ام المؤمنین ام سلمہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم وتر کے بعد دو رکعتیں پڑھتے تھے ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ابوامامہ، عائشہ رضی الله عنہما اور دیگر کئی لوگوں سے بھی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی طرح مروی ہے۔ [سنن ترمذي/أبواب الوتر/حدیث: 471]
سعید بن یسار کہتے ہیں کہ میں ایک سفر میں ابن عمر رضی الله عنہما کے ساتھ چل رہا تھا، میں ان سے پیچھے رہ گیا، تو انہوں نے پوچھا: تم کہاں رہ گئے تھے؟ میں نے کہا: میں وتر پڑھ رہا تھا، انہوں نے کہا: کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات میں تمہارے لیے اسوہ نہیں؟ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تو اپنی سواری ہی پر وتر پڑھتے دیکھا ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ابن عمر رضی الله عنہما کی حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں ابن عباس رضی الله عنہما سے بھی روایت ہے، ۳- صحابہ کرام وغیرہم میں سے بعض اہل علم اسی طرف گئے ہیں، ان کا خیال ہے کہ آدمی اپنی سواری پر وتر پڑھ سکتا ہے۔ اور یہی شافعی، احمد، اور اسحاق بن راہویہ بھی کہتے ہیں، ۴- اور بعض اہل علم کہتے ہیں کہ آدمی سواری پر وتر نہ پڑھے، جب وہ وتر کا ارادہ کرے تو اسے اتر کر زمین پر پڑھے۔ یہ بعض اہل کوفہ کا قول ہے ۱؎۔ [سنن ترمذي/أبواب الوتر/حدیث: 472]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «صحیح البخاری/الوتر 5 (999)، وتقصیر الصلاة 7 (1095)، و8 (1098)، و12 (1105)، صحیح مسلم/المسافرین 4 (700)، سنن النسائی/قیام اللیل 33 (1687-1689)، سنن ابن ماجہ/الإقامة 127 (1200)، (تحفة الأشراف: 7085)، موطا امام مالک/ صلاة اللیل 3 (15)، مسند احمد (2/57، 138)، سنن الدارمی/الصلاة 213) (صحیح)»
انس بن مالک رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے چاشت کی بارہ رکعتیں پڑھیں، اللہ اس کے لیے جنت میں سونے کا ایک محل تعمیر فرمائے گا“۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- انس کی حدیث غریب ہے، ہم اسے صرف اسی سند سے جانتے ہیں، ۲- اس باب میں ام ہانی، ابوہریرہ، نعیم بن ہمار، ابوذر، عائشہ، ابوامامہ، عتبہ بن عبد سلمی، ابن ابی اوفی، ابو سعید خدری، زید بن ارقم اور ابن عباس رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔ [سنن ترمذي/أبواب الوتر/حدیث: 473]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «سنن ابن ماجہ/الإقامة 187 (1380)، (تحفة الأشراف: 505) (ضعیف) (سند میں موسیٰ بن فلان بن انس مجہول راوی ہے)»
قال الشيخ الألباني: ضعيف، ابن ماجة (1380) // عندنا برقم (291) //
عبدالرحمٰن بن ابی لیلیٰ کہتے ہیں کہ مجھے صرف ام ہانی رضی الله عنہا نے خبر دی کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو چاشت کی نماز پڑھتے دیکھا ہے، ام ہانی رضی الله عنہا بیان کرتی ہیں کہ فتح مکہ کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے گھر میں داخل ہوئے تو غسل کیا اور آٹھ رکعتیں پڑھیں، میں نے آپ کو نہیں دیکھا کہ آپ نے اس سے بھی ہلکی نماز کبھی پڑھی ہو، البتہ آپ رکوع اور سجدے پورے پورے کر رہے تھے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- احمد بن حنبل کی نظر میں اس باب میں سب سے زیادہ صحیح ام ہانی رضی الله عنہا کی حدیث ہے۔ [سنن ترمذي/أبواب الوتر/حدیث: 474]
