وعن رافع بن خديج رضي الله عنه عن النبي صلى الله عليه وآله وسلم قال: «ما أنهر الدم وذكر اسم الله عليه فكل ليس السن والظفر أما السن فعظم وأما الظفر فمدى الحبشة» متفق عليه.
سیدنا رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا ہے کہ” جو چیز خون کو بہا دے اور اسے اللہ کا نام لے کر ذبح کیا گیا ہو تو اس جانور کو کھا لو۔ ذبح کرنے کا آلہ دانت اور ناخن نہیں کیونکہ دانت تو ہڈی ہے اور ناخن حبشیوں کی چھری ہے۔“(بخاری و مسلم)[بلوغ المرام/كتاب الأطعمة/حدیث: 1155]
تخریج الحدیث: «أخرجه البخاري، الذبائح، باب الستمية علي الذبيحة...، حديث:5498، ومسلم، الأضاحي، باب جواز الذبح بكل ما أنهر الدم إلا السن وسائر العظام، حديث:1968.»
حدیث نمبر: 1156
وعن جابر بن عبد الله رضي الله عنهما قال: نهى رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم أن يقتل شيء من الدواب صبرا. رواه مسلم.
سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی جانور کو باندھ کر قتل کرنے سے منع فرمایا ہے۔ (مسلم)[بلوغ المرام/كتاب الأطعمة/حدیث: 1156]
تخریج الحدیث: «أخرجه مسلم، الصيد والذبائح، باب النهي عن صبر البهائم، حديث:1959.»
حدیث نمبر: 1157
وعن شداد بن أوس رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم: «إن الله كتب الإحسان على كل شيء فإذا قتلتم فأحسنوا القتلة وإذا ذبحتم فأحسنوا الذبحة وليحد أحدكم شفرته وليرح ذبيحته» . رواه مسلم.
سیدنا شداد بن اوس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ” اللہ عزوجل نے ہر چیز پر احسان کرنا فرض قرار دیا ہے لہذا جب تم قتل کرو تو عمدہ و اچھے طریقے سے قتل کرو اور جب تم کسی جانور کو ذبح کرنے لگو تو احسن طریقہ سے ذبح کرو اور تم میں سے ہر کسی کو چاہیئے کہ اپنی چھری کو تیز کر لے اور اپنے ذبیحہ کو آرام پہنچائے۔“(مسلم)[بلوغ المرام/كتاب الأطعمة/حدیث: 1157]
تخریج الحدیث: «أخرجه مسلم، الصيد والذبائح، باب الأمر بإ حسان الذبح والقتل...، حديث:1955.»
حدیث نمبر: 1158
وعن أبي سعيد الخدري رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم: «ذكاة الجنين ذكاة أمه» رواه أحمد وصححه ابن حبان.
سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ” ماں کے ذبح کرنے سے اس کے پیٹ کا بچہ از خود ذبح ہو جاتا ہے۔“ اسے احمد نے روایت کیا ہے اور ابن حبان نے صحیح کہا ہے۔ [بلوغ المرام/كتاب الأطعمة/حدیث: 1158]
تخریج الحدیث: «أخرجه أحمد:3 /31، 39، 45، 53، وابن حبان (الموارد)، حديث:1077، وله شواهد عند أبي داود، الضحايا، حديث:2827، والحاكم:4 /114 وغيرهما.»
حدیث نمبر: 1159
وعن ابن عباس رضي الله عنهما أن النبي صلى الله عليه وآله وسلم قال: «المسلم يكفيه اسمه فإن نسي أن يسمي حين يذبح فليسم ثم ليأكل» أخرجه الدارقطني وفي إسناده محمد بن يزيد بن سنان وهو صدوق ضعيف الحفظ وأخرجه عبد الرزاق بأسناد صحيح إلى ابن عباس موقوفا عليه وله شاهد عند أبي داود في مراسيله بلفظ:«ذبيحة المسلم حلال ذكر اسم الله عليها أم لم يذكر» ورجاله موثقون.
