ابوبکرہ رضی اللہ عنہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں آپ نے فرمایا: ”عید کے دونوں مہینے رمضان اور ذی الحجہ کم نہیں ہوتے ۱؎“۔ [سنن ابي داود/كتاب الصيام /حدیث: 2323]
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حدیث بیان کی، اس میں ہے: ”تمہاری عید الفطر اس دن ہے جس دن تم افطار کرتے ہو ۱؎ اور عید الاضحی اس دن ہے جس دن تم قربانی کرتے ہو، پورا کا پورا میدان عرفہ ٹھہرنے کی جگہ ہے اور سارا میدان منیٰ قربانی کرنے کی جگہ ہے نیز مکہ کی ساری گلیاں قربان گاہ ہیں، اور سارا مزدلفہ وقوف (ٹھہرنے) کی جگہ ہے“۔ [سنن ابي داود/كتاب الصيام /حدیث: 2324]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 14605)، وقد أخرجہ: سنن الترمذی/الصوم 11 (697)، سنن ابن ماجہ/الصیام 9 (1660) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
6. باب إِذَا أُغْمِيَ الشَّهْرُ
6. باب: جب (بادل کی وجہ سے) مہینہ مشتبہ ہو جائے تو کیا کیا جائے؟
عبداللہ بن ابی قیس کہتے ہیں کہ میں نے ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کو کہتے سنا کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ماہ شعبان کی تاریخوں کا جتنا خیال رکھتے کسی اور مہینے کی تاریخوں کا اتنا خیال نہ فرماتے، پھر رمضان کا چاند دیکھ کر روزے رکھتے، اگر وہ آپ پر مشتبہ ہو جاتا تو تیس دن پورے کرتے، پھر روزے رکھتے۔ [سنن ابي داود/كتاب الصيام /حدیث: 2325]
حذیفہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”چاند دیکھے بغیر یا مہینے کی گنتی پوری کئے بغیر پہلے ہی روزے رکھنا شروع نہ کر دو، بلکہ چاند دیکھ کر یا گنتی پوری کر کے روزے رکھو“۔ [سنن ابي داود/كتاب الصيام /حدیث: 2326]
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”رمضان سے ایک یا دو دن پہلے ہی روزے رکھنے شروع نہ کر دو، ہاں اگر کسی کا کوئی معمول ہو تو رکھ سکتا ہے، اور بغیر چاند دیکھے روزے نہ رکھو، پھر روزے رکھتے جاؤ، (جب تک کہ شوال کا) چاند نہ دیکھ لو، اگر اس کے درمیان بدلی حائل ہو جائے تو تیس کی گنتی پوری کرو اس کے بعد ہی روزے رکھنا چھوڑو، اور مہینہ انتیس دن کا بھی ہوتا ہے“۔ ابوداؤد کہتے ہیں: حاتم بن ابی صغیرہ، شعبہ اور حسن بن صالح نے سماک سے پہلی حدیث کے مفہوم کے ہم معنی روایت کیا ہے لیکن ان لوگوں نے «فأتموا العدة ثلاثين» کے بعد «ثم أفطروا» نہیں کہا ہے۔ [سنن ابي داود/كتاب الصيام /حدیث: 2327]
عمران بن حصین رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص سے پوچھا: ”کیا تم نے شعبان کے کچھ روزے رکھے ہیں ۱؎؟“، جواب دیا: نہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب (رمضان کے) روزے رکھ چکو تو ایک روزہ اور رکھ لیا کرو“، ان دونوں میں کسی ایک راوی کی روایت میں ہے: ”دو روزے رکھ لیا کرو“۔ [سنن ابي داود/كتاب الصيام /حدیث: 2328]
ابوازہر مغیرہ بن فروہ کہتے ہیں کہ معاویہ رضی اللہ عنہ نے دیر مسحل پر (جو کہ حمص کے دروازے پر واقع ہے)، کھڑے ہو کر لوگوں سے کہا: لوگو! ہم نے چاند فلاں فلاں دن دیکھ لیا ہے اور میں سب سے پہلے روزہ رکھ رہا ہوں، جو شخص روزہ رکھنا چاہے رکھ لے، مالک بن ہبیرہ سبئی نے کھڑے ہو کر ان سے کہا: معاویہ! یہ بات آپ نے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے سن کر کہی ہے، یا آپ کی اپنی رائے ہے؟ جواب دیا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے: ”رمضان کے مہینے کے روزے رکھو اور آخر شعبان کے“۔ [سنن ابي داود/كتاب الصيام /حدیث: 2329]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 11444) (ضعيف)» (اس کے راوی مغیرہ بن فروہ لین الحدیث ہیں)
سلیمان بن عبدالرحمٰن نے اس حدیث کے سلسلہ میں بیان کیا ہے کہ ولید کہتے ہیں: میں نے ابوعمرو یعنی اوزاعی کو کہتے سنا ہے کہ «سرہ» کے معنی اوائل ماہ کے ہیں۔ [سنن ابي داود/كتاب الصيام /حدیث: 2330]
ابومسہر کہتے ہیں سعید یعنی ابن عبدالعزیز کہتے ہیں «سره» کے معنی «أوله» کے ہیں۔ ابوداؤد کہتے ہیں: «سره» کے معنی کچھ لوگ «وسطه» کے بتاتے ہیں اور کچھ لوگ «آخره» کے۔ [سنن ابي داود/كتاب الصيام /حدیث: 2331]
کریب کہتے ہیں کہ ام الفضل بنت حارث نے انہیں معاویہ رضی اللہ عنہ کے پاس شام بھیجا، میں نے (وہاں پہنچ کر) ان کی ضرورت پوری کی، میں ابھی شام ہی میں تھا کہ رمضان کا چاند نکل آیا، ہم نے جمعہ کی رات میں چاند دیکھا، پھر مہینے کے آخر میں مدینہ آ گیا تو ابن عباس رضی اللہ عنہما نے مجھ سے چاند کے متعلق پوچھا کہ تم نے چاند کب دیکھا؟ میں نے جواب دیا کہ جمعہ کی رات میں، فرمایا: تم نے خود دیکھا ہے؟ میں نے کہا: ہاں، اور لوگوں نے بھی دیکھا ہے، اور روزہ رکھا ہے، معاویہ نے بھی روزہ رکھا، ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا: لیکن ہم نے سنیچر کی رات میں چاند دیکھا ہے لہٰذا ہم چاند نظر آنے تک روزہ رکھتے رہیں گے، یا تیس روزے پورے کریں گے، تو میں نے کہا کہ کیا معاویہ کی رؤیت اور ان کا روزہ کافی نہیں ہے؟ کہنے لگے: نہیں، اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں حکم دیا ہے۔ [سنن ابي داود/كتاب الصيام /حدیث: 2332]