الحمدللہ ! احادیث کتب الستہ آف لائن ایپ ریلیز کر دی گئی ہے۔    


الادب المفرد کل احادیث (1322)
حدیث نمبر سے تلاش:

الادب المفرد
كِتَابُ الْعُطَاسَ والتثاؤب
كتاب العطاس والتثاؤب
414. بَابُ الْعُطَاسَ
414. چھینکنے کا بیان
حدیث نمبر: 919
حَدَّثَنَا آدَمُ، قَالَ‏:‏ حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي ذِئْبٍ، قَالَ‏:‏ حَدَّثَنَا سَعِيدٌ الْمَقْبُرِيُّ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ‏:‏ ”إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْعُطَاسَ، وَيَكْرَهُ التَّثَاؤُبَ، فَإِذَا عَطَسَ فَحَمِدَ اللَّهَ فَحَقٌّ عَلَى كُلِّ مُسْلِمٍ سَمِعَهُ أَنْ يُشَمِّتَهُ، وَأَمَّا التَّثَاؤُبُ فَإِنَّمَا هُوَ مِنَ الشَّيْطَانِ، فَلْيَرُدَّهُ مَا اسْتَطَاعَ، فَإِذَا قَالَ‏:‏ هَاهْ، ضَحِكَ مِنْهُ الشَّيْطَانُ‏.‏“
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰٰ چھینک کو پسند کرتا ہے، اور جماہی کو ناپسند کرتا ہے۔ جب کسی کو چھینک آئے اور وہ الحمد للہ کہے تو سننے والے ہر مسلمان پر حق ہے کہ اس کی چھینک کا جواب دے۔ اور جہاں تک جماہی کا تعلق ہے تو یہ خالصتاً شیطان کی طرف سے ہے۔ اس لیے اسے ہر ممکن روکنے کی کوشش کی جائے۔ جماہی آنے پر جب بندہ ہا کہتا ہے تو اس پر شیطان ہنستا ہے۔ [الادب المفرد/كِتَابُ الْعُطَاسَ والتثاؤب/حدیث: 919]
تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه البخاري، كتاب الأدب: 6223 و أبوداؤد: 5028 و الترمذي: 2747»

قال الشيخ الألباني: صحيح

415. بَابُ مَا يَقُولُ إِذَا عَطَسَ
415. چھینک آنے پر کیا کہا جائے
حدیث نمبر: 920
حَدَّثَنَا مُوسَى، عَنْ أَبِي عَوَانَةَ، عَنْ عَطَاءٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ‏:‏ إِذَا عَطَسَ أَحَدُكُمْ فَقَالَ‏:‏ الْحَمْدُ لِلَّهِ، قَالَ الْمَلَكُ‏:‏ رَبَّ الْعَالَمِينَ، فَإِذَا قَالَ‏:‏ رَبَّ الْعَالَمِينَ، قَالَ الْمَلَكُ‏:‏ يَرْحَمُكَ اللَّهُ‏.‏
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: جب تم میں سے کسی کو چھینک آئے تو وہ الحمد للہ کہے تو فرشتہ کہتا ہے: رب العالمین، اور جب بنده رب العالمین کہے تو فرشتہ يرحمك الله کہتا ہے۔ [الادب المفرد/كِتَابُ الْعُطَاسَ والتثاؤب/حدیث: 920]
تخریج الحدیث: «ضعيف الإسناد موقوفًا وقد روي مرفوعًا وإسناده هالك: أخرجه البيهقي فى شعب الإيمان: 9324 و الطبراني فى الكبير: 453/11 مرفوعًا»

