سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! میرے دو پڑوسی ہیں، میں دونوں میں سے کس کی طرف ہدیہ بھیجا کروں؟ آپ نے فرمایا: ”جس کا دروازہ ان دونوں میں سے تمہارے (گھر کے) زیادہ قریب ہو۔“[الادب المفرد/كِتَابُ الْجَارِ/حدیث: 107]
تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه البخاري، الأدب، باب حق الجوار فى قرب الأبواب: 6020، 2259 و أبوداؤد: 5155 - المشكاة: 1936»
الشيخ الحديث مولانا عثمان منيب حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، الادب المفرد: 107
فوائد ومسائل: (۱)پڑوسیوں میں سے حسن سلوک کا وہ پڑوسی زیادہ مستحق ہے جو زیادہ قریب ہے جیسا کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد سے ظاہر ہے لیکن یہ ہدیے اور تحفے وغیرہ میں ہے، جہاں تک ضرورتوں کا معاملہ ہے تو اگر دور والا زیادہ ضرورت مند ہے تو اس کی ضرورت کا خیال رکھنا چاہیے۔ اس صورت میں یہ درست نہیں ہے کہ قریب والے پڑوسی کو بغیر ضرورت کے دیا جائے اور دور والے کو محروم کر دیا جائے۔ پھر اس حدیث کا یہ مطلب بھی نہیں کہ ہمیشہ قریب والے ہمسائے کو دیا جائے اور دور والے کو ہمیشہ نظر انداز کر دیا جائے بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر چیز ایک ہے اور ہمسائے زیادہ ہیں تو پھر جس کا دروازہ قریب ہے اس کو دیا جائے۔ (۲) ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے اتباع سنت کے جذبے کا علم بھی ہوتا ہے کہ وہ کس قدر ہر کام میں شریعت کا منشا معلوم کرتی تھیں تاکہ اللہ کا قرب حاصل ہو۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے فرمایا ہے کہ قریبی ہمسائے کو ہدیہ میں ترجیح دینے کی حکمت یہ بیان کی جاتی ہے کہ جو کچھ گھر میں آتا ہے وہ اسے دیکھتا ہے یا پھر اسے دور والے کی نسبت زیادہ اشتیاق ہوتا ہے کہ اسے کوئی ہدیہ وغیرہ دیا جائے یا پھر اس کی وجہ یہ ہے کہ ناگہانی واقعات میں یہ قریبی ہمسایہ سب سے پہلے پہنچتا ہے اس لیے اسے باقیوں سے مقدم کیا گیا ہے۔ (۳) اس روایت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اعلیٰ اور افضل عمل کو اختیار کرنا چاہیے صرف جواز ہی پر اکتفا نہیں کرلینا چاہیے۔ دور حاضر میں عمل کے میدان میں پیچھے رہنے کی وجہ یہ ہے کہ ہم کہتے ہیں جائز تو ہے! حالانکہ افضل کو اختیار کرنے میں خوبی ہے۔ نیز اس سے معلوم ہوا کہ عمل سے علم مقدم ہے جیسا کہ سیدنا عائشہ رضی اللہ عنہا نے پہلے علم حاصل کیا اور پھر اس کے مطابق عمل کیا۔
فضل اللہ الاحد اردو شرح الادب المفرد، حدیث/صفحہ نمبر: 107