اس سند سے بھی قتیبہ سے یہ حدیث یعنی معاذ رضی الله عنہ کی حدیث مروی ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- معاذ رضی الله عنہ کی حدیث حسن غریب ہے، ۲- قتیبہ اسے روایت کرنے میں منفرد ہیں ہم ان کے علاوہ کسی کو نہیں جانتے جس نے اسے لیث سے روایت کیا ہو، ۳- لیث کی حدیث جسے انہوں نے یزید بن ابی حبیب سے، اور یزید نے ابوالطفیل سے اور ابوالطفیل نے معاذ سے روایت کی ہے غریب ہے، ۴- اہل علم کے نزدیک معروف معاذ کی (وہ) حدیث ہے جسے ابو الزبیر نے ابوالطفیل سے اور ابوالطفیل نے معاذ سے روایت کی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوہ تبوک میں ظہر اور عصر کو ایک ساتھ اور مغرب و عشاء کو ایک ساتھ جمع کیا ۱؎، ۵- اسے قرہ بن خالد، سفیان ثوری، مالک اور دیگر کئی لوگوں نے بھی ابوالزبیر مکی سے روایت کیا ہے، ۶- اور اسی حدیث کے مطابق شافعی کا بھی قول ہے، احمد اور اسحاق بن راہویہ کہتے ہیں کہ سفر میں دو صلاۃ کو کسی ایک کے وقت میں ملا کر ایک ساتھ پڑھ لینے میں کوئی حرج نہیں۔ [سنن ترمذي/أبواب السفر/حدیث: 554]
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ انہیں ان کی ایک بیوی ۱؎ کے حالت نزع میں ہونے کی خبر دی گئی تو انہیں چلنے کی جلدی ہوئی چنانچہ انہوں نے مغرب کو مؤخر کیا یہاں تک کہ شفق غائب ہو گئی، وہ سواری سے اتر کر مغرب اور عشاء دونوں کو ایک ساتھ جمع کیا، پھر لوگوں کو بتایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جب چلنے کی جلدی ہوتی تو آپ ایسا ہی کرتے تھے ۲؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ لیث کی حدیث (رقم ۵۵۴) جسے انہوں نے یزید بن ابی حبیب سے روایت کی ہے حسن صحیح ہے۔ [سنن ترمذي/أبواب السفر/حدیث: 555]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «صحیح البخاری/تقصیر الصلاة 6 (1091)، والعمرة 20 (1805)، والجہاد 136 (3000)، صحیح مسلم/المسافرین 5 (703)، سنن ابی داود/ الصلاة 274 (1207)، سنن النسائی/المواقیت 43 (589)، و45 (592، 596، 597)، (تحفة الأشراف: 8056)، موطا امام مالک/قصر الصلاة 1 (3)، مسند احمد (2/804) (صحیح)»
عباد بن تمیم کے چچا عبداللہ بن زید بن عاصم مازنی رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بارش طلب کرنے کے لیے لوگوں کو ساتھ لے کر باہر نکلے، آپ نے انہیں دو رکعت نماز پڑھائی، جس میں آپ نے بلند آواز سے قرأت کی، اپنی چادر پلٹی، اپنے دونوں ہاتھ اٹھائے اور قبلہ رخ ہو کر بارش کے لیے دعا کی۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- عبداللہ بن زید رضی الله عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں ابن عباس، ابوہریرہ، انس اور آبی اللحم رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۳- اہل علم کا اسی پر عمل ہے، اور اسی کے شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ بھی قائل ہیں۔ [سنن ترمذي/أبواب السفر/حدیث: 556]
آبی اللحم رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو احجارزیت ۱؎ کے پاس اللہ تعالیٰ سے بارش طلب کرتے ہوئے دیکھا۔ آپ اپنی دونوں ہتھیلیاں اٹھائے دعا فرما رہے تھے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- قتیبہ نے اس حدیث کی سند میں اسی طرح «عن آبی اللحم» کہا ہے اور ہم اس حدیث کے علاوہ ان کی کوئی اور حدیث نہیں جانتے جسے انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی ہو ۲- عمیر، آبی اللحم رضی الله عنہ کے مولیٰ ہیں، انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے کئی احادیث روایت کی ہیں۔ اور انہیں خود بھی شرف صحابیت حاصل ہے۔ [سنن ترمذي/أبواب السفر/حدیث: 557]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «سنن النسائی/الاستسقاء 9 (1515)، (وہو عند أبي داود في الصلاة 260 (1168)، واحمد (5/223) من حدیث عمیر نفسہ/التحفة: 10900) (تحفة الأشراف: 5) (صحیح)»