قال الشيخ الألباني: ضعيف الإسناد موقوفًا وقد روي مرفوعًا وإسناده هالك

حدیث نمبر: 921
حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، قَالَ‏:‏ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ أَبِي سَلَمَةَ، قَالَ‏:‏ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللهِ بْنُ دِينَارٍ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ السَّمَّانِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ‏:‏ ”إِذَا عَطَسَ فَلْيَقُلِ‏:‏ الْحَمْدُ لِلَّهِ، فَإِذَا قَالَ فَلْيَقُلْ لَهُ أَخُوهُ أَوْ صَاحِبُهُ‏:‏ يَرْحَمُكَ اللَّهُ، فَإِذَا قَالَ لَهُ‏:‏ يَرْحَمُكَ اللَّهُ فَلْيَقُلْ‏:‏ يَهْدِيكَ اللَّهُ وَيُصْلِحُ بَالَكَ‏.‏“
قَالَ أَبُو عَبْدِ اللَّهِ: أَثْبَتُ مَا يُرْوَى فِي هَذَا الْبَابِ هَذَا الْحَدِيثُ الَّذِي يُرْوَى عَنْ أَبِي صَالِحٍ السَّمَّانِ.
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب کسی کو چھینک آئے تو الحمد للہ کہے۔ جب وہ یہ کہے تو اس کا بھائی یا ساتھی یرحمك الله کہے۔ جب وہ یرحمك الله کہے تو وہ کہے: يهديك الله و يصلح بالك، اللہ تجھے ہدایت دے اور تیرے معاملات کی اصلاح کرے۔
ابوعبداللہ الامام بخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں: اس باب میں ابوصالح سمان کی روایت سب سے زیادہ صحیح ہے۔ [الادب المفرد/كِتَابُ الْعُطَاسَ والتثاؤب/حدیث: 921]
تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه البخاري، كتاب الأدب: 6224 و أبوداؤد: 5033»

قال الشيخ الألباني: صحيح

416. بَابُ تَشْمِيتِ الْعَاطِسِ
416. چھینک کا جواب دینے کا بیان
حدیث نمبر: 922
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلامٍ، قَالَ‏:‏ أَخْبَرَنَا الْفَزَارِيُّ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ زِيَادِ بْنِ أَنْعُمٍ الإِفْرِيقِيِّ قَالَ‏:‏ حَدَّثَنِي أَبِي، أَنَّهُمْ كَانُوا غُزَاةً فِي الْبَحْرِ زَمَنَ مُعَاوِيَةَ، فَانْضَمَّ مَرْكَبُنَا إِلَى مَرْكَبِ أَبِي أَيُّوبَ الأَنْصَارِيِّ، فَلَمَّا حَضَرَ غَدَاؤُنَا أَرْسَلْنَا إِلَيْهِ، فَأَتَانَا فَقَالَ‏:‏ دَعَوْتُمُونِي وَأَنَا صَائِمٌ، فَلَمْ يَكُنْ لِي بُدٌّ مِنْ أَنْ أُجِيبَكُمْ، لأَنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ‏: ”إِنَّ لِلْمُسْلِمِ عَلَى أَخِيهِ سِتَّ خِصَالٍ وَاجِبَةٍ، إِنْ تَرَكَ مِنْهَا شَيْئًا فَقَدْ تَرَكَ حَقًّا وَاجِبًا لأَخِيهِ عَلَيْهِ‏:‏ يُسَلِّمُ عَلَيْهِ إِذَا لَقِيَهُ، وَيُجِيبُهُ إِذَا دَعَاهُ، وَيُشَمِّتُهُ إِذَا عَطَسَ، وَيَعُودُهُ إِذَا مَرِضَ، وَيَحْضُرُهُ إِذَا مَاتَ، وَيَنْصَحُهُ إِذَا اسْتَنْصَحَهُ‏“،‏ قَالَ: وَكَانَ مَعَنَا رَجُلٌ مَزَّاحٌ، يَقُولُ لِرَجُلٍ أَصَابَ طَعَامَنَا: جَزَاكَ اللَّهُ خَيْرًا وَبِرًّا، فَغَضِبَ عَلَيْهِ حِينَ أَكْثَرَ عَلَيْهِ، فَقَالَ لأَبِي أَيُّوبَ: مَا تَرَى فِي رَجُلٍ إِذَا قُلْتُ لَهُ: جَزَاكَ اللَّهُ خَيْرًا وَبِرًّا، غَضِبَ وَشَتَمَنِي؟ فَقَالَ أَبُو أَيُّوبَ: إِنَّا كُنَّا نَقُولُ: إِنَّ مَنْ لَمْ يُصْلِحْهُ الْخَيْرُ أَصْلَحْهُ الشَّرُّ، فَاقْلِبْ عَلَيْهِ، فَقَالَ لَهُ حِينَ أَتَاهُ: جَزَاكَ اللَّهُ شَرًّا وَعَرًّا، فَضَحِكَ وَرَضِيَ، وَقَالَ: مَا تَدَعُ مُزَاحَكَ، فَقَالَ الرَّجُلُ: جَزَى اللَّهُ أَبَا أَيُّوبَ الأَنْصَارِيَّ خَيْرًا.
زیاد بن انعم افریقی رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کے دورِ حکومت میں وہ ایک سمندری غزوے میں شریک تھے کہ ہماری کشتی سیدنا ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ کی کشتی سے مل گئی۔ جب ہمارے کھانے کا وقت ہوا تو ہم نے انہیں بھی کھانے کے لیے بلایا، تو وہ تشریف لے آئے اور کہا: تم نے مجھے دعوت دی جبکہ میں روزے سے ہوں، اور تمہاری دعوت قبول کیے بغیر میرے لیے کوئی چارہ بھی نہیں، کیونکہ میں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے: مسلمان کے دوسرے مسلمان پر چھ حقوق واجب ہیں۔ اگر وہ ان میں سے کوئی چیز چھوڑ دے تو اس نے واجب حق چھوڑا ہے جو اس کے بھائی کا اس کے ذمے تھا۔ جب وہ اس سے ملے تو سلام کرے، جب وہ اسے دعوت دے تو اس کی دعوت قبول کرے، جب اسے چھینک آئے تو اس کی چھینک کا جواب دے، جب وہ بیمار ہوتو اس کی تیمار داری کرے، جب وہ فوت ہو جائے تو اس کے جنازے میں حاضر ہو اور جب وہ اس سے نصیحت طلب کرے تو اس کی خیر خواہی کرے۔ راوی کہتے ہیں کہ ہمارے ساتھ ایک نہایت مزاحیہ شخص تھا، اس نے ہمارے ساتھ کھانے والے ایک شخص سے کہا: جزاك الله خيرًا و برًا، چنانچہ جب اس نے زیادہ مزاح کیا تو وہ غصے ہو گیا۔ اس مزاحیہ شخص نے سیدنا ابوایوب رضی اللہ عنہ سے کہا: آپ دیکھتے ہیں کہ اس شخص کو جزاك الله خيرًا وبرًا کہتا ہوں تو یہ غصے ہو جاتا ہے اور برا بھلا کہتا ہے۔ سیدنا ابوایوب رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ہم کہتے ہیں کہ جسے بھلائی نہ سنوارے اسے برائی سنوار دیتی ہے، لہٰذا جملہ بدل دو، چنانچہ جب وہ آدمی اس کے پاس آیا تو اس نے کہا: جزاك الله شرًا وعرًا (اللہ تجھے برا اور تنگی کا بدلہ دے)، چنانچہ وہ ہنس پڑا اور راضی ہو گیا اور کہا: تم اپنا مذاق چھوڑنے والے نہیں ہو۔ اس آدمی نے کہا: الله ابوایوب انصاری کو جزائے خیر عطا فرمائے۔ [الادب المفرد/كِتَابُ الْعُطَاسَ والتثاؤب/حدیث: 922]
تخریج الحدیث: «ضعيف: أخرجه الحارث فى مسنده كما فى البغية: 910 و الطبراني فى الكبير: 4076»

