سیدنا عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ نے فرمایا: رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے (ان کی بیٹی) سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا کو طلاق دی پھر رجوع کر لیا۔ [سنن دارمي/من كتاب الطلاق/حدیث: 2301]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2310] » اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [أبوداؤد 2283] ، [نسائي 3563] ، [ابن ماجه 2016] ، [أبويعلی 173، 174] ، [ابن حبان 4275] ، [الموارد 1324]
وضاحت: (تشریح حدیث 2300) رجعت یا رجوع سے مراد طلاق کے بعد دورانِ عدت بغیر نکاح کے اپنی اہلیہ کی طرف رجوع کرنا ہے۔ مذکورہ بالا حدیث سے ثابت ہوا کہ اس میں کوئی حرج نہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا کیا اور سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کو رجوع کا حکم بھی دیا، لہٰذا قول و فعل دونوں سے ثابت ہوگیا کہ اگر کسی نے اپنی بیوی کو طلاق دی تو تیسری طلاق سے پہلے عدت کے اندر بلا نکاح کے وہ اپنی بیوی کو اپنے پاس رکھ سکتا ہے، اگر عدت گزر جائے تو پھر تجدیدِ نکاح کرنا ہوگا، اور اگر تین طلاق کے بعد رجوع کرنا چاہے تو ایسا اس وقت تک ممکن نہیں جب تک کہ وہ عورت دوسری شادی کرے اور اسے دوسرا شوہر بلا شرط و دباؤ کے اپنی مرضی سے طلاق دے دے، «﴿حَتَّى تَنْكِحَ زَوْجًا غَيْرَهُ﴾ [البقرة: 230] » کی یہی صحیح تفسیر و تشریح ہے۔ اور طلاق یا رجوع کے وقت گواہ بنانا ضروری نہیں، مندوب و مستحب ہے۔