اسحاق بن عبداللہ بن کنانہ کہتے ہیں کہ مجھے ولید بن عقبہ نے ابن عباس رضی الله عنہما کے پاس بھیجا (ولید مدینے کے امیر تھے) تاکہ میں ان سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے استسقاء کے بارے میں پوچھوں، تو میں ان کے پاس آیا (اور میں نے ان سے پوچھا) تو انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پھٹے پرانے لباس میں عاجزی کرتے ہوئے نکلے، یہاں تک کہ عید گاہ آئے، اور آپ نے تمہارے اس خطبہ کی طرح خطبہ نہیں دیا بلکہ آپ برابر دعا کرنے، گڑگڑانے اور اللہ کی بڑائی بیان کرنے میں لگے رہے، اور آپ نے دو رکعتیں پڑھیں جیسا کہ آپ عید میں پڑھتے تھے ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ [سنن ترمذي/أبواب السفر/حدیث: 558]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «سنن ابی داود/ الصلاة 258 (1165)، سنن النسائی/الاستسقاء 3 (1507)، سنن ابن ماجہ/الإقامة 153 (1166)، (تحفة الأشراف: 5359)، مسند احمد (1/230، 269، 355) (حسن)»
اسحاق بن عبداللہ بن کنانہ سے روایت ہے، آگے انہوں نے اسی طرح ذکر کیا البتہ اس میں انہوں نے لفظ «منخشعاً» کا اضافہ کیا ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اور یہی شافعی کا قول ہے، وہ کہتے ہیں کہ نماز استسقاء عیدین کی نماز کی طرح پڑھی جائے گی۔ پہلی رکعت میں سات تکبیریں اور دوسری میں پانچ، اور انہوں نے ابن عباس کی حدیث سے استدلال کیا ہے، ۳- مالک بن انس سے مروی ہے وہ کہتے ہیں کہ استسقاء میں عیدین کی نماز کی تکبیروں کی طرح تکبیریں نہیں کہے گا، ۴- ابوحنیفہ نعمان کہتے ہیں کہ استسقاء کی کوئی نماز نہیں پڑھی جائے گی اور نہ میں انہیں چادر پلٹنے ہی کا حکم دیتا ہوں، بلکہ سارے لوگ ایک ساتھ دعا کریں گے اور لوٹ آئیں گے، ۵- ان کا یہ قول سنت کے مخالف ہے۔ [سنن ترمذي/أبواب السفر/حدیث: 559]
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سورج گرہن کی نماز پڑھی تو آپ نے قرأت کی، پھر رکوع کیا، پھر قرأت کی پھر رکوع کیا، پھر قرأت کی پھر رکوع کیا، تین بار قرأت کی اور تین بار رکوع کیا، پھر دو سجدے کئے، اور دوسری رکعت بھی اسی طرح تھی۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ابن عباس رضی الله عنہما کی حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں علی، عائشہ، عبداللہ بن عمرو، نعمان بن بشیر، مغیرہ بن شعبہ، ابومسعود، ابوبکرہ، سمرہ، ابوموسیٰ اشعری، ابن مسعود، اسماء بنت ابی بکر صدیق، ابن عمر، قبیصہ ہلالی، جابر بن عبداللہ، عبدالرحمٰن بن سمرہ، اور ابی بن کعب رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۳- ابن عباس رضی الله عنہما نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے یوں بھی روایت کی ہے کہ آپ نے سورج گرہن کی نماز میں چار سجدوں میں چار رکوع کیے، شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ اسی کے قائل ہیں، ۴- سورج گرہن کی نماز میں اہل علم کا اختلاف ہے: بعض اہل علم کی رائے ہے کہ دن میں قرأت سری کرے گا۔ بعض کی رائے ہے کہ عیدین اور جمعہ کی طرح اس میں بھی جہری قرأت کرے گا۔ یہی مالک، احمد اور اسحاق بن راہویہ بھی کہتے ہیں کہ اس میں جہری قرأت کرے۔ اور شافعی کہتے ہیں کہ جہر نہیں کرے گا۔ اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے دونوں ہی قسم کی احادیث آئی ثابت ہیں۔ آپ سے یہ بھی ثابت ہے کہ آپ نے چار سجدوں میں چار رکوع کیے۔ اور یہ بھی ثابت ہے کہ آپ نے چار سجدوں میں چھ رکوع کیے۔ اور یہ اہل علم کے نزدیک گرہن کی مقدار کے مطابق ہے اگر گرہن لمبا ہو جائے تو چار سجدوں میں چھ رکوع کرے، یہ بھی جائز ہے، اور اگر چار سجدوں میں چار ہی رکوع کرے اور قرأت لمبی کر دے تو بھی جائز ہے، ہمارے اصحاب الحدیث کا خیال ہے کہ گرہن کی نماز جماعت کے ساتھ پڑھے خواہ گرہن سورج کا ہو یا چاند کا۔ [سنن ترمذي/أبواب السفر/حدیث: 560]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «صحیح مسلم/الکسوف 4 (909)، سنن ابی داود/ الصلاة 262 (1183)، سنن النسائی/الکسوف 8 (1468، 1469)، (تحفة الأشراف: 5697)، مسند احمد (1/216، 298، 346، 358)، سنن الدارمی/الصلاة 187 (1534) (شاذ) (تین طرق سے ابن عباس کی روایت میں ایک رکعت میں دو رکوع اور دو سجدے کا تذکرہ ہے، اس لیے علماء کے قول کے مطابق اس روایت میں حبیب بن ابی ثابت نے ثقات کی مخالفت کی ہے، اور یہ مدلس ہیں، ان کی یہ روایت عنعنہ سے ہے اس لیے تین رکعت کا ذکر شاذ ہے/ملاحظہ ہو: ضعیف ابی داود رقم: 215وصحیح سنن ابی داود 1072)»
قال الشيخ الألباني: صحيح، صحيح أبي داود (1072) ، جزء صلاة الكسوف
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں سورج گرہن لگا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو نماز پڑھائی، اور لمبی قرأت فرمائی، پھر آپ نے رکوع کیا تو رکوع بھی لمبا کیا، پھر اپنا سر اٹھایا اور لمبی قرأت فرمائی، یہ پہلی قرأت سے کم تھی، پھر رکوع کیا اور لمبا رکوع کیا اور یہ پہلے رکوع سے ہلکا تھا، پھر اپنا سر اٹھایا اور سجدہ کیا پھر اسی طرح دوسری رکعت میں کیا۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ بھی اسی حدیث کی بناء پر کہتے ہیں کہ گرہن کی نماز میں چار سجدوں میں چار رکوع ہے۔ شافعی کہتے ہیں: پہلی رکعت میں سورۃ فاتحہ پڑھے اور سورۃ البقرہ کے بقدر، اگر دن ہو تو سری قرأت کرے، پھر قرأت کے برابر لمبا رکوع کرے۔ پھر اللہ اکبر کہہ کر سر اٹھائے۔ اور کھڑا رہے جیسے پہلے کھڑا تھا اور سورۃ فاتحہ پڑھے اور آل عمران کے بقدر قرأت کرے پھر اپنی قرأت کے برابر لمبا رکوع کرے، پھر سر اٹھائے۔ پھر «سمع الله لمن حمده» کہے۔ پھر اچھی طرح دو سجدے کرے۔ اور ہر سجدے میں اسی قدر ٹھہرے جتنا رکوع میں ٹھہرا تھا۔ پھر کھڑا ہو اور سورۃ فاتحہ پڑھے اور سورۃ نساء کے بقدر قرأت کرے پھر اپنی قرأت کے برابر لمبا رکوع کرے پھر اللہ اکبر کہہ کر اپنا سر اٹھائے اور سیدھا کھڑا ہو، پھر سورۃ المائدہ کے برابر قرأت کرے۔ پھر اپنی قرأت کے برابر لمبا رکوع کرے، پھر سر اٹھائے اور «سمع الله لمن حمده» کہے، پھر دو سجدے کرے پھر تشہد پڑھے اور سلام پھیر دے۔ [سنن ترمذي/أبواب السفر/حدیث: 561]
سمرہ بن جندب رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں گرہن کی نماز پڑھائی تو ہم آپ کی آواز نہیں سن پا رہے تھے ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- سمرہ کی حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا سے بھی روایت ہے، ۳- بعض اہل علم اسی طرف گئے ہیں۔ اور یہی شافعی کا بھی قول ہے۔ [سنن ترمذي/أبواب السفر/حدیث: 562]
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے گرہن کی نماز پڑھی اور اس میں آپ نے بلند آواز سے قرأت کی۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- ابواسحاق فزاری نے بھی اسے سفیان بن حسین سے اسی طرح روایت کیا ہے، ۳- اور اسی حدیث کے مطابق مالک بن انس، احمد اور اسحاق بن راہویہ بھی کہتے ہیں۔ [سنن ترمذي/أبواب السفر/حدیث: 563]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «تفرد بہ المؤلف، (تحفة الأشراف: 16428)، وأخرجہ البخاري (في الکسوف 19، تعلیقا)، و سنن ابی داود/ الصلاة 263 (1188) نحوہ من طریق الأوزاعي عن الزھري (صحیح) (متابعت کی بنا پر یہ حدیث صحیح ہے، ورنہ اس کے راوی سفیان بن حسین امام زہری سے روایت میں ضعیف ہیں۔دیکھیے صحیح أبی داود: 1074)»