مخنف بن سلیم رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم (حجۃ الوداع کے موقع پر) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ عرفات میں ٹھہرے ہوئے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”لوگو! (سن لو) ہر سال ہر گھر والے پر قربانی اور «عتیرہ» ہے ۱؎ کیا تم جانتے ہو کہ «عتیرہ» کیا ہے؟ یہ وہی ہے جس کو لوگ «رجبیہ» کہتے ہیں“۔ ابوداؤد کہتے ہیں: «عتیرہ» منسوخ ہے یہ ایک منسوخ حدیث ہے۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الضَّحَايَا/حدیث: 2788]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «سنن الترمذی/الأضاحي 19(1518)، سنن النسائی/الفرع والعتیرة 1(4229)، سنن ابن ماجہ/الأضاحي2 (3125)، (تحفة الأشراف: 11244)، وقد أخرجہ: مسند احمد (4/215، 5/76) (حسن)»
عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اضحی کے دن (دسویں ذی الحجہ کو) مجھے عید منانے کا حکم دیا گیا ہے جسے اللہ عزوجل نے اس امت کے لیے مقرر و متعین فرمایا ہے“، ایک شخص کہنے لگا: بتائیے اگر میں بجز مادہ اونٹنی یا بکری کے کوئی اور چیز نہ پاؤں تو کیا اسی کی قربانی کر دوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نہیں، تم اپنے بال کتر لو، ناخن تراش لو، مونچھ کتر لو، اور زیر ناف کے بال لے لو، اللہ عزوجل کے نزدیک (ثواب میں) بس یہی تمہاری پوری قربانی ہے“۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الضَّحَايَا/حدیث: 2789]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «سنن النسائی/الضحایا 1 (4370)، (تحفة الأشراف: 8909)، وقد أخرجہ: مسند احمد (2/169) (حسن)» (البانی کے نزدیک یہ حدیث عیسیٰ کے مجہول ہونے کی وجہ سے ضعیف ہے، جبکہ عیسیٰ بتحقیق ابن حجر صدوق ہیں، اور اسی وجہ سے شیخ مساعد بن سلیمان الراشد نے احکام العیدین للفریابی کی تحقیق وتخریج میں اسے حسن قرار دیا ہے، نیز ملاحظہ ہو: ضعیف ابی داود: 2؍ 370)
حنش کہتے ہیں کہ میں نے علی رضی اللہ عنہ کو دو دنبے قربانی کرتے دیکھا تو میں نے ان سے پوچھا: یہ کیا ہے؟ (یعنی قربانی میں ایک دنبہ کفایت کرتا ہے آپ دو کیوں کرتے ہیں) تو انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے وصیت فرمائی ہے کہ میں آپ کی طرف سے قربانی کیا کروں، تو میں آپ کی طرف سے (بھی) قربانی کرتا ہوں۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الضَّحَايَا/حدیث: 2790]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «سنن الترمذی/الأضاحي 3 (1495)، (تحفة الأشراف: 10072)، وقد أخرجہ: مسند احمد (1/107، 149، 150) (ضعیف)» (اس کے راوی ابوالحسناء مجہول ہیں، نیز حنش کے بارے میں بھی اختلاف ہے)
ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس کے پاس قربانی کا جانور ہو اور وہ اسے عید کے روز ذبح کرنے کا ارادہ رکھتا ہو تو جب عید کا چاند نکل آئے تو اپنے بال اور ناخن نہ کترے ۱؎“۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الضَّحَايَا/حدیث: 2791]
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سینگ دار مینڈھا لانے کا حکم دیا جس کی آنکھ سیاہ ہو، سینہ، پیٹ اور پاؤں بھی سیاہ ہوں، پھر اس کی قربانی کی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”عائشہ چھری لاؤ“، پھر فرمایا: ”اسے پتھر پر تیز کرو“، تو میں نے چھری تیز کی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے ہاتھ میں لیا اور مینڈھے کو پکڑ کر لٹایا اور ذبح کرنے کا ارادہ کیا اور کہا: «بسم الله اللهم تقبل من محمد وآل محمد ومن أمة محمد»”اللہ کے نام سے ذبح کرتا ہوں، اے اللہ! محمد، آل محمد اور امت محمد کی جانب سے اسے قبول فرما“ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی قربانی کی۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الضَّحَايَا/حدیث: 2792]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «صحیح مسلم/الأضاحي 3 (1967)، (تحفة الأشراف: 17363)، وقد أخرجہ: مسند احمد (6/78) (حسن)»
انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھ سے سات اونٹ کھڑے کر کے نحر کئے اور مدینہ میں دو سینگ دار مینڈھوں کی قربانی کی جن کا رنگ سیاہ اور سفید تھا (یعنی ابلق تھے سفید کھال کے اندر سیاہ دھاریاں تھیں)۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الضَّحَايَا/حدیث: 2793]
انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سینگ دار ابلق دنبوں کی قربانی کی، اپنا دایاں پاؤں ان کی گردن پر رکھ کر «بسم الله، الله أكبر» کہہ کر انہیں ذبح کر رہے تھے۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الضَّحَايَا/حدیث: 2794]
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے قربانی کے دن سینگ دار ابلق خصی کئے ہوئے دو دنبے ذبح کئے، جب انہیں قبلہ رخ کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دعا پڑھی: «إني وجهت وجهي للذي فطر السموات والأرض على ملة إبراهيم حنيفا وما أنا من المشركين، إن صلاتي ونسكي ومحياي ومماتي لله رب العالمين لا شريك له، وبذلك أمرت وأنا من المسلمين، اللهم منك ولك وعن محمد وأمته باسم الله والله أكبر»”میں اپنا رخ اس ذات کی طرف کرتا ہوں جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا، میں ابراہیم کے دین پر ہوں، کامل موحد ہوں، مشرکوں میں سے نہیں ہوں بیشک میری نماز میری تمام عبادتیں، میرا جینا اور میرا مرنا خالص اس اللہ کے لیے ہے جو سارے جہان کا رب ہے، کوئی اس کا شریک نہیں، مجھے اسی کا حکم دیا گیا ہے، اور میں مسلمانوں میں سے ہوں، اے اللہ! یہ قربانی تیری ہی عطا ہے، اور خاص تیری رضا کے لیے ہے، محمد اور اس کی امت کی طرف سے اسے قبول کر، (بسم اللہ واللہ اکبر) اللہ کے نام کے ساتھ، اور اللہ بہت بڑا ہے“ پھر ذبح کیا۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الضَّحَايَا/حدیث: 2795]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «سنن ابن ماجہ/الأضاحي 1 (3121)، (تحفة الأشراف: 3166)، وقد أخرجہ: سنن الترمذی/الأضاحي 22 (1521)، مسند احمد (3/356، 362، 375)، سنن الدارمی/الأضاحي 1 (1989) (حسن)» (اس کے راوی ابوعیاش مصری مجہول، لین الحدیث ہیں، لیکن تابعی ہیں، اور تین ثقہ راویوں نے ان سے روایت کی ہے، نیز حدیث کی تصحیح ابن خزیمہ، حاکم، اور ذھبی نے کی ہے، البانی نے پہلے اسے ضعیف ابی داود میں رکھا تھا، پھر تحسین کے بعد اسے صحیح ابی داود میں داخل کیا) (8؍ 142)
ابوسعید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سینگ دار فربہ دنبہ کی قربانی کرتے تھے جو دیکھتا تھا سیاہی میں اور کھاتا تھا سیاہی میں اور چلتا تھا سیاہی میں (یعنی آنکھ کے اردگرد)، نیز منہ اور پاؤں سب سیاہ تھے۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الضَّحَايَا/حدیث: 2796]
جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”صرف مسنہ ۱؎ ہی ذبح کرو، مسنہ نہ پاؤ تو بھیڑ کا جذعہ ذبح کرو“۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الضَّحَايَا/حدیث: 2797]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «صحیح مسلم/الأضاحي 2 (1962)، سنن النسائی/الضحایا 12 (4383)، سنن ابن ماجہ/الأضاحي 7 (3141)، (تحفة الأشراف: 2715)، وقد أخرجہ: مسند احمد (3/312، 327) (صحیح)» (اس حدیث پر مزید بحث کے لئے ملاحظہ ہو: ضعیف أبي داود 2/374، والضعیفہ 65، والإرواء 1145، وفتح الباري 10/15)