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ” مسلم کیلئے اللہ تعالیٰ کا نام ہی کافی ہے۔ پس اگر ذبح کرتے وقت تکبیر ذبح بھول گیا ہو تو پھر «بسم الله» پڑھ کر کھا لے۔“ دارقطنی اس کی سند میں ایک ایسا راوی ہے جس کے حافظہ میں ضعف ہے اور اس کی سند میں محمد بن یزید بن سنان ہے وہ ہے تو صدوق مگر حافظہ اس کا بھی ضعیف و کمزور ہے اور عبدالرزاق نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے صحیح سند کے ساتھ نقل کیا ہے جو موقوف ہے اس کے شواہد ابوداؤد کی مراسیل میں موجود ہیں۔ ان الفاظ کے ساتھ کہ ” مسلم کا ذبیحہ حلال ہے۔ اس ذبیحہ پر اللہ کا نام لیا گیا ہو یا نہ لیا گیا ہو۔“ اس کے راوی سب کے سب ثقہ ہیں۔ [بلوغ المرام/كتاب الأطعمة/حدیث: 1159]
تخریج الحدیث: «أخرجه الدارقطني:4 /296، فيه محمد بن يزيد بن سنان، ضعفه الجمهور، وأثر ابن عباس: أخرجه عبدالرزاق في المصنف:4 /479، حديث:8538، وسنده صحيح، وحديث "ذبيحة المسلم حلال": أخرجه أبوداود في المراسيل، حديث:378 وسنده ضعيف مرسل، الصلت السدوسي مجهول الحال.»
3. باب الأضاحي
3. (احکام) قربانی کا بیان
حدیث نمبر: 1160
عن أنس بن مالك رضي الله عنه أن النبي صلى الله عليه وآله وسلم كان يضحي بكبشين أملحين أقرنين ويسمي ويكبر ويضع رجله على صفاحهما. وفي لفظ:"ذبحهما بيده" متفق عليه وفي لفظ:" سمينين". ولأبي عوانة في صحيحه" ثمينين" بالمثلثة بدل السين وفي لفظ لمسلم ويقول: «بسم الله والله أكبر» . وله من حديث عائشة رضي الله عنها: أمر بكبش أقرن يطأ في سواد ويبرك في سواد وينظر في سواد، فأتي به ليضحي به فقال لها: «يا عائشة هلمي المدية» ثم قال:«اشحذيها بحجر» ففعلت ثم أخذها وأخذه فأضجعه ثم قال: «بسم الله اللهم تقبل من محمد وآل محمد ومن أمة محمد» ثم ضحى به.
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم دو مینڈھے، چتکبرے، سینگوں والے قربانی کرتے تھے اور «بسم الله» پڑھتے اور تکبیر کہتے اور ان کے پہلوؤں پر اپنا پاؤں مبارک رکھتے تھے اور ایک روایت میں آیا ہے کہ ان دونوں کو اپنے دست مبارک سے ذبح کیا۔ (بخاری و مسلم) اور ایک روایت میں ہے کہ وہ خوب موٹے تازے تھے اور ابوعوانہ کی صحیح میں «سمينين» «سین» کی جگہ «ثاء» ہے۔ یعنی وہ قیمتی تھے اور مسلم کے الفاظ ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے «بسم الله والله أكبر» کہا۔ اور مسلم میں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ سینگوں والا مینڈھا ہو جس کے پاؤں کالے ہوں اور پیٹ کا حصہ بھی سیاہ ہو اور آنکھیں بھی سیاہ ہوں تاکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی قربانی کریں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ” عائشہ چھری تیز کرو۔“ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے چھری کو پکڑا اور مینڈھے کو پچھاڑا۔ پھر اے ذبح کیا اور فرمایا ” اللہ کے نام سے۔ اے اللہ! محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) اور آل محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) اور امت محمد (کی طرف) سے قبول فرما۔“[بلوغ المرام/كتاب الأطعمة/حدیث: 1160]
تخریج الحدیث: «أخرجه البخاري، الحج، باب من نحر هدية بيده، حديث:1712، حديث:5553، 5558 وغيره، وحديث عائشة: أخرجه مسلم، الأضاحي، حديث:1967.»
