محمد بن بشار نے مجھ سے بیان کیا وہ کہتے ہیں مجھ سے بیان کیا یحییٰ بن سعید نے، وہ کہتے ہیں: مجھ سے بیان کیا عکرمہ بن عمار نے اور عکرمہ نے ایاس بن سلمہ سے، ایاس نے اپنے باپ سلمہ سے اور سلمہ رضی الله عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی جیسی حدیث روایت کی، مگر اس روایت میں یہ ہے کہ آپ نے اس آدمی کے تیسری بار چھینکنے پر فرمایا: ”تمہیں تو زکام ہو گیا ہے“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ ابن مبارک کی حدیث سے زیادہ صحیح ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب الأدب عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 2743M]
اور شعبہ نے اس حدیث کو عکرمہ بن عمار سے یحییٰ بن سعید کی روایت کی طرح روایت کیا ہے۔ بیان کیا اسے ہم سے احمد بن حکم بصریٰ نے، انہوں نے کہا: بیان کیا ہم سے محمد بن بشار نے، وہ کہتے ہیں: بیان کیا ہم سے شعبہ نے اور شعبہ نے عکرمہ بن عمار سے اسی طرح روایت کی ہے۔ اور عبدالرحمٰن بن مہدی نے عکرمہ بن عمار سے ابن مبارک کی روایت کی طرح روایت کی ہے۔ اس روایت میں ہے کہ آپ نے اس سے تیسری بار چھینکنے پر فرمایا: ”تمہیں زکام ہو گیا ہے“۔ اسے بیان کیا مجھ سے اسحاق بن منصور نے، وہ کہتے ہیں: بیان کیا مجھ سے عبدالرحمٰن بن مہدی نے ۲؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الأدب عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 2743M]
عبید بن رفاعہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”چھینکنے والے کی چھینک کا جواب تین بار دیا جائے گا، اور اگر تین بار سے زیادہ چھینکیں آئیں تو تمہیں اختیار ہے جی چاہے تو جواب دو اور جی چاہے تو نہ دو“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث غریب ہے اور اس کی سند مجہول ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب الأدب عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 2744]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «سنن ابی داود/ الأدب 100 (5036) (تحفة الأشراف: 9746) (ضعیف) (سند میں ”یزید بن عبد الرحمن ابو خالدالدالانی“ بہت غلطیاں کر جاتے تھے، اور ”عمر بن اسحاق بن ابی طلحہ“ اور ان کی ماں ”حمیدہ یا عبیدہ“ دونوں مجہول ہیں)»
قال الشيخ الألباني: ضعيف، الضعيفة (4830) // ضعيف الجامع الصغير (3407) ، ضعيف أبي داود (1068 / 5036) //
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو جب چھینک آتی تھی تو اپنے ہاتھ سے یا اپنے کپڑے سے منہ ڈھانپ لیتے، اور اپنی آواز کو دھیمی کرتے ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب الأدب عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 2745]
ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”چھینکنا اللہ کی جانب سے ہے اور جمائی شیطان کی جانب سے ہے۔ جب کسی کو جمائی آئے تو اسے چاہیئے کہ جمائی آتے وقت اپنا ہاتھ منہ پر رکھ لے، اور جب جمائی لینے والا آہ، آہ کرتا ہے تو شیطان جمائی لینے والے کے پیٹ میں گھس کر ہنستا ہے۔ اور بیشک اللہ چھینک کو پسند کرتا ہے اور جمائی لینے کو ناپسند کرتا ہے۔ تو (جان لو) کہ آدمی جب جمائی کے وقت آہ آہ کی آواز نکالتا ہے تو اس وقت شیطان اس کے پیٹ کے اندر گھس کر ہنستا ہے“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب الأدب عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 2746]
ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ چھینک کو پسند کرتا ہے اور جمائی کو ناپسند، پس جب تم میں سے کسی کو چھینک آئے اور وہ «الحمد للہ» کہے تو ہر مسلمان کے لیے جو اسے سنے «یرحمک اللہ» کہنا ضروری ہے۔ اب رہی جمائی کی بات تو جس کسی کو جمائی آئے، اسے چاہیئے کہ وہ اپنی طاقت بھر اسے روکے اور ہاہ ہاہ نہ کہے، کیونکہ یہ شیطان کی طرف سے ہے، اور شیطان اس سے ہنستا ہے“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث صحیح ہے، ۲- اور یہ ابن عجلان کی (اوپر مذکور) روایت سے زیادہ صحیح ہے، ۳- ابن ابی ذئب: سعید مقبری کی حدیث کو زیادہ یاد رکھنے والے (احفظ) اور محمد بن عجلان سے زیادہ قوی (اثبت) ہیں، ۴- میں نے ابوبکر عطار بصریٰ سے سنا ہے وہ روایت کرتے ہیں: علی بن مدینی کے واسطہ سے یحییٰ بن سعید سے اور یحییٰ بن سعید کہتے ہیں: محمد بن عجلان کہتے ہیں: سعید مقبری کی احادیث کا معاملہ یہ ہے کہ سعید نے بعض حدیثیں (بلاواسطہ) ابوہریرہ سے روایت کی ہیں۔ اور بعض حدیثیں بواسطہ ایک شخص کے ابوہریرہ سے روایت کی گئی ہیں۔ تو وہ سب میرے ذہن میں گڈمڈ ہو گئیں۔ مجھے یاد نہیں رہا کہ بلاواسطہ کون تھیں اور بواسطہ کون؟ تو میں نے سبھی روایتوں کو سعید کے واسطہ سے ابوہریرہ سے روایت کر دی ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب الأدب عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 2747]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «صحیح البخاری/بدء الخلق 11 (3289)، والأدب 125 (6223)، و 26 (6262)، صحیح مسلم/الزہد 9 (2995)، سنن ابی داود/ الأدب 97 (5028) (تحفة الأشراف: 14322)، و مسند احمد (2/265، 428، 517) وانظر ما تقدم برقم 370 (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح، الإرواء (776)
8. باب مَا جَاءَ إِنَّ الْعُطَاسَ فِي الصَّلاَةِ مِنَ الشَّيْطَانِ
ثابت کے باپ روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نماز میں چھینک، اونگھ، جمائی، حیض، قے اور نکسیر شیطان کی طرف سے ہوتا ہے“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن غریب ہے، ۲- ہم اسے صرف شریک کی روایت جانتے ہیں جسے وہ ابوالیقظان سے روایت کرتے ہیں، ۳- میں نے محمد بن اسماعیل بخاری سے اس روایت «عن عدی بن ثابت عن ابیہ عن جدہ» کے تعلق سے پوچھا کہ عدی کے دادا کا کیا نام ہے؟ تو انہوں نے کہا کہ میں نہیں جانتا، لیکن یحییٰ بن معین سے پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ ان کا نام دینار ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب الأدب عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 2748]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «سنن ابن ماجہ/الإقامة 42 (969) (تحفة الأشراف: 3543) (ضعیف) (سند میں ”ثابت انصاری“ مجہول، اور ”ابوالیقظان“ ضعیف ہیں)»
قال الشيخ الألباني: ضعيف، المشكاة (999) // ضعيف الجامع الصغير (3865) //
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کوئی شخص اپنے بھائی کو اس کے بیٹھنے کی جگہ سے اٹھا کر خود اس کی جگہ نہ بیٹھ جائے“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب الأدب عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 2749]
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم میں سے کوئی شخص اپنے بھائی کو اس کی جگہ سے اٹھا کر خود اس جگہ نہ بیٹھ جائے“۔ راوی سالم کہتے ہیں: ابن عمر رضی الله عنہما کے احترام میں آدمی ان کے آنے پر اپنی جگہ سے اٹھ کر کھڑا ہو جاتا تھا لیکن وہ (اس ممانعت کی وجہ سے) اس کی جگہ نہیں بیٹھتے تھے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث صحیح ہے۔ اور پھر واپس آئے تو وہ اپنی جگہ پر بیٹھنے کا زیادہ مستحق ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب الأدب عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 2750]
وہب بن حذیفہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”آدمی اپنے بیٹھنے کی جگہ کا زیادہ مستحق ہے، اگر وہ کسی ضرورت سے اٹھ کر جائے اور پھر واپس آئے تو وہی اپنی جگہ پر بیٹھنے کا زیادہ حق رکھتا ہے“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے، ۲- اس باب میں ابوبکرہ، ابو سعید خدری اور ابوہریرہ رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب الأدب عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 2751]