ابو الدرداء رضی الله عنہ یا ابوذر رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: اے ابن آدم! تو دن کے شروع میں میری رضا کے لیے چار رکعتیں پڑھا کر، میں پورے دن تمہارے لیے کافی ہوں گا“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے۔ [سنن ترمذي/أبواب الوتر/حدیث: 475]
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے چاشت کی دو رکعتوں کی محافظت کی، اس کے گناہ بخش دیئے جائیں گے، اگرچہ وہ سمندر کے جھاگ کے برابر ہوں“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: وکیع، نضر بن شمیل اور دوسرے کئی ائمہ نے یہ حدیث نہاس بن قہم سے روایت کی ہے۔ اور ہم نہاس کو صرف ان کی اسی حدیث سے جانتے ہیں۔ [سنن ترمذي/أبواب الوتر/حدیث: 476]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «سنن ابن ماجہ/الإقامة 187 (1382)، (تحفة الأشراف: 13491) (ضعیف) (سند میں نہاس بن قہم ضعیف راوی ہے)»
قال الشيخ الألباني: ضعيف، المشكاة (1318) // ضعيف ابن ماجة (292 / 1382) ، ضعيف الجامع (5549) //
ابو سعید خدری رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم چاشت کی نماز پڑھتے تھے۔ یہاں تک کہ ہم کہتے کہ آپ اسے نہیں چھوڑیں گے، اور آپ اسے چھوڑ دیتے یہاں تک کہ ہم کہتے کہ اب اسے نہیں پڑھیں گے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے۔ [سنن ترمذي/أبواب الوتر/حدیث: 477]
عبداللہ بن سائب رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سورج ڈھل جانے کے بعد ظہر سے پہلے چار رکعتیں پڑھتے، اور فرماتے: ”یہ ایسا وقت ہے جس میں آسمان کے دروازے کھول دئیے جاتے ہیں اور میں چاہتا ہوں کہ میرا نیک عمل اس میں اوپر چڑھے“۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- عبداللہ بن سائب رضی الله عنہ کی حدیث حسن غریب ہے، ۲- اس باب میں علی اور ابوایوب رضی الله عنہما سے بھی احادیث آئی ہیں، ۳- نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہے کہ آپ زوال کے بعد چار رکعتیں پڑھتے اور ان کے آخر میں ہی سلام پھیرتے ۲؎۔ [سنن ترمذي/أبواب الوتر/حدیث: 478]
عبداللہ بن ابی اوفی رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جسے اللہ تعالیٰ سے کوئی ضرورت ہو یا بنی آدم میں سے کسی سے کوئی کام ہو تو پہلے وہ اچھی طرح وضو کرے، پھر دو رکعتیں ادا کرے، پھر اللہ کی حمد و ثنا بیان کرے اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر صلاۃ (درود) و سلام بھیجے، پھر کہے: «لا إله إلا الله الحليم الكريم سبحان الله رب العرش العظيم الحمد لله رب العالمين أسألك موجبات رحمتك وعزائم مغفرتك والغنيمة من كل بر والسلامة من كل إثم لا تدع لي ذنبا إلا غفرته ولا هما إلا فرجته ولا حاجة هي لك رضا إلا قضيتها يا أرحم الراحمين»”اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں، وہ حلیم (بردبار) ہے، کریم (بزرگی والا) ہے، پاک ہے اللہ جو عرش عظیم کا رب ہے، تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں جو رب العالمین (سارے جہانوں کا پالنہار) ہے، میں تجھ سے تیری رحمت کو واجب کرنے والی چیزوں کا اور تیری بخشش کے یقینی ہونے کا سوال کرتا ہوں، اور ہر نیکی میں سے حصہ پانے کا اور ہر گناہ سے سلامتی کا سوال کرتا ہوں، اے ارحم الراحمین! تو میرا کوئی گناہ باقی نہ چھوڑ مگر تو اسے بخش دے اور نہ کوئی غم چھوڑ، مگر تو اسے دور فرما دے اور نہ کوئی ایسی ضرورت چھوڑ جس میں تیری خوشنودی ہو مگر تو اسے پوری فرما دے“