حدیث نمبر: 1161
وعن أبي هريرة رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم: «من كان له سعة ولم يضح فلا يقربن مصلانا» رواه أحمد وابن ماجه وصححه الحاكم لكن رجح الأئمة غيره وقفه.
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ” جس شخص میں قربانی کرنے کی طاقت ہو اور وہ قربانی نہ کرے تو وہ ہماری عید گاہ میں نہ آئے۔“ اسے احمد اور ابن ماجہ نے روایت کیا ہے اور حاکم نے اسے صحیح قرار دیا ہے اور دوسرے ائمہ نے اس حدیث کو موقوف قرار دیا ہے۔ [بلوغ المرام/كتاب الأطعمة/حدیث: 1161]
تخریج الحدیث: «أخرجه ابن ماجه، الأضاحي، باب الأضاحي واجبة هي أم لا؟، حديث:3123، وأحمد:2 /312، والحاكم:4 /232، وصححه، ووافقه الذهبي.»
حدیث نمبر: 1162
وعن جندب بن سفيان رضي الله عنه قال: شهدت الأضحى مع رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم، فلما قضى صلاته بالناس نظر إلى غنم قد ذبحت، فقال: من كان ذبح قبل الصلاة فليذبح شاة مكانها، ومن لم يكن ذبح فليذبح على اسم الله. متفق عليه.
سیدنا جندب سفیان رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں عید قربان میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھا، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کو نماز پڑھا چکے تو دیکھا کہ ایک بکری ذبح کی ہوئی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ” جس کسی نے نماز سے پہلے ہی اسے ذبح کر دیا ہے وہ اس کی جگہ دوسری بکری ذبح کرے اور جس نے ذبح نہیں کیا اسے «بسم الله» پڑھ کر ذبح کرنا چاہے۔“(بخاری، مسلم)[بلوغ المرام/كتاب الأطعمة/حدیث: 1162]
تخریج الحدیث: «أخرجه البخاري، الأضاحي، باب من ذبح قبل الصلاة أعاد، حديث:5562، ومسلم، الأضاحي، باب وقتها، حديث:1960.»
حدیث نمبر: 1163
وعن البراء بن عازب رضي الله عنه قال: قام فينا رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم فقال: «أربع لا تجوز في الضحايا: العوراء البين عورها والمريضة البين مرضها والعرجاء البين ظلعها والكبيرة التي لا تنقي» . رواه أحمد والأربعة وصححه الترمذي وابن حبان.
سیدنا براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے درمیان کھڑے تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ” چار قسم کے جانور قربانی میں جائز نہیں یک چشم جانور جس کا یک چشم ہونا بالکل صاف طور پر معلوم ہو اور وہ بیمار جانور جس کی بیماری واضح ہو اور لنگڑا جانور جس کا لنگڑا پن نمایاں (ظاہر) ہو اور وہ جانور جو نہایت ہی بوڑھا ہو گیا ہو جس کی ہڈیوں میں گودا نہ رہا ہو۔“ اسے احمد اور چاروں نے روایت کیا ہے ترمذی اور ابن حبان نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔ [بلوغ المرام/كتاب الأطعمة/حدیث: 1163]
تخریج الحدیث: «أخرجه أبوداود، الضحايا، باب ما يكره من الضحايا، حديث:2802، والترمذي، الأضاحي، حديث:1497، والنسائي، الضحايا، حديث:4374، وابن ماجه، الأضاحي، حديث:3144، وأحمد:4 /300، وابن حبان (الإحسان):7 /566، حديث:5891.»
حدیث نمبر: 1164
وعن جابر رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم: «لا تذبحوا إلا مسنة إلا أن يعسر عليكم فتذبحوا جذعة من الضأن» رواه مسلم.
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ” نہ ذبح کرو مگر دو دانتا (دوندا) لیکن مشکل اور دشواری پیش آ جائے تو عمدہ دنبہ جو چھ ماہ کا ہو ذبح کرو۔“(مسلم)[بلوغ المرام/كتاب الأطعمة/حدیث: 1164]
تخریج الحدیث: «أخرجه مسلم، الأضاحي، باب سن الأضحية، حديث:1963.»