الحمدللہ ! احادیث کتب الستہ آف لائن ایپ ریلیز کر دی گئی ہے۔    

1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:


بلوغ المرام
كتاب الأطعمة
کھانے کے مسائل
2. باب الصيد والذبائح
2. شکار اور ذبائح کا بیان
حدیث نمبر: 1159
وعن ابن عباس رضي الله عنهما أن النبي صلى الله عليه وآله وسلم قال: «‏‏‏‏المسلم يكفيه اسمه فإن نسي أن يسمي حين يذبح فليسم ثم ليأكل» ‏‏‏‏ أخرجه الدارقطني وفي إسناده محمد بن يزيد بن سنان وهو صدوق ضعيف الحفظ وأخرجه عبد الرزاق بأسناد صحيح إلى ابن عباس موقوفا عليه وله شاهد عند أبي داود في مراسيله بلفظ:«‏‏‏‏ذبيحة المسلم حلال ذكر اسم الله عليها أم لم يذكر» ‏‏‏‏ ورجاله موثقون.
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مسلم کیلئے اللہ تعالیٰ کا نام ہی کافی ہے۔ پس اگر ذبح کرتے وقت تکبیر ذبح بھول گیا ہو تو پھر «بسم الله» پڑھ کر کھا لے۔ دارقطنی اس کی سند میں ایک ایسا راوی ہے جس کے حافظہ میں ضعف ہے اور اس کی سند میں محمد بن یزید بن سنان ہے وہ ہے تو صدوق مگر حافظہ اس کا بھی ضعیف و کمزور ہے اور عبدالرزاق نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے صحیح سند کے ساتھ نقل کیا ہے جو موقوف ہے اس کے شواہد ابوداؤد کی مراسیل میں موجود ہیں۔ ان الفاظ کے ساتھ کہ مسلم کا ذبیحہ حلال ہے۔ اس ذبیحہ پر اللہ کا نام لیا گیا ہو یا نہ لیا گیا ہو۔ اس کے راوی سب کے سب ثقہ ہیں۔ [بلوغ المرام/كتاب الأطعمة/حدیث: 1159]
تخریج الحدیث: «أخرجه الدارقطني:4 /296، فيه محمد بن يزيد بن سنان، ضعفه الجمهور، وأثر ابن عباس: أخرجه عبدالرزاق في المصنف:4 /479، حديث:8538، وسنده صحيح، وحديث "ذبيحة المسلم حلال": أخرجه أبوداود في المراسيل، حديث:378 وسنده ضعيف مرسل، الصلت السدوسي مجهول الحال.»

بلوغ المرام کی حدیث نمبر 1159 کے فوائد و مسائل
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 1159  
تخریج:
«أخرجه الدارقطني:4 /296، فيه محمد بن يزيد بن سنان، ضعفه الجمهور، وأثر ابن عباس: أخرجه عبدالرزاق في المصنف:4 /479، حديث:8538، وسنده صحيح، وحديث "ذبيحة المسلم حلال": أخرجه أبوداود في المراسيل، حديث:378 وسنده ضعيف مرسل، الصلت السدوسي مجهول الحال.»
تشریح:
راویٔ حدیث:
«حضرت محمد بن یزید بن سنان رحمہ اللہ» ‏‏‏‏ تمیمی ‘ جزری‘ رہاوی ہیں۔
ان کی کنیت ابوعبداللہ ہے۔
امام ابوحاتم رحمہ اللہ نے کہا ہے کہ یہ آدمی تو صالح تھا مگر پختہ نہیں تھا۔
اور امام ابوداود نے کہا ہے کہ یہ کچھ بھی نہیں تھا۔
اور امام نسائی رحمہ اللہ نے کہا ہے:یہ قوی نہیں تھا۔
اور ابن حبان رحمہ اللہ نے اسے ثقات میں شمار کیا ہے۔
۲۲۰ہجری میں فوت ہوئے۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 1159