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث غریب ہے، ۲- اس کی سند میں کلام ہے، فائد بن عبدالرحمٰن کو حدیث کے سلسلے میں ضعیف قرار دیا جاتا ہے، اور فائد ہی ابوالورقاء ہیں۔ [سنن ترمذي/أبواب الوتر/حدیث: 479]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «سنن ابن ماجہ/الإقازہ 189 (1384)، (تحفة الأشراف: 5178) (ضعیف جداً) (سند میں فائد بن عبدالرحمن سخت ضعیف راوی ہے)»
قال الشيخ الألباني: ضعيف جدا، ابن ماجة (1384) // ضعيف سنن ابن ماجة برقم (293) ، ضعيف الجامع الصغير (5809) ، المشكاة (1327) //
جابر بن عبداللہ رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں ہر معاملے میں استخارہ کرنا ۱؎ اسی طرح سکھاتے جیسے آپ ہمیں قرآن کی سورتیں سکھاتے تھے۔ آپ فرماتے: ”تم میں سے کوئی شخص جب کسی کام کا ارادہ کرے تو دو رکعت پڑھے، پھر کہے: «اللهم إني أستخيرك بعلمك وأستقدرك بقدرتك وأسألك من فضلك العظيم فإنك تقدر ولا أقدر وتعلم ولا أعلم وأنت علام الغيوب اللهم إن كنت تعلم أن هذا الأمر خير لي في ديني ومعيشتي وعاقبة أمري أو قال في عاجل أمري» یا کہے «فِي عَاجِلِ أَمْرِي وَآجِلِهِ فيسره لي ثم بارك لي فيه وإن كنت تعلم أن هذا الأمر شر لي في ديني ومعيشتي وعاقبة أمري» یا کہے «في عاجل أمري وآجله فاصرفه عني واصرفني عنه واقدر لي الخير حيث كان ثم أرضني به»”اے اللہ! میں تیرے علم کے ذریعے تجھ سے بھلائی طلب کرتا ہوں، اور تیری طاقت کے ذریعے تجھ سے طاقت طلب کرتا ہوں، اور تجھ سے تیرے فضل کا سوال کرتا ہوں، تو قدرت رکھتا ہے اور میں قدرت نہیں رکھتا، تو علم والا ہے اور میں لا علم ہوں، تو تمام غیبوں کو خوب جاننے والا ہے، اے اللہ اگر تو جانتا ہے کہ یہ کام میرے حق میں، میرے دین، میری روزی اور انجام کے اعتبار سے (یا آپ نے فرمایا: یا میری دنیا اور آخرت کے لحاظ سے) بہتر ہے، تو اسے تو میرے لیے آسان بنا دے اور مجھے اس میں برکت عطا فرما، اور اگر تو جانتا ہے کہ یہ کام میرے حق میں، میرے دین، میری روزی اور انجام کے اعتبار سے یا فرمایا میری دنیا اور آخرت کے لحاظ سے میرے لیے برا ہے تو اسے تو مجھ سے پھیر دے اور مجھے اس سے پھیر دے اور میرے لیے خیر مقدر فرما دے وہ جہاں بھی ہو، پھر مجھے اس پر راضی کر دے۔“ آپ نے فرمایا: ”اور اپنی حاجت کا نام لے“۲؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- جابر رضی الله عنہ کی حدیث حسن صحیح غریب ہے ہم اسے صرف عبدالرحمٰن بن ابی الموالی کی روایت سے جانتے ہیں، یہ ایک مدنی ثقہ شیخ ہیں، ان سے سفیان نے بھی ایک حدیث روایت کی ہے، اور عبدالرحمٰن سے دیگر کئی ائمہ نے بھی روایت کی ہے، یہی عبدالرحمٰن بن زید بن ابی الموالی ہیں، ۲- اس باب میں عبداللہ بن مسعود اور ابوایوب انصاری رضی الله عنہما سے احادیث آئی ہیں۔ [سنن ترمذي/أبواب الوتر/حدیث: 480]