مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فیصلہ فرمایا: ”دیت عاقلہ (قاتل اور اس کے خاندان والوں) کے ذمہ ہے“۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الديات/حدیث: 2633]
مقدام شامی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس کا کوئی وارث نہ ہو اس کا وارث میں ہوں، اس کی طرف سے دیت بھی ادا کروں گا اور اس کا ترکہ بھی لوں گا، اور ماموں اس کا وارث ہے جس کا کوئی وارث نہ ہو، وہ اس کی دیت بھی ادا کرے گا، اور ترکہ بھی پائے گا“۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الديات/حدیث: 2634]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «سنن ابی داود/الفرائض 8 (2899، 2900)، (تحفة الأشراف: 11569)، وقد أخرجہ: مسند احمد (4/131، 133) (صحیح)»
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص اندھا دھند فساد (بلوہ) میں یا تعصب کی وجہ سے پتھر، کوڑے یا ڈنڈے سے مار دیا جائے، تو قاتل پر قتل خطا کی دیت لازم ہو گی، اور اگر قصداً مارا جائے، تو اس میں قصاص ہے، جو شخص قصاص یا دیت میں حائل ہو تو اس پر لعنت اللہ کی ہے، اس کے فرشتوں کی، اور سب لوگوں کی، اس کا نہ فرض قبول ہو گا نہ نفل“۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الديات/حدیث: 2635]
جاریہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے دوسرے کی کلائی پر تلوار ماری جس سے وہ کٹ گئی، لیکن جوڑ پر سے نہیں، پھر زخمی شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے فریاد کی، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے لیے دیت (خون بہا) دینے کا حکم فرمایا، وہ بولا: اللہ کے رسول! میں قصاص لینا چاہتا ہوں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”دیت لے لو، اللہ تعالیٰ تمہارے لیے اس میں برکت دے، اور اس کے لیے قصاص کا فیصلہ نہیں فرمایا ”۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الديات/حدیث: 2636]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 3180، ومصباح الزجاجة: 930) (ضعیف)» (سند میں دھثم بن قرّان الیمامی متروک ہے، نیز ملاحظہ ہو: الإ رواء: 2235)
عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو زخم دماغ یا پیٹ تک پہنچ جائے، یا ہڈی ٹوٹ کر اپنی جگہ سے ہٹ جائے، تو اس میں قصاص نہ ہو گا“۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الديات/حدیث: 2637]
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوجہم بن حذیفہ رضی اللہ عنہ کو مصدق (عامل صدقہ) بنا کر بھیجا، زکاۃ کے سلسلے میں ان کا ایک شخص سے جھگڑا ہو گیا، ابوجہم رضی اللہ عنہ نے اسے مارا تو اس کا سر پھٹ گیا، وہ لوگ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے، اور قصاص کا مطالبہ کرنے لگے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اچھا تم اتنا اتنا مال لے لو“، وہ راضی نہیں ہوئے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اچھا اتنا اتنا مال (اور) لے لو“، تو وہ راضی ہو گئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں لوگوں کے سامنے خطبہ دوں، اور تم لوگوں کی رضا مندی کی خبر سناؤں؟ کہنے لگے: ٹھیک ہے، پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ دیا اور فرمایا: ”یہ لیث کے لوگ میرے پاس آئے اور قصاص لینا چاہتے تھے، میں نے ان سے اتنا اتنا مال لینے کی پیشکش کی اور پوچھا: کیا وہ اس پر راضی ہیں“؟ کہنے لگے: نہیں، (ان کے اس رویہ پر) مہاجرین نے ان کو مارنے پیٹنے کا ارادہ کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں باز رہنے کو کہا، تو وہ رک گئے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو بلایا اور کچھ اضافہ کر دیا، اور پوچھا: ”کیا اب راضی ہیں“؟ انہوں نے اقرار کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر فرمایا: ”کیا میں خطبہ دوں اور لوگوں کو تمہاری رضا مندی کی اطلاع دے دوں“؟ جواب دیا: ٹھیک ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ دیا، اور پھر کہا: ”تم راضی ہو“؟ جواب دیا: جی ہاں ۱؎۔ ابن ماجہ کہتے ہیں: میں نے محمد بن یحییٰ کو کہتے سنا کہ معمر اس حدیث کو روایت کرنے میں منفرد ہیں، میں نہیں جانتا کہ ان کے علاوہ کسی اور نے بھی یہ حدیث روایت کی ہے۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الديات/حدیث: 2638]
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جنین (پیٹ کے بچے کی دیت) میں ایک غلام یا ایک لونڈی کا فیصلہ فرمایا، تو جس کے خلاف فیصلہ ہوا وہ بولا: کیا ہم اس کی دیت دیں جس نے نہ پیا ہو نہ کھایا ہو، نہ چیخا ہو نہ چلایا ہو، ایسے کی دیت کو تو لغو مانا جائے گا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ تو شاعروں جیسی بات کرتا ہے؟ پیٹ کے بچہ میں ایک غلام یا لونڈی (دیت) ہے“۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الديات/حدیث: 2639]
مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ عمر رضی اللہ عنہ نے لوگوں سے پیٹ سے گر جانے والے بچے کے بارے میں مشورہ لیا، تو مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ نے کہا: میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس موجود تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس میں ایک غلام یا لونڈی دینے کا فیصلہ فرمایا تو عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: اپنی اس بات کے لیے گواہ لاؤ، تو محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ نے ان کے ساتھ گواہی دی ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الديات/حدیث: 2640]
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ عمر رضی اللہ عنہ نے جنین (پیٹ کے بچے) کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان تلاش کیا، تو حمل بن مالک رضی اللہ عنہ نے کھڑے ہو کر کہا: میری دو بیویاں تھیں، ان میں سے ایک نے دوسری کو خیمے کی لکڑی سے مارا جس سے وہ اور اس کے پیٹ میں جو بچہ تھا دونوں مر گئے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جنین (پیٹ کے بچہ) میں ایک غلام یا ایک لونڈی دینے کا، اور عورت کو عورت کے قصاص میں قتل کا فیصلہ فرمایا ”۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الديات/حدیث: 2641]
سعید بن المسیب سے روایت ہے کہ عمر رضی اللہ عنہ کہتے تھے کہ دیت (خون بہا) قاتل کے خاندان والوں کے ذمہ ہے، اور عورت کو اپنے شوہر کی دیت میں سے کچھ نہیں ملے گا، یہاں تک کہ ضحاک بن سفیان نے ان کو لکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اشیم ضبابی رضی اللہ عنہ کی بیوی کو اس کے شوہر کی دیت میں سے ترکہ دلایا ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الديات/حدیث: 2642]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «سنن ابی داود/الفرائض 18 (2927)، سنن الترمذی/الدیات 19 (1415)، الفرائض 18 (2110)، (تحفة الأشراف: 4973)، وقد أخرجہ: موطا امام مالک/العقول 17 (10)، مسند احمد (3/452) (صحیح)»