عطاء بن ابی رباح کہتے ہیں کہ میں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے سنا وہ بتا رہے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ایک شخص کے سر میں زخم ہو گیا، پھر اسے احتلام ہوا، تو لوگوں نے اسے غسل کا حکم دیا، اس نے غسل کر لیا جس سے اسے ٹھنڈ کی بیماری ہو گئی، اور وہ مر گیا، یہ خبر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو پہنچی تو آپ نے فرمایا: ”ان لوگوں نے اسے مار ڈالا، اللہ انہیں ہلاک کرے، کیا عاجزی (لاعلمی کا علاج مسئلہ) پوچھ لینا نہ تھا“۔ عطاء نے کہا کہ ہمیں یہ خبر پہنچی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”کاش وہ اپنا جسم دھو لیتا اور اپنے سر کا زخم والا حصہ چھوڑ دیتا“۔ [سنن ابن ماجه/أبواب التيمم/حدیث: 572]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 5904، ومصباح الزجاجة: 231)، وقد أخرجہ: سنن ابی داود/الطہارة 127 (337)، سنن الدارمی/الطہارة 70 (779) (حسن)» (عطاء کا قول: «وبلغنا أن النبي صلى الله عليه وسلم» ضعیف ہے کیونکہ انہوں نے واسطہ نہیں ذکر کیا ہے، ملاحظہ ہو: صحیح أبی داود: 364)
وضاحت: ۱؎: مصباح الزجاجۃ (ط۔ مصریہ) میں آخر متن میں «لأجزه» ہے۔
قال الشيخ الألباني: حسن دون بلاغ عطاء
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف سنن أبي داود (336) السند مرسل: وأما حديث ابن عباس فصحيح،أخرجه أبو داود (337) انوار الصحيفه، صفحه نمبر 399
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث572
اردو حاشہ: (1) اگر پانی بہت ٹھنڈا ہو اور گرم کرنے کا انتظام نہ ہو اور ٹھنڈے پانی سے نہانے سے ہلاکت یا بیماری کا خوف ہوتو تیمم کرکے نماز پڑھی جا سکتی ہے۔ عذر ختم ہونے پر غسل کرنا فرض ہوگا۔
(2) حدیث میں (کُزَّ) کا لفظ ہے”یعنی اسے کزاز کی بیماری لاحق ہوگئی۔ یہ بیماری سردی کی شدت کی وجہ سے لاحق ہوتی ہے۔
(3) زخم کا ذکر کرنے سے اشارہ ملتا ہےکہ اس کی بیماری کا ایک سبب وہ زخم بھی تھا۔ گویا اس کی وفات کی وجہ سخت کی سردی بھی تھی”لیکن اس کے ساتھ ساتھ زخم پر ٹھنڈا پانی پڑنے کی وجہ سے اس کی بیماری نے اس قدر شدت اختیار کرلی کہ وہ فوت ہوگیا۔
(4) فتوی دینے میں بہت احتیاط کی ضرورت ہوتی ہے”لہذا سائل کے حالات کو مدنظر رکھ کر مسئلہ بتانا چاہیے۔
(5) اگر مسئلے میں کسی قسم کا اشکال ہوتو فتوی دینے سے پرہیز کرنا چاہیے اور اپنے سے بڑے عالم کی طرف رجوع کرنے کا مشورہ دینا چاہیے۔
(6) غلطی پر تنبیہ کے لیے سخت الفاظ سے بھی زجروتوبیخ جائز ہے بشرطیکہ اس سے نامناسب ردعمل کا خطرہ نہ ہو۔
(7) رسول اللہ ﷺ کے یہ الفاظ بظاہر بددعا ہیں اللہ انھیں تباہ کرے لیکن آپﷺ کا مقصد بددعا کرنا نہیں بلکہ ناراضی کا اظہار تھا۔ نبیﷺ نے اللہ تعالی سے دعا کی تھی جو قبول ہوئی کہ اگر کسی مسلمان کے حق میں بد دعا کے الفاظ زبان سے نکلیں تو وہ اس کے لیے رحمت اور مغفرت کا باعث بن جائیں۔ (صحیح مسلم، البروالصلة، باب من لعنه الننبي ﷺ وسبه۔ ۔ ۔ ۔ ۔ الخ، حدیث: 26--)
(8) اسلامی شریعت کی بنیاد چونکہ آسانی اور سہولت پر ہے، اس لیے اللہ تعالی نے عذر میں مبتلا لوگوں کے لیے عبادات کے ادا کرنے میں حسب عذر تحفیف کر دی ہے تاکہ وہ کسی حرج اور مشقت کے بغیر اپنی عبادت ادا کرسکیں۔ ارشاد باری تعالی ہے: ﴿وَمَا جَعَلَ عَلَيْكُمْ فِي الدِّيْنِ مِنْ حَرَجٍ ﴾(الحج: 22؍78) ”اور (اللہ تعالی نے) تم پر دین (کی کسی بات) میں تنگی نہیں کی۔“
