ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جنتی بغیر بال کے، امرد اور سرمگیں آنکھوں والے ہوں گے، نہ ان کی جوانی ختم ہو گی اور نہ ان کے کپڑے بوسیدہ ہوں گے“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب صفة الجنة عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 2539]
ابو سعید خدری رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کے قول «وفرش مرفوعة»(الواقعۃ: ۳۴) کی تفسیر میں فرماتے ہیں: ”جنت کے فرش کی بلندی اتنی ہو گی جتنا زمین و آسمان کے درمیان فاصلہ ہے۔ یعنی پانچ سو سال کی مسافت“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث غریب ہے، ہم اسے صرف رشدین بن سعد کی روایت سے جانتے ہیں، ۲- بعض اہل علم نے اس حدیث کی تفسیر کے بارے میں کہا ہے: اس کا مفہوم یہ ہے کہ فرش جنت کے درجات میں ہوں گے، اور ان درجات کے درمیان اتنا فاصلہ ہے جتنا آسمان اور زمین کے درمیان ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب صفة الجنة عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 2540]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 4057) (ضعیف) (سند میں دراج ابو السمح اور رشدین بن سعد ضعیف راوی ہیں)»
قال الشيخ الألباني: ضعيف، المشكاة (5634)
9. باب مَا جَاءَ فِي صِفَةِ ثِمَارِ أَهْلِ الْجَنَّةِ
اسماء بنت ابوبکر رضی الله عنہما کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا، اس وقت آپ کے سامنے سدرۃ المنتہیٰ کا ذکر آیا تھا۔ آپ نے فرمایا: ”اس کی شاخوں کے سائے میں سوار سو سال تک چلے گا، یا اس کے سائے میں سو سوار رہیں گے، (یہ شک حدیث کے راوی یحییٰ کی طرف سے ہے۔) اس پر سونے کے بسترے ہیں اور اس کے پھل مٹکے جیسے (بڑے) ہیں“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب صفة الجنة عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 2541]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 15716) (ضعیف) (سند میں محمد بن اسحاق مدلس ہیں اور روایت عنعنہ سے ہے، اور یونس بن بکیر روایت میں غلطیاں کر جایا کرتے تھے)»
قال الشيخ الألباني: ضعيف، المشكاة (5640 / التحقيق الثاني) ، التعليق الرغيب (4 / 256)
انس بن مالک رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا: کوثر کیا ہے؟ آپ نے فرمایا: ”وہ ایک نہر ہے اللہ نے ہمیں جنت کے اندر دی ہے، یہ دودھ سے زیادہ سفید اور شہد سے زیادہ میٹھی ہے، اس میں ایسے پرندے ہیں جن کی گردنیں اونٹ کی گردنوں کی طرح ہیں“، عمر رضی الله عنہ نے کہا: وہ تو واقعی نعمت میں ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”انہیں کھانے والے ان سے زیادہ نعمت میں ہیں“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن غریب ہے، ۲- محمد بن عبداللہ بن مسلم، یہ ابن شہاب زہری کے بھتیجے ہیں، ۳- عبداللہ بن مسلم نے ابن عمر اور انس بن مالک رضی الله عنہم سے حدیثیں روایت کی ہیں۔ [سنن ترمذي/كتاب صفة الجنة عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 2542]
بریدہ رضی الله عنہ روایت کرتے ہیں کہ ایک آدمی نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھتے ہوئے عرض کیا: اللہ کے رسول! کیا جنت میں گھوڑے ہیں؟ آپ نے فرمایا: ”اگر اللہ نے تم کو جنت میں داخل کیا تو تمہاری خواہش کے مطابق تمہیں سرخ یاقوت کے گھوڑے پر سوار کیا جائے گا، تم جہاں چاہو گے وہ تمہیں جنت میں لے کر اڑے گا“، آپ سے ایک شخص نے پوچھا: اللہ کے رسول! کیا جنت میں اونٹ ہیں؟ بریدہ کہتے ہیں: آپ نے اس کو پہلے آدمی کی طرح جواب نہیں دیا۔ آپ نے فرمایا: ”اگر اللہ نے تمہیں جنت میں داخل کیا تو اس میں تمہارے لیے ہر وہ چیز موجود ہو گی جس کی تم چاہت کرو گے اور جس سے تمہاری آنکھیں لطف اٹھائیں گی“۔ [سنن ترمذي/كتاب صفة الجنة عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 2543]