قال الشيخ الألباني: ضعيف

حدیث نمبر: 923
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللهِ، قَالَ‏:‏ حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، قَالَ‏:‏ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْحَمِيدِ بْنُ جَعْفَرٍ قَالَ‏:‏ حَدَّثَنِي أَبِي، عَنْ حَكِيمِ بْنِ أَفْلَحَ، عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ‏:‏ ”أَرْبَعٌ لِلْمُسْلِمِ عَلَى الْمُسْلِمِ‏:‏ يَعُودُهُ إِذَا مَرِضَ، وَيَشْهَدُهُ إِذَا مَاتَ، وَيُجِيبُهُ إِذَا دَعَاهُ، وَيُشَمِّتُهُ إِذَا عَطَسَ‏.‏“
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مسلمان کے مسلمان پر چار حق ہیں: جب وہ بیمار ہو تو اس کی تیمار داری کرے، جب وہ فوت ہو جائے تو اس کے جنازے میں شریک ہو، جب وہ دعوت دے تو اس کی دعوت قبول کرے، اور جب اسے چھینک آئے تو اس کا جواب دے۔ [الادب المفرد/كِتَابُ الْعُطَاسَ والتثاؤب/حدیث: 923]
تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه ابن ماجه، كتاب الجنائز، باب ماجاء فى عيادة المريض: 1434 - أنظر الصحيحة: 2154»

