الحمدللہ ! احادیث کتب الستہ آف لائن ایپ ریلیز کر دی گئی ہے۔    


صحيح البخاري کل احادیث (7563)
حدیث نمبر سے تلاش:

صحيح البخاري
كِتَاب الشَّهَادَاتِ
کتاب: گواہوں کے متعلق مسائل کا بیان
6. بَابُ تَعْدِيلِ كَمْ يَجُوزُ؟
6. باب: کسی گواہ کو عادل ثابت کرنے کے لیے کتنے آدمیوں کی گواہی ضروری ہے؟
حدیث نمبر: 2642
حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ ثَابِتٍ، عَنْ أَنَسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ:" مُرَّ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِجَنَازَةٍ فَأَثْنَوْا عَلَيْهَا خَيْرًا، فَقَالَ: وَجَبَتْ، ثُمَّ مُرَّ بِأُخْرَى فَأَثْنَوْا عَلَيْهَا شَرًّا أَوْ قَالَ غَيْرَ ذَلِكَ، فَقَالَ: وَجَبَتْ، فَقِيلَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، قُلْتَ لِهَذَا وَجَبَتْ وَلِهَذَا وَجَبَتْ، قَالَ:" شَهَادَةُ الْقَوْمِ الْمُؤْمِنُونَ شُهَدَاءُ اللَّهِ فِي الْأَرْضِ".
ہم سے سلیمان بن حرب نے بیان کیا، کہا ہم سے حماد بن زید نے بیان کیا ثابت سے اور ان سے انس رضی اللہ عنہ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے ایک جنازہ گزرا تو لوگوں نے اس میت کی تعریف کی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا واجب ہو گئی پھر دوسرا جنازہ گزرا تو لوگوں نے اس کی برائی کی، یا اس کے سوا اور الفاظ (اسی مفہوم کو ادا کرنے کے لیے) کہے (راوی کو شبہ ہے) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر بھی فرمایا واجب ہو گئی عرض کیا گیا۔ یا رسول اللہ! آپ نے اس جنازہ کے متعلق بھی فرمایا کہ واجب ہو گئی اور پہلے جنازہ پر بھی یہی فرمایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ایمان والی قوم کی گواہی (بارگاہ الٰہی میں مقبول ہے) یہ لوگ زمین پر اللہ کے گواہ ہیں۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الشَّهَادَاتِ/حدیث: 2642]
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة

حدیث نمبر: 2643
حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ حَدَّثَنَا دَاوُدُ بْنُ أَبِي الْفُرَاتِ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ بُرَيْدَةَ، عَنْ أَبِي الْأَسْوَدِ، قَالَ: أَتَيْتُ الْمَدِينَةَ وَقَدْ وَقَعَ بِهَا مَرَضٌ وَهُمْ يَمُوتُونَ مَوْتًا ذَرِيعًا، فَجَلَسْتُ إِلَى عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، فَمَرَّتْ جَنَازَةٌ فَأُثْنِيَ خَيْرًا، فَقَالَ عُمَرُ: وَجَبَتْ، ثُمَّ مُرَّ بِأُخْرَى فَأُثْنِيَ خَيْرٌ، فَقَالَ: وَجَبَتْ، ثُمَّ مُرَّ بِالثَّالِثَةِ فَأُثْنِيَ شَرًّا، فَقَالَ: وَجَبَتْ، فَقُلْتُ: وَمَا وَجَبَتْ: أَتَيْتُ الْمَدِينَةَ، قَالَ: قُلْتُ كَمَا قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" أَيُّمَا مُسْلِمٍ شَهِدَ لَهُ أَرْبَعَةٌ بِخَيْرٍ أَدْخَلَهُ اللَّهُ الْجَنَّةَ، قُلْنَا: وَثَلَاثَةٌ، قَالَ: وَثَلَاثَةٌ، قُلْتُ: وَاثْنَانِ، قَالَ: وَاثْنَانِ، ثُمَّ لَمْ نَسْأَلْهُ عَنِ الْوَاحِدِ".
ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، کہا ہم سے داؤد بن ابی فرات نے بیان کیا، کہا ہم سے عبداللہ بن بریدہ نے بیان کیا ابی الاسود سے کہ میں مدینہ آیا تو یہاں وبا پھیلی ہوئی تھی، لوگ بڑی تیزی سے مر رہے تھے۔ میں عمر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں تھا کہ ایک جنازہ گزرا۔ لوگوں نے اس میت کی تعریف کی تو عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ واجب ہو گئی۔ پھر دوسرا گزار لوگوں نے اس کی بھی تعریف کی عمر رضی اللہ عنہ نے کہا واجب ہو گئی۔ پھر تیسرا گزرا تو لوگوں نے اس کی برائی کی، عمر رضی اللہ عنہ نے اس کے لیے یہی کہا کہ واجب ہو گئی۔ میں نے پوچھا امیرالمؤمنین! کیا واجب ہو گئی۔ انہوں نے کہا کہ میں نے اسی طرح کہا ہے جس طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ جس مسلمان کے لیے چار آدمی اچھائی کی گواہی دے دیں اسے اللہ تعالیٰ جنت میں داخل کرتا ہے۔ ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا اور اگر تین دیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تین پر بھی۔ ہم نے پوچھا اور اگر دو آدمی گواہی دیں؟ فرمایا دو پر بھی۔ پھر ہم نے ایک کے متعلق آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے نہیں پوچھا۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الشَّهَادَاتِ/حدیث: 2643]
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة

7. بَابُ الشَّهَادَةِ عَلَى الأَنْسَابِ وَالرَّضَاعِ الْمُسْتَفِيضِ وَالْمَوْتِ الْقَدِيمِ:
7. باب: نسب اور رضاعت میں جو مشہور ہو، اسی طرح پرانی موت پر گواہی کا بیان۔
حدیث نمبر: Q2644
وَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَرْضَعَتْنِي وَأَبَا سَلَمَةَ ثُوَيْبَةُ وَالتَّثَبُّتِ فِيهِ.
اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مجھے اور ابوسلمہ کو ثوبیہ (ابولہب کی باندی) نے دودھ پلایا تھا، اور رضاعت میں احتیاط کرنا۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الشَّهَادَاتِ/حدیث: Q2644]
حدیث نمبر: 2644
حَدَّثَنَا آدَمُ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، أَخْبَرَنَا الْحَكَمُ، عَنْ عِرَاكِ بْنِ مَالِكٍ، عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ:" اسْتَأْذَنَ عَلَيَّ أَفْلَحُ، فَلَمْ آذَنْ لَهُ، فَقَالَ: أَتَحْتَجِبِينَ مِنِّي وَأَنَا عَمُّكِ؟ فَقُلْتُ: وَكَيْفَ ذَلِكَ؟ قَالَ: أَرْضَعَتْكِ امْرَأَةُ أَخِي بِلَبَنِ أَخِي، فَقَالَتْ: سَأَلْتُ عَنْ ذَلِكَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: صَدَقَ أَفْلَحُ، ائْذَنِي لَهُ".
ہم سے آدم نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، کہا ہم کو حکم نے خبر دی، انہیں عراک بن مالک نے، انہیں عروہ بن زبیر نے اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ (پردہ کا حکم نازل ہونے کے بعد) افلح رضی اللہ عنہ نے مجھ سے (گھر میں آنے کی) اجازت چاہی تو میں نے ان کو اجازت نہیں دی۔ وہ بولے کہ آپ مجھ سے پردہ کرتی ہیں حالانکہ میں آپ کا (دودھ) کا چچا ہوں۔ میں نے کہا کہ یہ کیسے؟ تو انہوں نے بتایا کہ میرے بھائی (وائل) کی عورت نے آپ کو میرے بھائی کا ہی دودھ پلایا تھا۔ عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ پھر میں نے اس کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ افلح نے سچ کہا ہے۔ انہیں (اندر آنے کی) اجازت دے دیا کرو (ان سے پردہ نہیں ہے)۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الشَّهَادَاتِ/حدیث: 2644]
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة

حدیث نمبر: 2645
حَدَّثَنَا مُسْلِمُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا هَمَّامٌ، حَدَّثَنَا قَتَادَةُ، عَنْ جَابِرِ بْنِ زَيْدٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي بِنْتِ حَمْزَةَ:" لَا تَحِلُّ لِي يَحْرُمُ مِنِ الرَّضَاعِ مَا يَحْرُمُ مِنِ النَّسَبِ هِيَ بِنْتُ أَخِي مِنَ الرَّضَاعَةِ".
ہم سے مسلم بن ابراہیم نے بیان کیا، کہا ہم سے ہمام نے بیان کیا، کہا ہم سے قتادہ نے بیان کیا جابر بن زید سے اور ان سے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حمزہ رضی اللہ عنہ کی صاحبزادی کے متعلق فرمایا یہ میرے لیے حلال نہیں ہو سکتیں، جو رشتے نسب کی وجہ سے حرام ہو جاتے ہیں، وہی دودھ کی وجہ سے بھی حرام ہو جاتے ہیں۔ یہ تو میرے رضاعی بھائی کی لڑکی ہے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الشَّهَادَاتِ/حدیث: 2645]
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة

حدیث نمبر: 2646
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ، أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي بَكْرٍ، عَنْ عَمْرَةَ بِنْتِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، أَنَّ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا زَوْجَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَخْبَرَتْهَا، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ عِنْدَهَا، وَأَنَّهَا سَمِعَتْ صَوْتَ رَجُلٍ يَسْتَأْذِنُ فِي بَيْتِ حَفْصَةَ، قَالَتْ عَائِشَةُ: فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ، هَذَا رَجُلٌ يَسْتَأْذِنُ فِي بَيْتِكَ؟ قَالَتْ: فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أُرَاهُ فُلَانًا لِعَمِّ حَفْصَةَ مِنَ الرَّضَاعَةِ، فَقَالَتْ عَائِشَةُ: لَوْ كَانَ فُلَانٌ حَيًّا لِعَمِّهَا مِنَ الرَّضَاعَةِ دَخَلَ عَلَيَّ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: نَعَمْ،" إِنَّ الرَّضَاعَةَ تُحَرِّمُ مَا يَحْرُمُ مِنَ الْوِلَادَةِ".
ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم کو امام مالک نے خبر دی عبداللہ بن ابی بکر سے، وہ عمرہ بنت عبدالرحمٰن سے اور انہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ مطہرہ ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے خبر دی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے یہاں تشریف فرما تھے۔ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے ایک صحابی کی آواز سنی جو (ام المؤمنین) حفصہ رضی اللہ عنہا کے گھر میں آنے کی اجازت چاہتا تھا۔ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ میں نے کہا، یا رسول اللہ! میرا خیال ہے یہ حفصہ رضی اللہ عنہا کے رضاعی چچا ہیں۔ انہوں نے عرض کیا، یا رسول اللہ! یہ صحابی آپ کے گھر میں (جس میں حفصہ رضی اللہ عنہا رہتی ہیں) آنے کی اجازت مانگ رہے ہیں۔ انہوں نے بیان کیا کہ آپ نے فرمایا، میرا خیال ہے یہ فلاں صاحب، حفصہ کے رضاعی چچا ہیں۔ پھر عائشہ رضی اللہ عنہا نے بھی اپنے ایک رضاعی چچا کے متعلق پوچھا کہ اگر فلاں زندہ ہوتے تو کیا وہ بے حجاب میرے پاس آ سکتے تھے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں! دودھ سے بھی وہ تمام رشتے حرام ہو جاتے ہیں جو نسب کی وجہ سے حرام ہوتے ہیں۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الشَّهَادَاتِ/حدیث: 2646]
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة

حدیث نمبر: 2647
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ، أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ، عَنْ أَشْعَثَ بْنِ أَبِي الشَّعْثَاءِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ مَسْرُوقٍ، أَنَّ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ: دَخَلَ عَلَيَّ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَعِنْدِي رَجُلٌ، قَالَ: يَا عَائِشَةُ، مَنْ هَذَا؟ قُلْتُ: أَخِي مِنَ الرَّضَاعَةِ، قَالَ: يَا عَائِشَةُ،" انْظُرْنَ مَنْ إِخْوَانُكُنَّ، فَإِنَّمَا الرَّضَاعَةُ مِنَ الْمَجَاعَةِ". تَابَعَهُ ابْنُ مَهْدِيٍّ، عَنْ سُفْيَانَ.
ہم سے محمد بن کثیر نے بیان کیا، کہا ہم کو سفیان نے خبر دی، انہیں اشعث بن ابوشعثاء نے، انہیں ان کے والد نے، انہیں مسروق نے اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم (گھر میں) تشریف لائے تو میرے یہاں ایک صاحب (ان کے رضاعی بھائی) بیٹھے ہوئے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا، عائشہ! یہ کون ہے؟ میں نے عرض کیا کہ یہ میرا رضاعی بھائی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا عائشہ! ذرا دیکھ بھال کر لو، کون تمہارا رضاعی بھائی ہے۔ کیونکہ رضاعت وہی معتبر ہے جو کم سنی میں ہو۔ محمد بن کثیر کے ساتھ اس حدیث کو عبدالرحمٰن بن مہدی نے سفیان ثوری سے روایت کیا ہے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الشَّهَادَاتِ/حدیث: 2647]
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة

8. بَابُ شَهَادَةِ الْقَاذِفِ وَالسَّارِقِ وَالزَّانِي:
8. باب: زنا کی تہمت لگانے والے اور چور اور زانی کی گواہی کا بیان۔
حدیث نمبر: Q2648
وَقَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: وَلا تَقْبَلُوا لَهُمْ شَهَادَةً أَبَدًا وَأُولَئِكَ هُمُ الْفَاسِقُونَ {4} إِلا الَّذِينَ تَابُوا سورة النور آية 3-4، وَجَلَدَ عُمَرُ أَبَا بَكْرَةَ، وَشِبْلَ بْنَ مَعْبَدٍ، وَنَافِعًا بِقَذْفِ الْمُغِيرَةِ، ثُمَّ اسْتَتَابَهُمْ، وَقَالَ: مَنْ تَابَ قَبِلْتُ شَهَادَتَهُ، وَأَجَازَهُ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُتْبَةَ، وَعُمَرُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ، وَسَعِيدُ بْنُ جُبَيْرٍ، وَطَاوُسٌ، وَمُجَاهِدٌ، وَالشَّعْبِيُّ، وَعِكْرِمَةُ، وَالزُّهْرِيُّ، وَمُحَارِبُ بْنُ دِثَارٍ، وَشُرَيْحٌ، وَمُعَاوِيَةُ بْنُ قُرَّةَ، وَقَالَ أَبُو الزِّنَادِ: الْأَمْرُ عِنْدَنَا بِالْمَدِينَةِ، إِذَا رَجَعَ الْقَاذِفُ عَنْ قَوْلِهِ فَاسْتَغْفَرَ رَبَّهُ قُبِلَتْ شَهَادَتُهُ، وَقَالَ الشَّعْبِيُّ، وَقَتَادَةُ: إِذَا أَكْذَبَ نَفْسَهُ جُلِدَ وَقُبِلَتْ شَهَادَتُهُ، وَقَالَ الثَّوْرِيُّ: إِذَا جُلِدَ الْعَبْدُ، ثُمَّ أُعْتِقَ جَازَتْ شَهَادَتُهُ، وَإِنِ اسْتُقْضِيَ الْمَحْدُودُ فَقَضَايَاهُ جَائِزَةٌ، وَقَالَ بَعْضُ النَّاسِ: لَا تَجُوزُ شَهَادَةُ الْقَاذِفِ وَإِنْ تَابَ، ثُمّ قَالَ: لَا يَجُوزُ نِكَاحٌ بِغَيْرِ شَاهِدَيْنِ، فَإِنْ تَزَوَّجَ بِشَهَادَةِ مَحْدُودَيْنِ جَازَ، وَإِنْ تَزَوَّجَ بِشَهَادَةِ عَبْدَيْنِ لَمْ يَجُزْ، وَأَجَازَ شَهَادَةَ الْمَحْدُودِ وَالْعَبْدِ وَالْأَمَةِ لِرُؤْيَةِ هِلَالِ رَمَضَانَ، وَكَيْفَ تُعْرَفُ تَوْبَتُهُ وَقَدْ نَفَى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الزَّانِيَ سَنَةً، وَنَهَى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ كَلَامِ كَعْبِ بْنِ مَالِكٍ وَصَاحِبَيْهِ حَتَّى مَضَى خَمْسُونَ لَيْلَةً.
‏‏‏‏ اور اللہ تعالیٰ نے (سورۃ النور میں) فرمایا «ولا تقبلوا لهم شهادة أبدا وأولئك هم الفاسقون * إلا الذين تابوا‏» ایسے تہمت لگانے والوں کی گواہی کبھی نہ مانو، یہی لوگ تو بدکار ہیں، مگر جو توبہ کر لیں۔ تو عمر رضی اللہ عنہ نے ابوبکرہ، شبل بن معبد (ان کے ماں جائے بھائی) اور نافع بن حارث کو حد لگائی مغیرہ پر تہمت رکھنے کی وجہ سے۔ پھر ان سے توبہ کرائی اور کہا جو کوئی توبہ کر لے اس کی گواہی قبول ہو گی۔ اور عبداللہ بن عتبہ، عمر بن عبدالعزیز، سعید بن جبیر، طاؤس، مجاہد، شعبی، عکرمہ، زہری، محارب بن دثار، شریح اور معاویہ بن قرہ نے بھی توبہ کے بعد اس کی گواہی کو جائز رکھا ہے اور ابوالزناد نے کہا ہمارے نزدیک مدینہ طیبہ میں تو یہ حکم ہے جب «قاذف» اپنے قول سے پھر (مکر) جائے اور استغفار کرے تو اس کی گواہی قبول ہو گی اور شعبی اور قتادہ نے کہا جب وہ اپنے آپ کو جھٹلائے اور اس کو حد پڑ جائے تو اس کی گواہی قبول ہو گی۔ اور سفیان ثوری نے کہا جب غلام کو حد قذف لگ جائے پھر اس کے بعد وہ آزاد ہو جائے تو اس کی گواہی قبول ہو گی۔ اور جس کو حد قذف لگی ہو اگر وہ قاضی بنایا جائے تو اس کا فیصلہ نافذ ہو گا۔ اور بعض لوگ (امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ) کہتے ہیں قاذف کی گواہی قبول نہ ہو گی گو وہ توبہ کر لے۔ پھر یہ بھی کہتے ہیں کہ بغیر دو گواہوں کے نکاح درست نہیں ہوتا اور اگر حد قذف لگے ہوئے گواہوں کی گواہی سے نکاح کیا تو نکاح درست ہو گا۔ اگر دو غلاموں کی گواہی سے کیا تو درست نہ ہو گا اور ان ہی لوگوں نے حد قذف پڑے ہوئے لوگوں کی اور لونڈی غلام کی گواہی رمضان کے چاند کے لیے درست رکھی ہے۔ اور اس باب میں یہ بیان ہے کہ «قاذف» کی توبہ کیوں کر معلوم ہو گی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تو زانی کو ایک سال کے لیے جلا وطن کیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کعب بن مالک رضی اللہ عنہ اور ان کے دو ساتھیوں سے منع کر دیا کوئی بات نہ کرے۔ پچاس راتیں اسی طرح گزریں۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الشَّهَادَاتِ/حدیث: Q2648]
حدیث نمبر: 2648
حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ، قَالَ: حَدَّثَنِي ابْنُ وَهْبٍ، عَنْ يُونُسَ، وَقَالَ اللَّيْثُ: حَدَّثَنِي يُونُسُ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، أَخْبَرَنِي عُرْوَةُ بْنُ الزُّبَيْرِ،" أَنَّ امْرَأَةً سَرَقَتْ فِي غَزْوَةِ الْفَتْحِ، فَأُتِيَ بِهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ أَمَرَ بِهَا فَقُطِعَتْ يَدُهَا، قَالَتْ عَائِشَةُ: فَحَسُنَتْ تَوْبَتُهَا وَتَزَوَّجَتْ، وَكَانَتْ تَأْتِي بَعْدَ ذَلِكَ، فَأَرْفَعُ حَاجَتَهَا إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ".
ہم سے اسماعیل نے بیان کیا، کہا مجھ سے عبداللہ بن وہب نے بیان کیا اور ان سے یونس نے اور لیث نے بیان کیا کہ مجھ سے یونس نے بیان کیا اور ان سے ابن شہاب نے، انہیں عروہ بن زبیر نے خبر دی کہ ایک عورت نے فتح مکہ پر چوری کر لی تھی۔ پھر اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر کیا گیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کے مطابق اس کا ہاتھ کاٹ دیا گیا۔ عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ پھر انہوں نے اچھی طرح توبہ کر لی اور شادی کر لی۔ اس کے بعد وہ آتی تھیں تو میں ان کی ضرورت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کر دیا کرتی تھی۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الشَّهَادَاتِ/حدیث: 2648]
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة

حدیث نمبر: 2649
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ بُكَيْرٍ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ عُقَيْلٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ زَيْدِ بْنِ خَالِدٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،" أَنَّهُ أَمَرَ فِيمَنْ زَنَى، وَلَمْ يُحْصَنْ بِجَلْدِ مِائَةٍ، وَتَغْرِيبِ عَامٍ".
ہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا، کہا ہم سے لیث نے بیان کیا عقیل سے، وہ ابن شہاب سے، ان سے عبیداللہ بن عبداللہ نے اور ان سے زید بن خالد رضی اللہ عنہ نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان لوگوں کے لیے جو شادی شدہ نہ ہوں اور زنا کریں۔ یہ حکم دیا تھا کہ انہیں سو کوڑے لگائے جائیں اور ایک سال کے لیے جلا وطن کر دیا جائے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الشَّهَادَاتِ/حدیث: 2649]
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة


Previous    1    2    3    4    5    6    Next