سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مجھے جبریل مسلسل پڑوسی کے متعلق تاکیدی حکم دیتے رہے حتی کہ مجھے خیال گزرا کہ وہ اسے (ہمسائے کو) ضرور وارث بنا دیں گے۔“[الادب المفرد/كِتَابُ الْجَارِ/حدیث: 101]
تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه البخاري، الأدب، باب الوصاة بالجار: 6014 و مسلم: 2625 و أبوداؤد: 5151 و الترمذي: 1942 و ابن ماجه: 3673 - الإرواء: 891»
سیدنا ابوشریح (خویلد بن عمرو) خزاعی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص الله تعالیٰ اور روز قیامت پر ایمان رکھتا ہے اسے چاہیے کہ اپنے ہمسائے سے حسن سلوک کرے۔ اور جو شخص اللہ تعالیٰ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہے اسے اپنے مہمان کی عزت کرنی چاہیے، نیز جو شخص اللہ تعالیٰ اور یوم آخرت پر یقین رکھتا ہے اسے چاہیے کہ اچھی بات کرے یا چپ رہے۔“[الادب المفرد/كِتَابُ الْجَارِ/حدیث: 102]
تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه البخاري، الرقاق، باب حفظ اللسان: 6476، 6019 و مسلم: 48 و أبوداؤد: 3748 و الترمذي: 1967 و ابن ماجه: 3672 - الإرواء: 2525»
سیدنا مقداد بن اسود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ سے زنا کی (شناعت کی) بابت پوچھا۔ انہوں نے کہا: حرام ہے، اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول نے حرام قرار دیا ہے۔ تب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کوئی آدمی اگر دس عورتوں سے زنا کرے اس کا اتنا گناہ نہیں جتنا اپنے ہمسائے کی کسی عورت سے بدکاری کا گناہ ہے۔“ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے چوری کی بابت دریافت کیا۔ انہوں نے کہا: چوری حرام ہے، اسے اللہ عزوجل اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے حرام قرار دیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کوئی آدمی دس گھروں سے چوری کرے اس کا وبال ہمسائے کے کسی ایک گھر سے چوری کرنے سے کم ہے (اور اس کا گناہ زیادہ ہے)۔“[الادب المفرد/كِتَابُ الْجَارِ/حدیث: 103]
تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه المصنف فى التاريخ الكبير: 54/8 و أحمد: 23854 و الطبراني فى الكبير: 256/20 و البزار فى مسند: 50/6 و البيهقي فى الشعب: 99/12 - الصحيحة: 65»
قال الشيخ الألباني: صحيح
57. بَابُ يَبْدَأُ بِالْجَارِ
57. (حسن سلوک کا عطیے میں) پڑوسی سے ابتدا کرنے کا بیان
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جبریل مجھے پڑوسی کے متعلق برابر وصیت کرتے رہے حتی کہ مجھے گمان گزرا کہ وہ اسے وارث قرار دے دیں گے۔“[الادب المفرد/كِتَابُ الْجَارِ/حدیث: 104]
تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه البخاري، الأدب، باب الوصاة بالجار: 6015 و مسلم: 2625 - الإرواء: 891»
سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ ان کے لیے ایک بکری ذبح کی گئی تو وہ اپنے غلام سے کہنے لگے: کیا تو نے ہمارے یہودی ہمسائے کو کچھ (گوشت) بھیجا ہے؟ کیا تو نے یہودی پڑوسی کو کچھ ہدیہ بھیجا ہے؟ (پھر کہنے لگے) میں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے: ”جبریل مجھے پڑوسی کے بارے میں برابر وصیت کرتے رہے حتی کہ مجھے خیال گزرا کہ عن قریب اسے وارث بنا دیں گے۔“[الادب المفرد/كِتَابُ الْجَارِ/حدیث: 105]
تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه أبوداؤد، الأدب، باب فى حق الجوار: 5152 و الترمذي: 1943 - الإرواء: 891»
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، وہ فرماتی ہیں کہ میں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو ارشاد فرماتے ہوئے سنا: ”جبریل مجھے ہمسایوں کے متعلق برابر وصیت کرتے رہے یہاں تک کہ مجھے خیال گزرا کہ وہ انہیں ضرور وارث قرار دے دیں گے۔“[الادب المفرد/كِتَابُ الْجَارِ/حدیث: 106]
تخریج الحدیث: «صحيح: انظر الحديث: 101»
قال الشيخ الألباني: صحيح
58. بَابُ يَهْدِي إِلَى أَقْرَبِهِمْ بَابًا
58. پڑوسیوں کو ہدیہ دینے میں قریبی دروازے والے کو ترجيح دینا
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! میرے دو پڑوسی ہیں، میں دونوں میں سے کس کی طرف ہدیہ بھیجا کروں؟ آپ نے فرمایا: ”جس کا دروازہ ان دونوں میں سے تمہارے (گھر کے) زیادہ قریب ہو۔“[الادب المفرد/كِتَابُ الْجَارِ/حدیث: 107]
تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه البخاري، الأدب، باب حق الجوار فى قرب الأبواب: 6020، 2259 و أبوداؤد: 5155 - المشكاة: 1936»
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے ایک دوسری سند سے روایت ہے کہ میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! میرے دو پڑوسی ہیں، میں ان میں سے کس کی طرف ہدیہ بھیجوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”دونوں میں سے جس کا درواز ہ تمہارے (دروازے کے) زیادہ قریب ہو (اسے پہلے بھیجو)۔“[الادب المفرد/كِتَابُ الْجَارِ/حدیث: 108]
تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه البخاري، كتاب الشفعة، باب أى الجوار أقرب: 2259، 6020»
قال الشيخ الألباني: صحيح
59. بَابُ الاَدْنَى فَالادْنَى مِنَ الْجِيرَانِ
59. پڑوسیوں کی قرب اور بُعد کے اعتبار سے درجہ بندی کا بیان
حسن بصری رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ ان سے ہمسائے کے متعلق پوچھا گیا تو انہوں نے فرمایا: ”چالیس گھر سامنے، چالیس گھر پیچھے، چالیس گھر دائیں جانب اور چالیس گھر بائیں جانب (سب) پڑوی ہیں۔“[الادب المفرد/كِتَابُ الْجَارِ/حدیث: 109]
علقمہ بن بجالہ نے کہا کہ میں نے سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کو فرماتے سنا ہے: (لینے دینے میں) قریب والے پڑوسی کو چھوڑ کر دور والے سے ابتدا نہ کی جائے، بلکہ دور والے کی بجائے پہلے قریبی سے (ہدبہ وغیرہ دینے میں) آغاز کیا جائے۔ [الادب المفرد/كِتَابُ الْجَارِ/حدیث: 110]
تخریج الحدیث: «ضعيف: أخرجه البخاري فى التاريخ الكبير: 42/7 و المروزي فى البر و الصلة: 216»