے کہا: ابن المدینی رحمہ اللہ نے اس حدیث کو منکر کہا ہے، اور فرمایا کہ بصرہ میں ہمارے یہاں حمید سے اس کو کسی نے روایت نہیں کیا۔ [سنن دارمي/من كتاب الطلاق/حدیث: 2302]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2311] » اس روایت کی سند صحیح ہے اور تخریج ذکر کی جا چکی ہے۔ مزید دیکھئے: [أبويعلی 3815] ، [الحاكم 197/2، وقال على شرط الشيخين و لم يخرجاه]
حکم نے کہا: یحییٰ بن حمزہ نے مجھ سے کہا کہ میں یقین سے کہتا ہوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اہلِ یمن کے لئے لکھا تھا کہ ”قرآن پاک کو صرف پاک آدمی ہی ہاتھ لگائے، اور نکاح کی ملکیت سے پہلے طلاق درست نہیں، اور خریدنے سے پہلے آزادی ممکن نہیں۔“ امام دارمی رحمہ اللہ سے سلیمان کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے کہا: یہ شاید عمر بن عبدالعزیز کے کتاب میں سے تھے۔ [سنن دارمي/من كتاب الطلاق/حدیث: 2303]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده ضعيف، [مكتبه الشامله نمبر: 2312] » اس سند سے یہ روایت ضعیف ہے لیکن دیگر اسانید سے بھی مروی ہے۔ امام ترمذی نے اس روایت کے آخری دونوں جملوں نکاح وعتاق کو صحیح قرار دیا ہے۔ دیکھئے: [أبوداؤد 2191] ، [ترمذي 1182] ، [ابن ماجه 2047] ، [ابن حبان 6559] ، [موارد الظمآن 793]
4. باب مَا يُحِلُّ الْمَرْأَةَ لِزَوْجِهَا الذي طَلَّقَهَا فَبَتَّ طَلاَقَهَا:
4. وہ عورت جس کو تین طلاقیں دی جا چکی ہوں کس طرح پہلے شوہر کے لئے حلال ہو گی؟
ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ رفاعہ القرظی کی بیوی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی، اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ تھے اور سیدنا خالد بن سعید بن العاص رضی اللہ عنہ دروازے پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضری کے طلب گار تھے، اس عورت نے عرض کیا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں رفاعہ کے نکاح میں تھی، پھر انہوں نے مجھے تین طلاقیں دے دیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا تم رفاعہ کے پاس جانا چاہتی ہو؟ نہیں، یہاں تک کہ وہ (دوسرا شوہر) تمہارا مزہ چکھ لے اورتم اس کا مزہ چکھ لو“(یہ جماع کی طرف اشارہ ہے)، یہ سن کر سیدنا خالد بن سعید رضی اللہ عنہ نے سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کو پکارا: کیا آپ اس عورت کو نہیں دیکھتے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کس طرح کی باتیں زور زور سے کر رہی ہے؟ [سنن دارمي/من كتاب الطلاق/حدیث: 2304]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «الحديث متفق عليه، [مكتبه الشامله نمبر: 2313] » یہ حدیث صحیح اور متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 2629، 5239] ، [مسلم 1433] ، [ترمذي 1118] ، [ابن ماجه 1932] ، [أبويعلی 4423] ، [ابن حبان 4121] ، اس روایت میں کچھ اختصار ہے جس کی اگلی حدیث میں تفصیل ہے۔
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: سیدنا رفاعہ رضی اللہ عنہ جو بنی قریظہ کے فرد تھے، انہوں نے اپنی بیوی کو تین طلاق دیدی، اس کے بعد اس سے سیدنا عبدالرحمٰن بن زبیر رضی اللہ عنہ نے شادی کر لی، پھر وہ عورت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آئی اور عرض کیا: اے اللہ کے رسول! ان کے پاس تو (شرمگاہ) اس کپڑے کی طرح ہے (یعنی نامرد ہیں جماع نہیں کر سکتے)، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”شاید تم پھر رفاعہ کے پاس جانا چاہتی ہو؟ نہیں یہ نہیں ہوسکتا جب تک کہ وہ عبدالرحمٰن تمہارا مزہ نہ چکھ لیں“ یا یہ کہا کہ ”تم اس کا مزہ نہ چکھ لو۔“[سنن دارمي/من كتاب الطلاق/حدیث: 2305]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده صحيح وهو متفق عليه، [مكتبه الشامله نمبر: 2314] » اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ تخریج اوپر گذر چکی ہے۔
