ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حدیث بیان کی، اس میں ہے: ”تمہاری عید الفطر اس دن ہے جس دن تم افطار کرتے ہو ۱؎ اور عید الاضحی اس دن ہے جس دن تم قربانی کرتے ہو، پورا کا پورا میدان عرفہ ٹھہرنے کی جگہ ہے اور سارا میدان منیٰ قربانی کرنے کی جگہ ہے نیز مکہ کی ساری گلیاں قربان گاہ ہیں، اور سارا مزدلفہ وقوف (ٹھہرنے) کی جگہ ہے“۔ [سنن ابي داود/كتاب الصيام /حدیث: 2324]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 14605)، وقد أخرجہ: سنن الترمذی/الصوم 11 (697)، سنن ابن ماجہ/الصیام 9 (1660) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: اسی جملے کی باب سے مطابقت ہے، مطلب یہ ہے کہ: جب سارے کے سارے لوگ تلاش و جستجو اور اجتہاد کے بعد کسی دن چاند کا فیصلہ کر لیں اور اسی حساب سے روزہ اور افطار اور قربانی کر لیں اور بعد میں چاند دوسرے دن کا ثابت ہوجائے تو یہ اجتماعی غلطی معاف ہے۔
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2324
فوائد ومسائل: اجتہادی امور میں خطا معاف ہے۔ عید یا حج کے موقع پر چاند نظر نہ آیا ہو اور لوگ مہینے کے تیس دن پورے کر لیں اور بعد میں پتہ چلے کہ چاند تو انتیس کا تھا تو ان پر روزے اور وقوف عرفات و قربانی کا کوئی عیب نہیں۔ ایسے ہی اگر کئی فساق اکٹھے ہو کر انتیس ہی کو چاند ہونے کا مشہود کر دیں اور مسلمان ان کے بھرے میں آ کر افطار کر لیں یا وقوف عرفات و قربانی ہو جائے تو اس میں عامة المسلمین پر کوئی عیب نہیں۔ ہمارے علم میں یہ بات آئی ہے کہ بعض بے دینوں نے توبہ کرنے کے بعد اظہار کیا کہ ہم چند لوگ مل کر چاند ہونے کا دعویٰ کر دیتے تھے، شہادتیں اور قسمیں بھی کھا لیتے تھے اور عید کروا دیتے تھے۔ العیاذباللہ۔ ایسی صورت میں ازالہ نا ممکن ہو تو خطا معاف ہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2324
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 263
´عید الفطر اور عیدالاضحیٰ کے دن روزہ رکھنا حرام ہے` «. . . ان رسول الله صلى الله عليه وسلم نهى عن صيام يومين: يوم الفطر ويوم الاضحى . . .» ”. . . رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو دنوں عیدالفطر اور عیدالاضحی کے روزے رکھنے سے منع فرمایا ہے . . .“[موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 263]
تخریج الحدیث: [وأخرجه مسلم 1138، من حديث ما لك به]
تفقه: ➊عیدالفطر اور عیدالاضحیٰ کے دن جان بوجھ کر (اگر یقینی طور پر چاند دیکھا گیا ہو تو) روزہ رکھنا حرام ہے۔ ➋ اگر کوئی خاص عید کے دن روزہ رکھنے کی نذر مان لے تو یہ نذر باطل ہے۔ ➌ بعض علماء اس حدیث سے استنباط کرتے ہیں کہ ہمیشہ ہر روز روزہ رکھنا جائز ہے بشرطیکہ ایام ممنوعہ میں روزہ نہ رکھا جائے۔ دیکھئے: [الموطأ روايتہ یحیی 300/1] ➍ بہتر یہی ہے کہ ہر روز، روزہ رکھنے سے اجتناب کیا جائے اور زیادہ سے زیادہ داود علیہ السلام والا روزہ رکھا جائے۔ یعنی ایک دن روزہ اور ایک دن افطار کیا جائے، یہی افضل ترین ہے۔ ➎ جن روایات میں ہمیشہ روزہ رکھنے سے ممانعت آئی ہے وہ ایام ممنوعہ کو چھوڑ کر باقی دنوں میں کراہت تنزیہی پر محمول ہیں۔ ➏ نیز دیکھئے: [الموطأ ح73، البخاري 1990، ومسلم 1137]
موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 98