سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جبریل مجھے پڑوسی کے متعلق برابر وصیت کرتے رہے حتی کہ مجھے گمان گزرا کہ وہ اسے وارث قرار دے دیں گے۔“[الادب المفرد/كِتَابُ الْجَارِ/حدیث: 104]
تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه البخاري، الأدب، باب الوصاة بالجار: 6015 و مسلم: 2625 - الإرواء: 891»
الشيخ الحديث مولانا عثمان منيب حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، الادب المفرد: 104
فوائد ومسائل: (۱)یہ حدیث اس سے قبل سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے طریق سے گزر چکی ہے اس باب کے تحت لاکر امام بخاری رحمہ اللہ یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ جس طرح وارث غیر وارث سے حقوق میں مقدم ہے اسی طرح پڑوسی دیگر لوگوں کی نسبت حسن سلوک اور عطیے کا زیادہ مستحق ہے۔ (۲) دور حاضر میں مسلمانوں کی صورت حال یہ ہے کہ ان کے حسن سلوک اور عطیات کے مستحق سرمایہ دار ٹھہرتے ہیں خواہ وہ میلوں دور ہوں۔ لوگ ہدیہ اور عطیہ بھی اسے دیتے ہیں جس سے کچھ بلکہ اس سے بہتر ملنے کی امید ہو۔ غریب شخص کا کوئی دوست نہیں۔ اگر اسے کچھ دیا بھی جاتا ہے تو امید یہی رکھی جاتی ہے کہ یہ ساری زندگی ہمارا زرخرید غلام رہے۔ اس حدیث میں ہر قسم کے ہمسائے خواہ وہ غریب ہو یا امیر، کے ساتھ حسن سلوک کا حکم ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ کے باب سے تو یوں معلوم ہوتا ہے عطیہ وغیرہ دینے میں ہمسایوں کو رشتہ داروں سے بھی مقدم رکھنا چاہیے۔ (۳)”وارث قرار دے دیں گے“ یعنی ہمسایوں کی وراثت کے بارے میں حکم الٰہی لے کر نازل ہوں گے۔ (۴) مزید فوائد کے لیے دیکھیے، حدیث:۱۰۱۔
فضل اللہ الاحد اردو شرح الادب المفرد، حدیث/صفحہ نمبر: 104