اور فرمایا: ﴿يُرِيْدُ اللهُ بِكَمُ الْيُسْرَ وَلَايُرِيْدُ بِكُمُ الْعُسْرَ﴾(البقرة: 2؍185) ”اللہ تمھارے حق میں آسانی چاہتا ہے، سختی نہیں چاہتا“ اور فرمایا: ﴿فَاتَّقُو اللهَ مَااسْتَطَعْتُمْ﴾(التغابن: 16؍64) ”سو جہاں تک ہوسکے تم اللہ سے ڈرو۔“ اور نبی ﷺ نے فرمایا: (إِذَا أَمَرْتُكُمْ بِأَمْرٍ فَأْتُوْا مِنْهُ مَااسْتَطَعْتُمْ)(صحیح البخاری، الاعتصام بالکتاب والسنة، باب الاقتداء بسنن رسول الله ﷺ، حديث: 7288، وصحيح مسلم، الحج، باب فرض الحج مرۃ في العمر، حديث: 1338) جب میں تمھیں کوئی حکم دوں تو مقدور بھر اطاعت بجالاؤ۔ اسی طرح آپ ﷺ نے یہ بھی فرمایا: ”دین آسان ہے“(صحیح البخاری، الإیمان، باب الدین یسر، حدیث: 39) مریض کو پانی کے ساتھ طہارت حاصل کرنے کی استطاعت نہ ہو، یعنی حدث اصغر وضو نہ ہونے کی صورت میں وضو اور حدث اکبر ناپاکی کی صورت کی صورت میں غسل کرنے سے عاجز ہو یا اس میں مرض میں اضافے کا خوف ہو یا بیماری کے درست ہونے میں تاخیر کا اندیشہ ہو تو وہ تیمم کرلے، یعنی دونوں ہاتھوں کو پاک مٹی پر ایک بار مارے اور اپنی انگلیوں کے اندر کے حصے کو اپنے چہرے پر پھیرے اور ہتھیلیوں کو دونوں ہاتھوں پر پھیرے جیسا کہ ارشاد باری تعالی ہے۔ ﴿وَإِن كُنتُمْ جُنُبًا فَاطَّهَّرُوا ۚ وَإِن كُنتُم مَّرْضَىٰ أَوْ عَلَىٰ سَفَرٍ أَوْ جَاءَ أَحَدٌ مِّنكُم مِّنَ الْغَائِطِ أَوْ لَامَسْتُمُ النِّسَاءَ فَلَمْ تَجِدُوا مَاءً فَتَيَمَّمُوا صَعِيدًا طَيِّبًا فَامْسَحُوا بِوُجُوهِكُمْ وَأَيْدِيكُم مِّنْهُ ۚ ﴾(المائدة: 5؍6) ”اور اگر تم بیمار ہو یا سفر میں ہو یا تم میں سے کوئی بیت الخلاء سے ہوکر آیا ہو یا تم عورتوں سے ہم بستر ہوئے ہو پھر تم پانی نہ پاؤ تو پاک مٹی لو اور اس سے منہ اور ہاتھوں کا مسح کرکے (تم تیمم) کر لو۔“ جو شخص پانی کے استعمال سے عاجز ہو اس کا حکم وہی ہے، جو اس شخص کا ہے جس کے پاس پانی ہی نہ ہو کیونکہ نبیﷺ کا ارشاد گرامی ہے: (إِنَّمَا الْأَعْمَالُ بِالنِّيَّاتِ وَإِنَّمَا لِكُلِّ اِمْرِيءٍ مَّانَوٰي)(صحیح البخاری، بدء الوحی، باب کیف کان بدء الوحی الی رسول اللہ ﷺ، حدیث: 1) ”تمام اعمال کا انحصار نیتوں پر ہے اور ہر آدمی کے لیے صرف وہی ہے جس کی وہ نیت کرے۔“ مریض کے حالات مختلف ہوتے ہیں مثلاً: مرض معمولی ہو اور پانی کے استعمال سے ہلاکت، بیماری میں اضافے، شفاء یابی میں تاخیر اور درد میں نمایاں اضافے کا کوئی خدشہ نہ ہو، جیسے سر درد یا داڑھ میں درد وغیرہ ہو یا مریض کے لیے گرم پانی کا استعمال ممکن ہو اور اس سے اسے کوئی نقصان نہ پہنچتا ہو تو اس کے لیے تیمم جائز نہیں۔ چونکہ تیمم کا جواز نفی ضرر کے لیے ہےاور یہاں کوئی ضرر ہے ہی نہیں اور پانی بھی اس کے پاس موجود ہے، لہٰذا اس کے لیے پانی کا استعمال واجب ہے۔ اگر مریض ایسا ہو کہ پانی کے استعمال سے اسے ہلاکت یا کسی عضو کے ناکارہ ہونے یا کسی موذی مرض کے پیدا ہونے کا اندیشہ ہو تو ایسے مریض کے لیے تیمم جائز ہے۔ کیونکہ ارشاد باری تعالی ہے: ﴿وَلَا تَقْتُلُوا أَنفُسَكُمْ ۚ إِنَّ اللَّهَ كَانَ بِكُمْ رَحِيمًا﴾(النساء: 29/4) ”اور اپنے آپ کو ہلاک نہ کرو بلاشبہ اللہ تم پر مہربان ہے۔