عمار بن یاسر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کا ہار ٹوٹ کر گر گیا، وہ اس کی تلاش میں پیچھے رہ گئیں، ابوبکر رضی اللہ عنہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس گئے، اور ان پہ ناراض ہوئے، کیونکہ ان کی وجہ سے لوگوں کو رکنا پڑا، تو اللہ تبارک و تعالیٰ نے تیمم کی اجازت والی آیت نازل فرمائی، عمار بن یاسر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ہم نے اس وقت مونڈھوں تک مسح کیا، اور ابوبکر رضی اللہ عنہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس آئے، اور کہنے لگے: مجھے معلوم نہ تھا کہ تم اتنی بابرکت ہو ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/أبواب التيمم/حدیث: 565]
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”زمین میرے لیے نماز کی جگہ اور پاک کرنے والی بنائی گئی ہے“۱؎۔ [سنن ابن ماجه/أبواب التيمم/حدیث: 567]
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ انہوں نے اسماء رضی اللہ عنہا سے ایک ہار عاریۃً لیا، اور وہ کھو گیا، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے ڈھونڈنے کے لیے کچھ لوگوں کو بھیجا، اتنے میں نماز کا وقت ہو گیا، لوگوں نے بغیر وضو کے نماز پڑھی، جب لوگ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس واپس آئے تو آپ سے اس کی شکایت کی، تو اس وقت تیمم کی آیت نازل ہوئی، اسید بن حضیر رضی اللہ عنہ نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے کہا: اللہ تعالیٰ آپ کو جزائے خیر دے، اللہ کی قسم! جب بھی آپ کو کوئی مشکل پیش آئی، اللہ تعالیٰ نے آپ کے لیے اس سے نجات کا راستہ پیدا فرما دیا، اور مسلمانوں کے لیے اس میں برکت رکھ دی ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/أبواب التيمم/حدیث: 568]
عبدالرحمٰن بن ابزی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک آدمی عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے پاس آیا، اور کہا کہ میں جنبی ہو گیا اور پانی نہیں پایا، تو عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: نماز نہ پڑھو، اس پر عمار بن یاسر رضی اللہ عنہما نے کہا: امیر المؤمنین! کیا آپ کو یاد نہیں کہ جب میں اور آپ ایک لشکر میں تھے، ہم جنبی ہو گئے، اور ہمیں پانی نہ مل سکا تو آپ نے نماز نہیں پڑھی، اور میں مٹی میں لوٹا، اور نماز پڑھ لی، جب میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، اور آپ سے اس کا ذکر کیا، تو آپ نے فرمایا: ”تمہارے لیے بس اتنا کافی تھا“، اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دونوں ہاتھ زمین پر مارے، پھر ان دونوں میں پھونک ماری، اور اپنے چہرے اور دونوں پہنچوں پر اسے مل لیا ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/أبواب التيمم/حدیث: 569]
حکم اور سلمہ بن کہیل نے عبداللہ بن ابی اوفی رضی اللہ عنہ سے تیمم کے بارے میں پوچھا، تو انہوں نے کہا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے عمار رضی اللہ عنہ کو اس طرح کرنے کا حکم دیا، پھر عبداللہ بن ابی اوفی رضی اللہ عنہ نے اپنے ہاتھ زمین پر مارے، اور انہیں جھاڑ کر اپنے چہرے پر مل لیا۔ حکم کی روایت میں «يديه» اور سلمہ کی روایت میں «مرفقيه» کا لفظ ہے ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/أبواب التيمم/حدیث: 570]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 5160، ومصباح الزجاجة: 230) (صحیح)» (سند میں محمد بن عبدالرحمن بن أبی لیلیٰ ضعیف الحفظ ہیں، اصل حدیث شواہد و طرق سے ثابت ہے لیکن «مرفقیہ» کا لفظ منکر ہے)