قال الشيخ الألباني: صحيح

حدیث نمبر: 924
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلاَمٍ، قَالَ‏:‏ أَخْبَرَنَا أَبُو الأَحْوَصِ، عَنْ أَشْعَثَ، عَنْ مُعَاوِيَةَ بْنِ سُوَيْدٍ، عَنِ الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ قَالَ‏:‏ أَمَرَنَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِسَبْعٍ، وَنَهَانَا عَنْ سَبْعٍ‏:‏ أَمَرَنَا بِعِيَادَةِ الْمَرِيضِ، وَاتِّبَاعِ الْجَنَائِزِ، وَتَشْمِيتِ الْعَاطِسِ، وَإِبْرَارِ الْمُقْسِمِ، وَنَصْرِ الْمَظْلُومِ، وَإِفْشَاءِ السَّلاَمِ، وَإِجَابَةِ الدَّاعِي‏.‏ وَنَهَانَا عَنْ‏:‏ خَوَاتِيمِ الذَّهَبِ، وَعَنْ آنِيَةِ الْفِضَّةِ، وَعَنِ الْمَيَاثِرِ، وَالْقَسِّيَّةِ، وَالإِسْتَبْرَقِ، وَالدِّيبَاجِ، وَالْحَرِيرِ‏.‏
سیدنا براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں سات باتوں کا حکم دیا اور سات باتوں سے منع فرمایا۔ ہمیں مریض کی عیادت کرنے، جنازوں میں شرکت کرنے، چھینک والے کو جواب دینے، قسم دینے والے کی قسم پوری کرنے، مظلوم کی مدد کرنے، سلام عام کرنے، اور دعوت دینے والے کی دعوت کو قبول کرنے کا حکم دیا۔ اور ہمیں سونے کی انگوٹھیوں، چاندی کے برتنوں، سرخ ریشمی گدوں، قس (علاقہ) کے ریشمی کپڑے، استبرق (موٹے ریشم)، باریک ریشم اور خالص ریشم کے استعمال سے منع فرمایا۔ [الادب المفرد/كِتَابُ الْعُطَاسَ والتثاؤب/حدیث: 924]
تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه البخاري، كتاب الجنائز، باب الأمر باتباع الجنائز: 1239، 5175 و مسلم: 2066 و الترمذي: 2809 و النسائي: 1939»

قال الشيخ الألباني: صحيح

حدیث نمبر: 925
وَعَنْ إِسْمَاعِيلَ بْنِ جَعْفَرٍ، عَنِ الْعَلاَءِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ‏: ”حَقُّ الْمُسْلِمِ عَلَى الْمُسْلِمِ سِتٌّ“، قِيلَ‏:‏ مَا هِيَ يَا رَسُولَ اللهِ‏؟‏ قَالَ‏: ”إِذَا لَقِيتَهُ فَسَلِّمْ عَلَيْهِ، وَإِذَا دَعَاكَ فَأَجِبْهُ، وَإِذَا اسْتَنْصَحَكَ فَانْصَحْ لَهُ، وَإِذَا عَطَسَ فَحَمِدَ اللَّهَ فَشَمِّتْهُ، وَإِذَا مَرِضَ تَعُودُهُ، وَإِذَا مَاتَ فَاتَّبِعْهُ‏.‏“
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مسلمان کے دوسرے مسلمان پر چھ حق ہیں۔ عرض کیا گیا: اللہ کے رسول! کون کون سے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تم اس سے ملو تو اسے سلام کرو، جب وہ تمہیں دعوت دے تو اس کی دعوت قبول کرو، جب تم سے نصیحت طلب کرے تو اس کی خیر خواہی کرو، جب اسے چھینک آئے اور وہ الحمد للہ کہے تو اس کی چھینک کا جواب دو، جب وہ بیمار ہو جائے تو اس کی تیمار داری کرو اور جب مرجائے تو اس کا جنازہ پڑھو۔ [الادب المفرد/كِتَابُ الْعُطَاسَ والتثاؤب/حدیث: 925]
تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه مسلم، كتاب السلام، باب من حق المسلم للمسلم رد السلام: 2162 - الصحيحة: 1832»