“ اگر مریض ایسا ہے کہ چل پھر نہیں سکتا اور اس کے پاس کوئی اور انسان بھی نہیں جو اسے پانی مہیا کرسکے تو اس کے لیے بھی تیمم جائز ہے۔ جس شخص کے جسم پر زخم ہو یا پھوڑے پھنسیاں ہو ں یا کوئی عضو ٹوٹا ہوا ہو یا مرض ایسا ہو کہ پانی کا استعمال نقصان دہ ہو اور وہ جنبی ہو جائے تو اس کے لیے سابقہ دلائل کی بنیاد پر تیمم کرنا جائز ہے اور اگر اس کے لیے جسم کے صحیح حصے کا دھونا ممکن ہو تو اسے دھونا واجب ہو گا اور باقی حصے کا تیمم کرلے۔ اگر مریض کسی ایسی جگہ ہو جہاں پانی نہ ہو اور مٹی بھی نہ ہو اور نہ کوئی ایسا شخص موجود ہو مٹی یا پانی لا کر دے سکے تو وہ حسب حال اسی طرح نماز پڑھ لے، نماز کو مؤخر کرنا جائز نہیں کیونکہ ارشاد باری تعالی ہے۔ ﴿فَاتَّقُو اللهَ مَااسْتَطَعْتُمْ﴾(التغابن: 16؍64) ”سو جہاں تک ہوسکے تم اللہ سے ڈرو۔“ سلسل البول کا وہ مریض جو علاج معالجہ سے بھی صحیح نہ ہو سکتا ہو تو اسے وقت ہونے کے بعد ہر نماز کے لیے وضو کرنا چاہیے اور جسم کے اس حصے کو دھو لینا چاہیے جہاں پیشاب لگا ہو۔ اگر مشقت نہ ہو تو نماز کے لیے الگ پاک کپڑے استعمال کرے ورنہ اس کے لیے معافی ہےاور وہ انہی کپڑوں میں نماز پڑھ سکتا ہے۔ اللہ تعالی کے ارشادات اور رسول اللہ ﷺ کے فرمودات سے اس سہولت کا استنباط ہوتا ہے۔ سلسل البول کے مریض کو احتیاط کرنی چاہیے کہ پیشاب اس کے کپڑوں جسم اور نماز کی جگہ کو نہ لگے۔ یاد رہے کہ تیمم بھی ہر اس چہز سے باطل ہوتا ہےجس سے وجو باطل ہوتا ہے۔ نیز پانی کے استعمال کی قدرت کے حاصل ہونے، یا معدوم ہونے کی صورت میں پانی کے مل جانے سے بھی تیمم باطل ہو جائے گا۔ واللہ اعلم۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 572
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 337
´زخمی تیمم کر سکتا ہے۔` عطاء بن ابی رباح سے روایت ہے کہ انہوں نے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کو کہتے سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ایک آدمی کو زخم لگا، پھر اسے احتلام ہو گیا، تو اسے غسل کرنے کا حکم دیا گیا، اس نے غسل کیا تو وہ مر گیا، یہ بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو معلوم ہوئی تو آپ نے فرمایا: ”ان لوگوں نے اسے مار ڈالا، اللہ انہیں مارے، کیا لاعلمی کا علاج مسئلہ پوچھ لینا نہیں تھا؟۔“[سنن ابي داود/كتاب الطهارة /حدیث: 337]
337. اردو حاشیہ: ➊ باب کا عنوان ہمارے اس نسخے میں «اَلمَجدُور» ہے یعنی: ”چیچک زدہ“ چونکہ اس مرض میں جسم پر چھوٹے چھوٹے زخم اور دانے نکل آتے ہیں تو بعض اوقات پانی کا استعمال کرنا مشکل ہوتا ہے۔ اور بعض نسخوں میں «اَلمَجرُوع» کا لفظ ہے، اس سے حدیث اور باب میں کوئی الجھن نہیں رہتی۔ ➋ بغیر علم کے فتویٰ دینا بہت بڑی جہالت ہے۔ چاہیے کہ اصحاب علم سے مُرَاجَعَہ کیا جائے۔ صحابہ کرام کے بھی اس اعتبار سے کئی مراتب تھے۔ ➌ حدیث میں مذکورہ قسم کے زخم پر پٹی باندہ کر مسح کیا جائے اور اس مسح کے لیے موزوں والی کوئی شرط نہیں ہے کہ پہلے وضو کیا ہو یا وقت متعین ہو۔ ➍ اگر جسم کے تھوڑے حصے پر زخم آیا ہو تو مسئلہ اسی طرح ہے جیسے کہ حدیث میں ذکر ہوا اور اگر جسم کا زیادہ حصہ مجروح اور تھوڑا صحیح ہو تو پٹیوں اور صحیح حصے پر مسح ہی کافی ہو گا۔ «والله أعلم»
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 337