قال الشيخ الألباني: صحيح دون رواية مرفقيه فإنها منكرة
92. بَابٌ في التَّيَمُّمِ ضَرْبَتَيْنِ
92. باب: تیمم میں زمین پر ضرب (ہاتھ مارنا) دو بار۔
عمار بن یاسر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ جب لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تیمم کیا، تو آپ نے مسلمانوں کو حکم دیا، تو انہوں نے اپنی ہتھیلیاں مٹی پر ماریں اور ہاتھ میں کچھ بھی مٹی نہ لی، پھر اپنے چہروں پر ایک بار مل لیا، پھر دوبارہ اپنی ہتھیلیوں کو مٹی پر مارا، اور اپنے ہاتھوں پر مل لیا ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/أبواب التيمم/حدیث: 571]
عطاء بن ابی رباح کہتے ہیں کہ میں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے سنا وہ بتا رہے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ایک شخص کے سر میں زخم ہو گیا، پھر اسے احتلام ہوا، تو لوگوں نے اسے غسل کا حکم دیا، اس نے غسل کر لیا جس سے اسے ٹھنڈ کی بیماری ہو گئی، اور وہ مر گیا، یہ خبر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو پہنچی تو آپ نے فرمایا: ”ان لوگوں نے اسے مار ڈالا، اللہ انہیں ہلاک کرے، کیا عاجزی (لاعلمی کا علاج مسئلہ) پوچھ لینا نہ تھا“۔ عطاء نے کہا کہ ہمیں یہ خبر پہنچی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”کاش وہ اپنا جسم دھو لیتا اور اپنے سر کا زخم والا حصہ چھوڑ دیتا“۔ [سنن ابن ماجه/أبواب التيمم/حدیث: 572]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 5904، ومصباح الزجاجة: 231)، وقد أخرجہ: سنن ابی داود/الطہارة 127 (337)، سنن الدارمی/الطہارة 70 (779) (حسن)» (عطاء کا قول: «وبلغنا أن النبي صلى الله عليه وسلم» ضعیف ہے کیونکہ انہوں نے واسطہ نہیں ذکر کیا ہے، ملاحظہ ہو: صحیح أبی داود: 364)
ام المؤمنین میمونہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے غسل کا پانی رکھا، آپ نے غسل جنابت کیا اور برتن کو اپنے بائیں ہاتھ سے دائیں ہاتھ پر انڈیلا، اور دونوں ہتھیلی کو تین مرتبہ دھویا، پھر اپنی شرمگاہ پہ پانی بہایا، پھر اپنا ہاتھ زمین پر رگڑا، پھر کلی کی، ناک میں پانی ڈالا، اور اپنا چہرہ اور بازو تین تین بار دھویا، پھر پورے جسم پر پانی بہایا، پھر غسل کی جگہ سے ہٹ کر اپنے پاؤں دھوئے۔ [سنن ابن ماجه/أبواب التيمم/حدیث: 573]
جمیع بن عمیر تیمی کہتے ہیں کہ میں اپنی پھوپھی اور خالہ کے ساتھ ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس گیا، ہم نے ان سے پوچھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غسل جنابت کیسے کرتے تھے؟ انہوں نے کہا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے دونوں ہاتھ پر تین مرتبہ پانی ڈالتے، پھر انہیں برتن میں داخل کرتے، پھر اپنا سر تین مرتبہ دھوتے، پھر اپنے سارے بدن پر پانی بہاتے، پھر نماز کے لیے کھڑے ہوتے، لیکن ہم عورتیں تو اپنے سر کو چوٹیوں کی وجہ سے پانچ بار دھوتی تھیں۔ [سنن ابن ماجه/أبواب التيمم/حدیث: 574]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «سنن ابی داود/الطہارة 98 (241)، (تحفةالأشراف: 16053)، وقد أخرجہ: موطا امام مالک/الطہارة 17 (67)، مسند احمد (6/273)، سنن الدارمی/الطہارة 67 (775) (ضعیف جدا)» (سند میں جمیع بن عمیر رافضی اور واضع حدیث ہے، نیز صدقہ بن سعید کے یہاں عجائب وغرائب ہیں)