قال الشيخ الألباني: صحيح

417. بَابُ مَنْ سَمِعَ الْعَطْسَةَ يَقُولُ: الْحَمْدُ لِلّٰهِ
417. جو چھینک سن کر الحمد للہ کہے
حدیث نمبر: 926
حَدَّثَنَا طَلْقُ بْنُ غَنَّامٍ، قَالَ‏:‏ حَدَّثَنَا شَيْبَانُ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ خَيْثَمَةَ، عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ‏:‏ مَنْ قَالَ عِنْدَ عَطْسَةٍ سَمِعَهَا‏:‏ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ عَلَى كُلِّ حَالٍ مَا كَانَ، لَمْ يَجِدْ وَجَعَ الضِّرْسِ وَلا الأُذُنٍ أَبَدًا‏.
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: جس نے چھینک سن کر کہا: ہر حال میں جیسا بھی ہے اللہ رب العالمین کا شکر ہے، تو اسے کبھی داڑھ اور کان کا درد نہیں ہوگا۔ [الادب المفرد/كِتَابُ الْعُطَاسَ والتثاؤب/حدیث: 926]
تخریج الحدیث: «ضعيف موقوفًا و روي مرفوعًا: أخرجه ابن أبى شيبة: 29811 و الطبراني فى الدعاء: 1988 و الحاكم: 459/4 - أنظر الضعيفة: 6139»

قال الشيخ الألباني: ضعيف موقوفًا و روي مرفوعًا

418. بَابُ كَيْفَ تَشْمِيتُ مَنْ سَمِعَ الْعَطْسَةَ
418. چھینک سننے والا کیسے جواب دے
حدیث نمبر: 927
حَدَّثَنَا مَالِكُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ، قَالَ‏:‏ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ أَبِي سَلَمَةَ، قَالَ‏:‏ أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللهِ بْنُ دِينَارٍ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ‏: ”إِذَا عَطَسَ أَحَدُكُمْ فَلْيَقُلِ‏:‏ الْحَمْدُ لِلَّهِ، فَإِذَا قَالَ‏:‏ الْحَمْدُ لِلَّهِ، فَلْيَقُلْ لَهُ أَخُوهُ أَوْ صَاحِبُهُ‏:‏ يَرْحَمُكَ اللَّهُ، وَلْيَقُلْ هُوَ‏:‏ يَهْدِيكُمُ اللَّهُ وَيُصْلِحُ بَالَكُمْ‏.“
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تم میں سے کسی کو چھینک آئے تو وہ الحمد للہ کہے، جب وہ الحمد للہ کہے تو اس کا بھائی یا ساتھی یرحمك الله کہے، اور جسے چھینک آئی وہ یہ کہے: يهديكم الله و يصلح بالكم (اللہ تعالیٰٰ تیری رہنمائی کرے اور تیری حالت درست کر دے)۔ [الادب المفرد/كِتَابُ الْعُطَاسَ والتثاؤب/حدیث: 927]
تخریج الحدیث: «صحيح: انظر الحديث، رقم: 921»

قال الشيخ الألباني: صحيح

حدیث نمبر: 928
حَدَّثَنَا عَاصِمٌ، قَالَ‏:‏ حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي ذِئْبٍ، عَنْ سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ‏:‏ ”إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْعُطَاسَ، وَيَكْرَهُ التَّثَاؤُبَ، وَإِذَا عَطَسَ أَحَدُكُمْ وَحَمِدَ اللَّهَ كَانَ حَقًّا عَلَى كُلِّ مُسْلِمٍ سَمِعَهُ أَنْ يَقُولَ‏:‏ يَرْحَمُكَ اللَّهُ‏.‏ فَأَمَّا التَّثَاؤُبُ فَإِنَّمَا هُوَ مِنَ الشَّيْطَانِ، فَإِذَا تَثَاءَبَ أَحَدُكُمْ فَلْيَرُدَّهُ مَا اسْتَطَاعَ، فَإِنَّ أَحَدَكُمْ إِذَا تَثَاءَبَ ضَحِكَ مِنْهُ الشَّيْطَانُ‏.‏“
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰٰ چھینک کو پسند کرتا ہے، اور جماہی کو نا پسند کرتا ہے۔ اور جب تم میں سے کسی کو چھینک آئے اور وہ اللہ کی تعریف کرے تو سننے والے ہر مسلمان پر حق ہے کہ وہ اسے یرحمك الله کہے۔ اور جہاں تک جماہی کا تعلق ہے تو وہ شیطان کی طرف سے ہے، لہٰذا جب تم میں سے کسی کو جماہی آئے تو وہ اسے ہر ممکن روکنے کی کوشش کرے۔ جب تم میں سے کسی کو جماہی آتی ہے تو شیطان اس سے ہنستا ہے۔ [الادب المفرد/كِتَابُ الْعُطَاسَ والتثاؤب/حدیث: 928]
تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه البخاري، كتاب الأدب: 6226 و أبوداؤد: 5028 و الترمذي: 2747»

قال الشيخ الألباني: صحيح


1    2    3    4    Next