اس سند سے عبدالرحمٰن بن سابط کے واسطہ سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی جیسی اسی معنی کی حدیث مروی ہے، اور یہ مسعودی کی حدیث سے زیادہ صحیح ہے، (کیونکہ اس کا مرفوع متصل ہونا صحیح نہیں ہے)[سنن ترمذي/كتاب صفة الجنة عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 2543M]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «* تخريج (م): انظر ماقبلہ (حسن) (تراجع الالبانی 245، الصحیحہ 3001، صحیح الترغیب 3756، و 3757)»
قال الشيخ الألباني: ضعيف، المشكاة (5642) ، الضعيفة (1980)
ابوایوب رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک اعرابی نے آ کر عرض کیا: اللہ کے رسول! مجھے گھوڑا پسند ہے، کیا جنت میں گھوڑے ہیں؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر تم جنت میں داخل کئے گئے تو تمہیں یاقوت کا گھوڑا دیا جائے گا، اس کے دو پر ہوں گے تم اس پر سوار کئے جاؤ گے پھر جہاں چاہو گے وہ تمہیں لے کر اڑے گا“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- اس حدیث کی سند زیادہ قوی نہیں ہے۔ ہم اسے ابوایوب کی روایت سے صرف اسی سند سے جانتے ہیں، ۲- ابوسورۃ، ابوایوب کے بھتیجے ہیں۔ یہ حدیث بیان کرنے میں ضعیف ہیں۔ انہیں یحییٰ بن معین نے بہت زیادہ ضعیف قرار دیا ہے، ۳- میں نے محمد بن اسماعیل بخاری کو کہتے ہوئے سنا: ابوسورۃ منکر حدیث ہیں، یہ ابوایوب رضی الله عنہ سے ایسی کئی منکر احادیث روایت کرتے ہیں، جن کی متابعت نہیں کی گئی ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب صفة الجنة عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 2544]
معاذ بن جبل رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جنتی جنت میں اس حال میں داخل ہوں گے کہ ان کے جسم پر بال نہیں ہوں گے، وہ امرد ہوں گے، سرمگیں آنکھوں والے ہوں گے اور تیس یا تینتیس سال کے ہوں گے“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن غریب ہے، ۲- قتادہ کے بعض شاگردوں نے اسے قتادہ سے مرسلا روایت کیا ہے۔ اور اسے مسند نہیں کیا ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب صفة الجنة عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 2545]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 11336)، و مسند احمد (5/232، 240، 243)، وانظر أیضا حدیث رقم 2539 (حسن) (سند میں کئی علتیں ہیں، لیکن شواہد کی بنا پر یہ حدیث حسن ہے)»
بریدہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جنتیوں کی ایک سو بیس صفیں ہوں گی جس میں سے اسّی صفیں اس امت کی اور چالیس دوسری امتوں کی ہو گی“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن ہے، ۲- یہ حدیث «عن علقمة بن مرثد عن سليمان بن بريدة عن النبي صلى الله عليه وسلم» کی سند سے مرسلاً مروی ہے، ۳- بعض لوگوں نے سند یوں بیان کی ہے: «عن سليمان بن بريدة عن أبيه»، ۴- ابوسنان کی حدیث جو محارب بن دثار کے واسطہ سے مروی ہے، حسن ہے، ۵- ابوسنان کا نام ضرار بن مرۃ ہے اور ابوسنان شیبانی کا نام سعید بن سنان ہے، یہ بصریٰ ہیں، ۶ - اور ابوسنان شامی کا نام عیسیٰ بن سنان ہے، اور یہ قسم لی ہیں۔ [سنن ترمذي/كتاب صفة الجنة عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 2546]
عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ایک خیمہ میں ہم تقریباً چالیس آدمی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے، آپ نے ہم سے فرمایا: ”کیا تم اس بات سے خوش ہو کہ تم جنتیوں کی چوتھائی رہو؟“ لوگوں نے کہا: جی ہاں، آپ نے فرمایا: ”کیا تم اس بات سے خوش ہو کہ تم جنتیوں کی تہائی رہو؟“ لوگوں نے کہا: جی ہاں، آپ نے فرمایا: ”کیا تم اس بات سے خوش ہو کہ تم جنتیوں کے آدھا رہو؟ جنت میں صرف مسلمان ہی جائے گا اور مشرکین کے مقابلے میں تمہاری مثال ایسی ہے جیسے کالے بیل کے چمڑے پر سفید بال یا سرخ بیل کے چمڑے پر کالا بال“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں عمران بن حصین اور ابو سعید خدری رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔ [سنن ترمذي/كتاب صفة الجنة عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 2547]