سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰٰ چھینک کو پسند کرتا ہے، اور جماہی کو ناپسند کرتا ہے۔ جب کسی کو چھینک آئے اور وہ الحمد للہ کہے تو سننے والے ہر مسلمان پر حق ہے کہ اس کی چھینک کا جواب دے۔ اور جہاں تک جماہی کا تعلق ہے تو یہ خالصتاً شیطان کی طرف سے ہے۔ اس لیے اسے ہر ممکن روکنے کی کوشش کی جائے۔ جماہی آنے پر جب بندہ ”ہا“ کہتا ہے تو اس پر شیطان ہنستا ہے۔“[الادب المفرد/كِتَابُ الْعُطَاسَ والتثاؤب/حدیث: 919]
تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه البخاري، كتاب الأدب: 6223 و أبوداؤد: 5028 و الترمذي: 2747»
الشيخ الحديث مولانا عثمان منيب حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، الادب المفرد: 919
فوائد ومسائل: (۱)مسلمانوں کے باہمی حقوق میں یہ بات شامل ہے کہ جب کسی شخص کو چھینک آئے اور وہ زکام یا کسی بیماری کی وجہ سے نہ ہو اور چھینکنے والا الحمد للہ بھی کہے تو سننے والے پر فرض ہے کہ وہ یَرْحَمُکَ اللّٰہ کے ساتھ جواب دے اور جسے چھینک آئی ہے وہ پھر جواباً یَھْدِیکم اللّٰہُ وَیُصْلِحُ بَالَکُمْ کہے۔ (۲) جماہی سستی اور کاہلی کی علامت ہے جو اللہ تعالیٰ کو ناپسند ہے۔ اس لیے اسے ہر ممکن روکنے کی کوشش کرنی چاہیے اور ایک حدیث میں اس کا طریقہ یہ بتایا گیا ہے کہ منہ پر ہاتھ رکھ لیا جائے۔ نماز میں خصوصی طور پر اس کو روکنے کی بھر پور کوشش کرنی چاہیے۔ (۳) نماز میں کسی کو چھینک آئے تو وہ الحمد للہ کہہ سکتا ہے کیونکہ نماز تسبیح و تحمید ہی کا نام ہے، البتہ کسی کو چھینک کا جواب دینا درست نہیں کیونکہ یہ لوگوں کا کلام ہے جو نماز میں درست نہیں۔
فضل اللہ الاحد اردو شرح الادب المفرد، حدیث/صفحہ نمبر: 919