مسروق رحمہ اللہ نے کہا: میں نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے طلاق کا اختیار دینے کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے فرمایا: ہم کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اختیار دیا تھا تو کیا محض یہ اختیار طلاق بن گیا؟ [سنن دارمي/من كتاب الطلاق/حدیث: 2306]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده صحيح والحديث متفق عليه، [مكتبه الشامله نمبر: 2315] » اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 5262] ، [مسلم 1477] ، [ترمذي 1179] ، [نسائي 3203] ، [أبويعلی 4317] ، [ابن حبان 4267] ، [الحميدي 236]
6. باب النَّهْيِ عَنْ أَنْ تَسْأَلَ الْمَرْأَةُ زَوْجَهَا طَلاَقَهَا:
سیدنا ثوبان رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس عورت نے اپنے خاوند سے بلاوجہ طلاق مانگی اس کے اوپر جنت کی خوشبو حرام ہے۔“[سنن دارمي/من كتاب الطلاق/حدیث: 2307]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده صحيح وأبو قلابة هو: عبد الله بن زيد وأبو أسماء هو: عمرو بن مرثد الرحبي، [مكتبه الشامله نمبر: 2316] » اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [أبوداؤد 2226] ، [ترمذي 1187] ، [ابن ماجه 2055] ، [ابن حبان 4184] ، [موارد الظمآن 1326] ۔ اس کی سند میں ابوقلاب کا نام: عبداللہ بن زید ہے اور ابواسماء: عمر بن مرثد الرحبی ہیں۔
عمرہ بنت عبدالرحمٰن نے خبر دی کہ سیدہ حبیبہ بنت سہل سے سیدنا ثابت بن قیس بن شماس رضی اللہ عنہما نے شادی کی تھی۔ سیدہ حبیبہ رضی اللہ عنہا نے ذکر کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان سے نکاح کا ارادہ رکھتے تھے اور وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پڑوسن تھیں ( «انفرد به الدارمي») سیدنا ثابت رضی اللہ عنہ نے انہیں مارا تو وہ صبح کو اندھیرے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دروازے پرآئیں، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم باہر نکلے تو آدمی کی پرچھائی (سایہ) دیکھا، فرمایا: ”کون ہے؟“ انہوں نے کہا: میں حبیبہ بنت سہل ہوں، آپ نے فرمایا: ”کیا بات ہے؟“ انہوں نے عرض کیا: میں نہیں یا ثابت نہیں (یعنی میں ان کے ساتھ نہیں رہ سکتی)، پھر جب سیدنا ثابت رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس سے اپنا مال لے لو اور اس کو چھوڑ دو“، سیدہ حبیبہ رضی اللہ عنہا نے کہا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! انہوں نے جو کچھ بھی دیا سب میرے پاس محفوظ ہے۔ چنانچہ سیدنا ثابت رضی اللہ عنہ نے اپنا سارا مال لے لیا اور اس کو چھوڑ دیا، اور سیدہ حبیبہ رضی اللہ عنہا اپنے میکے میں جا کر بیٹھ گئیں (یعنی شوہر سے خلع لے لیا)۔ [سنن دارمي/من كتاب الطلاق/حدیث: 2308]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2317] » یہ حدیث صحیح ہے۔ دیکھئے: [بخاري 5273] ، [أبوداؤد 2237] ، [ابن ماجه 2057] ، [ابن حبان 4280] ، [موارد الظمآن 1326]